Express News:
2025-11-18@20:26:12 GMT

ملک بھر میں انٹرنیٹ پر کوئی پابندی عائد نہیں کی، طالبان

اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT

طالبان حکومت نے افغانستان میں انٹرنیٹ کی ملک گیر پابندی کی خبروں کو مسترد کر دیا۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق طالبان حکومت کی وضاحت حالیہ دنوں میں ہونے والے بڑے پیمانے پر کمیونی کیشن بلیک آؤٹ کے بعد سامنے آئی ہے۔

الجزیرہ کے مطابق طالبان حکام نے پاکستانی صحافیوں کے ایک واٹس ایپ گروپ میں جاری بیان میں کہا کہ انٹرنیٹ پر پابندی کی افواہوں میں صداقت نہیں۔ حکومت نے انٹرنیٹ پر پابندی عائد نہیں کی۔

بیان میں اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ بندش تکنیکی وجوہات کی بنا پر ہوئی ہے۔ خاص طور پر پرانے فائبر آپٹک کیبلز کو تبدیل کرنے کی ضرورت تھی۔

خیال رہے کہ یہ طالبان حکومت کا اس معاملے پر پہلا باضابطہ اعلان ہے جس کے بعد پیر سے ملک بھر میں ٹیلیفون اور انٹرنیٹ سروسز شدید متاثر ہوئیں۔

عالمی انٹرنیٹ مانیٹرنگ ادارے نیٹ بلاکس کے مطابق پیر کو افغانستان میں 4 کروڑ 30 لاکھ آبادی والے ملک میں “مکمل انٹرنیٹ بلیک آؤٹ” ریکارڈ کیا گیا۔

اگرچہ طالبان نے اس بار براہِ راست ذمہ داری قبول نہیں کی، تاہم اس سے قبل کئی صوبوں میں انٹرنیٹ سروسز اخلاقی برائیوں کے خلاف اقدامات کے تحت بند کی جا چکی ہیں۔

16 ستمبر کو بلخ صوبے کے حکام نے انٹرنیٹ پابندی کی تصدیق کی تھی۔ اسی طرح بدخشاں، تخار، ہلمند، قندھار اور ننگرہار میں بھی حالیہ مہینوں میں پابندیاں رپورٹ ہوئیں۔

ایک افغان حکومتی اہلکار نے فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ تقریباً “آٹھ سے نو ہزار ٹیلی کمیونی کیشن ٹاورز” کو اگلے حکم تک بند رکھنے کی ہدایت دی گئی ہے۔

ادھر طلوع نیوز نے دعویٰ کیا ہے کہ طالبان نے موبائل فونز پر 3G اور 4G انٹرنیٹ سروسز کو ایک ہفتے کے اندر بند کرنے کی ڈیڈلائن دی ہے۔

انٹرنیٹ اور ٹیلیفون سروسز کی بندش نے نہ صرف عوامی رابطوں کو متاثر کیا ہے بلکہ بینکاری، تجارت اور فضائی شعبے کو بھی شدید مشکلات کا سامنا ہے۔

یاد رہے کہ افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے خواتین کی ملازمتوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی عائد ہے جب کہ خواتین کے محرم کے بغیر سفر، عوام مقام پر جانے اور بیوٹی پارلز بھی بند کروا دیئے گئے۔

 

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: طالبان حکومت

پڑھیں:

پاک افغان تعلقات جنگ سے ٹھیک ہوں گے؟

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

یہ ایک حقیقت بن چکی ہے کہ پاک افغان تعلقات کی بہتری فوری طور پر نا ممکن ہا تا جا رہا ہے ۔اس سلسلے میں ہونے والے ممذاکرات ترکی میں نا کامی سے دوچار ہو چکے ہیں ۔ٹی ٹی پی اس پورے معاملے کا مرکزی مسئلہ ہے، اور جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔
اس ان مذکرات میں ایک نئی بات یہ بھی ہے پاکستان پر ٹی ٹی پی کے نئے حملے شروع ہو گئے اور شاید بھارت کے کہنے پر وانا اور اسلام آباد پر بھی حملے کیے گئے ہیں پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف اپنے افغان ہم منصب ملا محمد یعقوب سے 19 اکتوبر 2025 کو قطر کے دارالحکومت دوحہ میں مذاکرات کے اختتام پر مصافحہ کر رہے ہیں 30 اکتوبر کو ایک امید کی کرن اس وقت نمودار ہوئی جب افغانستان اور پاکستان نے استنبول میں ایک تین نکاتی اعلامیے پر اتفاق کیا، جس کے تحت دونوں ممالک چھ نومبر کو دوبارہ ملاقات کریں گے تاکہ کئی ہفتوں کی غیر معمولی کشیدگی کے بعد طے پائے گئے معاہدے کے نفاذ کے طریقہ کار پر غور کیا جا سکے۔

اس پوری صورتحا کے بعد فریقین نے اس بات پر بھی اتفاق کیا کہ امن کے قیام کو یقینی بنانے اور خلاف ورزی کرنے والوں کو سزا دینے کے لیے ایک نگرانی اور جائزہ لینے کا نظام قائم کیا جائے گا۔ تاہم یہ مذاکرات بھی بےنتیجہ ختم ہو گئے، جس کے بعد حالات ایک بار پھر بےیقینی کا شکار ہو گئے ہیں۔
اس سے پہلے پاکستان نے کابل اور افغانستان کے دیگر حصوں میں فضائی حملے کیے جن میں تحریکِ طالبانِ پاکستان اور حافظ گل بہادر گروپ کے رہنماو ¿ں اور ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔ یہ وہ تنظیمیں ہیں جو پاکستان میں سرحد پار دہشت گردی میں ملوث رہی ہیں۔جب طالبان کی جانب سے ٹی ٹی پی کے خلاف عدم کارروائی اور افغان سرزمین پر ان کی موجودگی کو تسلیم نہ کرنے پر پاکستان کی صبر کا پیالہ لبریز ہو گیا تو پاکستان نے کابل میں ضرب لگانے کا بےمثال اقدام اٹھایا۔
طالبان حکومت کے خلاف پاکستانی جارحانہ موقف اور یہ دھمکیاں کہ اگر ٹی ٹی پی کا مسئلہ اطمینان بخش طور پر حل نہ ہوا تو کھلی جنگ کا اعلان بھی کیا جائے گا، پالیسی ساز حلقوں میں ایک بنیادی تبدیلی کی عکاسی کرتی ہیں۔افغانستان کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے طالبان حکومت کو یہ واضح اشارہ بھیج دیا ہے کہ اگر وہ افغانستان میں ٹی ٹی پی کی حفاظت اور حمایت کرے گی تو اسے قیمت ادا کرنی پڑے گی۔ پاکستان اب مزید حملے برداشت نہیں کرے گا، بلکہ جلد اور مناسب انداز میں جواب دے گا۔ان تمام حقائق کو مدِنظر رکھتے ہوئے، یہ امکان کم ہی ہے کہ افغانستان اور پاکستان اپنے تعلقات کو کابل پر فضائی حملے سے پہلے والی سطح پر واپس لا سکیں، خواہ دونوں ممالک 30 اکتوبر کے سمجھوتے پر عمل درآمد کے طریقہ کار پر اتفاق بھی کر لیں۔

