امریکا میں شٹ ڈاؤن کے بعد ناسا بند، لاکھوں ملازمین فارغ، بحران شدید ہوگیا
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
امریکا میں اخراجات کا بل منظور نہ ہونے کے باعث حکومت کا شٹ ڈاؤن شروع ہوگیا، جس سے بڑے پیمانے پر سرکاری ادارے بند اور لاکھوں ملازمین جبری چھٹیوں پر بھیج دیے گئے۔
خلائی ادارہ ناسا نے اپنی آفیشل ویب سائٹ پر اعلان کیا کہ فنڈز کی معطلی کے بعد اس کی تمام سرگرمیاں روک دی گئی ہیں اور 15 ہزار سے زائد ملازمین کو فارغ کردیا گیا ہے۔ صرف محدود عملہ ڈیوٹی پر موجود رہے گا تاکہ خلابازوں یا حساس مشنز کو کسی خطرے سے بچایا جا سکے۔
رپورٹس کے مطابق ساڑھے 7 لاکھ وفاقی ملازمین متاثر ہوئے ہیں، جبکہ کانگریس لائبریری اور کپٹل ہل بھی عوام کے لیے بند کر دیے گئے۔ ایئر ٹریول، سائنسی تحقیق اور عوامی سرگرمیاں بھی معطل ہوگئیں۔
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے خبردار کیا ہے کہ اگر بحران جلد حل نہ ہوا تو بڑے پیمانے پر برطرفیاں ہوسکتی ہیں۔
نائب صدر جے ڈی وینس کے مطابق یہ واضح نہیں کہ شٹ ڈاؤن کب تک جاری رہے گا، جبکہ وائٹ ہاؤس کی ترجمان کیرولائن لیویٹ نے کہا کہ اگر صورتحال برقرار رہی تو آئندہ دنوں میں ہزاروں ملازمین اپنی ملازمتیں کھو سکتے ہیں۔
یہ بحران اس وقت شروع ہوا جب سینیٹ نے عارضی فنڈنگ بل مسترد کردیا۔ ریپبلکن اور ڈیموکریٹس ایک دوسرے کو ذمہ دار قرار دے رہے ہیں۔ فنڈنگ بل پر آج دوبارہ ووٹنگ ہوگی۔
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
بنگلا دیش کا سیاسی بحران؛ جماعت ِ اسلامی کا ابھرتا ہوا کردار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251119-03-3
بنگلا دیش کی سیاست دہائیوں سے دو خاندانوں عوامی لیگ اور بی این پی کے درمیان طاقت کے کھیل میں الجھی ہوئی ہے۔ ایک طرف عوامی لیگ کا سیکولر نیشنلزم ہے، جسے ریاستی اداروں اور بین الاقوامی لابیز کی حمایت حاصل رہی۔ دوسری طرف بی این پی ہے، جو کبھی فوجی اسٹیبلشمنٹ کی پشت پر کھڑی ہوئی، کبھی عوامی جذبات سے وابستہ مذہبی شناخت کا سہارا لیتی رہی۔ اس خاندانی تقسیم نے بنگلا دیش کی سیاسی فضا کو دائمی عدم استحکام، ادارہ جاتی کمزوری اور سماجی تقسیم میں دھکیل دیا۔ مگر اس ماحول میں ایک قوت ایسی بھی رہی جس نے کبھی خاندانی سیاست نہیں اپنائی، کبھی تشدد کی سیاست نہیں کی، اور نہ ہی اقتدار کی ہوس میں اصولوں کا سودا کیا اور وہ قوت ہے جماعت ِ اسلامی بنگلا دیش۔ پابندیوں، پھانسیوں، جھوٹے مقدمات اور ریاستی جبر کے باوجود یہ جماعت تنظیمی اعتبار سے اب بھی ملک کی سب سے مضبوط اور واضح نظریاتی سمت رکھنے والی جماعت ہے۔
