آئی ایم ایف سیلاب کیلئے بجٹ میں 500 ارب روپے کی ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دینے کو تیار
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
اسلام آباد:
بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف )مالیاتی نظم و ضبط کو برقرار رکھنے کے بڑے ہدف پر سمجھوتہ کیے بغیر سیلاب کے اثرات کو کم کرنے کے لیے بجٹ میں تقریباً 500 ارب روپے کی ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے مذاکرات میں شریک وفاقی و صوبائی حکام کے مطابق پاکستان یہ رقم پرائمری بجٹ سرپلس کے سالانہ ہدف کے تناظر میں دینے پر اصرار کر رہے ہیں۔
سیلاب سے سب سے زیادہ متاثرہ صوبہ پنجاب نے 740 ارب روپے کیش سرپلس فراہم کرنے کے لیے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے بشرطیکہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اپنا 14 ہزار ایک سو ارب روپے کا ریونیو ہدف پورا کرے۔ صوبائی حکومت سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی پر آنے والے اخراجات کو پورا کرنے کے لیے ابھی بھی مالیاتی گنجائش تلاش کر رہی ہے۔ ذرائع کا کہناہے کہ پاکستانی حکام نے سیلاب سے متاثرہ افراد کی بحالی کے ہنگامی اخراجات کو پورا کرنے کے لیے پرائمری بجٹ سرپلس اور کیش سرپلس کے اہداف میں IMF سے باضابطہ ریلیف طلب کیا تھا ۔
حکومتی ذرائع نے کہا کہ آئی ایم ایف نے ابھی تک ان ا ہداف کو کم کرنے پرتو راضی نہیں ہے مگر وہ بجٹ کے اندر ہی ایڈجسٹمنٹ کرنے پرآمادہ ہے ۔ ذرائع کے مطابق اگر بجٹ ایڈجسٹمنٹ کو قبول کیا جاتا ہے تو یہ وفاقی حکومت کے ہاتھ باندھ دے گا ذرائع نے بتایا کہ ان مذاکرات کے دوران یہ بات سامنے آئی کہ سیلاب سے آمدنی اور اخراجات پر کم از کم 500 ارب روپے کا اثر پڑتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ آئی ایم ایف ان ایڈجسٹمنٹ کی اجازت دینے کے لیے تیار ہے اور پرائمری سرپلس پر پڑنے والے اثرات کوترقیاتی اخراجات میں کٹوٹی کر کے پورا کرنا چاہتا ہے۔
آئی ایم ایف نے یہ بھی اندازہ لگایا ہے کہ سیلاب سے متعلقہ لاگت کی وجہ سے صوبائی اخراجات میں تقریباً 150 ارب روپے کا اضافہ ہو سکتا ہے۔ آئی ایم ایف نے تجویز دی ہے کہ وفاقی حکومت ترقیاتی پروگرام پر 300ارب روپے کی کمی کرے اور کنٹنجنسی پول جو ایسے ہی ہنگامی اخراجات کیلئے ہوتا ہے وہاں سے 150 ارب روپے کی مزید کٹوتی کرنی چاہیے۔ اس ضمن میں پنجاب کی وزیر اطلاعات عظمیٰ بخاری نے کہا کہ حکومت اپنے وعدے کو پورا کرنے کے لیے پرعزم ہے۔
ایکسپریس ٹریبیون کے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے عظمیٰ بخاری نے کہا کہ پنجاب 740ارب روپے کے تخمینہ شدہ صوبائی حصے کے لیے پرعزم ہے ۔ ایک اور سوال کے جواب میں انہوںٰ نے کہا کہ پنجاب نے آئی ایم ایف کو یہ نہیں بتایا کہ اس نے 740 ارب روپے کا اضافی ہدف حاصل کیا ہے۔ پروگرام کے تحت پنجاب کا 740 ارب روپے کا کیش سرپلس وفاقی حکومت کی بنیادی بجٹ سرپلس ظاہر کرنے کی شرط کو پورا کرنے کی صلاحیت کے لیے بہت اہم ہے۔
انہوںٰ نے کہا کہ پنجاب کو توقع ہے کہ ایف بی آر اپنا 141کھرب روپے کا ہدف حاصل کر لے گا اور اب تک کی کمی کو پورا کر لے گا۔ذرائع کا کہناتھا کہ گزشتہ مالی سال میں حکومت کو ایف بی آر کے مجموعی پرائمری بجٹ سرپلس ہدف پر کمی کے اثرات کو پورا کرنے کے لیے پٹرولیم لیوی کے نرخوں میں اضافہ کرنا پڑا۔پچھلے مالی سال میں پنجاب حکومت کو ایف بی آر کی وجہ سے تقریباً 500 ارب روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: کو پورا کرنے کے لیے ا ئی ایم ایف ارب روپے کا ارب روپے کی کو پورا کر بجٹ سرپلس نے کہا کہ سیلاب سے
