معروف چائلڈ اسٹار فلیٹ میں آگ لگنے سے بھائی سمیت ہلاک
اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT
بھارتی ریاست راجستھان کے شہر کوٹا میں ایک المناک حادثے میں معروف چائلڈ اداکار دس سالہ ویر شرما اور ان کے پندرہ سالہ بھائی شوریا شرما کی موت نے فنی حلقوں میں غمگین کردیا ہے۔ دونوں بھائی اپنے فلیٹ میں آگ لگنے کے نتیجے میں دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے۔
یہ دل دہلا دینے والا واقعہ انتن پورہ علاقے کی ڈیپ شری بلڈنگ کی چوتھی منزل پر پیش آیا، جہاں دونوں بھائی اپنے کمرے میں آرام کر رہے تھے۔ ابتدائی اطلاعات کے مطابق ڈرائنگ روم میں شارٹ سرکٹ کے باعث آگ بھڑک اٹھی، جو اگرچہ زیادہ نہیں پھیل سکی، لیکن اس سے پیدا ہونے والے دھوئیں نے پورے فلیٹ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔
ویر شرما نے مقبول ٹی وی شو میں کم عمر لکشمن کے کردار سے شہرت حاصل کی تھی اور وہ ایک آنے والی فلم میں سیف علی خان کے بچپن کے کردار کےلیے منتخب ہوئے تھے۔ ان کی اچانک موت نے نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پورے فنی حلقوں کو سوگ میں ڈال دیا ہے۔
حادثے کے بعد ویر شرما کے والد نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ اس وقت وہ قریب ہی کسی کام سے گئے ہوئے تھے جب کسی نے انہیں اطلاع دی کہ ان کے فلیٹ سے دھواں نکل رہا ہے۔ وہ فوری طور پر دوڑتے ہوئے گھر پہنچے اور دروازہ توڑ کر اندر داخل ہوئے تو پورا فلیٹ دھوئیں سے بھرا ہوا تھا۔
انہوں نے اپنے جذبات پر قابو پاتے ہوئے بتایا کہ وہ فوری طور پر بچوں کو اسپتال لے گئے، لیکن بدقسمتی سے دونوں بھائیوں کا دم گھٹنے سے انتقال ہو چکا تھا۔ ان کے الفاظ میں ایک باپ کی پوری بے بسی اور دکھ صاف محسوس کیا جا سکتا تھا جب انہوں نے کہا کہ انہیں لگا تھا کہ وہ اپنے بچوں کو بچا لیں گے، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
اس سانحہ نے ایک بار پھر رہائشی عمارتوں میں حفاظتی انتظامات کی کمی کو اجاگر کر دیا ہے۔ ویر شرما جیسے ہونہار بچے آرٹسٹ کی اچانک موت نے نہ صرف ان کے خاندان بلکہ پوری فنی دنیا کو گہرے دکھ میں ڈال دیا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ویر شرما
پڑھیں:
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں پرتشدد مظاہرے، متعدد افراد ہلاک، دو سو سے زائد زخمی
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 02 اکتوبر 2025ء) بعض میڈیا رپورٹوں کے مطابق بدھ کو پرتشدد مظاہرں میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد بڑھ کر بارہ ہو گئی ہے۔ تاہم سرکاری حکام نے تین پولیس اہلکاروں سمیت کم از کم نو افراد کی ہلاکت کی تصدیق کی ہے۔ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے بتایا کہ جھڑپوں میں 172 پولیس اہلکار اور 50 شہری زخمی بھی ہوئے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس (اے پی) کے مطابق، پرتشدد واقعات اس وقت شروع ہوئے جب مسلح مظاہرین، جو بندوقوں اور ڈنڈوں سے لیس تھے، ان افسران پر حملہ آور ہو گئے جو سڑکوں کی بندش اور املاک کو نقصان سے روکنے کے لیے تعینات کیے گئے تھے۔
