UrduPoint:
2025-11-19@01:41:31 GMT

ملائیشیا کتابوں پر پابندیاں کیوں لگا رہا ہے؟

اشاعت کی تاریخ: 3rd, October 2025 GMT

ملائیشیا کتابوں پر پابندیاں کیوں لگا رہا ہے؟

اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 03 اکتوبر 2025ء) اس سال کتابوں پر پابندی میں اضافے کو کچھ ناشرین، ماہرینِ تعلیم اور حقوق کی تنظیمیں ''خطرناک جبر‘‘ اور ''قدامت پسند اسلامی نظریات‘‘ کی جانب بڑھتی ہوئی راہ قرار دے رہی ہیں۔

وزارتِ داخلہ نے اکتوبر 2025 تک 24 کتابوں پر پابندی عائد کر دی ہے، جو گزشتہ چھ برسوں میں بین کی گئی تمام کتابوں سے زیادہ ہے اور 2017 کے بعد کسی ایک سال میں سب سے زیادہ تعداد ہے۔

اس سال پابندی عائد کی گئی کتابوں میں جاسوسی اور رومانی ناول، 'مشت زنی‘ کے عنوان سے شاعری کا مجموعہ، اسلام سے متعلق غیر افسانوی کتب، اور نو عمر بچوں کے لیے بلوغت کے حوالے سے رہنما کتابیں شامل ہیں۔

تقریباً نصف بلیک لسٹ کی گئی کتابیں ایل جی بی ٹی کیو پلس موضوعات پر ہیں، جن میں 'کال می بائی یور نیم‘ جیسی بین الاقوامی شہرت یافتہ ناول بھی شامل ہے، جس پر 2017 میں ایک آسکر ایوارڈ یافتہ فلم بنائی گئی تھی اور جس میں ٹیموتھی شالامیٹ نے اداکاری کی تھی۔

(جاری ہے)

ملائیشیا میں ہم جنس پرستی غیر قانونی ہے، جہاں نسلی طور پر مالے باشندے قانوناً مسلمان ہوتے ہیں اور اسلام ترک کرنے پر مذہبی عدالتوں کی جانب سے قید کی سزا دی جا سکتی ہے۔

وزارت داخلہ نے کہا کہ کتابوں پر پابندی اس لیے لگائی گئی ہے تاکہ ایسے ''عناصر، نظریات یا تحریکوں کی ترویج کو روکا جا سکے جو قومی سلامتی اور عوامی نظم و ضبط کے لیے نقصان دہ ہوں۔

‘‘

’پین ملائشیا‘، جو آزادی اظہار کی بین الاقوامی تنظیم کی مقامی شاخ ہے، نے کتابوں پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کو ''چونکا دینے والی‘‘ قرار دیا اور کہا کہ یہ ملائیشیائی عوام کے کھل کر لکھنے اور اہم مسائل پر ایمانداری سے بولنے کے حق پر قدغن ہے، خاص طور پر ان موضوعات پر جو نسل، مذہب اور جنسی رجحان سے جڑے ہیں۔

’پین ملائشیا‘، کی صدر ماہی رام کرشنن نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''یہ صرف یہ ظاہر کرتا ہے کہ ہم کس قدر پیچھے جا رہے ہیں اور ہماری جمہوری گنجائش کس طرح سکڑ رہی ہے۔

‘‘

انہوں نے مزید کہا، ''ہم مکالمہ نہیں کر سکتے۔ ہمیں صرف بتایا جاتا ہے کہ کیا کرنا ہے، اور کتابیں شیلف سے ہٹا دی جاتی ہیں۔ ہم یا تو خاموشی سے دیکھتے ہیں یا احتجاج کرتے ہیں۔ اور اگر ہم احتجاج کریں تو مزید مصیبت میں پڑ سکتے ہیں۔‘‘

حکومت کا قدامت پسندی کی طرف جھکاؤ

کتابوں پر بڑھتی پابندیاں وزیرِاعظم انور ابراہیم کی حکومت کے تیسرے سال میں سامنے آئی ہیں۔

یہ تجربہ کار سیاستدان 2022 کے آخر میں، کئی دہائیوں تک ایک ایسے برانڈ کو تشکیل دینے کے بعد، برسراقتدار آئے تھے جو تمام ملائیشیائی عوام کے لیے زیادہ جمہوری، شفاف اور منصفانہ حکومت کے وعدے پر مبنی تھا، نہ کہ صرف ملک کی اکثریتی نسلی مالے مسلم آبادی کے لیے۔

