Express News:
2025-10-04@17:01:31 GMT

سیرتِ نبویؐ اور صحت: ایک نظر انداز پہلو

اشاعت کی تاریخ: 30th, September 2025 GMT

ہم جب حضورؐ کی سیرتِ طیبہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو عام طور پر کئی موضوعات پر گفتگو کرتے ہیں، جیسے کہ آپؐ کے معاملات، عبادات کے طریقے، تعلقات کی نوعیت، جہاد کی حقیقت، اور حتیٰ کہ کھانے پینے کے آداب وغیرہ۔ ان موضوعات پر ہمارے علمائے کرام اور خطباء تفصیل سے روشنی ڈالتے ہیں۔ لیکن ایک نہایت اہم پہلو جسے مجموعی طور پر ہم سب نظر انداز کر دیتے ہیں، وہ ہے  ’صحت‘۔

صحت ایک ایسی نعمت ہے جس کے پاس ہے، اسے ہر لمحہ قیمتی اور خوشیوں بھرا محسوس کرتا ہے اور جو اس سے محروم ہے، وہ اس کی قدر ہر دن نئے انداز میں محسوس کرتا ہے۔ دنیا میں روزانہ سائنس اور تحقیق کے ذریعے صحت کے نئے پہلو سامنے آ رہے ہیں، جیسے کہ غذائیت کے جدید اصول، ورزش اور نیند کی اہمیت، ذہنی سکون اور تناؤ کا اثر، اور بیماریوں سے بچاؤ کے جدید طریقے۔

آج کے دور میں، جہاں طرزِ زندگی تیز اور مصروف ہے، صحت کو برقرار رکھنا صرف فطری ضرورت نہیں بلکہ زندگی کی کامیابی، خوشحالی اور طویل عمری کی بنیاد بھی ہے۔ قرآن و سنت میں بار بار آیا ہے۔ عالمی ادارہ صحت یعنی WHO کے مطابق مفہوم صحت صرف بیماری یا کمزوری نہ ہونا نہیں، بلکہ جسمانی، ذہنی اور سماجی فلاح کی مکمل حالت ہے، اسی طرح WHO کے مطابق، متوازن خوراک، جسمانی سرگرمی، مناسب نیند، اور ذہنی سکون شامل ہیں۔

صحت سے متعلق  آج سے چودہ صدی قبل  نبی کریمؐ نے فرمایا:’’نِعْمَتَانِ مَغْبُونٌ فِيهِمَا كَثِيرٌ مِنَ النَّاسِ: الصِّحَّةُ وَالْفَرَاغُ‘‘) صحیح بخاری :حدیث نمبر 6412)۔ 
ترجمہ: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ گھاٹے میں رہتے ہیں: صحت اور فارغ وقت۔

معاملہ یہ ہے کہ بدقسمتی سے ہم نے دونوں کو ہی گھاٹے میں ڈال دیا ہے۔ ایک وقت کی اہمیت کیا ہے، اس کو تو ہم نے اہمیت دی ہی  نہیں۔ دوسرا، صحت جسے ہم نے اتنا غیر ضروری بنا دیا ہے کہ  اب صحت ایک ثانوی یا غیر ضروری چیز ہوگئی ہے، حالانکہ حضورؐ نے اپنی پوری زندگی میں صحت کو برقرار رکھنے، بیماریوں سے بچاؤ، صفائی ستھرائی، اور جسمانی تندرستی کے اصولوں کو واضح طور پر بیان فرمایا۔ جس کی زندہ مثال یہ ہے کہ  نبیؐ کی بیماری سے متعلق ایسی کوئی روایت  نہیں ملتی۔ بلکہ یہ ضرور ملتا ہے کہ آپ نے کھانے پینے کی ایک مکمل روٹین بنائی ہوئی تھی جو ہمارے لیے  باعث ِ ہدایت ہے۔

آپؐ کے ظاہری حلیے کے حوالے سے ایک  ام ِ معبد کا بیان سب کے لیے مثالی ہونا چاہیے تھا۔ خلاصہ یہ ہے کہ  ہجرت کے موقع پر جب نبی کریمؐ اُم معبد کے خیمے سے گزرے تو انہوں نے آپؐ کی ظاہری شخصیت کو دیکھا اور جو منظر دیکھا، اس کا بیان کچھ یوں کیا:
ام معبد کے اس تفصیلی بیان سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ کی صحت اور جسمانی تندرستی مثالی تھی۔

