جنرل اسمبلی: سلامتی کونسل میں غزہ جنگ بندی قرارداد ویٹو ہونے کا جائزہ
اشاعت کی تاریخ: 2nd, October 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ UN اردو۔ 02 اکتوبر 2025ء) اقوام متحدہ میں امریکہ کے سفیر مائیکل والٹز نے جنرل اسمبلی کو بتایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا غزہ کے لیے امن منصوبہ جنگ کے فوری خاتمے، تمام 48 یرغمالیوں کی رہائی، حماس کو غیرمسلح کرنے، غزہ کو غیرفوجی علاقہ قرار دیے جانے اور اس کی معاشی بحالی کی راہ ہموار کرے گا۔
غزہ میں جنگ بندی کے لیے سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرارداد کو ویٹو کیے جانے کا جائزہ لینے کے لیے منعقدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس میں بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہے کہ ان کے ملک نے قرارداد کو اس لیے ویٹو کیا کیونکہ اس میں نہ تو حماس کی مذمت کی گئی تھی اور نہ ہی اسرائیل کے اپنے دفاع کے حق کو تسلیم کیا گیا۔
سلامتی کونسل کے ارکان نے اس وضاحت کو نظرانداز کر دیا جو امریکہ نے اس قرارداد کے ناقابل قبول ہونے کے حوالے سے انہیں دی تھی۔(جاری ہے)
امریکی سفیر نے کہا کہ اسرائیل نے جنگ کے خاتمے کے لیے 48 گھنٹے پہلے صدر ٹرمپ کے منصوبے کو قبول کرنے سمیت جنگ بندی کے لیے پیش کردہ تجاویز کو بارہا تسلیم کیا ہے۔
بدھ کو ہونے والا اجلاس جس طریقہ کار پر مبنی ہے اسے ’ویٹو اقدام‘ کہا جاتا ہے۔
یہ طریقہ کار اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اپریل 2022 میں اپنایا تھا۔ یہ اقدام سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ارکان میں سے کسی ایک کی طرف سے بھی ویٹو کے استعمال کے دس دن کے اندر جنرل اسمبلی کو اختیار دیتا ہے کہ وہ اپنا اجلاس منعقعد کرے اور رکن ممالک کو ویٹو کی جانچ پڑتال اور اس پر تبصرہ کرنے کا موقع دیا جائے۔'اقوام متحدہ ناکام نہیں'اس موقع پر جنرل اسمبلی کی صدر اینالینا بیئربوک نے کہا کہ اقوام متحدہ بطور ادارہ غزہ میں ناکام نہیں ہو رہا۔
اس کا عملہ انسانی امداد کی فراہمی میں حائل رکاوٹوں کے باوجود اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر کام کر رہا ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ویٹو کی گئی قرارداد میں وہ بنیادی مطالبات شامل تھے جو پہلے ہی جنرل اسمبلی کی جانب سے منظور کیے جا چکے ہیں۔ ان میں فوری، مستقل و غیرمشروط جنگ بندی، حماس اور دیگر مسلح فلسطینی گروہوں کے قبضے میں موجود تمام یرغمالیوں کی فوری اور باعزت رہائی اور علاقے میں بڑے پیمانے پر انسانی امداد کی محفوظ اور بلاروک و ٹوک فراہمی شامل ہیں۔
فلسطین کا خیرمقدماقوام متحدہ میں ریاست فلسطین کے مستقل مبصر ریاض منصور نے کہا کہ خونریزی کا خاتمہ کرنے اور شہریوں کی زندگی کو تحفظ دینے کے لیے صدر ٹرمپ کی کوششیں قابل ستائش ہیں۔ انہوں ںے امریکہ صدر کی جانب سے فلسطینی علاقوں کے اسرائیل میں انضمام اور فلسطینی عوام کو علاقے سے جبراً بیدخل کیے جانے سے واضح انکار کا خیرمقدم کیا۔
