data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

نئی دہلی میں ایک دلچسپ حکم سامنے آیا ہے جہاں بھارتی عدالت نے ڈاکٹرز کو ہدایت دی ہے کہ وہ اپنی ہینڈ رائٹنگ بہتر کریں تاکہ طبی نسخے اور رپورٹس سب کے لیے قابلِ فہم ہوں۔ یہ حکم پنجاب اور ہریانہ ہائیکورٹ نے ایک کیس کی سماعت کے دوران دیا۔

رپورٹ کے مطابق معاملہ اس وقت سامنے آیا جب ایک خاتون کی جانب سے ایک شخص پر جنسی زیادتی، دھوکا دہی اور جعل سازی کے الزامات لگائے گئے۔ اس کیس کی سماعت کے دوران عدالت میں سرکاری ڈاکٹر کی تیار کردہ میڈیکو لیگل رپورٹ پیش کی گئی جو اس قدر ناقابلِ فہم تھی کہ جج اسے پڑھ ہی نہ سکے۔

جج نے ریمارکس دیے کہ عدالت کے لیے یہ انتہائی تشویشناک امر ہے کہ سرکاری رپورٹ کا ایک لفظ بھی پڑھنے کے قابل نہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ایسے وقت میں جب ٹیکنالوجی اور کمپیوٹر ہر جگہ موجود ہیں، یہ بات افسوسناک ہے کہ سرکاری ڈاکٹرز اب بھی ہاتھ سے ایسی تحریریں لکھتے ہیں جنہیں صرف چند کیمسٹ ہی سمجھ پاتے ہیں۔

عدالت نے اس موقع پر حکومت کو ہدایت دی کہ میڈیکل کالجوں کے نصاب میں خوشخطی کی باقاعدہ تربیت شامل کی جائے اور ساتھ ہی آئندہ دو برس کے اندر نسخے لکھنے کے نظام کو مکمل طور پر ڈیجیٹلائز کرنے کے اقدامات کیے جائیں تاکہ مریضوں اور اداروں کو مشکلات کا سامنا نہ ہو۔

.

ذریعہ: Jasarat News

پڑھیں:

آئینی عدالت کو بڑے قانونی اور انتظامی چیلنجز کا سامنا

اسلام آباد:

نئی قائم شدہ ہونے والی وفاقی آئینی عدالت کو بڑے قانونی اور انتظامی چیلنجز کا سامنا ہے، یہ واضح نہیں کہ وہ مستقل طور پر کہاں کام کرے گی، فی الحال یہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی عمارت میں کام کر رہی ہے مگر کمرہ عدالت نمبر ایک چیف جسٹس امین الدین کو استعمال کیلیے نہیں دیا جا رہا۔

اس سے قبل حکومت وفاقی شرعی عدالت کی عمارت میں آئینی عدالت قائم کرنا چاہتی تھی لیکن شرعی عدالت کے ججوں نے ایسا کرنے نہیں دیا۔

معلوم ہوا ہے کہ آئینی عدالت کے چند ججز بشمول چیف جسٹس امین الدین خان نے پیر کے روز سپریم کورٹ میں اپنے چیمبرز استعمال کیے۔

سینئر وکلا نے کہا کہ ججوں کو ابتدا سے ہی سپریم کورٹ کے احاطے میں کام شروع کرنا چاہیے تھا۔

آئینی عدالت نے انتظامی عہدوں پرریٹائرڈ افسران اور ججوں کی بھرتی بھی شروع کر دی ہے۔ وکلا کا کہنا ہے کہ خزانے کی بچت کے لیے ان عہدوں پر سپریم کورٹ کے موجودہ ملازمین کو زیرغور لانا چاہیے۔

سپریم کورٹ کے ایک اہلکار کا دعویٰ ہے کہ ہزاروں مقدمات آئینی عدالت کو منتقل کیے جائیں گے، انکا فیصلہ کرنا بڑا چیلنج ہوگا۔ سینئر وکلا یہ بھی زور دے رہے ہیں کہ بدانتظامی اور گورننس سے متعلق عوامی مفاد کے مقدمات کے بجائے وہ مقدمات سنے جائیں جن میں قانون اور آئین کی تشریح درکار ہے۔

ججوں کو چاہیے کہ پہلے عوامی مفاد کے مقدمات کے لیے اصول و ضوابط طے کریں۔ آئینی عدالت نے تاحال اپنے رولز بھی تشکیل نہیں دیے۔

اس وقت ڈویژن بنچ مقدمات سن رہے ہیں۔ ججوں کے لیے یہ بڑا امتحان ہوگا کہ ثابت کریں کہ وہ انتظامیہ کے زیرِ اثر نہیں بلکہ بلا خوف و رعایت فیصلے کریں گے۔

26 ویں آئینی ترمیم کو چیلنج کرنے والے ایک سینئر وکیل کا کہنا ہے کہ بار کو 27ویں آئینی ترمیم کے خلاف درخواستیں دائر کرنے سے گریز کرنا چاہیے کیونکہ اس وقت انتظامیہ کو عدلیہ پر مکمل کنٹرول حاصل ہے۔

ذرائع کے مطابق مستعفی جج منصور علی شاہ فی الوقت بارز میں جانے میں دلچسپی نہیں رکھتے۔

وہ چند ماہ لاہور میں گزاریں گے یا ممکن ہے بیرونِ ملک جائیں کریں کیونکہ انہیں بین الاقوامی ثالثی کے شعبے میں کام کرنے کی پیشکش کی جا رہی ہے۔ انہیں لمز کی جانب سے بھی آفر دی گئی ہے۔ انکا ارادہ ہے کہ وہ اپنی بین الاقوامی علمی سرگرمیوں پر توجہ دیں۔

متعلقہ مضامین

  • وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نےبینائی سے محروم اور عارضہ قلب کے مریضوں کے مسائل فوری حل کرنے کی ہدایت کردی
  • نئی گج ڈیم کیس: وفاقی آئینی عدالت نے درخواست کے قابلِ سماعت ہونے پر دلائل جاری
  • آئینی عدالت کو بڑے قانونی اور انتظامی چیلنجز کا سامنا
  • 4.5 ملین برطانوی بچے غربت میں زندگی گزار رہے ہیں، رپورٹ
  • 26 نومبر احتجاج کیس: علیمہ خان کے منجمد بینک اکاؤنٹس کی رپورٹ جمع نہ ہوئی
  • میرپور خاص: دوشیزہ کے قتل میں الزام میں گرفتاروالد کی رپورٹ جاری
  • پیما کا مقصد ڈاکٹروں کو اسلامی بنیادوں پر عمل کرانا ہے، ڈاکٹر عاطف حفیظ
  • سرکاری ٹی وی نے 620 روپے دے کر میری توہین کی تھی: راشد محمود
  • وفاقی آئینی عدالت کی پہلی کاز لسٹ جاری کردی گئی
  • عمران دور‘بشریٰ بی بی سرکاری فیصلوں پر اثر انداز ہوتی رہیں، برطانوی جریدہ۔آرٹیکل اسپانسرڈ ہے‘ قانونی کارروائی کرینگے ، پی ٹی آ ئی