•    آپؐ کا چہرہ روشن اور صاف تھا۔
•    جسم کے اعضاء متناسب اور خوبصورت تھے۔
•    آواز مضبوط اور پراثر تھی۔
•    قد درمیانہ اور متوازن تھا۔
•    بال اور داڑھی گھنی اور صحت مند تھے۔
•    چہرے پر وقار اور گفتگو میں مٹھاس تھی۔

( مکمل واقعے کےلیے ملاحظہ ہو، ضیاء النبی، پیر محمد کرم شاہ الازہری، جلد 2، صفحہ نمبر173 تا 176، ضیاء القرآن پبلی کیشنز، گنج بخش روڈ لاہور، س ن)

یہ سارا بیان اس حقیقت کو واضح کرتا ہے کہ نبی کریمؐ کی صحت مثالی تھی اور یہ محض فطری طور پر نہیں بلکہ آپؐ کی سنجیدہ اور متوازن طرزِ زندگی کا نتیجہ تھا۔


ہمارے خطبا اور مذہبی رہنما کئی اہم موضوعات پر خطبات دیتے ہیں، لیکن صحت کے موضوع کو شاذونادر ہی بیان کیا جاتا ہے۔ جب کہ دوسری طرف  قرآن و حدیث میں صحت کو بہتر بنانے اور بیماریوں سے بچنے کے بے شمار اصول موجود ہیں۔ لیکن، ہمارا معاملہ بالکل الگ ہوگیا ہے۔ اب ہم عبادات کے طریقوں کی تفصیل بیان کرتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ عبادت کو بہتر طریقے سے ادا کرنے کےلیے صحت مند ہونا ضروری ہے۔ اسی طرح ہم کھانے پینے  کی حلت و حرمت کے حوالے سے مسائل  تو بیان کرتے ہیں مگر یہ نہیں سمجھاتے کہ نبیؐ نے اعتدال اور سادگی کو صحت کا بنیادی اصول قرار دیا۔

قرآنِ مجید میں کھانے پینے کے حوالے سے ایک بنیادی اصول  بتایا ہے وہ ہے ’اعتدال‘۔ ارشاد باریِ تعالیٰ ہے: ’’وَكُلُوا وَاشْرَبُوا وَلَا تُسْرِفُوا إِنَّهُ لَا يُحِبُّ الْمُسْرِفِينَ‘‘(الاعراف: 31)

ترجمہ: کھاؤ اور پیو، مگر حد سے تجاوز نہ کرو، بے شک اللہ فضول خرچی کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔

یہ آیت ہمیں اعتدال اور متوازن غذا کی طرف رہنمائی کرتی ہے، جو صحت مند زندگی کا بنیادی اصول ہے۔ جیسا کہ مشہور روایت ہے کہ مَا مَلَأَ آدَمِيٌّ وِعَاءً شَرًّا مِن بَطْنِهِ، بِحَسْبِ ابْنِ آدَمَ أُكُلَاتٌ يُقِمْنَ صُلْبَهُ، فَإِنْ كَانَ لَا مَهْلِكَةَ فَكَفَافٌ (سنن الترمذی، کتاب الطعام، حدیث نمبر 2380) 

کسی آدمی نے کوئی برتن اپنے پیٹ سے زیادہ برا نہیں بھرا، آدمی کے لیے چند لقمے ہی کافی ہیں جو اس کی پیٹھ کو سیدھا رکھیں اور اگر زیادہ ہی کھانا ضروری ہو تو پیٹ کا ایک تہائی حصہ اپنے کھانے کے لیے، ایک تہائی پانی پینے کے لیے اور ایک تہائی سانس لینے کے لیے باقی رکھے۔

آپ دیکھیے کہ روایت میں رسول اللہؐ نے کھانےپینے کے معاملے میں کتنا آسان نسخہ بیان فرمایا ہے۔  ایک اور روایت میں آتا ہے کہ المؤمنُ القويُّ خيرٌ وأحبُّ إلى اللهِ من المؤمنِ الضعيفِ (صحیح مسلم، کتاب الإيمان، حدیث نمبر 2664)

