اسلام آباد(اردوپوائنٹ اخبارتازہ ترین-انٹرنیشنل پریس ایجنسی۔08 اکتوبر ۔2025 ) پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) میں بڑھتے اختلافات پر صدر مملکت آصف علی زرداری کے بعد وزیراعظم نے بھی نوٹس لے لیا ہے اور شہبازشریف نے پارٹی کے سینئر راہنماﺅں کو آج طلب کیا ہے نجی ٹی وی کے مطابق وزیراعظم میاں شہباز شریف نے وطن واپس پہنچتے ہی معاملے پر ابتدائی بریفنگ لی شہباز شریف نے مسلم لیگ (ن) کے سینئر راہنماﺅں کو آج طلب کرلیا .

(جاری ہے)

وفاقی کابینہ کے سینئر اراکین کا اجلاس وزیر اعظم ہاﺅس میں ہوگا، وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی بھی اجلاس میں شرکت کریں گے، محسن نقوی وزیراعظم سے علیحدہ ملاقات بھی کریں گے اور وزیر اعظم کو صدر آصف زرداری کا پیغام پہنچائیں گے (ن) لیگ کے سینئر رہنما وزیراعظم کو پیپلز پارٹی کے ساتھ کشیدگی ختم کرنے کی کوششوں سے آگاہ کریں گے جبکہ وزیراعظم کو پیپلز پارٹی کے مطالبات سے بھی آگاہ کیا جائے گا.

وزیراعظم کی طرف سے آج کے اجلاس کے بعد پیپلز پارٹی کی قیادت سے بھی رابطے کا امکان ہے، پیپلز پارٹی کو پنجاب حکومت کے وزرا کے بیانات پر تحفظات ہیں، پیپلز پارٹی نے وزیر اعلیٰ مریم نواز کی معافی کا مطالبہ کر رکھا ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) کی اکثریت اس مطالبے کو غیر ضروری قرار دے رہی ہے. واضح رہے کہ وزیرداخلہ محسن نقوی نے گزشتہ روز کراچی میں صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کی تھی جس میں ملک کی مجموعی سیاسی صورتحال اور خصوصاً سندھ اور پنجاب حکومت کے درمیان پائے جانے والے تناﺅ پر تفصیلی تبادلہ خیال کیا گیا تھا صدرِ مملکت نے وزیرداخلہ کو موجودہ سیاسی حالات میں کردار ادا کرنے کی ہدایت کی تھی جب کہ دونوں راہنماﺅں نے اتحادی جماعتوں کے درمیان رابطوں کو مزید موثر بنانے پر بھی اتفاق کیا تھا ذرائع نے بتایا تھا کہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان جاری مکالمے کی جنگ کو ختم کرنے کے لیے مذاکراتی ماحول پیدا کیا جا رہا ہے اس سے ایک روز قبل صدر مملکت آصف علی زرداری نے وفاقی وزیر داخلہ محسن نقوی سے ٹیلی فونک رابطہ کیا تھا جس میں سندھ اور پنجاب حکومتوں کے درمیان کشیدگی پر بات چیت کی گئی تھی. 

ذریعہ: UrduPoint

کلیدی لفظ: تلاش کیجئے پیپلز پارٹی محسن نقوی کے درمیان مسلم لیگ کے سینئر

پڑھیں:

بلوچستان میں تبدیلی کی ہوا، سرفراز بگٹی کتنے مضبوط ہیں؟

کوئٹہ میں یوں تو یخ بستہ ہواؤں کا راج ہے، لیکن گزشتہ روز سے سیاسی میدان کا درجہ حرارت بڑھتا جارہا ہے۔ صوبے کے سیاسی حلقوں میں یہ بحث شدت اختیار کر چکی ہے کہ آیا وزیراعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اپنی پوزیشن پر مضبوط ہیں یا اندرونی اختلافات ان کی کرسی کو متزلزل کر رہے ہیں۔

مختلف جماعتوں کے رہنماؤں کے بیانات نے صورتحال کو مزید دلچسپ بنا دیا ہے، تاہم حکمران اتحاد اور پاکستان پیپلز پارٹی کی صوبائی قیادت وزیراعلیٰ کے مکمل طور پر مضبوط ہونے کا دعویٰ کر رہی ہے۔

پیپلز پارٹی کا مؤقف، تبدیلی کی خبریں بے بنیاد

پاکستان پیپلز پارٹی کے بلوچستان اسمبلی میں پارلیمانی لیڈر و صوبائی وزیر میر محمد صادق عمرانی نے وزیراعلیٰ کی تبدیلی سے متعلق تمام خبروں کو من گھڑت قرار دیا۔

انہوں نے کہا کہ چند افراد کی ذاتی ناپسندیدگی کو بنیاد بنا کر وزیراعلیٰ تبدیل نہیں کیا جا سکتا۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کی تبدیلی کی خبریں غلط اور بے بنیاد ہیں۔ اگر چند لوگوں کو وزیراعلیٰ پسند نہیں تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ صوبے کی قیادت بدل دی جائے۔

