واشنگٹن: امریکا نے غزہ جنگ بندی کے لیے ایک نیا منصوبہ پیش کیا ہے جسے صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بیس نکات پر مشتمل قرار دیا ہے۔

اس منصوبے کو فلسطینی حلقوں سمیت دنیا بھر میں تحفظات کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے کیونکہ اس میں قابض اسرائیل کو مرکزی حیثیت دینے اور فلسطینی عوام کی خودمختاری کو نظر انداز کرنے کے نکات نمایاں ہیں۔

منصوبے کے مطابق حماس کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ 72 گھنٹوں کے اندر اسرائیلی یرغمالیوں کو رہا کرے جبکہ اسرائیل صرف چند علاقوں سے فوج ہٹانے پر راضی ہوگا۔

اس فارمولے کے تحت غزہ میں ایک عبوری حکومت قائم کی جائے گی جسے ٹیکنوکریٹ سیٹ اپ کہا گیا ہے۔ حیران کن طور پر اس حکومت کی سربراہی ٹرمپ خود کریں گے جبکہ اس میں سابق برطانوی وزیراعظم ٹونی بلیئر سمیت غیر ملکی شخصیات کو شامل کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ یہ تجویز فلسطینی عوام کی خود مختاری پر براہِ راست وار سمجھی جا رہی ہے۔

منصوبے میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل یرغمالیوں کے بدلے 250 عمر قید کے قیدیوں سمیت 1700 فلسطینیوں کو رہا کرے گا، تاہم یہ عمل اسرائیلی فوجی دباؤ کے ساتھ منسلک رہے گا کیونکہ فوجی کارروائیاں محض وقتی طور پر معطل ہوں گی اور انخلا مرحلہ وار ہوگا۔ اس دوران فلسطینی مزاحمتی قیادت کو عام معافی دینے یا محفوظ راستہ دینے کی شرط رکھی گئی ہے، جو دراصل اسرائیلی بیانیے کی توسیع ہے۔

غزہ میں بین الاقوامی افواج کی تعیناتی اور فلسطینی پولیس کی تربیت کی تجویز بھی دی گئی ہے، جو مقامی آزادی کے بجائے بیرونی نگرانی کا نقشہ پیش کرتی ہے۔ فلسطینی حلقوں کا کہنا ہے کہ یہ منصوبہ دراصل فلسطین کی داخلی سیاست اور مزاحمتی ڈھانچے کو توڑنے کے لیے امریکا اور اسرائیل کا مشترکہ منصوبہ ہے۔ اس میں فلسطینی عوام کی خواہشات اور ان کی جدوجہد آزادی کو ثانوی حیثیت دی گئی ہے۔

اگرچہ منصوبے کو امن فارمولا کہا جا رہا ہے، لیکن یہ حقیقت ہے کہ اس کے تحت اسرائیل کو تحفظ اور فلسطین کو نگرانی میں رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔ فلسطینی عوام کے نزدیک اصل امن صرف اس وقت ممکن ہے جب قابض اسرائیل کا مکمل خاتمہ اور آزاد فلسطینی ریاست قائم ہو۔

.

ذریعہ: Al Qamar Online

کلیدی لفظ: فلسطینی عوام گئی ہے

پڑھیں:

غزہ جنگ بندی منصوبہ، امیر قطر شیخ تمیم کا امریکی صدر کو فون

امیر قطر نے اس یقین کا اظہار کیا کہ منصوبے کی حمایت کرنیوالے ممالک ایک ایسے منصفانہ حل تک پہنچ سکتے ہیں، جو علاقائی سلامتی اور استحکام کی ضمانت ہو اور فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔ اسلام ٹائمز۔ امیر قطر شیخ تمیم بن حمدالثانی نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے فون پر رابطہ کرکے غزہ جنگ بندی منصوبے پر تبادلہ خیال کیا۔ اس موقع پر شیخ تمیم نے امن کی کوششوں کے لیے قطر کی مکمل حمایت کا اعادہ کیا اور اس یقین کا اظہار کیا کہ منصوبے کی حمایت کرنے والے ممالک ایک ایسے منصفانہ حل تک پہنچ سکتے ہیں، جو علاقائی سلامتی اور استحکام کی ضمانت ہو اور فلسطینیوں کے حقوق کا تحفظ کرے۔

ترجمان وائٹ ہاؤس کیرولین لیوٹ نے کہا ہے کہ صدر ٹرمپ کی غزہ منصوبے پر حساس بات چیت چل رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کسی بھی اعلان سے پہلے کوئی تفصیل نہیں بتائی جاسکتی، یہ معاملہ صدر ٹرمپ اور خصوصی ایلچی اسٹیو وٹکوف دیکھیں گے۔ ذرائع کے مطابق ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر حماس کا باضابطہ جواب دو سے تین دن میں متوقع ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سمیت تمام اسلامی ممالک اسرائیل کو کبھی قبول نہیں کریں گے، ثروت اعجاز قادری
  • حماس کا مثبت ردعمل: ٹرمپ کا اسرائیل سے غزہ پر بمباری روکنے کا مطالبہ
  • پنجاب میں سیلاب سے متاثرہ 81 ہزار سے زائد افراد کی تفصیلات جمع کر لی گئیں
  •  غزہ امن منصوبہ ،فلسطینی مزاحمت کی ‘‘ہتھیار ڈالنے’’ کی دستاویز!
  • آشا بھوسلے کو عدالت سے انصاف مل گیا؛ حیران کن تفصیلات سامنے آگئیں
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا
  • غزہ جنگ بندی منصوبہ، امیر قطر شیخ تمیم کا امریکی صدر کو فون
  • ٹرمپ کا بیس نکاتی منصوبہ، امن کا وعدہ یا اسرائیل کی جیت؟
  • امن منصوبے کے نام پر 2 ریاستی فارمولے کو مسترد کرتے ہیں، وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا
  • ٹرمپ امن منصوبہ اسرائیلی قبضہ مضبوط بنانے کی کوشش ہے، بین الاقوامی تنظیم آئی سی جے پی