WE News:
2025-11-19@01:28:06 GMT

سروائیکل کینسر، لاعلمی سے آگاہی تک

اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT

سروائیکل کینسر، لاعلمی سے آگاہی تک

سروائیکل کینسر خواتین میں پائے جانے والے سب سے عام اور مہلک امراض میں سے ایک ہے۔ یہ مرض رحم کے نچلے حصے میں پیدا ہوتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ ہیومن پیپیلوما وائرس (HPV) کا مسلسل انفیکشن ہے۔

دنیا بھر میں ہر سال لاکھوں خواتین اس مرض کا شکار ہوتی ہیں۔ صرف 2022 میں اس کینسر کے تقریباً 6 لاکھ 60 ہزار نئے کیسز اور ساڑھے 3 لاکھ کے قریب اموات رپورٹ ہوئیں۔

پاکستان کی صورت حال بھی تشویش ناک ہے، جہاں سال 2023 میں لگ بھگ 4,762 نئے کیسز اور 3,069 اموات سامنے آئیں۔ اندازوں کے مطابق پاکستان میں تقریباً 7 کروڑ سے زائد خواتین اس خطرے سے دوچار ہیں اور بیشتر کیسز میں HPV-16 اور HPV-18 وائرس ذمہ دار قرار دیے گئے ہیں۔

یہ مرض زیادہ تر درمیانی عمر کی خواتین میں سامنے آتا ہے، اور تحقیق کے مطابق پاکستان میں تشخیص کی اوسط عمر تقریباً 50 سال ہے۔ نوجوانی میں HPV انفیکشن لگنے کے بعد اس کے کینسر میں بدلنے میں کئی دہائیاں لگ سکتی ہیں۔

ڈاکٹروں کا ماننا ہے کہ اگر بروقت اسکریننگ اور ویکسینیشن کرائی جائے تو اس مرض کو بڑی حد تک روکا جا سکتا ہے۔ دنیا بھر میں HPV ویکسین کو ایک محفوظ اور مؤثر ذریعہ تسلیم کیا گیا ہے، جو 9 سے 14 سال کی عمر کی لڑکیوں کو لگائی جائے تو مستقبل میں سروائیکل کینسر کے امکانات عمومی طور پر کم کر دیتی ہے۔

اسی طرح باقاعدہ اسکریننگ (Pap smear یا HPV-DNA ٹیسٹ) اور ابتدائی مرحلے پر علاج (جیسے cryotherapy یا LEEP) مریضہ کی جان بچا سکتا ہے۔

پاکستان میں حکومت نے ستمبر 2025 سے HPV ویکسین کو قومی حفاظتی پروگرام میں شامل کیا اور پہلے مرحلے میں 9 سے 14 سال کی تقریباً 13 ملین بچیوں کو ویکسین دینے کا ہدف مقرر کیا۔

چند ہی ہفتوں میں لاکھوں بچیوں کو ویکسین لگا دی گئی، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ تاہم، اس عمل میں کئی رکاوٹیں درپیش ہیں۔ سوشل میڈیا پر ویکسین کے بارے میں غلط افواہیں، جیسے بانجھ پن پیدا کرنے کا جھوٹا دعویٰ، والدین کے اعتماد کو متاثر کر رہی ہیں۔

بعض علاقوں میں والدین نے صحتی کارکنوں کو روک دیا یا اپنے دروازے بند کر لیے۔ اس مشکل گھڑی میں وفاقی وزیر صحت ڈاکٹر مصطفیٰ کمال نے ایک جرات مندانہ قدم اٹھایا۔ انہوں نے اپنی بیٹی کو سب کے سامنے HPV ویکسین لگوا کر یہ ثابت کیا کہ یہ ویکسین بالکل محفوظ ہے اور اس کے بارے میں پھیلائی جانے والی تمام افواہیں بے بنیاد ہیں۔ ان کا یہ عمل نہ صرف پاکستانی والدین کے لیے ایک پیغام تھا بلکہ قوم کی بچیوں کے مستقبل کے تحفظ کے لیے ایک روشن مثال بھی ہے۔

عالمی ادارہ صحت اور ماہرین صحت کی سفارش ہے کہ عوامی آگاہی بڑھانے کے لیے مقامی زبانوں اور کمیونٹی کی سطح پر مہمات چلائی جائیں۔

اسکولوں، مساجد اور کمیونٹی مراکز کے ذریعے والدین اور خواتین کو صحیح معلومات دینا وقت کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی، صحت کے نظام کو مضبوط بنانے، جدید اسکریننگ ٹیکنالوجی متعارف کرانے اور صحتی عملے کو تربیت دینے کی فوری ضرورت ہے۔