پیپلز پارٹی منظم جماعت ہے، فیصلے ہمیشہ پارٹی فورمز اور قیادت کرتی ہے۔ بلوچستان کی حکومت میر سرفراز بگٹی کی قیادت میں عوام کی خدمت جاری رکھے گی۔

تحفظات موجود، مگر کوئی بحران نہیں: سردار عمر گورگیج

پارٹی کے اندر اختلافات کی خبروں پر پیپلز پارٹی بلوچستان کے صوبائی صدر اور سینیٹر سردار عمر گورگیج نے بھی مؤقف دیتے ہوئے واضح کیا کہ گھروں میں اختلافات ہوتے رہتے ہیں اور سیاسی جماعتیں بھی اسی فطرت کا حصہ ہیں۔

ان کے مطابق پارٹی کے 3 سے 4 ایم پی ایز کو کچھ تحفظات ضرور ہیں مگر یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ ناراض ساتھیوں کو جلد منالیں گے۔ وزیراعلیٰ کی تبدیلی کے حوالے سے مرکزی قیادت کی جانب سے کوئی اشارہ نہیں ملا۔

انہوں نے مزید کہا کہ وہ پارٹی کے اندرونی معاملات کے بارے میں وزیراعلیٰ سے خود ملاقات کریں گے اور صورتحال کو بہتر انداز میں حل کیا جائے گا۔

سیاسی ہلچل کی روایت، سینیئر تجزیہ کار کی رائے

سیاست میں تبدیلی کی افواہیں اچانک جنم لیتی ہیں، مگر بلوچستان میں یہ روایت کچھ زیادہ ہی مستحکم ہے۔ ہر کچھ عرصے بعد وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی بحث سیاسی محفلوں میں موضوعِ گفتگو بن جاتی ہے۔

اسی تناظر میں بلوچستان کے سینیئر صحافی و تجزیہ کار سید علی شاہ نے وی نیوز سے گفتگو میں دلچسپ تجزیہ پیش کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہر 3 یا 4 ماہ بعد بلوچستان میں وزیراعلیٰ کی تبدیلی کی بحث چھڑ جانا ایک عام بات بن چکی ہے۔ کبھی پیپلز پارٹی کے اندر اختلافات سامنے آ جاتے ہیں، کبھی کسی دوسری جماعت کا رہنماء بیان دے دیتا ہے۔

اس بار بات سینیٹر دوستین ڈومکی نے کی ہے، جو مسلم لیگ (ن) کے ہیں، اور سیاست میں ایسے بیانات ہمیشہ کسی نہ کسی پس منظر کے ساتھ سامنے آتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ بلوچستان میں تبدیلی کبھی بھی اچانک آ سکتی ہے، لیکن اس وقت کوئی حتمی بات کرنا قبل از وقت ہوگا۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے درمیان ڈیڑھ، ڈیڑھ سال کے فارمولے پر بھی بحث جاری ہے۔

نواب چنگیز مری اور سینیٹر دوستین ڈومکی نے حال ہی میں وزیراعظم شہباز شریف سے ملاقات بھی کی ہے، جس سے سیاسی حلقوں میں چہ مگوئیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔

وزیراعلیٰ کو اس وقت بھرپور حمایت حاصل ہے

مجموعی سیاسی فضا کو دیکھتے ہوئے یہ بات واضح ہے کہ حکومتی سطح پر وزیراعلیٰ میر سرفراز بگٹی کو اس وقت بھرپور حمایت حاصل ہے۔ نہ پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے کوئی بیان دیا، نہ ن لیگ کی جانب سے کوئی واضح اشارہ سامنے آیا ہے۔

اختلافات ضرور موجود ہیں، مگر بلوچستان کی سیاسی روایت میں یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

متعلقہ مضامین

  • ایوان بلوچستان میں وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی کے مخالف کون؟
  • کیا ایم کیو ایم مشرف دور حکومت سے زیادہ طاقت ور ہو گئی ہے؟
  • پیپلز پارٹی لاہور آفس کو 8لاکھ 74ہزار کا نوٹس جاری
  • ایم کیو ایم کے غبار ے سے ہوا نکل چکی ہے سینیٹر وقار مہدی
  • دوستین ڈومکی کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر مرکز سے بات کی ہے، سلیم کھوسہ
  • مخدوم امین فہیم کی برسی پر عام تعطیل کااعلان
  • دستین ڈومکی کے غیر ذمہ دارانہ بیان پر مرکز سے بات کی ہے، سلیم کھوسہ
  • پی آئی اے نجکاری، 4 پارٹیزنے کوالیفائی کرلیا، 75 فیصد شیئرز نیلام ہونگے
  • بلوچستان میں تبدیلی کی ہوا، سرفراز بگٹی کتنے مضبوط ہیں؟
  • دانش اسکول کا سلسلہ وادی نیلم تک بڑھائیں گے: وزیراعظم شہبازشریف