شیخ حسینہ کے طویل دورِ حکومت کو بین الاقوامی سطح پر ’’معاشی ترقی‘‘ اور ’’استحکام‘‘ کا ماڈل بنا کر پیش کیا جاتا رہا، مگر اس ترقی کے پیچھے سیاسی جبر، انسانی حقوق کی پامالی اور اداروں کی تباہی کی ایک بھیانک حقیقت موجود ہے۔ آزادی اظہار پر سخت پابندیاں۔ الیکشن کمیشن کا حکومتی کنٹرول۔ عدالتوں کا سیاسی دباؤ ۔اپوزیشن کے ہزاروں کارکنان پر جعلی مقدمات۔ میڈیا کا خوفزدہ خاموش ماحول۔ سیاسی مخالفین کا لاپتا ہونا۔ لیکن سب سے شدید اور منظم ریاستی جبر جماعت ِ اسلامی پر ہوا۔ کیونکہ حسینہ واجد جانتی تھیں کہ سیکولر نیشنلزم کے بیانیے کے مقابلے میں جماعت ہی واحد فکری قوت ہے جس کا تنظیمی ڈھانچہ، نظریاتی وژن اور عوامی جڑیں مضبوط ہیں۔ جماعت کے امیر اور سینئر رہنماؤں کو پھانسی۔ دفاتر بند۔ جماعت کے نام کا میڈیا میں ذکر تک ممنوع۔ جلسوں اور حتیٰ کہ نمازِ جنازہ تک پر پابندی۔ ہزاروں کارکنان کی گرفتاریاں اور اغوا۔
ریاست کا خیال تھا کہ جبر سے جماعت ختم ہو جائے گی، مگر حقیقت اس کے بالکل برعکس سامنے آئی: جماعت ٹوٹی نہیں، بلکہ عوام کے دلوں میں اس کے لیے احترام بڑھا۔ 2024 کے انتخابات بنگلا دیش کی سیاسی تاریخ کے سب سے متنازع انتخابات ثابت ہوئے۔ اصل اپوزیشن کو حصہ لینے ہی نہیں دیا گیا۔ عوام کا اعتماد ٹوٹا اور ڈھاکا سمیت پورے ملک میں ریاست مخالف لہر ابھری۔ بی این پی مکمل طور پر غیر مؤثر۔ میڈیا خوفزدہ۔ سول سوسائٹی خاموش۔ طلبہ میں شدید غصہ۔ معیشت دباؤ میں۔ ریاستی جبر حد سے بڑھا ہوا۔ ایسے وقت میں صرف ایک قوت میدان میں زندہ، منظم اور نظریاتی بنیادوں پر استوار تھی— جماعت ِ اسلامی۔
ریاستی جبر کے باوجود جماعت کے کارکنان اور اسلامی چھاترو شبر کا نظم، ڈسپلن اور پرامن جدوجہد نے اسے عوام کے درمیان دوبارہ معتبر قوت بنا دیا۔ عالمی میڈیا کے لیے بھی یہ حیرت کا مقام تھا کہ: ’’جماعت ِ اسلامی ظلم سہتی ہے، تشدد نہیں کرتی‘‘۔ اسی فرق نے جماعت کو نئے سیاسی بحران میں ایسی جگہ دی جو آج بنگلا دیش کے مستقبل کا اہم ترین تعیناتی نکتہ بن چکا ہے۔ جماعت ِ اسلامی کیوں ابھرتی ہوئی قوت بن رہی ہے؟
1) سیاسی خلا بھرنے والی واحد تنظیم: بی این پی کی کمزوری اور عوامی لیگ کے جبر نے ایک خلا پیدا کیا۔ یہ خلا نہ لیفٹسٹ جماعتیں پْر کر سکیں نہ سول سوسائٹی۔
ریاستی جبر کے باوجود جماعت ہی وہ قوت ہے جس کے پاس: ملک گیر تنظیم۔ نظریاتی یکجہتی۔ نظم و ضبط۔ تربیت یافتہ لیڈر شپ۔ عوامی اعتماد موجود ہے۔