انور کی اتحادی حکومت ایک پالیسی فریم ورک کے تحت کام کرتی ہے جسے، ''ملائیشیا مدنی‘‘ کہا جاتا ہے۔

اس میں احترام اور ہمدردی جیسے چھ ''بنیادی اقدار‘‘ شامل ہیں۔

تاہم، عملی طور پر یہ انتظامیہ کہیں زیادہ قدامت پسند اور مسلم نواز ثابت ہوئی ہے، ماہرِ سیاسیات اور ملائیشیا کی سن وے یونیورسٹی کے پروفیسر وونگ چِن ہُوَت نے کہا، ''کتابوں پر پابندیوں میں اضافہ ریاستی بیوروکریسی میں کئی برسوں سے بڑھتی ہوئی قدامت پسندی کو ظاہر کر سکتا ہے، جو لازمی طور پر انور کے اقتدار میں آنے سے شروع نہیں ہوئی، جس میں منحرف یا مبینہ بدعتی خیالات کا فکری طور پر جواب دینے کے بجائے انہیں قانونی طور پر دبایا جاتا ہے۔

‘‘

وونگ نے کہا کہ ہو سکتا ہے کہ انور کی حکومت ان قدامت پسند رویوں کو یا تو عقیدے کی بنیاد پر یا پھر سیاسی فائدے کے لیے بڑھاوا دے رہی ہو۔
انہوں نے کہا، ''جو بات یقین کے ساتھ کہ جاسکتی ہے وہ یہ کہ مدنی حکومت کے تحت ملائیشیا زیادہ کھلے ذہن والا ملک نہیں بنا۔‘‘
سلامک رینیساں فرنٹ کے ڈائریکٹر احمد فاروق موسیٰ، جو اسلام کی آزاد خیال تشریح کو فروغ دینے والا ایک مقامی گروپ ہے، نے کہا کہ حکومت کی کتابوں پر پابندی کی پالیسی دراصل مدنی کے برخلاف ہے۔

یہ گروپ خود بھی کتابیں شائع کرتا ہے، اور وزارتِ داخلہ نے ان کی تین کتابوں پر 2017 میں پابندی لگائی تھی۔ فی الحال وزارت یہ فیصلہ کر رہی ہے کہ مزید دو کتابوں پر بھی پابندی عائد کی جائے یا نہیں۔

فاروق موسیٰ نے کہا، ''وہ خود کو مدنی کہتے ہیں، یعنی انہیں زیادہ کشادہ ذہن ہونا چاہیے، مختلف خیالات کو قبول کرنے والا ہونا چاہیے۔

لیکن حقیقت یہ ہے کہ انہوں نے بالکل برعکس راستہ اختیار کیا ہے۔‘‘

انہوں نے مزید کہا کہ انور کی حکومت کی یہ کریک ڈاؤن پالیسی دراصل مسلم ووٹ حاصل کرنے کی ایک سوچی سمجھی حکمتِ عملی ہے۔

ملائیشیائی سیاست میں اسلام کا کردار

اگرچہ انور کی اتحادی جماعت نے 2022 کے انتخابات جیتے، لیکن یہ بڑی حد تک غیر مالے مسلم ووٹروں کی مدد سے ممکن ہوا۔

دوسری طرف اسلام پسند جماعت پارٹی 'اسلام سے ملیشیا‘ (پی اے ایس) نے سب سے زیادہ پارلیمانی نشستیں حاصل کیں، جو چار برس پہلے کے عام انتخابات کے مقابلے میں دوگنی تھیں۔

فاروق موسیٰ نے کہا کہ کتابوں پر اچانک بڑھتی ہوئی پابندیاں انور کی اتحادی حکومت کے لیے زیادہ مسلم ووٹ حاصل کرنے یا کم از کم اپنے موجودہ مسلم ووٹروں کو برقرار رکھنے کا ایک طریقہ ہیں۔

ان کے مطابق، ''یہی اصل وجہ ہے، ورنہ وہ اپنی حمایت کھو دیں گے۔‘‘

آزاد کتب فروش اور ناشر عامر محمد نے کہا کہ کتابوں پر پابندیاں عائد کرنا ووٹروں کو خوش کرنے کا ایک حربہ ہے، تاکہ یہ تاثر دیا جا سکے کہ حکومت ''اخلاقیات کی حفاظت کر رہی ہے‘‘۔

