آئی سی سی ویمنز ورلڈکپ میں پاکستان ٹیم اپنا تیسرا میچ آج دفاعی چیمپئن آسٹریلیا کے خلاف کھیلے گی۔

گرین شرٹس ٹورنامنٹ میں پہلی فتح کی تلاش میں سرگرداں ہیں، انہیں کینگرو ٹیم کو مات دینے کا مشکل ترین چیلنج درپیش ہے۔

کولمبو کی کنڈیشنز سے آگاہی پاکستان ٹیم کے لیے پلس پوائنٹ ثابت ہوسکتی ہے۔

گزشتہ روز پریکٹس سیشن کے دوران پلیئرز کی توجہ خامیاں دور کرنے پر مرکوز رہیں۔

Will Australia stay unbeaten or can Pakistan surprise the defending champions? ????

Watch all the #CWC25 action ???? https://t.

co/7wsR28PFHI pic.twitter.com/UFWfLkEHWE

— ICC (@ICC) October 8, 2025

دوسری جانب بہترین فارم کی حامل کینگرو سائیڈ کی نگاہیں قیمتی پوائنٹس پر مرکوز ہیں۔

ذریعہ: Express News

پڑھیں:

زمین جیسے سیارے کی تلاش ایک دلچسپ جدوجہد، سائنسدان پرامید

فلورنس اٹلی میں 6 اکتوبر 1995 کو ایک سائنسی کانفرنس کے دوران 2 سوئس ماہر فلکیات نے ایک اعلان کیا تھا جس نے ہمارے نظام شمسی سے باہر کائنات کے تصور کو بدل دیا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: ناسا نے دور افتادہ سیارے پر زندگی کے ٹھوس آثار ڈھونڈ نکالے

بی بی سی کی ایک رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف جنیوا کے مائیکل مِیئر اور ان کے پی ایچ ڈی طالب علم ڈیدیے کوئلوز نے کہا کہ انہوں نے سورج کے علاوہ کسی ستارے کے گرد ایک سیارہ دریافت کیا ہے۔

یہ 51 پیگاسی ہے جو پیگاسس برج میں تقریباً 50 نوری سال کے فاصلے پر واقع ہے۔ اس کا نئے دریافت شدہ سیارہ ہمارے روایتی اندازِ فکر کے مقابلے بالکل مختلف تھا۔

یہ ایک گیس دیو کی مانند سیارہ تھا کم از کم مشتری کے نصف سے بھی زیادہ جسمانی حجم کا اور صرف 4 دنوں سے کچھ زائد عرصے میں اپنے ستارے کا مدار طے کرتا تھا۔

ستارے کے اس قدر قریب مداری دورانیے نے یہ سیارہ بالکل ایک بھٹی جیسا بنا دیا تھا جہاں درجہ حرارت ایک ہزار ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ سکتا ہے۔

اس حیران کن دریافت کے پیچھے آلہ ایلوڈی تھا جو 2 سال قبل ہاؤٹ پروونس دوربین خانے میں نصب کیا گیا تھا۔ ایلوڈی نے ستاروں کی روشنی کو مختلف رنگوں میں تقسیم کیا جیسے ایک فلکی بارکوڈ جو ستاروں کی کیمیائی خصوصیات ظاہر کرتا ہے۔

میئر اور کوئلوز نے دیکھا کہ 51 پیگاسی کا بارکوڈ ہر 4 اعشاریہ 23 دن بعد تھوڑا سا ہلتا ہے اس سے ان کو اندازہ ہوا کہ ایک پوشیدہ سیارہ ستارے کو جھنجھوڑ رہا ہے۔

ابتدائی طور پر سائنسدان شکوک میں رہے مگر 3 سال کی تحقیق اور شکوک کا ازالہ کرنے کے بعد یہ تصدیق ہوئی کہ یہ مختلف اقسام کے ڈائنامکس کی وجہ سے ممکن ہے۔

اس سیارے نے نہ صرف ایک نیا کلاس تخلیق کیا بلکہ اس نے یہ ثابت کیا کہ ہمارے نظامِ شمسی جیسی مثالیں نایاب نہیں ہو سکتیں۔

مزید پڑھیے: نودریافت سیارے میں خاص کیا ہے؟

اس دریافت کے بعد کے 30 سالوں میں 6 ہزار سے زائد ایکسوپلینٹس اور ممکنہ امیدوار دریافت کیے گئے ہیں۔ ان سیاروں کی نوعیت انتہائی متنوع ہے۔ الٹرا ہاٹ مشتری، 2 ستاروں کے گرد گردش کرنے والے سیارے، سپَر پف گیس دیو اور چھوٹے چٹان نما سیارے جو مرکزی ستارے کے بہت قریب ہیں۔