سرحدی کشیدگی کے دوران، افغانستان پاکستان سرحد کے تمام گزرگاہیں بند رہتی ہیں، جس سے تجارت بری طرح متاثر ہوتی ہے۔ نتیجہ خواہ مثبت ہو یا منفی، اگر طالبان نے ٹی ٹی پی کے خلاف عملی اقدامات نہ کیے تو کشیدگی برقرار رہنے کا امکان ہے۔پاکستان طالبان حکومت کے لیے افغانستان میں ٹی ٹی پی کی میزبانی اور حمایت کی قیمت بڑھاتا رہے گا۔
تسلسل سے جاری حالیہ کشیدگی کے دوران افغانستان اور پاکستان کے درمیان جو صورت حال سامنے آئی ہے، وہ کوئی نئی بات نہیں۔ ماضی میں بھی ٹی ٹی پی کے حوالے سے کشیدگی اور مذاکرات کابل، اسلام آباد اور بیجنگ میں ہو چکے ہیں۔ تاہم، ان سب کے باوجود طالبان کے ٹی ٹی پی سے متعلق سٹریٹجک مو ¿قف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اکتوبر میں دیکھی گئی کشیدگی اور دوحہ و استنبول میں ہونے والی بات چیت کے درمیان واحد فرق یہ ہے کہ اگر پہلے حالات سلگ رہے تھے تو اب وہ بھڑک اٹھے ہیں۔

اس لیے ترک اور قطری سفارت کاری حالات کا درجہ حرارت تو کم کر سکتی ہے، لیکن وقت کو کابل پر فضائی حملے سے پہلے والی صورت حال تک واپس نہیں لے جا سکتی۔اب ایک مرتبہ بھر ترکیہ کی حکومت مذاکرات کو جاری رکھنے کی تیاری کر رہی ہءاس کی وجہ یہ ہے کہ پاک افغان مذاکرات کی ناکامی سے چین کے مفادات کو خطرہ ہے اور اس خطرے کو کم کر نے کی ضرورت ہے
یہ کارروائی طالبان حکومت کو یہ واضح پیغام دینے کے لیے کی گئی ہے کہ اگر اس نے ٹی ٹی پی کے خلاف قدم نہ اٹھایا تو پاکستان خود کارروائی کرے گا، چاہے وہ افغانستان پاکستان سرحدی علاقوں میں ہوں یا افغانستان کے اندر گہرائی میں۔اسی کے ساتھ پاکستان نے طالبان حکومت کو دوٹوک انداز میں واضح کر دیا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی سے کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کرے گا۔ پاکستان طالبان سے توقع رکھتا ہے کہ وہ 2020 کے دوحہ معاہدے کے تحت اپنی ذمہ داریاں پوری کرے۔

مزید یہ کہ پاکستان کے نزدیک افغانستان پاکستان سرحد ایک طے شدہ معاملہ ہے اور طالبان قیادت کی کوئی بھی بیانیہ بازی پاکستانی ریاست پر اثر انداز نہیں ہو سکتی۔ یہ بات قابلِ افسوس ہے کہ افغان شہری ایران یا وسطی ایشیائی ممالک میں بغیر ویزا داخلے کا مطالبہ نہیں کرتے، لیکن پاکستان کے معاملے میں ایسا رویہ اپنایا جاتا ہے۔پاکستان ایک خودمختار ملک ہے، اور کوئی بھی غیر ملکی ویزا حاصل کیے بغیر اس کی سرزمین میں داخل نہیں ہو سکتا۔
پاکستان اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ طالبان کو تحریکِ طالبان پاکستان کے نیٹ ورک کو ختم کرنے میں کئی طرح کی عملی اور نظریاتی مشکلات کا سامنا ہے۔ طالبان کو یہ اندیشہ بھی لاحق ہے کہ اگر ٹی ٹی پی کے خلاف سخت عسکری کارروائی کی گئی تو اس کے ناراض عناصر داعش خراسان میں شامل ہو سکتے ہیں۔ پاکستان طالبان کے نظریاتی حساسیتوں اور اس خطرے کو بھی سمجھتا ہے کہ ٹی ٹی پی کے خلاف کسی بڑے کریک ڈاو ¿ن سے تحریک کے اندرونی دھڑوں میں اختلافات اور کشیدگی پیدا ہو سکتی ہے۔