2) پرامن احتجاج کا منفرد ماڈل: ڈھاکا سمیت مختلف شہروں میں جب احتجاج کی شدت بڑھ رہی تھی، جماعت ِ اسلامی ہی نے لوگوں کو منظم، پرامن اور ضبط میں رکھا۔ یہ وہ نکتہ تھا جس نے عوامی ذہن میں واضح کر دیا کہ: ’’طاقت کا استعمال ریاست کی طرف سے ہو رہا ہے، عوام کی طرف سے نہیں‘‘۔
3) طلبہ تحریک میں نئی روح: اسلامی چھاترو شبر کا دوبارہ فعال ہونا ریاست کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔ بنگلا دیش کی سیاسی تاریخ بتاتی ہے کہ جو قوت طلبہ پر اثر رکھتی ہے، وہ مستقبل کی سیاست کو کنٹرول کرتی ہے۔ گزشتہ دہائی میں جماعت ِ اسلامی پر جو ظلم ہوا، وہ بنگلا دیش کی تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔ مگر عوام نے دیکھا کہ: رہنما پھانسی کے تختے پر مسکراتے ہوئے گئے۔ کارکنان نے تشدد کا جواب تشدد سے نہیں دیا۔ تنظیم ٹوٹی نہیں۔ کارکن منتشر نہیں ہوئے۔ عوام کے ذہن میں ایک سوال مسلسل گونج رہا ہے: ’’اگر یہ غدار تھے تو مسکراتے کیوں گئے؟‘‘۔
’’اگر یہ دہشت گرد تھے تو انہوں نے کبھی دہشت گردی کیوں نہیں کی؟‘‘ یہ وہ سوالات ہیں جنہوں نے حسینہ حکومت کے پروپیگنڈا کو بھکرا کر رکھ دیا ہے۔ بنگلا دیش کا سیاسی بحران ایشیا کی طاقتوں کے لیے بھی اہم ہے۔ بھارت کو جماعت کا بڑھتا اثر پسند نہیں، کیونکہ وہ ایک مضبوط اسلامی قوت کو اپنے اسٹرٹیجک مفادات کے خلاف سمجھتا ہے۔ چین جماعت کے نظم و ضبط سے متاثر ہے اور بنگلا دیش میں سیاسی استحکام چاہتا ہے۔ امریکا انسانی حقوق اور آزاد انتخابات کے دباؤ کے ذریعے ایک متوازن سیاسی فضا چاہتا ہے۔ پاکستان جماعت کو ایک مثبت اور اصولی اسلامی تحریک کے طور پر دیکھتا ہے۔ یہ تمام عوامل جماعت کے کردار کو خطے میں زیادہ اہم بنا رہے ہیں۔ اگر آزاد اور شفاف انتخابات ہوئے تو بنگلا دیش کا سیاسی نقشہ یکسر بدل سکتا ہے۔
جماعت پارلیمنٹ میں ایک بڑی قوت بن سکتی ہے۔ کوالیشن حکومت میں فیصلہ کن جماعت بن سکتی ہے۔ نوجوانوں اور متوسط طبقے کی حمایت جماعت کے لیے نئی بنیاد بن رہی ہے۔ فلاحی نیٹ ورک اسے سماجی سطح پر ناقابل ِ نظر انداز قوت بنا رہا ہے۔ یہ امکان نہیں بلکہ ایک ابھرتی ہوئی سیاسی حقیقت ہے۔ شیخ حسینہ کے جبر نے جماعت کو کمزور نہیں کیا، بلکہ اسے نظریاتی طور پر مزید مضبوط کیا۔
آج ڈھاکا کی سڑکیں گواہ ہیں کہ: ’’جبر کی سیاست کا انجام ہوتا ہے؛ اصول کی سیاست کا نہیں‘‘۔ بنگلا دیش کا مستقبل ان قوتوں کے ہاتھ میں محفوظ ہے جو: ظلم سہتی ہیں مگر تشدد نہیں کرتیں۔ قانون کی بات کرتی ہیں۔ عوام کے ساتھ کھڑی رہتی ہیں۔ نظریے پر سمجھوتا نہیں کرتیں اور موجودہ بنگلا دیش میں یہ کردار صرف جماعت ِ اسلامی ادا کر رہی ہے۔