میئر اور کوئلوز نے سنہ 2019 میں نوبل انعام جیتا کیونکہ اس تحقیق نے ثابت کیا کہ تقریباً ہر ستارے کے گرد سیارے ہو سکتے ہیں لیکن حیران کن بات یہ ہے کہ اب تک ایسا کوئی سیارہ دریافت نہیں ہوا جو ہمارے نظام شمسی کی طرح مکمل طور پر مماثلت رکھتا ہو۔

آج بھی زمین جیسا سیارہ وہ جو حجم، ماس اور درجہ حرارت میں زمین کے قریب ہو، ایسی تلاش جاری ہے۔ ایسی تلاش میں ہم جدید اسپیکٹروگراف جیسے  ہارپس این کا استعمال کرتے ہیں جو ستاروں کے روشنی کو وقفے وقفے سے ماپ کر ممکنہ جھٹکوں کا جائزہ لیتا ہے۔ ان جھٹکوں سے ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ آیا کوئی سیارہ اس ستارے کو اپنی کشش ثقل سے حرکت دے رہا ہے۔ مثال کے طور پر زمین سورج کو ہر سیکنڈ میں صرف 9 سینٹی میٹر کی رفتار سے ہلانے کی صلاحیت رکھتی ہے جو بہت نرم مگر قابلِ پیمائش ہے۔

بعض اوقات ہمیں ٹرانزٹ ٹیکنیک بھی استعمال کرنی پڑتی ہے جب ایک سیارہ اپنے ستارے کے سامنے گزرتا ہے تو ستارے کی روشنی وقتی طور پر مدھم ہو جاتی ہے جس سے ہم اس سیارے کا ریڈیئس ناپ سکتے ہیں۔ اس طریقے نے ہمیں لاکھوں ستاروں کا ڈیٹا فراہم کیا اور ہمیں یہ جاننے میں مدد دی کہ کس ستارے کے گرد زمین نما سیارے ہو سکتے ہیں۔

مزید پڑھیں: کیا ہم اگلی دہائی میں خلائی مخلوق کا سراغ پا لیں گے؟

خطے بعید ترین سیارے جیسے Sweeps‑11b سے لے کر ہمارے قریبی ستارے Proxima Centauri کے قریب سیارے تک کی دریافتیں ہمیں بتاتی ہیں کہ یہ کائنات کس حد تک متنوع ہے۔

لیکن سب سے بڑی تلاش باقی ہے۔ سچی زمین جیسا سیارہ۔ یہ وہ سیارہ ہوگا جو نہ صرف ہموار طور پر زمین کی طرح ہو بلکہ اس کا ستارہ بھی سورج جیسا ہو اور وہ مناسب فاصلے پر گردش کرے جہاں پانی مائع حالت میں رہ سکے۔ اگر ایسا سیارہ مل جائے تو یہ زندگی تلاش کرنے کا سب سے بہتر مقام ہوگا۔

فی الحال ریڈیل ویلاسٹی تکنیک سب سے موزوں طریقہ ہے جیسا کہ میئر اور کوئلوز نے پہلی دریافت کے لیے استعمال کیا تھا۔ 30 سال بعد دنیا بھر کی ٹیمیں  ہارپس تھری جیسے نئے آلات کی تیاری میں مصروف ہیں تاکہ آئندہ دہائیوں میں ہماری تلاش کو مزید گہرائی دی جا سکے۔

یہ بھی پڑھیے: اڑن طشتری والی مخلوق کا تعلق کس سیارے سے ہے، انوکھا نقطہ نظر

اور اگر ہم ’انیوک‘ نہ بھی ہوں یعنی اگر ہمارا نظام شمسی اور زمین ہی منفرد ہوں تب بھی یہ تلاش ہمارے کائناتی شعور کو وسعت دیتی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

51 پیگاسی زمین جیسا سیارہ نیا سیارہ

متعلقہ مضامین

  • ورلڈ پولو چیمپئن شپ کے پہلے میچ میں پاکستان کو شکست
  • ویمنز ورلڈکپ: ہیتھر نائٹ نے انگلینڈ کو بنگلادیش کیخلاف شکست سے بچالیا
  • مس یونیورس مقابلے میں پہلی بار شرکت، نادین ایوب فلسطین کی آواز بنیں گی
  • زمین جیسے سیارے کی تلاش ایک دلچسپ جدوجہد، سائنسدان پرامید
  • سعودی عرب اور پاکستان: تابناک ماضی تابندہ مستقبل
  • آئی سی سی ویمنز ورلڈکپ: بھارت کا پاکستان کو جیت کےلیے248رنز کا ہدف
  • آئی سی سی ویمنز ورلڈکپ: پاکستان کا ٹاس جیت کر انڈیا کیخلاف فیلڈنگ کا فیصلہ
  • ویمنز ورلڈکپ: پاکستان کی دعوت پر بھارت کی بیٹنگ جاری
  • ویمنز ورلڈکپ: پاکستان کا ٹاس جیت کر فیلڈنگ کا فیصلہ، بھارتی کپتان کا مصافحے سے انکار