آئی ایم ایف کا بعض اہداف پورے نہ ہونے پر تحفظات، پاکستان سے وضاحت طلب
اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT
اسلام آباد: عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کے جائزہ مشن نے حکومت پاکستان سے بعض طے شدہ اہداف پورے نہ ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے اور وضاحت طلب کرلی ہے، مذاکرات کا مقصد پاکستان کو 1.2 ارب ڈالر کی اگلی قسط کی فراہمی ہے، پیش رفت کے باوجود اصلاحاتی عمل میں سستی نمایاں ہوگئی ہے۔
ذرائع کے مطابق دوسرے اقتصادی جائزہ مذاکرات کے دوران حکومت نے اب تک کی پیش رفت پر اطمینان ظاہر کیا مگر آئی ایم ایف نے میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانشل پالیسیز میں شامل کئی اہم اہداف پر عمل نہ ہونے پر اعتراضات اٹھائے۔
ادارے نے واضح کیا کہ قانون سازی اور اصلاحات میں تاخیر قرض پروگرام کے تسلسل پر سوال اٹھا رہی ہے، آئی ایم ایف نے وزارت آئی ٹی، تجارت، میری ٹائم افیئرز، ریلوے اور آبی وسائل سمیت دس سرکاری اداروں کے قوانین میں جون 2025 تک اصلاحات کا ہدف دیا تھا، لیکن یہ پورے نہ ہوسکے۔
حکام کے مطابق پورٹ قاسم اتھارٹی ایکٹ اور گوادر پورٹ آرڈیننس میں ترامیم عمل میں نہیں آئیں، کراچی پورٹ ٹرسٹ ایکٹ 1980 پر بھی کوئی پیش رفت نہ ہوسکی، جبکہ پاکستان ٹیلی کام ری آرگنائزیشن ایکٹ میں ترمیم کا مسودہ تاحال شیئر نہیں کیا گیا۔
اسی طرح اسٹیٹ لائف انشورنس نیشنلائزیشن آرڈر زیر غور ہے، واپڈا ایکٹ میں تبدیلیاں مؤخر کردی گئیں، پاکستان ریلوے ایکٹ 1890 پر مشاورت جاری ہے جبکہ ایگزم بینک ایکٹ کا مسودہ تیار ہونے کے باوجود منظور نہیں ہوا، نیشنل بینک ایکٹ میں ترمیم بھی تاحال ایس ڈبلیو ایف ایکٹ کی منظوری سے مشروط ہے۔
حکام نے آئی ایم ایف کو آگاہ کیا کہ برآمدات کو سہارا دینے اور تجارتی فنانسنگ کو مضبوط بنانے کے لیے اقدامات جاری ہیں، کریڈٹ فلو بہتر کرنے، ترجیحی شعبوں کو سہولت دینے اور ایگزم بینک کو فعال کرنے پر بھی بریفنگ دی گئی، آئی ایم ایف نے ان اقدامات کو ناکافی قرار دیتے ہوئے مزید ٹھوس اصلاحات اور قانون سازی پر زور دیا۔
.
ذریعہ: Al Qamar Online
کلیدی لفظ: آئی ایم ایف
پڑھیں:
پراگ سے بوڈاپیسٹ: ووٹرز کے بڑے تحفظات ہجرت اور یوکرینی جنگ
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 01 اکتوبر 2025ء) جمعہ اور ہفتہ کو ہونے والے چیک انتخابات سے پہلے، اے ایف پی نے یورپی یونین کے رکن ممالک چیک جمہوریہ، ہنگری اور سلوواکیہ کے ووٹروں سے بات کی۔
'ہمارے ملک پر توجہ دیں‘چیک ری پبلک کے ایک شمالی قصبے فریڈلانٹ کے ایک چوک میں، ریٹائرڈ ٹیچر ستانسلاوا کراؤسووا نے ارب پتی سابق وزیر اعظم آندرے بابش کا خطاب سنا، جو خود کو ''ٹرمپسٹ‘‘ کہتے ہیں اور چیک مفادات کو سب سے مقدم رکھنے اور یوکرین کے لیے فوجی امداد میں کٹوتی کا عزم رکھتے ہیں۔
توقع ہے کہ ان کی 'اے این او‘ پارٹی 10.9 ملین کی آبادی والے اس ملک میں تقریباً 30 فیصد حمایت کے ساتھ انتخابات میں سرفہرست رہے گی، جس سے وہ ایک مخلوط حکومت قائم کرنے کی پوزیشن میں آ جائیں گے۔
(جاری ہے)
وسطی یورپ میں دائیں بازو کے عوامیت پسندوں کا نیٹ ورک
جرمن ریٹائرڈ شہری ہنگری کیوں منتقل ہو رہے ہیں؟
کراؤسووا نے اے ایف پی کو بتایا، ''ہمیں سب سے پہلے اپنے ملک پر توجہ دینا چاہیے اور اپنے مسائل حل کرنا چاہییں۔
‘‘ ان کے بقول ہجرت ''آسان الفاظ میں قابو سے باہر ہو گئی ہے۔‘‘انہوں نے کہا، ''ہمارے اپنے لوگوں کے پاس یہاں نوکریاں نہیں ہیں۔ مجھے نہیں معلوم کتنے لوگ غربت کی لکیر سے نیچے ہیں اور اس لیے دوسروں کو قبول کرنا کوئی معنی نہیں رکھتا، خاص طور پر افغانوں، شامیوں، بلکہ یہاں تک کہ یوکرینیوں کو بھی نہیں۔‘‘