سروائیکل کینسر ایک ایسا مرض ہے جسے بروقت روک تھام، ویکسینیشن اور باقاعدہ چیک اپ سے بڑی حد تک کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔

یہ کینسر پاکستان میں خواتین کی صحت کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے، مگر اگر ہم سب مل کر سچائی پر مبنی آگاہی پھیلائیں، افواہوں کو رد کریں اور حکومت کی ویکسینیشن و اسکریننگ کی کوششوں کو سپورٹ کریں، تو آنے والے برسوں میں ہزاروں جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

ادارے کا کالم نگار کی رائے کے ساتھ متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

انعم ملک

.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: سروائیکل کینسر پاکستان میں کے لیے

پڑھیں:

’کینسر کی کوئی علامت نہیں تھی‘، تشخیص کیسے ہوئی، بھارتی اداکارہ ماہیما چوہدری نے بتادیا

بالی ووڈ کی مشہور اداکارہ ماہیما چوہدری نے کہا ہے کہ انہیں کینسر کی تشخیص سے قبل کسی قسم کی علامات محسوس نہیں ہوئیں اور یہ بیماری ابتدائی مرحلے میں صرف باقاعدہ طبی معائنے سے ہی سامنے آ سکتی ہے۔ وہ ینگ ویمن بریسٹ کینسر کانفرنس 2025 کے موقع پر میڈیا سے گفتگو کر رہی تھیں، جہاں انہیں اپنی صحتیابی کے سفر کی داستان شیئر کرنے کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔

ماہیما چوہدری نے بتایا کہ 2022 میں ہونے والی تشخیص ایک معمول کے سالانہ چیک اپ کے دوران سامنے آئی۔ انہوں نے بتایا کہ ’مجھے کسی قسم کی علامات محسوس نہیں ہوئیں۔ میں بریسٹ کینسر اسکریننگ کے لیے نہیں گئی تھی بلکہ صرف اپنے سالانہ چیک اپ کے لیے گئی تھی۔ مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا کہ مجھے بریسٹ کینسر ہے۔ کینسر ایسی چیز ہے جسے ابتدا میں خود محسوس نہیں کیا جا سکتا، یہ صرف ٹیسٹوں کے ذریعے ہی جلد پکڑا جا سکتا ہے‘۔

یہ بھی پڑھیں: کینسر میں مبتلا کشمیری اداکارہ حنا خان کو اپنے والد کی نصیحتیں یاد آگئیں

ماہیما چوہدری نے مزید کہا کہ انہیں دیگر مریضوں کی ہمت اور جدوجہد کی کہانیاں سن کر بھرپور حوصلہ ملا۔

 واضح رہے کہ اداکارہ کی آخری فلم ’دی سگنیچر‘ تھی، جس میں انوپم کھیر نے مرکزی کردار ادا کیا۔ کے سی بوکاڈیا اور انوپم کھیر اسٹوڈیو کی تیار کردہ اس فلم کی کہانی ایک ایسے شخص کے گرد گھومتی ہے جس کی زندگی اُس وقت بدل جاتی ہے جب اس کی اہلیہ ایک اہم سفر سے قبل ایئرپورٹ پر بے ہوش ہو جاتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

بالی ووڈ کینسر ماہیما چوہدری

متعلقہ مضامین

  • جاپان کا پاکستان انسداد پولیو پروگرام کیلئے 35 لاکھ ڈالر گرانٹ کا اعلان
  • جاپان کا پاکستان کیلیے 3.5 ملین ڈالر پولیو گرانٹ کا اعلان
  • خودکشی کی روک تھام کیلئے سکردو میں علماء، عمائدین اور سرکاری حکام کا اجلاس
  • کراچی: ایڈا ریو ویلفیئر میں ’خسرہ و روبیلا اور پولیو ویکسین مہم 2025‘ کا افتتاح
  • ملک میں خسرہ، روبیلا اور پولیو سے بچاؤ کی قومی ویکسینیشن مہم کا آغاز
  • ’کینسر کی کوئی علامت نہیں تھی‘، تشخیص کیسے ہوئی، بھارتی اداکارہ ماہیما چوہدری نے بتادیا
  • ملازمت پیشہ خواتین کو ہراسانی،آگاہی سے متعلق تقریب کا انعقاد
  • الٹرا پروسیسڈ غذاؤں سےخواتین میں آنت کے کینسر کے خطرات
  • الٹرا پروسیسڈ غذاؤں کی کثرت، خواتین میں آنتوں کا کینسر بڑھنے کا انکشاف
  • الٹرا وائلٹ شعاعیں سوزش کو بڑھا کر جلد کے کینسر کا سبب بنتی ہیں: تحقیق