پاکستان ہاکی فیڈریشن کا ورلڈکپ کے میچز بھارت سے نیوٹرل مقام پر منتقل کرنے کا مطالبہ
اشاعت کی تاریخ: 1st, October 2025 GMT
پاکستانی ہاکی فیڈریشن نے بھارت میں جونیئر ورلڈکپ کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے میچز نیوٹرل مقام پر کروانے کا مطالبہ کردیا۔
ایکسپریس نیوز کو ذرائع سے ملنے والی اطلاع کے مطابق پاکستان ہاکی فیڈریشن نے انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن کو خط لکھا دیا جس میں بھارت میں جونیئر ورلڈکپ کے حوالے سے اپنے تحفظات کا اظہار کیا ہے۔
خط میں کھلاڑیوں کے حوالے سے سیکیورٹی خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا گیا ہے جبکہ پاکستان ہاکی فیڈریشن نے مطالبہ کیا کہ ہے کہ پاکستان کے میچز بھارت کے بجائے نیوٹرل مقام پر منعقد کیے جائیں۔
جونیئر ہاکی ورلڈکپ کپ رواں سال 28 نومبر سے بھارت میں کھیلا جائے گا۔
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہاکی فیڈریشن
پڑھیں:
پاک سعودی معاہدے میں وسعت کا مطالبہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
۔20 ویں صدی عیسوی کے بہت سے اہم واقعات ہیں جن میں 2 عالمی جنگیں ہوئیں ایک اندازے کے مطابق اس میں مجموعی طور پر دو کروڑ سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔ آزادی کی تحریکیں چلیں نو آبادیاتی دور کا خاتمہ ہوا دنیا میں کئی ممالک آزاد ہوئے اس صدی کے اہم واقعات میں خلافت منہاج النبوت کا سقوط بھی ہے جو کم وبیش پچھلے چودہ سو سال سے مسلمانوں کی نشاۃ ثانیہ کی عقیدت کا مرکز و محور تھا۔ اسی صدی میں دو نظریاتی مملکتیں بھی وجود میں آئیں، ایک اسرائیل جو صہیونیوں کی نظریاتی مملکت ہے اور دوسری مسلمانوں کی نظریاتی ریاست پاکستان ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں ممالک برطانوی راج کے دور ذوال میں وجود میں آئیں اسرائیلی حکومت کے قیام کے لیے تو زبردستی فلسطین کی سرزمین پر قبضہ کرکے اور دنیا بھر سے یہودیوں لاکر یہاں بسایا گیا پہلے تو فلسطینیوں سے بہت مہنگے داموں ان کی زمینیں خریدی گئیں یہ کام 1917 سے شروع ہوا اس سے پہلے یہاں یہودیوں کی آبادی تھی لیکن فلسطین میں بہت بڑی اکثریت مسلمانوں کی تھی اور ان ہی کی حکومت تھی یہودیوں کی آبادی تو دس فی صد سے بھی کم تھی اسی لیے قائد اعظم محمد علی جناح کا کہنا تھا کہ فلسطین صرف مسلمانوں کا ہے اسرئیل تو ناجائز ریاست ہے آج جو لوگ دو ریاستی حل کی بات کررہے ہیں اس کی ہماری حکومت بھی حمایت کررہی ہے یہ قائد کے نظریے سے روگردانی ہے۔ ہم ذکر کررہے تھے بیسویں صدی کے اہم واقعات کا جس میں بات قیام پاکستان تک پہنچی تھی۔ قیام پاکستان کو اس صدی کا معجزہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ برطانوی حکومت کے حلق سے آزادی چھیننا اور ہندو اکثریت کے ظلم کا مقابلہ کرنا اور پھر اس مملکت کے قیام کے بعد بھی لاکھوں افراد کی جان و مال کی قربانیوں کے بعد پاکستان قائم ہوا اور اس کے قیام کے اگلے ہی روز سے اس نوزائیدہ مملکت کو ختم کرنے کی سازشیں شروع ہو گئیں، اور یہ بھی بیسویں صدی کا سانحہ ہے کہ ملک پاکستان کا ایک حصہ مشرقی پاکستان اس سے الگ ہوگیا اس سانحے میں یقینا اپنوں کی غداریوں اور غیروں کی سازشوں کا عمل دخل ہے، پاکستان کمزور ہوگیا لیکن یہ بھی اسی صدی کا معجزہ ہے کہ پاکستان نے جو مسلمانوں کی پہلی ریاست ہوگی جس نے ایٹمی دھماکا کرکے اپنی سلامتی کو محفوظ کرلیا۔
بیسویں صدی کے اہم واقعات کے بعد ہم اکیسویں صدی کی بات کرتے ہیں۔ اس صدی کے حوالے سے بڑی بڑی پیش گوئیاں کی جارہی ہیں۔ اس صدی کے سلور جوبلی والے سال میں دو اہم واقعات ہوئے جو ایک طرح سے پوری دنیا کی تاریخ و جغرافیہ بدل دینے کا پیش خیمہ ثابت ہوں گے، پہلی تو یہ کہ مئی کی پانچ روزہ جنگ جس میں بھارت اور اسرائیل نے مل کر پاکستان پر حملہ کردیا اسرائیل نے اپنے جدید ڈرونز کے ذریعے سے جس کو آپریٹ کرنے کے لیے سو سے زائد انجینئرز بھی آئے تھے حملہ کیا اور بھارت نے بھی اپنی پوری قوت سے حملہ کردیا لیکن پاکستان نے جس طرح ان دونوں ممالک کی جارحیت کا جواب دیا ہے وہ تاریخ میں سنہرے الفاظ سے لکھے جانے کے لائق ہے۔ اسرائیل کے ستر سے زائد ڈرونز کو ناکارہ کردیا۔ بھارت نے ہمارے سات ملٹری بیسز پر حملے کیے جبکہ پاکستان نے بھارت کے 27 بیسز کو تباہ کردیا۔ فضائی جنگ بھی بڑی دلچسپ تھی انڈیا کے 33 رافیل سمیت 80 جہاز میزائلوں سے لوڈڈ حملہ کرنے آئے اور اپنی دفاع کے لیے پاکستان کے 40 جہاز فضاء میں مقابلے کے لیے پاکستان کے پاس کوئی رافیل نہیں تھا لیکن اپنا بنایا ہوا J-17 تھنڈر اور چین کے J-10/C تھے ایک گھنٹے کی اس جنگ کا اسکور چھے صفر رہا یعنی پاکستان نے بھارت کے چھے جہاز گرائے جبکہ بھارت نے کوئی جہاز نہیں گرایا ہمیں اس کی مزید تفصیل میں نہیں جانا بتانا یہ ہے کہ جب بھارت نے پاکستان کے شہر بھاولپور اور مرید کے کی آبادی اور مساجد پر حملہ کرکے ہمارے تیس سے زائد شہریوں کو ہلاک اور دو مساجد کو شہید کردیا توکئی مسلم ممالک نے منع کیا کہ بھارت پانچ گنا بڑی فوجی طاقت رکھتا ہے اس لیے آپ جواب نہ دیں لیکن پاکستان نے کہا اب نہیں تو کبھی نہیں اور دس مئی بھرپور جواب دے کر بھارت کے تکبر کو ملیا میٹ کردیا۔ اس جنگ کے بعد ہی پاکستان کا وقار اقوام عالم میں پہلے سے زیادہ بلند ہوگیا۔
موجودہ صدی کا دوسرا اہم واقعہ ستمبر کے مہینے میں پاکستان اور سعودی عرب کا دفاعی معاہدہ ہے اس پر بات آگے بڑھانے سے پہلے ہم ایک بائیں بازو کے لبرل دانشور کا ایک انگلش کا جملہ نقل کرنا چاہیں گے جو انہوں نے اپنے ٹی وی ٹاک شو میں کہا۔۔ Pak Saudi Accord is the begining of Islami Era یعنی پاک سعودی اتحاد اسلامی نشاۃ ثانیہ کی شروعات ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ اس معاہدے نے پوری دنیا کا منظرنامہ تبدیل کردیا ہے وہ خلیجی ممالک جو امریکا کو اپنی سلامتی کا ضامن سمجھ رہے تھے۔ دوحا پر اسرائیلی حملے اور امریکا کی مجرمانہ خاموشی نے ان کے اعتماد کو ٹھیس پہنچایا۔ پھر اسرائیل نے برملا یہ اعلان بھی کیا کہ کسی اور عرب ملک پرحملہ کرسکتا ہے دوحا پر حملے کے بعد امریکی وزیر خارجہ نے اسرائیل کا دورہ کیا اور وہاں اسرائیل کو یقین دلایا کہ امریکا آج بھی اسرائیل کے ساتھ ہے اور کل بھی وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہوگا اس کا مطلب یہ ہوا کہ سعودی عرب اور قطر میں امریکا کے جو فوجی اڈے ہیں وہ عرب ممالک کے بجائے اسرائیل کی حفاظت کے لیے ہیں۔ یہ بھی خبر نظر سے گزری کہ جو اسرائیلی طیارے حملہ کرنے آئے تھے دوحا کے فوجی اڈے سے ان کی فیولنگ کی گئی تھی اس واقع نے خلیجی ممالک کی سوچ میں تبدیلی پیدا کی اور پھر یہ پاک سعودی معاہدہ جس پر مہینوں سے کام جاری تھا وجود میں آیا۔ اس معاہدے نے پوری دنیا میں ایک ہلچل سی مچادی ہے دنیا کے بڑے بڑے اخبارات میں اس پر تجزیے اور تبصرے چل رہے ہیں کہ اس معاہدے سے سعودیہ کو ایٹمی اور پاکستان کو معاشی چھتری مل گئی۔ یہ پاکستانی قوم کی خوش قسمتی ہے کہ اسے مکہ معظمہ اور مدینہ منورہ کے حفاظت کی ذمے داری مل گئی۔
اس معاہدے کے بعد سننے میں آرہا ہے کہ کئی اور ممالک بھی اس میں شریک ہونا چاہتے ہیں 25 ستمبر کے اخبار میں امیر جماعت اسلامی پاکستان حافظ نعیم الرحمن کا بیان شائع ہوا ہے کہ پاک سعودی معاہدے میں ایران اور ترکیہ کو بھی شامل کیا جائے انہوں نے کہا کہ امریکا اسرائیل کی پشت پر ہے بار بار جنگ بندی کی قراردد کو ویٹو کرنا اس کی واضح مثال ہے میرے خیال سے حافظ نعیم کے اس مطالبے پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ اس میں ایران اور ترکیہ کے ساتھ دیگر عرب ممالک کو بھی اس معاہدے کی چھتری تلے آجانا چاہیے یہ اتحاد مسلم ممالک کا ناٹو بھی بن سکتا ہے اس میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ مسلمان ملکوں کو اپنے آپس کے اختلافات کو بھی ختم کرنا چاہیے یہ تو بہت اچھا ہوا کہ چین نے ایران اور سعودی عربیہ کے اختلافات ختم کرادیے ابھی ایران اسرائیل جنگ کے دوران ایک سعودی وزیر نے ایران کا دورہ کیا اور سعودی حکومت کا اہم پیغام پہنچایا تھا کہ سعودی عرب فلسطینی ریاست کے قیام سے پہلے اسرائیل سے کسی بھی قسم کے روابط قائم نہیں کرے گا۔ اسی طرح سعودی عرب اور یمن کے اختلافات کو بھی ختم کرانے کی ضرورت ہے۔ بہر حال جس وقت پاکستان نے ایٹمی دھماکا کیا تھا اس وقت مغربی میڈیا نے اس کو اسلامی بم کا نام دیا تھا جواب میں کہا گیا کہ بھارتی ایٹم بم کو ہندو بم کیوں نہیں کہا جاتا اسرائیل کے ایٹم بم کو یہودی بم کہا جائے۔ جس طرح امریکا کا بم امریکی، اسرائیل کا اسرائیلی اور بھارت کا بھارتی ایٹم بم کہلائے گا اسی طرح یہ پاکستانی ایٹم بم ہے لیکن اب ایسا لگتا ہے کہ مغربی میڈیا کے تجزیے کچھ غلط نہیں تھے۔