جون میں وزارتِ داخلہ کے اہلکار نیون پیلی جیکٹیں پہنے اچانک کوالالمپور میں عامر محمد کی چھوٹی سی کتابوں کی دکان پر پہنچے اور تین کتابوں کی تلاش کی۔

عامر محمد کے مطابق، یہ کتابیں دو نفسیاتی ہارر ناول اور ایک رومانوی ناول تھیں، سب مقامی مصنفین کی لکھی ہوئی۔ اہلکار ہر کتاب کی ایک ایک کاپی لے گئے لیکن یہ وضاحت نہیں کی کہ وہ شک کے دائرے میں کیوں ہیں۔

عامر محمد نے بتایا کہ یہ کم از کم چوتھی بار تھا کہ وزارت کے اہلکار اس کی دکان پر چھاپہ مار چکے ہیں، اور انہوں نے اسے ملائیشیا میں کتب فروشی کے لیے ایک "پیشہ ورانہ خطرہ" قرار دیا۔

ان کے مطابق، ''یہ اس کاروبار میں آنے کے خطرات میں سے ایک ہے۔‘‘

وزارتِ داخلہ نے ڈی ڈبلیو کی جانب سے تبصرے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔

دنیا بھر میں مزید کتابوں پر پابندیاں

کچھ رپورٹس کے مطابق دنیا بھر میں کتابوں پر پابندیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔

’پین انٹرنیشنل‘ نے گزشتہ اپریل کو عالمی یومِ کتاب کے موقع پر، کہا کہ اس نے دنیا بھر میں کتابوں پر پابندیوں میں "ڈرامائی اضافہ" ریکارڈ کیا ہے۔

لیکن اس نے اس سال جن درجن بھر ممالک کو اجاگر کیا، ان میں خاص طور پر ملائیشیا کو نمایاں کیا، کیونکہ وہاں توجہ ان اشاعتوں کو روکنے پر ہے جن میں ایل بی جی ٹی کیو پلس کردار یا موضوعات شامل ہوں۔

’پین ملائشیا‘ کی رام کرشنن کے مطابق، حالیہ برسوں میں لائیشیا نے اپنے زیادہ آزاد خیال پڑوسیوں جیسے انڈونیشیا اور فلپائن کے مقابلے میں زیادہ کتابوں پر پابندیاں لگائی ہیں، لیکن اب بھی یہاں کمبوڈیا، میانمار یا ویتنام جیسے ممالک جتنا سخت سنسر نہیں ہے، یہ وہ ممالک ہیں جو آمرانہ، کمیونسٹ یا فوجی حکومتوں کے تحت چل رہے ہیں۔

رام کرشنن نے کہا، ''ان تمام پابندیوں کا نتیجہ بالآخر اختلافی خیالات کے لیے جگہ کو تنگ کرنے کی صورت میں نکلتا ہے، اور … لکھنے والوں، ناشرین، تقسیم کرنے والوں اور قارئین کے درمیان 'سیلف سنسرشپ‘ کو خطرناک حد تک مضبوط کرتا ہے۔‘‘

ادارت: صلاح الدین زین

.

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے کتابوں پر پابندیاں کتابوں پر پابندی بڑھتی ہوئی نے کہا کہ داخلہ نے انہوں نے حکومت کے کے مطابق انور کی کے لیے

پڑھیں:

واویلا کیوں؟

دوستو! ایک سمسیا یہ ہے کہ افغان پناہ گزینوں کو جب بھی واپس بھیجنے کا اعلان ہوتا ہے، مہاجرین کا واویلہ تو سمجھ میںآتا لیکن پاکستانیوںکا ایک مخصوص گروپ پتہ نہیں کیوں بین ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔ بندہ پوچھے! غیرملکیوںکو ان کے اپنے وطن واپس بھیجا جا رہا ہے،کوئی کالا پانی کی سزا تو نہیں دی جا رہی،پھر پاکستانیوں کاایک گروپ کیوں ٹسوے بہا رہے ہیں۔

یورپ اورعرب ممالک آئے روز پاکستانیوں کو ڈی پورٹ کرتے رہتے ہیں، اس پر تو کوئی احتجاج نہیں کرتا، کوئی واویلا نہیں ہوتا لیکن پاکستان اگر غیرملکیوں کونکالے تو ظلم ہے، زیادتی ہے کی دہائی شروع ہوجاتی ہے۔