اس پوری صورتحا میں یہ بات ہم، ٹی ٹی پی کی موجودگی سے مکمل انکار نے پاکستان کے صبر کو آزما دیا ہے۔ اگر طالبان حکومت اخلاص کے ساتھ پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات کو سمجھے اور ان کی قدر کرے تو اسلام آباد کابل کے ساتھ تعاون کرنے اور ہر طرح کی مدد فراہم کرنے کے لیے تیار ہے۔مخلصانہ اور دیانت دارانہ مکالمے کی صورت میں سفارتی، سیاسی اور عسکری اقدامات کا ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے، اگر افغانستان اور پاکستان کے درمیان کشیدگی برقرار رہی تو امن کے یہ دشمن اور دہشت گرد نیٹ ورکس جیسے ٹی ٹی پی، داعش خراسان اور القاعدہ اس صورتِ حال سے فائدہ اٹھائیں گے۔ ان کشیدگیوں سے پیدا ہونے والا انتشار کئی نئی دراڑیں کھول دے گا، جن کے ذریعے یہ گروہ بھرتی، انتہاپسندی اور تشدد کو فروغ دینے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔

چونکہ افغانستان جنوبی اور وسطی ایشیا کے سنگم پر واقع ہے، اس لیے وہاں کے حالات کے اثرات اس کی سرحدوں سے کہیں آگے تک پہنچتے ہیں۔اسلام آباد اور کابل دونوں کے لیے بہتر یہی ہے کہ وہ موجودہ صورتِ حال کا غیر جانبداری سے تجزیہ کریں اور ایک باہمی قابلِ قبول فریم ورک کے تحت ٹی ٹی پی کے مسئلے سے خلوصِ نیت کے ساتھ نمٹیں۔ٹی ٹی پی اس پورے معاملے کا مرکزی مسئلہ ہے، اور جب تک اسے حل نہیں کیا جاتا، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات معمول پر نہیں آ سکتے۔دوسرے لفظوں میں، افغانستان اور پاکستان کے تعلقات کی بحالی کا راستہ کابل کی اس آمادگی سے گزرتا ہے کہ وہ ٹی ٹی پی کے خلاف تعاون کرے۔پاکستان اور افغان کے درمیاں بھارت ایک بڑی رکاوٹ ہے اور بھارت کو اس بات کا بھی علم ہے وہ پاکستان سے جنگ کر گا اس صورت امریکا اور دنیا کے دیگر ممالک بھارت کا کھل کر ساتھ دینے کی پوزیشن میں نہیں اور نہ دناہی پاک بھارت جنگ میں بھارت کو بڑا ملک تسلم کر نے کو تیار ہے افغانستان کو اس حقیقت کو تسلم کرنا چاہیے کہ بھارت نہیں پاکستان اس کا دوست ہے۔

مسرت خلیل گلزار

متعلقہ مضامین

  • پاکستان سمیت دنیا بھر میں انٹرنیٹ سروسزمتاثر: کلاؤڈ فلیئراور پی ٹی اے کا بیان بھی آگیا
  • آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
  • آسٹریلوی حکومت نے افغان طالبان پر پابندیوں سے متعلق نیا فریم ورک تیار کرلیا
  • آسٹریلیا نے افغان طالبان حکومت پر نئی پابندیوں کی تجاویز پیش کر دیں
  • کوئٹہ، محکمہ داخلہ نے انٹرنیٹ مزید 2 روز کیلئے معطل کر دیا
  • امراض میں مبتلاعازمین حج نہیں کرسکیں گے،سعودی حکومت نے پابندی لگا دی
  • کوئی شک نہیں ملک کا دفاع مضبوط ہاتھوں میں ہے، وزیراعظم
  • مالدیپ تمباکو نوشی پر پابندی عائد کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا
  • پاک افغان تعلقات جنگ سے ٹھیک ہوں گے؟
  • افغانستان اور دہشت گردی