اسلام آباد میں پانی کی صورتحال پر ہونے والے ایک اہم اجلاس کے دوران انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے تربیلا ڈیم سے اضافی پانی چھوڑنے کی واپڈا کی درخواست متفقہ طور پر مسترد کر دی۔

نجی اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق پانی کی سطح گزشتہ دس سال کی بلند ترین سطح پر پہنچنے اور قلت گزشتہ 33 سال کی کم ترین سطح پر ہونے کے بعد، انڈس ریور سسٹم اتھارٹی (ارسا) نے واپڈا کی درخواست کو متفقہ طور پر مسترد کر دیا کہ تربیلا کے ذخائر کا تقریباً نصف ایک ماہ کے اندر چھوڑ دیا جائے اور دو سرنگوں کے مکمل ہونے کی آخری تاریخ میں توسیع دی جائے۔

منگل کو ارسا ایڈوائزری کمیٹی (آئی اے سی) کے اجلاس میں ریگولیٹر نے ٹنل 5 (ٹی 5) اور ٹنل 4 لو لیول آؤٹ لیٹ (ٹی 4 ایل ایل او) میں تاخیر پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کیا اور اس معاملے کو وزارتِ آبی وسائل اور دفترِ وزیرِ اعظم تک پہنچانے کا فیصلہ کیا۔

ارسا کے چیئرمین صاحبزادہ محمد شبیر کی زیرِ صدارت اجلاس میں واپڈا کے وفد نے تجویز دی کہ تربیلا کے ریزروائر کو موجودہ بلند ترین سطح ایک ہزار 550 فٹ سے ایک ہزار 495 فٹ تک 10 نومبر تک کم کیا جائے اور اضافی تعمیراتی وقت کی درخواست کی، ایک سرنگ کے لیے آٹھ ماہ اور دوسری کے لیے ایک سال، دونوں سرنگوں کی معاہدے کی آخری تاریخیں پہلے ہی ختم ہو چکی تھیں، ایک تقریباً 33 ماہ سے اور دوسری تین سال سے۔

ارسا کے سندھ اور پنجاب کے ارکان نے اس تجویز کی سخت مخالفت کی، انہوں نے کہا کہ جب آبپاشی کی ضرورت نہیں ہے تو 28 لاکھ ایکڑ فٹ (ایم اے ایف) پانی سمندر میں خارج کرنا مناسب نہیں۔

کمیٹی نے دلیل دی کہ پاکستان کی زرعی پیداوار کو واپڈا کی تاخیر کی وجہ سے یرغمال نہیں بنایا جانا چاہیے اور خبردار کیا کہ اس قسم کے گہرے پانی کے اخراج سے ربیع کا موسم خطرے میں پڑ سکتا ہے اور خریف 2026 کے لیے کیری اوور کم ہو سکتا ہے۔

کمیٹی کے ارکان نے نوٹ کیا کہ ٹی 4، اس کا ایل ایل او اور ٹی 5 سالوں پہلے مکمل ہو جانا چاہیے تھا، انہوں نے واپڈا کی اضافی توسیع کی وجوہات پر سوال اٹھایا اور کہا کہ تاخیر جاری رہنے سے آبپاشی میں عملی مسائل پیدا ہوں گے، بعض اراکین نے تو تجویز دی کہ دونوں سرنگوں کو مکمل طور پر ترک کر دیا جائے۔

ذرائع کے مطابق واپڈا کی ٹیم نے پہلے ہی چار سے 36 ماہ تاخیر شدہ منصوبوں کو 8 سے 12 ماہ میں مکمل کرنے کا یقین دینے سے انکار کر دیا، کمیٹی نے اصرار کیا کہ پہلے سے مختص کم پانی کی مقدار اب مزید نہیں دی جا سکتی۔

ارسا نے کہا کہ یہ ایک نادر موقع ہے کہ ربیع کے موسم میں مکمل ذخائر کے ساتھ داخل ہوا جائے اور ابتدائی خریف کے لیے صحت مند کیری اوور برقرار رکھا جائے، آئی اے سی نے ربیع 26-2025 کے لیے متوقع پانی کی دستیابی کو بھی حتمی شکل دی اور پروجیکٹ کیے گئے رِم اسٹیشن ان فلو 22.

016 ایم اے ایف کی منظوری دی، اس نے مجموعی نظام کی کمی 8 فیصد کے طور پر قبول کی، جو ایک دہائی میں سب سے کم ہے اور 1993 کے بعد کے اوسط 18 فیصد سے کافی کم ہے۔

کمیٹی نے صوبائی نکاس کی 33.814 ایم اے ایف کی منظوری دی، جو 10 سالہ اوسط سے کافی زیادہ اور گزشتہ سال کے 28.870 اور 29.427 ایم اے ایف سے بھی زیادہ ہے۔

خریف 2025 کا جائزہ لیتے ہوئے آئی اے سی نے حقیقی ان فلو 122.364 ایم اے ایف نوٹ کیے، جو پروجیکٹ کے مقابلے میں 18 فیصد زیادہ، 10 سالہ اوسط سے 19 فیصد زیادہ اور پچھلے سال سے 14 فیصد زیادہ ہے۔