طاقتور مومن کمزور مومن سے بہتر اور اللہ کے نزدیک محبوب ہے۔

اس صورتِ حال میں معاملہ یہ ہے کہ صحت کے معاملے میں انتہائی لاپرواہ ثابت ہورہے ہیں۔ ہماری جسمانی ساخت  ایسی ہورہی ہے کہ لوگ دیکھ کر شرما جائیں۔ ہمارے کھانے ایسے بن رہے ہیں کہ ہمارے اپنے خود کے سر شرم سے جھک جائیں۔ یہاں تک کہ صاف پانی کے معاملے میں بھی اب انتہائی غیر محتاط ہوچکے ہیں۔ احتیاط نہ برتنے کی صور ت میں جسمانی طور پر مختلف بیماریوں، جیسے دل کی بیماریاں، ذیابیطس، موٹاپا، ہڈیوں کی کمزوری اور قوتِ مدافعت کی کمزوری کا باعث بنتی ہے۔ روزمرہ کام کرنے کی توانائی کم ہوجاتی ہے، انسان جلد تھک جاتا ہے اور جسمانی سرگرمی محدود ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جسمانی صحت خراب ہونے کی وجہ سے  ذہنی دباؤ اور اضطراب بڑھ جاتا ہے۔ یادداشت اور توجہ میں کمی، بیماری، نیند کی کمی، یا غیر متوازن غذائیت ذہنی کارکردگی کو متأثر کرتی ہے، توجہ مرکوز کرنے اور فیصلہ کرنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔

عبادات کےلیے صحت مند جسم ضروری ہے۔ اس کےلیے صحت کا خیال رکھنا ضروری ہے۔ اسی طرح معاملات اور سماجی تعلقات کے لیے بھی صحت سب سے اہم ہے۔ ہماری شخصیت کا اہم ترین پہلو ہی ہماری صحت ہے، اور اگر وہ اچھی نہ ہو تو فائدہ نہیں۔ اس لیے ہمارے واعظین جہاں دین کے معاملات پر لوگوں کو دعوت و نصیحت کرتے ہیں، وہیں صحت کے حوالے سے بھی رسول اللہ کے ارشادات واضح کریں تاکہ لوگ صحت مند زندگی کی طرف راغب ہوں، اور خود بھی اس کا مصداق بنیں تاکہ دوسروں کو تحریک مل سکے۔

جسمانی سرگرمی اور ورزش بھی ضروری ہیں۔ روزانہ کم از کم 30 سے 40 منٹ پیدل چلنا یا ہلکی ورزش کرنا چاہیے۔ رسول اللہؐ کی سنت کے مطابق جسمانی فعالیت کو معمول بنائیں، جیسے چلنا پھرنا یا ہلکی دوڑ۔ اگر قریب کوئی جم موجود ہو، تو وہاں شمولیت اختیار کی جا سکتی ہے، لیکن اگر کوئی بیماری یا دوسرا مسئلہ ہو، تو پہلے ڈاکٹر سے رجوع کرنا لازمی ہے۔ نبی کریمؐ کی سیرت ہمیں یہ سبق دیتی ہے کہ صحت محض جسمانی آسائش کا نام نہیں بلکہ یہ ایک دینی فریضہ بھی ہے۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 800 سے 1,200 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: کے حوالے سے کھانے پینے کرتے ہیں یہ ہے کہ پینے کے صحت کے کے لیے

پڑھیں:

لال اور عبداللہ جان

کوئی کچھ بھی کہے سوچے،سمجھے یا بولے ہم تو اس کہاوت کے قائل ہیں کہ تلوار چلاؤ تو اپنوں کے لیے لیکن بات کرو تو خدا کے لیے۔جیسے قربانی خدا کے لیے اور کھال شوکت خانم کے لیے یا کماؤ تو اپنے لیے اور بولو تو بانی اور وژن کے لیے۔ چنانچہ سارے واقعات، واردات،بیانات اور’’بیرسٹروں‘‘ کی اطلاعات سے ہم اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ہمارے صوبے کے پی کے خیر پخیر کی حکومت کو اب چھٹی یا پولیس کی اصطلاح کے مطابق ’’شاباشی‘‘ دینی چاہیے۔کیونکہ پانچ سال کا کام اس نے دو سال میں پورا کرلیا ہے جو کچھ کرنا تھا وہ سب کچھ ہوچکا بلکہ جو نہیں کرتا تھا وہ بھی ہوچکا ہے۔