پڑھیں:
نئی شوگر ملز کے قیام کی اجازت، ٹیکسٹائل برآمدات و خوردنی تیل کی درآمدات پر خدشات بڑھ گئے
کراچی:وفاقی حکومت نے ٹیکسٹائل برآمدات متاثر ہونے کے باوجود ملک بھر میں نئی شوگر ملوں کے قیام پر پابندی ختم کرنے کا فیصلہ کرلیا ہے، اس اقدام سے گنے کی کاشت میں مزید اضافے سے اربوں ڈالر مالیت کی معیاری روئی اور خوردنی تیل کی درآمدات بڑھنے کے خدشات پیدا ہوگئے ہیں۔
چیئرمین کاٹن جنرز فورم احسان الحق نے بتایا کہ وفاقی حکومت نے شوگر انڈسٹری کو ڈی ریگولیٹ کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور وفاقی وزارت غذائی تحفظ آئندہ روز میں ایک سمری بھی وزیر اعظم کو ارسال کر دے گی جس میں نئی شوگر ملوں کے قیام پر پابندی ختم کرنے کی تجویز دی جائے گی۔
احسان الحق نے بتایا کہ حکومت کے اس مجوزہ فیصلے سے گنے کی کاشت میں اضافہ ریکارڈ سطح پر آجائے گا جبکہ کپاس کی کاشت میں مزید نمایاں کمی ہو سکتی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ غیر دوستانہ حکومتی پالیسیوں کے باعث پہلے ہی 300 سے زائد جننگ فیکٹریاں اور 150 سے زائد ٹیکسٹائل ملز غیر فعال ہو چکی ہیں جن میں بڑے بڑے ٹیکسٹائل گروپس کی ملز بھی شامل ہیں۔ ان عوامل کے باعث کپاس کی کھپت میں مزید کمی کے خطرات سامنے آرہے ہیں۔
احسان الحق نے پاکستان کاٹن جنرز ایسوسی ایشن کی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پی سی جی اے کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق 15نومبر تک ملک بھر کی جننگ فیکٹریوں میں ایک فیصد کی کمی سے مجموعی طور پر 48لاکھ 57ہزار گانٹھوں کے مساوی پھٹی کی ترسیل ہوئی۔
انہوں نے بتایا کہ زیر تبصرہ مدت میں پنجاب کی جننگ فیکٹریوں میں 3فیصد کی کمی سے 21لاکھ 68ہزار جبکہ سندھ میں 2 فیصد کے اضافے سے 26لاکھ 89ہزار روئی کی گانٹھوں کے مساوی پھٹی پہنچی ہے، اس عرصے میں ٹیکسٹائل ملوں نے جننگ فیکٹریوں سے 39لاکھ 92ہزار گانٹھوں کی خریداری کی ہے جبکہ برآمد کنندگان نے ایک لاکھ 67ہزار گانٹھیں خریدی ہیں۔
احسان الحق نے بتایا کہ 31 اکتوبر 2025 تک ٹیکسٹائل ملز نے جننگ فیکٹریوں سے 35لاکھ 90ہزار گانٹھوں کی خریداری کی تھی جو گزشتہ سال کے اسی عرصے کے مقابلے میں 55ہزار گانٹھ زائد تھیں جبکہ 15 نومبر تک یہ خریداری گزشتہ سال کے اسی عرصے کی نسبت ایک لاکھ 48ہزار گانٹھ کم ہیں جس سے ٹیکسٹائل انڈسٹری میں جاری معاشی بحران کا درست اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔
پی سی جی اے کی رپورٹ کے مطابق 15 نومبر تک پنجاب میں کپاس کی پیداوار 21 لاکھ 68ہزار گانٹھ رہی ہے جبکہ کراپ رپورٹنگ سروسز پنجاب کے مطابق 17نومبر تک پنجاب میں کپاس کی پیداوار کا حجم 38لاکھ 10ہزار گانٹھ ہے۔
انہوں نے بتایا کہ امریکی اداروں کی پاکستان کے لیے برآمد ہونے والی امریکی روئی کو فیومیگیشن سے مستثنا قرار دینے کی درخواست پر وزارت فوڈ سیکیورٹی نے وفاقی وزیر رانا تنویر کی سربراہی میں ایک 6رکنی کمیٹی قائم کی جس نے 7یوم میں اپنی سفارشات پیش کرنی تھی لیکن تاحال کمیٹی کی سفارشات منظر عام پر نہیں آسکی ہیں۔