افغانستان کی طالبان رجیم بھی کہتی ہے کہ پاکستان میں موجود افغانوں کو نہ نکالا جائے حالانکہ انھیں تو کھلے دل سے اعلان کرنا چاہیے کہ وہ پوری دنیا میں جہاں کہیں بھی افغان بطور مہاجر یا پناہ گزین قیام پذیر ہیں ‘وہ فوری طور پر اپنے وطن واپس آ جائیں اور اپنے وطن کی تعمیر و ترقی میں حصہ ڈالیں۔مگر افغانستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کی حکومت چاہتی ہے کہ جو لوگ افغانستان چھوڑ گئے ہیں وہ کبھی واپس نہ آئیں اور جو پاکستان یا کسی اور ملک میں پناہ گزین ہیں ‘وہ بھی واویلا کرتے ہیں کہ انھیں وطن واپس نہ بھیجا جائے ۔

 پاکستان واحد ملک نہیں ہے جو غیرملکی مہاجرین کو ان کے وطن واپس بھیج رہا ہے، ایران نے بھی افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے کا سلسلہ شروع کررکھا ہے کیونکہ ایران بھی ان مہاجرین کی وجہ سے پیچیدہ معاشی اور سماجی مسائل کا شکار ہورہا ہے۔ پاکستان کومہمان نوازی کا خمیازہ دہشت گردی اور اسمگلنگ کی شکل میں بھگت رہا ہے ، پاکستان کی معاشرت اور معیشت متاثر نہیں بلکہ بحران زدہ ہو رہی ہے۔ ملک کا انفرااسٹرکچر تباہ ہو رہا ہے۔منشیات فروشی، ڈاکا زنی، اغوا برائے تاوان ،دہشت گردوں کی سہولت کاری اور دیگر جرائم کی شرح میں بہت زیادہ اضافہ ہوا ہے ، افغان مہاجرین کی اچھی خاصی تعداد ایسے سنگین جرائم میں ملوث پائی گئی ہے ۔ دہشت گردی کی وارداتوں میں ان کے ملوث ہونے کے ناقابل تردید ثبوت حکومت کے پاس موجود ہیں۔حال ہی میںوانا کیڈٹ اسکول اور اسلام آباد میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات میں افغان باشندے ملوث پاء گئے ہیں۔

متعدد پاکستانی باشندے بھی اس گھناؤنے جرم میں ملوث ہیں۔ یہ لوگ سادہ لوحی، لاعلمی، مالی لالچ،نسلی و لسانی عصبیت یا دیگر مفادات کے باعث سہولت کاری میں ملوث ہوسکتے ہیں۔ اس لیے پاکستان میں مقیم افغان پناہ گزینوں کی وطن واپسی پاکستان اور اس کے عوام کے مفادات کے تحفظ کے لیے انتہائی ضروری ہے ۔ اس معاملے پرکسی قسم کی مفاہمت یا نرم رویہ اختیارکرنے کی ہرگزگنجائش نہیں نکلتی۔ کیونکہ یہ پاکستان کی سلامتی کا معاملہ ہے۔ افغانستان کے شہریوں کا پاکستان کے خلاف دہشت گرد کارروائیوں میں استعمال ہونا، ملک کی سالمیت کے لیے بہت بڑا خطرہ ہے۔ افغان عبوری حکومت کو اس پہلو پر ضرور غورکرنا چاہیے کیونکہ شرپسند اور دہشت گرد عناصر افغانستان کے بھی ہمدرد نہیں ہیں۔

 پاکستان کالعدم ٹی ٹی پی کی دہشت گردی کے خلاف نبرد آزما ہے، داعش کیخراسان اور کالعدم ٹی ٹی پی کی سسٹر آرگنائزیشنز بھی پاکستان میں سرگرم ہیں۔ بلوچستان میں بی ایل اے اور دیگر دہشت گرد تنظیموں اور ٹی ٹی پی کے درمیان گہرے اسٹرٹیجک تعلقات استوار ہوچکے ہیں۔ دونوں گروہ ایک دوسرے کے لیے سہولت کاری کررہے ہیں۔ پاکستان کے اندر سے بھی انھیں سہولت کار میسر ہیں۔ افغان طالبان دوحہ معاہدے کی شرائط پر بھی عمل نہیں کررہے ۔حالیہ استنبول مذاکرات کی ناکامی بھی سب کے سامنے ہے۔