کراؤسووا نے کہا کہ ان کا پورا خاندان بابش کا ''مداح‘‘ ہے، جو یوکرین میں جنگ بندی کے مطالبات کی حمایت کر رہے ہیں: ''وہاں بہت سے نوجوان لوگ مر چکے ہیں۔
لہٰذا میں یقینی طور پر پرامن حل کے حق میں ہوں، قطع نظر اس کے کہ وہ یہ کیسے کرتے ہیں۔‘‘قریبی قصبے ہیجنیس میں ایلیسکا ایک ریٹائرڈ ٹیچر ہیں۔ انہوں نے اپنا خاندانی نام بتانے سے احتراز کیا۔ وہ اپنے اس کتے کے ساتھ چل رہی تھیں، جس کا نام 71 سالہ ٹائیکون کے نام پر بابش رکھا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ وہ ٹوکیو میں پیدا ہونے والے کاروباری ٹومیو اوکامورا کی دائیں بازو کی انتہا پسند فریڈم اینڈ ڈائریکٹ ڈیموکریسی (SPD) تحریک کو ووٹ دے رہی ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو بتایا، ''مجھے لگتا ہے کہ ایس پی ڈی اس بات میں درست ہے کہ ہجرت ایک بڑا خطرہ ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ آنے والوں کی ثقافت ''ہماری (ثقافت) سے بہت مختلف ہے۔‘‘
'ہنگری کے لیے اٹھ کھڑے ہوں‘چیک ری پبلک سے مزید جنوب میں واقع ملک ہنگری میں قوم پرست وزیر اعظم وکٹور اوربان کی 2010 سے جاری حکمرانی کو اب ایک سابق اتحادی سے چیلنج کا سامنا ہے، جو آئندہ برس کے انتخابات سے پہلے اب اپوزیشن کی قیادت کر رہے ہیں۔
لیکن دیہی علاقوں میں اوربان اب بھی ووٹرز کی حمایت پر انحصار کر سکتے ہیں۔ 2010 سے ان کے اتحاد نے پارلیمانی انتخابات میں تقریباً ہر دیہی حلقہ جیتا ہے۔
تقریباً 4,500 آبادی والے قصبے کینڈریس میں کیشیئر ارما سوموڈی کا کہنا ہے کہ اوربان کے لیے ان کی پسندیدگی خواتین کے لیے حکومتی پروگرام سے پیدا ہوئی ہے، جو انہیں 40 سال کام کے بعد ریٹائر ہونے کی اجازت دیتا ہے۔
اس 59 سالہ خاتون نے اے ایف پی کو بتایا، ''مجھے یہ بھی پسند ہے کہ وہ ہنگری کے لیے کھڑے ہوتے ہیں۔ وہ پناہ گزینوں کو ملک میں نہیں آنے دیتے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ''اس وقت یہاں کوئی نوکریاں نہیں ہیں، اگر مہاجرین آ گئے تو صورت حال اور بھی بدتر ہو جائے گی۔‘‘
دیگر لوگ وزیر اعظم اوربارن کو ہنگری کو یوکرینی تنازعے سے باہر رکھنے کا کریڈٹ بھی دیتے ہیں۔
45 سالہ کاروباری شخصیت روڈولف برائی کے مطابق، ''اشیائے خوراک اور دیگر چیزیں زیادہ مہنگی ہو سکتی ہیں، لیکن کم از کم ہمیں زبردستی بھرتی ہونے اور اپنے خاندانوں کو پیچھے چھوڑنے کا خوف نہیں ہے۔‘‘
'کوئی اور نہیں‘سلوواکیہ کے ایک مغربی قصبے ٹوپولکینی میں، جہاں قوم پرست وزیر اعظم رابرٹ فیکو پیدا ہوئے اور پلے بڑھے، ایک 63 سالہ ریٹائرڈ شخص ایوان ہرڈا نے کہا کہ وہ ہمیشہ انہیں ووٹ دیتے ہیں کیونکہ ''کوئی اور اس کام کے قابل نہیں ہے۔
‘‘فیکو 2023 میں اقتدار میں واپس آئے، لیکن اپنے ملک کو روس کے قریب لانے پر اب ان کے خلاف احتجاج دیکھا گیا ہے، جس میں روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے ملاقات بھی شامل ہے۔
ہرڈا نے کہا، ''جب وہ روس میں ہوتے ہیں تو ہنگامہ کیوں ہونا چاہیے؟‘‘ ان کا مزید کہنا تھا کہ جب فیکو نے امریکہ، برطانیہ یا فرانس کا دورہ کیا تو ''کسی نے شور نہیں مچایا۔
‘‘ہرڈا کے بقول، ''آج اپوزیشن جو کچھ کر رہی ہے وہ حماقت ہے، مجھے معاف کرنا، لیکن یوکرین کی چاپلوسی کرنا اور اسرائیل کو نظرانداز کرنا۔ یہ مکمل حماقت ہے۔‘‘
لیکن اس قصبے میں دیگر لوگ، جو فیکو کی سمیر Smer پارٹی کا گڑھ ہے، مایوس ہیں۔
70 سالہ ایوا کونیکنا اور 77 سالہ ماریا اُرسولووا کے مطابق وہ فیکو کو ان کے بچپن سے جانتی ہیں لیکن اب انہیں مزید ووٹ نہیں دیں گی۔
کونیکنا کے بقول، ''ہم بڑھتی ہوئی قیمتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ان کی معمولی پنشن ''کرائے اور ادویات کے لیے بھی کافی نہیں ہے۔‘‘
ادارت: مقبول ملک