ریاض منصور نے کہا کہ ایسے مںصوبے ماضی میں بھی پیش کیے گئے ہیں لیکن امن کے لیے اس قدر تیزرفتار کوششیں کبھی نہیں دیکھی گئیں۔ صدر ٹرمپ کے منصوبے کی کامیابی کا پیمانہ فلسطینی عوام کو حق خودارادیت ملنا اور ریاست فلسطین کی آزادی ہو گا۔ یہ امن کے لیے سب سے اہم پیش رفت ہے اور ایک ایسا کارنامہ ہوگا جو یادگار ورثہ بنے گا۔
جنگ کے خاتمے کا منصوبہاقوام متحدہ میں اسرائیل کے مستقل سفیر ڈینی ڈینن نے کہا کہ کئی مہینوں میں پہلی مرتبہ ایک واضح راستہ سامنے آیا ہے۔
یہ ایسا راستہ ہے جو یرغمالیوں کی رہائی اور جنگ کے خاتمے کا باعث بنے گا۔پرامید طور سے، اس کی بدولت خاندان دوبارہ یکجا ہو سکیں گے اور غزہ کے لوگ ایک روشن مستقبل پائیں گے۔سفیر نے کہا کہ بہت سے ممالک پہلے ہی اس منصوبے کی حمایت کا وعدہ کر چکے ہیں۔ حماس نے تاحال اس منصوبے کو قبول نہیں کیا۔ فیصلہ ان کے ہاتھ میں ہے لیکن انہیں یہ بات سمجھنی چاہیے کہ یہ یہ کام آسانی سے بھی ہو سکتا ہے اور مشکل سے بھی، لیکن یہ ضرور ہوگا۔ اگر وہ اس منصوبے کو مسترد کرتے ہیں تو اسرائیل اپنا کام مکمل کرے گا اور تمام یرغمالیوں کو واپس لے آئے گا۔
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے سلامتی کونسل اقوام متحدہ جنرل اسمبلی نے کہا کہ ویٹو کی کے لیے جنگ کے
پڑھیں:
شہباز ٹرمپ ملاقات اور جنرل اسمبلی سے خطاب
گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے 80ویں اجلاس کے موقع پر دنیا بھر کے رہنما وہاں جمع ہوئے۔ علاقائی اور عالمی حالات کے تناظر میں ہر مقرر نے اپنے اپنے جذبات اور خیالات کا اظہار کیا۔
دنیا میں جاری تنازعات اور جنگوں کے حوالے سے فلسطین کا مسئلہ سب سے زیادہ موضوع بحث رہا۔ مغربی ملکوں بالخصوص مسلم حکمرانوں نے جنرل اسمبلی سے اپنے خطاب میں فلسطین میں جاری اسرائیلی بربریت اور نیتن یاہو کے مظلوم فلسطینیوں پر بڑھتے ہوئے مظالم پر شدید تنقید کرتے ہوئے فوری جنگ بندی کا مطالبہ اور فلسطینیوں کو ان کے جائز حقوق دینے کے لیے پوری قوت سے آواز اٹھائی۔
وزیر اعظم پاکستان میاں شہباز شریف نے جنرل اسمبلی سے خطاب کرتے ہوئے نہ صرف پاکستان کی جیت کا فاتحانہ انداز میں تذکرہ کیا بلکہ بھارت کی روایتی ہٹ دھرمی ، جارحانہ عزائم، مقبوضہ کشمیر پر غاصبانہ قبضے اور نہتے کشمیریوں پر بزدلانہ ریاستی مظالم سے عالمی رہنماؤں کو آگاہ کیا۔
وزیر اعظم نے واضح طور پر یہ پیغام دیا کہ پاکستان بھارت کے ساتھ کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب امور پر جامع اور نتیجہ خیز مذاکرات پر ہمہ وقت تیار ہے۔ انھوں نے بھارت کی جانب سے سندھ طاس معاہدے کی خلاف ورزی کو اعلان جنگ کے مترادف قرار دیتے ہوئے دنیا پر واضح کر دیا کہ پاکستان اپنے 24 کروڑ عوام کے حقوق کا بھرپور انداز میں دفاع کرے گا۔
شہباز شریف نے عالمی برادری کو دو ٹوک الفاظ میں آگاہ کیا ہم نے بھارت سے جنگ جیت لی ہے، اس کے سات لڑاکا طیارے مٹی کا ڈھیر بنا دیے، اگر صدر ٹرمپ مداخلت کرکے جنگ نہ رکواتے تو نتائج تباہ کن ہو سکتے تھے۔
وزیر اعظم نے صدر ٹرمپ کو عالمی امن کا علم بردار قرار دیتے ہوئے ان کی پوری ٹیم کی کاوشوں کو سراہا اور واضح کیا کہ ان کی امن کوششوں کے تناظر میں ہی صدر ٹرمپ کا امن کے نوبل انعام کے لیے نام پیش کیا ہے۔
وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں پاک بھارت جنگ کے حوالے سے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر اور ایئرچیف مارشل ظہیر بابر سندھو کی دانش مندانہ جنگی حکمت عملی کا بطور خاص تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ان کی جرأت مندانہ قیادت میں ہمارے شاہینوں نے فضاؤں میں دشمن کے حملے کو پسپا کرکے بھارتی جارحیت کا ایسا منہ توڑ فیصلہ کن جواب دیا جو تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وزیر اعظم نے بھارت کو کشمیر سمیت تمام تصفیہ طلب معاملات پر مذاکرات کی عالمی فورم پر دعوت دے کر گیند بھارت کے کورٹ میں پھینک دی ہے لیکن ماضی کی تاریخ یہ بتاتی ہے کہ سیکریٹری خارجہ سے لے کر وزرائے اعظم تک کشمیر پر ہونے والے ہر سطح کے مذاکرات کی ناکامی کا واحد ذمے دار بھارت ہے جو اپنی روایتی ضد، ہٹ دھرمی اور میں نہ مانوں کی رٹ لگا کر دو طرفہ مذاکرات کو سبوتاژ کرتا رہا ہے۔
پہلگام واقعہ کی تحقیقات کے حوالے سے پاکستان نے آگے بڑھ کر خود پیش کش کی لیکن بھارت نے جواب میں پاکستان پر جنگ مسلط کر دی اور عبرت ناک شکست و عالمی رسوائی اور سفارتی ناکامیاں اس کا مقدر بن گئیں جس کا واضح تذکرہ وزیر اعظم نے اپنی تقریر میں بھی کیا۔
انھوں نے بھارتی سرپرستی میں پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی میں افغان سرزمین کے استعمال کا ذکر کرتے ہوئے افغانستان کی حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ دہشت گردوں کے خلاف موثر کارروائی کرے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ افغان سرزمین دہشت گردی کے لیے پاکستان سمیت کسی بھی ملک کے خلاف استعمال نہ ہو۔
پاکستان ایک سے زائد مرتبہ حکومتی سطح پر افغان حکومت سے یہ مطالبہ دہرا چکا ہے کہ وہ افغان سرزمین پر پناہ گزیں دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی کرے جو پاکستان میں دہشت گردی کر رہے ہیں لیکن افسوس کہ ان تک افغان حکومت نے اب تک دہشت گردوں کے خلاف کوئی ٹھوس اقدام نہیں اٹھایا نتیجتاً پاکستان میں آج بھی وقفے وقفے سے دہشت گرد عناصر اپنی مذموم کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ تاہم پاک فوج اور ہماری فورسز کی زیرک حکمت عملی کے باعث وہ اپنے مذموم مقاصد میں کامیاب نہیں ہو پا رہے ہیں۔
وزیر اعظم نے جنرل اسمبلی سے خطاب میں تنازع فلسطین کے حوالے سے پاکستان کے موقف کو بھرپور انداز میں پیش کرتے ہوئے کہا کہ فلسطینی عوام کی حالت زار دل دہلا دینے والا المیہ اور عالمی ضمیر پر ایک دھبہ ہے فلسطین کو اب آزاد ہونا ہے جنگ بندی کا راستہ نکالنا ہوگا۔
امریکی صدر ٹرمپ سے 8 مسلم ممالک کے رہنماؤں کی ملاقات میں بھی غزہ میں جنگ بندی پر بات چیت ہوئی لیکن اس ملاقات کا کوئی اعلامیہ جاری نہیں ہوا، نہ ہی رہنماؤں نے میڈیا کو ملاقات کی تفصیلات سے آگاہ کیا۔ سو ٹرمپ مسلم رہنماؤں کی ملاقات کے نتائج کے حوالے سے کوئی حتمی بات نہیں کی جا سکتی۔
البتہ صدر ٹرمپ سے وزیر اعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی ملاقات پاکستان کے نقطہ نظر سے خاصی مفید رہی۔ صدر ٹرمپ نے وزیر اعظم اور آرمی چیف کو شان دار الفاظ میں خراج تحسین پیش کیا جو حوصلہ افزا ہے۔ وزیر اعظم ہاؤس کے اعلامیے کے مطابق شہباز ٹرمپ ملاقات خوشگوار ماحول میں ہوئی جس سے پاک امریکا تعلقات مزید مستحکم ہوں گے۔