 امریکا 2021میں اپنے انخلا کے وقت افغانستان میں اپنا جدید اسلحہ چھوڑ کر گیا تھا، ایک طرح سے یہ ہتھیار طالبان کے سپرد کیے گئے تھے ، افغان نیشنل آرمی کے پاس جو اسلحہ تھا، وہ بھی امریکا نے واپس نہیں لیا تھا، اس کی مالیت اربوں ڈالرز بنتی ہے، پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی کئی وارداتوں میں یہ اسلحہ استعمال ہوا ہے ، افغانستان کی طالبان حکومت کے بڑوں کو اس حقیقت کا بخوبی علم ہے، پاکستان کی حکومت بھی انھیں حقائق سے آگاہ کرچکی ہے ، امریکا کے صدر ٹرمپ نے افغانستان سے کہہ رکھا ہے کہ وہ امریکی اسلحہ واپس کردے لیکن افغان طالبان اس حوالے سے خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں۔ اگر افغان طالبان کی جانب سے من مانیوں اور دہشت گردوں کی حمایت کا سلسلہ اسی طرح بلا روک ٹوک جاری رہا توپھر ہمسایہ ممالک اقوام عالم کیسے خاموش بیٹھی رہی گی۔

سوچنے والی بات یہ بھی ہے کہ بی ایل اے اور افغانستان کے دہشت گرد دو الگ الگ گروپ ہیں مگر انھیں اکٹھا کون کررہا ہے؟، ٹریننگ دے کر، پیسے دے کر پاکستان کے خلاف اکٹھا کون کررہا ہے؟ اس حوالے سے بہت سے حقائق منظر عام پر بھی آچکے ہیں۔ افغانستان کی سرزمین پر ٹی ٹی پی ، داعش، بی ایل اے وغیرہ جیسی دہشت گرد تنظیمیں کھلے عام اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں ۔

پاکستان جغرافیائی طور پر ایسی جگہ واقع ہے جہاںمشرق میں بھارت ہے جو ہر وقت پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کرنے کے لیے کوششیں جاری رکھتا ہے جب کہ شمال مغرب میں افغانستان ہے جس کے ساتھ سیکڑوں کلومیٹر طویل سرحدی پٹی ہے جہاں پر باڑ لگانے کے باوجود افغان حکومت کی زیر سرپرستی در اندازیوں کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔سب کو یاد ہے کہ گزشتہ برس 20 دسمبر کو بلوچستان میں سرگرم ایک کالعدم تنظیم کے کمانڈر سرفراز احمد بنگلزئی نے اپنے 72 ساتھیوں سمیت ہتھیار ڈال کر قومی دھارے میں شامل ہونے کا باقاعدہ اعلان کیا تھا۔

اس وقت اس کمانڈر نے انکشاف کیا تھا کہ کس طرح بلوچستان کا امن تباہ کرنے کے لیے بھارت فنڈنگ کرتا ہے ، اس کے علاوہ مزاحمتی تحریک اور کالعدم تنظیمیں منشیات فروشی، بھتہ خوری کے علاوہ لوگوں کو اغوا بھی کرتی ہیں ۔ دہشت گردی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کے ساتھ ساتھ ہمیں یہ حقیقت بھی فراموش نہیں کرنی چاہیے کہ پاکستان اس وقت مختلف چیلنجز سے گزر رہا ہے۔ گلوبل ٹیرر ازم انڈیکس 2025 کی رپورٹ کے مطابق پاکستان دہشت گردی سے متاثرہ ممالک میں دوسرے نمبر پر آگیا ہے۔ 2024میں کالعدم ٹی ٹی پی نے پاکستان میں 600 سے زائد حملے کیے، جس میں سیکڑوں بے گناہ شہریوں کا خون بہا اور پاکستان کو معاشی نقصانات کا بھی سامنا کرنا پڑا۔یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ افغانستان کے صوبے کنڑ، ننگرہار، خوست اور پکتیکا میں تربیتی مراکز قائم کیے گئے ہیں۔

پاکستان کی جانب سے افغانستان حکومت پر مسلسل اس بات پر زور دیا گیا ہے کہ اپنی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونے سے روکیں لیکن اس کے باوجود افغانستان کی عبوری حکومت نے کوئی عملی قدم نہیں اٹھایا۔ استنبول مذاکرات کی ناکامی بھی اسی وجہ سے ہے کیونکہ افغانستان کوئی تحریری ضمانت دینے کے لیے تیار نہیں ہے۔

