وفاقی وزرا اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان معاہدے کے نکات سامنے آگئے
اشاعت کی تاریخ: 4th, October 2025 GMT
مظفر آباد (نیوز ڈیسک) وفاقی وزرا اور جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے درمیان معاہدے کے نکات سامنے آگئے۔
معاہدے کے مطابق پرتشدد واقعات سے ہلاکتوں پر انسداد دہشتگردی کے تحت مقدمات درج ہوں گے، یکم اور 2 اکتوبر کو جاں بحق ہونے والے افراد کے لواحقین کو معاوضہ دیا جائیگا، زخمیوں کو فی کس 10 لاکھ روپے دیئے جائیں گے۔
معاہدے میں طے پایا کہ شہدا کے خاندان میں ایک شخص کو20 دن میں سرکاری نوکری دی جائیگی، مظفرآباد، پونچھ ڈویژن میں 2اضافی سیکنڈری ایجوکیشن بورڈ بنائے جائیں گے، دونوں بورڈ کا فیڈرل بورڈ سے الحاق کیا جائے گا۔
معاہدہ کے مطابق آزاد کشمیر حکومت 15دن میں ہیلتھ کارڈ کیلئے فنڈز جاری کرے گی، حکومت پاکستان بجلی کی ترسیل کے نظام کی بہتری کیلئے10ارب روپے دے گی۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
پڑھیں:
آزادی کشمیر ،حکومت پاکستان اور عوامی ایکشن کمیٹی کے درمیان مذاکرات کامیاب
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
مظفرآباد / اسلام آباد (مانیٹرنگ ڈیسک) وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور ڈاکٹر طارق فضل چودھری نے اعلان کیا ہے کہ عوامی ایکشن کمیٹی آزاد جموں و کشمیر کے ساتھ معاملات تقریباَ طے پا گئے ہیں اور جلد ہی باقاعدہ معاہدے پر دستخط ہونے کا امکان ہے۔ انہوں نے ایکس پوسٹ کے ذریعے بتایا کہ مذاکرات کا آخری دور جاری ہے اور مذاکراتی ٹیم عوامی مفاد اور خطے کے امن کو اولین ترجیح دے رہی ہے۔ذرائع کے مطابق
مظفرآباد میں اسمبلی مذاکراتی اجلاس میں حکومت کی ٹیم اور عوامی ایکشن کمیٹی نے دونوں جانب سے مطالبات، آئینی ترامیم، مہاجر نشستوں اور انتظامی اختیارات کے معاملات پر مفاہمت کرنے کی کوشش کی ہے۔ حکومتی ٹیم میں سینیٹر رانا ثنااللہ، احسن اقبال، سردار یوسف، قمر زمان کائرہ، امیر مقام اور سابق صدر آزاد کشمیر سردار مسعود خان شامل ہیں، جبکہ عوامی ایکشن کمیٹی میں شوکت نواز میر، راجہ امجد ایڈووکیٹ، انجم زمان اور دیگر نمائندے شریک رہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ابتدائی طور پر شہریت و مہاجر نشستوں کے معاملے میں اختلاف رہا، تاہم مذاکراتی عمل نے ڈھلاؤ دکھایا اور کشمیری عوام کے حساس حقوق پر غور و تفہیم کا ماحول قائم ہوا۔ طارق فضل چودھری نے مزید کہا کہ دیگر امور پر گفت و شنید جاری ہے اور اختلافی نکات کو نرم انداز میں حل کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔قبل ازیں، 3 روزہ شٹر ڈاؤن ہڑتال اور مواصلاتی بلیک آؤٹ نے آزاد کشمیر کو معطل کرنے کی کوشش کی تھی۔ مشترکہ عوامی ایکشن کمیٹی اپنے مطالبات پر ڈٹی رہی، جبکہ حکومت نے مظاہرین کی مداخلت پر ذمہ داری ہونے کا الزام عائد کیا۔ حالات کشیدہ ہو گئے تھے اور دونوں اطراف نے ایک دوسرے پر شدید تنقید کی تھی۔ اس پس منظر میں مذاکرات کی کامیابی کو ایک مثبت پیش رفت سمجھا جا رہا ہے۔ حکومتی ذرائع نے بتایا ہے کہ معاہدے کی دستاویزات پر دستخط کے موقع پر آئینی ترامیم کی تجاویز بھی شامل ہوں گی، خاص طور پر مہاجرین کی نشستوں کی تقسیم اور لیویز و انتظامی اختیارات کے توازن کے حوالے سے۔ طارق فضل چودھری نے اس موقع پر یہ واضح کیا کہ تشدد کو کسی بھی صورت میں حل نہیں سمجھا جائے گا، بلکہ پرامن مکالمہ اور سیاسی حل کے ذریعے معاملات طے ہوں گے۔ مذاکراتی فورم پر لیے جانے والے فیصلے نہ صرف آزاد کشمیر کی آئینی حیثیت کو مستحکم کریں گے، بلکہ وہاں رہنے والے کشمیری عوام کی زندگیوں میں عملی تبدیلی لانے کی بنیاد فراہم کریں گے۔ اگر معاہدے پر دستخط ہوتے ہیں تو یہ ایک تاریخی موڑ ہوگا جو پاکستان اور آزاد جموں و کشمیر کے تعلقات کو نئے سرے سے ترتیب دے سکتا ہے۔ کئی سیاسی حلقے توقع کر رہے ہیں کہ جمعہ یا ہفتے کے اندر معاہدے کی تقریب منعقد ہو سکتی ہے، جہاں دستاویزات پر دستخط کیے جائیں گے اور اس کا باضابطہ اعلان کیا جائے گا۔ عوامی ایکشن کمیٹی اور حکومت دونوں نے بتایا ہے کہ معاہدے کی تفصیلات کو عوام کے سامنے لایا جائے گا تاکہ پارلیمنٹ، ریاستی ادارے اور کشمیر عوام کی شمولیت یقینی بنائی جائے۔