ادارے اور محکمے’’ٹریک‘‘ پر ڈال دیے گئے ہیں، تبادلوں اور تقرریوں کے ذریعے ہر شاخ پر مناسب  ’’پرندے‘‘ بٹھائے جا چکے ہیں، منتخب’’ جمہوری شہنشاہ‘‘ اپنی اپنی کٹ میں آنے والوں کو دسترخوان پر بٹھا چکے ہیں، مطلب یہ کہ’’بانی‘‘ کا’’وژن‘‘ وژولائز ہوچکا ہے، اس لیے شاباشی یا چھٹی تو اس کی بنتی ہے انصاف بلکہ تحریک انصاف کی، بات بھی یہی ہے کہ جو اپنا کام پورا کرے اسے چھٹی اور شاباشی دونوں ملنی چاہیے کیونکہ یہ تو مکتب سیاست ہے، کوئی’’مکتب عشق‘‘ نہیں کہ ’’ اسے چھٹی نہ ملی جس نے سبق یاد کیا‘‘ مکتب سیاست میں چھٹی ملنا ضروری ہے کیونکہ اس مکتب کے طالب علم ’’عبداللہ جان‘‘ ہوتے ہیں۔اب لال اور عبداللہ جان کا نام لے لیا ہے تو کہانی بھی سنانا پڑے گی۔

یہ اس زمانے کی بات ہے جب پاکستان ایک زرعی ملک ہوا کرتا تھا۔اب تو خدا کے فضل سے حکومتوں کی مہربانی سے،لیڈروں کی محنت سے اور ہر حکومت کی نئی نئی پالیسیوں اور تجربوں سے یہ ملک صنعتی بھی تجارتی بھی ہے۔جمہوری بھی ہے سیاسی بھی ہے خاندانی بھی ہے اور سائنسی مذہبی اور گینگسٹر بھی ہوگیا ہے لیکن اس زمانے میں یہ زرعی ہوا کرتا تھا اور حکومتیں ’’اگلے سال‘‘ گندم میں چاول میں چینی میں خود کفیل ہونے کی خوش خبریاں سنایا کرتی تھیں۔

اس وقت کے خصوصی اپنے خصوصی کی خصوصیات نشر کرتے جیسے کہ آج کل’’بانی‘‘ اور’’وژن‘‘ کی۔چنانچہ ہمارے علاقے میں ایک سیزن ایسا آتا تھا کہ کھیتوں میں کام بہت بڑھ جاتا تھا۔ان کھیتوں میں جہاں آج کل کالونیاں،ٹاؤن شپ اور سمنٹ اور سریے کے جنگل لہلہا رہے ہیں۔

چنانچہ اوپر کے پہاڑی علاقوں سے لوگ مزدوری کے لیے آجاتے تھے۔عام مزدور تو دیہاڑی پر کام کرتے تھے صبح سے دوپہر تک دیہاڑی ہوتی تھی لیکن’’لال‘‘ اور’’عبداللہ‘‘ دو بھائی دیہاڑی نہیں کرتے تھے بلکہ کام ٹھیکے پر لے لیتے تھے، مالک سے کوئی کام پانچ دہاڑی پر لیے لیتے تھے اور دو دن میں کام ختم کردیتے تھے، یوں وہ ایک ایک دن میں کبھی دو کبھی تین دہاڑیاں کما لیتے تھے، اگر سیزن دو مہینے پر رہتا تو وہ دو مہینے میں چار مہینے کی کمائی کرلیتے تھے، وجہ یہ تھی کہ وہ دونوں بڑے مضبوط، جفاکش اور ان تھک تھے، ہماری موجودہ صوبائی حکومت کی طرح۔ یوں ہم ان لال اورعبداللہ جان کو آج کے ’’بانی‘‘ اور’’وژن‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں اور ہماری یہ جو صوبائی حکومت ہے اس نے بھی’’بانی‘‘ اور’’وژن‘‘ کی برکت سے پانچ سال کا کام دوسال میں ختم کر ڈالا ہے۔ اور یہ ہم نہیں کہہ رہے ہیں ہم تو آج کل