 اس وقت سب سے بڑی ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے ملک میں ان دہشت گردوں کو جو لوگ سپورٹ کرتے ہیں، انھیں پناہ گاہیں فراہم کرتے ہیں، ان کے سہولت کار بنے ہوئے ہیں، ان سب کو نہایت سرعت کے ساتھ بے نقاب کر کے عوام کے سامنے لایا جائے، جو نام نہاد ہمدرد حلقے افغان مہاجرین اور دیگر غیرملکیوں کی واپسی کے حوالے سے نرم رویہ اپنانے کی بات کرتے ہیں، تو کیا ایران سے افغان مہاجرین کو بیدخل نہیںکیا گیا ہے، کیا ایران نے نرمی برتی ہے؟ ایسا معاملہ جس سے پاکستان کی سالمیت، اس کی معیشت اور معاشرت کو نقصان ہورہا ہو، اس حوالے سے کوئی دوسری رائے نہیں ہونی چاہیے۔

کسی ملک کے شہریوں کو ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجنا کوئی ظلم یا زیادتی نہیں ہوتی۔افغان مہاجرین کو کسی دشمن ملک کے حوالے نہیں کیا جا رہا بلکہ ان کے اپنے ملک میں واپس بھیجا جا رہا ہے، افغان مہاجرین کو تو خوشی خوشی اپنے ملک واپس جانا چاہیے۔ سب کو یاد ہے کہ امریکا میں صدر ٹرمپ نے اقتدار سنبھالا تو انھوں نے بھی غیر ملکیوں کو واپس بھیجنے کا حکم دیا تھا۔امریکی اداروں نے ہتھکڑیوں اور بیڑیوں میں جکڑ کر غیر قانونی غیرملکیوں کو جہازوں پر لادا اور ان کے آبائی ملکوں میں روانہ کیا اور ان کے آبائی ملک سے ٹرانسپورٹیشن کا خرچہ بھی وصول کیا ہے۔

ہر ملک کو حق حاصل ہے کہ وہ اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے جو بہتر سمجھے وہ اقدام کرے۔افغانستان کے شہریوں کو سہولتیں فراہم کرنا، طالبان حکومت کی پہلی اور آخری ذمے داری ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ انھیں جو حاکمیت کا حق حاصل ہے، وہ فرائض اور ذمے داریوں سے ماوراء ہے۔ ویسے بھی افغانستان میں اس وقت بقول افغان طالبان حکومت کے، امن و استحکام ہے، معیشت بہتر ہے، افغانستان کی کرنسی کی قدر پاکستانی روپے سے زیادہ ہے۔اب تو افغانستان نے پاکستان کے ساتھ ہر قسم کی تجارت بھی بند کر دی ہے ‘ایسا کرتے ہوئے یہ اعلان کیا گیا کہ ہم پاکستان کے ساتھ تجارت کے بغیر بھی گزارا کر سکتے ہیں۔لہٰذا اب تو پاکستان میں افغان پناہ گزینوں کے قیام کی تو گنجائش ہی باقی نہیں رہی۔

متعلقہ مضامین

  • دہشت گردی اور نیشنل ایکشن پلان
  • جرمنی کا اسرائیل کو اسلحہ برآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنیکا اعلان
  • ٹریفک  قوانین کی خلاف  ورزی  پر سخت  جرمانے  ‘ پابندیاں  نافذ ‘ عوام  کی حفاظت  یقینی  بنارہے ہیں : مریم  نواز
  • زیادہ آبادی غربت کا باعث بنتی ہے،ترقی کی رفتار بڑھانے کیلیے آبادی پر کنٹرول ناگزیر ہے‘ وزیر خزانہ
  • واویلا کیوں؟
  • جرمنی نے اسرائیل کو اسلحہ برآمدات پر عائد پابندیاں ختم کرنے کا اعلان کر دیا
  • اسد قیصر کی اپوزیشن رہنماؤں کے وفد کے پمراہ اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس حملے پر وکلا سے تعزیت و اظہار ہمدردی
  • زیادہ آبادی غربت کا باعث بنتی ہے، ترقی کی رفتار بڑھانے کیلئے آبادی پر کنٹرول ناگزیر ہے، وزیر خزانہ
  • روس کیساتھ کاروبار کرنیوالے ممالک پر سخت پابندیاں لگائیں گے، ڈونلڈ ٹرمپ
  • مونس الہٰی کو کلین چٹ مل گئی،انٹرپول تحقیقات بند،سفری پابندیاں ختم