صوبوں نے 62.394 ایم اے ایف استعمال کیا، جب کہ مختص اور ریلیز 68.505، 78.427 اور 99.292 ایم اے ایف تھیں۔

کمیٹی کے مطابق کم استعمال کی وجہ غیر معمولی مون سون بارشیں اور وسیع سطح پر سیلاب تھے، خاص طور پر مغربی اور مشرقی دریاؤں میں۔

نتیجتاً، 30 ستمبر تک ذخائر تقریباً بھر گئے۔ کل ذخیرہ 13.214 ایم اے ایف تھا، یعنی زیادہ سے زیادہ صلاحیت کا 99 فیصد، ارسا دسمبر میں دوبارہ اجلاس کرنے کا منصوبہ رکھتا ہے تاکہ صورتحال کا دوبارہ جائزہ لیا جا سکے۔

ربیع کے موسم کے لیے منظور شدہ پانی کی تقسیم کے مطابق پنجاب کو 18.2 ایم اے ایف پانی ملے گا، جو پچھلے سال کے 15.5 ایم اے ایف سے زیادہ ہے، سندھ کو 13.7 ایم اے ایف دیا جائے گا، جو گزشتہ سال کے 12.1 ایم اے ایف سے زائد ہے۔ خیبر پختونخوا کو 0.7 ایم اے ایف، جب کہ بلوچستان کو 1.17 ایم اے ایف پانی ملے گا، جو دونوں صوبوں کے لیے پچھلے سال کے مقابلے میں معمولی اضافہ ہے۔

1991 کے واٹر اپورٹمنٹ ایکورڈ کے مطابق ربیع کے موسم کے لیے کل پانی کی ضرورت 37 سے 38 ایم اے ایف ہے، اس معاہدے کے تحت ارسا سال میں دو بار پانی کی دستیابی اور صوبوں کے حصے طے کرتا ہے، ایک بار خریف اور ایک بار ربیع کے لیے، ربیع کا موسم یکم اکتوبر سے 31 مارچ تک جاری رہتا ہے، جس میں گندم سب سے اہم فصل ہے، جب کہ دیگر فصلوں میں چنا، مسور، تمباکو، رپی سیڈ، جو اور رائی شامل ہیں۔

ذریعہ: Daily Mumtaz

کلیدی لفظ: کی درخواست ایم اے ایف کے مطابق واپڈا کی پانی کی ربیع کے کے لیے سال کے

پڑھیں:

کراچی: ضلع جنوبی میں غیرقانونی پورشنز اور اضافی فلورز کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد

— فائل فوٹو

کراچی کے ضلع جنوبی میں غیرقانونی پورشنز اور اضافی فلورز کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد کر دی گئی۔

ڈپٹی کمشنر (ڈی سی) ضلع جنوبی نے تمام سرکاری رجسٹرار اور بلڈرز کے لیے نوٹیفکیشن جاری کر دیا ہے۔

ڈپٹی کمشنر ساؤتھ کا کہنا ہے کہ لیاری، گارڈن، اولڈ سٹی اور کلفٹن میں غیرقانونی تعمیرات کی سرگرمیاں باعث تشویش ہیں۔ متعدد رئیل اسٹیٹ ایجنٹس غیرقانونی پورشنز بیچنے اور مارکیٹنگ میں ملوث ہیں۔

انہوں نے کہا کہ تمام رجسٹرارز کو حکم ہے کہ غیرقانونی فلورز اور پورشنز کی کوئی رجسٹری قبول نہ کریں۔ غیر قانونی پراپرٹیز کی رجسٹری یا سب لیز کرنے والے افسران کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔

ڈپٹی کمشنر نے یہ بھی کہا کہ ضلع ساؤتھ میں ناجائز تعمیرات کے خلاف وسیع پیمانے پر فوری کریک ڈاؤن شروع کیا جارہا ہے۔

متعلقہ مضامین

  • بھارتی اداکار رونیت رائے نے سوشل میڈیا چھوڑنے کا اعلان کر دیا
  • خاتون کی بریت کے بعد پولیس ریکارڈ مینجمنٹ سے ریکارڈ ڈیلیٹ کرنے کی استدعا مسترد
  • سندھ میں ملازمتوں پر تقرری کیلئے نیا طریقہ کار منظور
  • نیانظام؛سرکاری ملازمت کے امیدواروں کو تعلیمی قابلیت کے اضافی نمبر ملیں گے
  • پانی فراہم نہ کرنے کا معاملہ ‘ ڈائریکٹر لیگل واٹر اینڈ سیوریج کارپوریشن طلب
  • کراچی کی تیز بڑھتی آبادی عالمی میگا سٹیز کو پیچھے چھوڑنے لگی، اعزاز ملنے کے قریب
  • کراچی: ضلع جنوبی میں غیرقانونی پورشنز اور اضافی فلورز کی خرید و فروخت پر مکمل پابندی عائد
  • مشی خان والدین کو اولڈ ایج ہوم میں چھوڑنے والے بچوں پر برس پڑیں
  • ایشیائی ترقیاتی بینک کی سندھ میں ترقیاتی منصوبوں کیلئے اضافی فنڈز کی یقین دہانی
  • امریکا اور روس کا خفیہ امن منصوبہ: یوکرین سے علاقہ چھوڑنے اور فوج نصف کرنے کا مطالبہ