ہم وہاں ہیں جہاں سے ہم کو بھی

خود ہماری خبر نہیں آتی

لیکن ’’بیان نامے‘‘ یوں آتے ہیں جن کو اگلے زمانوں میں ’’اخبار‘‘ کہا کرتے ہیں اور ان بیان ناموں میں سب سے مستقل سب سے موثق اور سب سے معتبر و مستند بیان معاون خصوصی کے بیان ہوتے ہیں۔ان موثق،معتبر اور بالکل سچے مچے بیانات سے ہی پتہ چلا ہے کہ بانی اور وژن یا لال و عبداللہ نے پانچ دیہاڑیوں کا کام دو دیہاڑیوں میں ختم کرڈالاہے، سارا صوبہ سب کچھ میں خودکفیل ہوچکا ہے۔کوئی بیمار نہیں رہا ہے کوئی بیروزگار نہیں رہا ہے اور کوئی ناانصافی کا شکار نہیں رہا ہے۔

سوائے ایک کام کے کہ چین سے چین کی بانسریاں بس پہنچنے والی ہیں جو عوام میں تقسیم کرکے بجوائی جائیں گی۔لیکن اور ایک ضمنی سوال یہ پیدا ہوا کہ موجودہ ’’کام تمام‘‘ حکومت جائے گی کہاں یعنی۔ ’’کس کے گھر جائے گا سیلاب بلا میرے بعد‘‘۔کیونکہ سب کام کرنے،کام دکھانے اور کام تمام کرنے والے لوگ ہیں، بیکار بھی تو نہیں بیٹھ سکتے۔’’یک گونہ بے خودی مجھے دن رات چاہیے‘‘۔اور پھر’’بانی‘‘ اور وژن کی برکت سے لال اور عبداللہ جان بھی ہیں۔تواس کا ایک حل بھی ہمارے پاس موجود ہے اسی موثق، معتبر اور سچے مچے ذریعے سے پتہ چلا ہے کہ پڑوسی صوبہ نہایت ہی بُرے حال میں ہے کیونکہ جدی پشتی حکمرانوں نے صوبے کو اتنا برباد کر ڈالا ہے کہ صوبے کے سارے لوگ نقل مکانی کرکے کسی سیارے پر چلے گئے ہیں۔ اور اگر یہ ہمارے چھٹی اور شاباشی کا مستحق لال اور عبداللہ جان کو وہاں بھیجا جائے اور یہ بانی اور وژن کا نام لے کر کام شروع کردیں تو آنے والے دو سالوں میں پچھلے پانچ سالوں کا کام ممکن ہوسکتا ہے اور صوبہ بچ سکتا ہے ورنہ ممکن ہے پنجاب پاکستان کا سب سے پسماندہ ترین صوبہ بن جائے۔

متعلقہ مضامین

  • پی ٹی آئی کارکن فلک جاوید کے جسمانی ریمانڈ میں 4 روز کی توسیع
  • فلک جاوید کے جسمانی ریمانڈ میں 4 دن کی توسیع
  • ریاست مخالف بیانات، فلک جاوید کے جسمانی ریمانڈ میں 4 دن کی توسیع
  • سوشل میڈیا ایکٹوسٹ فلک جاوید کے جسمانی ریمانڈ میں مزید 4 روز کی توسیع
  • ریاست مخالف ٹوئٹ، صوبائی وزیر کی نامناسب تصویر اپلوڈ کا کیس: فلک جاوید کے جسمانی ریمانڈ میں توسیع
  • بالاج قتل کیس کے مرکزی ملزم طیفی بٹ کی ڈرامائی انداز میں گرفتاری کی اندرونی کہانی سامنے آگئی
  • لال اور عبداللہ جان
  • جیکب آباد ،جماعت اسلامی خواتین کے تحت منعقدہ سیرت کانفرنس سے مقررہ خطاب کررہی ہیں
  • مقبوضہ کشمیر، سیرت النبی (ص) کانفرنس میں مختلف مکاتب فکر کے علماء کرام شریک
  • مسجد نبوی میں قرآن کی تعلیم دینے والے پاکستانی نژاد عالم شیخ بشیر احمد انتقال کرگئے