مقامی پولیس افسر محمد افضل نے تصدیق کی کہ تین پولیس اہلکار اور چھ شہری ہلاک ہوئے، جبکہ آٹھ پولیس اہلکار تشویشناک حالت میں ہیں جنہیں ڈنڈوں اور پتھروں سے سر پر شدید چوٹیں آئیں۔
(جاری ہے)
سوشل میڈیا پر گردش کرنے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ مظاہرین پولیس اہلکاروں کو مکے مار رہے ہیں، ڈنڈوں سے پیٹ رہے ہیں اور ان پر پتھراؤ کر رہے ہیں۔ کچھ مظاہرین کو پولیس کی وردیاں پھاڑتے ہوئے بھی دیکھا گیا۔ پولیس حکام کا کہنا ہے کہ ان کی فورسز نے فائرنگ نہیں کی تاکہ مزید جانی نقصان سے بچا جا سکے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی کی اپیل پر ہڑتال کے باعث کاروباری اور دیگر سرگرمیاں معطل رہیں اور مواصلاتی نظام بھی بند رہا، جبکہ دھیر کوٹ اور دیگر علاقوں میں تشدد کے واقعات رونما ہوئے۔
مظاہرے کیوں ہو رہے ہیں؟جموں کشمیر عوامی ایکشن کمیٹی(جے اے اے سی ) نے اپنے مطالبات میں حکمران طبقات کی مراعات اور مہاجرین مقیم پاکستان کی 12 اسمبلی نشستوں کا خاتمہ، علاج معالجہ کی مفت سہولیات، یکساں و مفت تعلیم کی فراہمی، انٹرنیشنل ائیر پورٹ کا قیام شامل کیا ہے۔
اس کے علاوہ کوٹہ سسٹم کا خاتمہ، عدالتی نظام میں اصلاحات بھی مطالبات کا حصہ ہیں۔
حکومت پاکستان اور پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کی حکومت نے مذاکرات کے دوران کئی مطالبات تسلیم کر لیے تھے مگر کچھ مطالبات پورے نہ ہونے کی وجہ سے مذاکرات ناکام ہوگئے۔
پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے وزیراعظم چوہدری انورالحق نے کہا کہ ان کی حکومت نے مظاہرین کے 90 فیصد مطالبات مان لیے ہیں، جن میں بجلی کے نرخوں میں کمی، مقامی حکومت میں اصلاحات اور مظاہرین پر درج مقدمات کا خاتمہ شامل ہے۔
تاہم انہوں نے واضح کیا کہ دو مطالبات یعنی وزیروں کی تعداد کم کرنا اور کشمیری پناہ گزینوں کے لیے مخصوص نشستوں کا خاتمہ، صرف قانون سازی کے ذریعے پورے ہو سکتے ہیں۔ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کی اپیلچوہدری انورالحق نے اسلام آباد میں ایک نیوز کانفرنس میں جانی نقصان کی تصدیق کی۔
انہوں نے کہا کہ وہ مذاکرات دوبارہ شروع کرنے کے لیے تیار ہیں اور ان کی کابینہ کے ارکان مظاہرین سے بات چیت کے لیے مظفرآباد اور راولاکوٹ میں موجود ہیں۔
تاہم انہوں نے انتباہ کیا کہ عوام کو اکسا کر بدامنی پھیلانے سے خطہ مزید انتشار اور انارکی کا شکار ہو گا۔ان کا کہنا تھا کہ جے اے اے سی نے ابتدا میں پرامن احتجاج کا اعلان کیا تھا، مگر صورتحال اب ''خطرناک موڑ‘‘ اختیار کر چکی ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عوامی حقوق حاصل کرنے کا ’’مہذب اور پرامن‘‘ راستہ صرف مذاکرات ہیں، اور خبردار کیا کہ تشدد بحران کو مزید گہرا کرے گا۔
خیال رہے تازہ جھڑپیں دو دن بعد ہوئیں جب اتحاد کے ارکان نے مظفرآباد میں ایک امن ریلی پر حملہ کیا، جس میں ایک شخص ہلاک اور دو درجن سے زائد زخمی ہو گئے۔ گزشتہ سال بھی ایسے ہی پرتشدد واقعات کے دوران چار افراد ہلاک ہوئے تھے، جس کے بعد حکومت نے مظاہرین سے معاہدہ کرکے سبسڈی دینے پر اتفاق کیا تھا۔
ادارت: صلاح الدین زین