Express News:
2025-10-08@23:43:06 GMT

مذمت نہیں مرمت کا وقت ہے

اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT

اسرائیلی بربریت، مظلومین غزہ و فلسطین کی نسل کشی اور اقوام عالم خصوصاً مسلمان حکمرانوں کی بے حسی پر لکھ لکھ کر اہل قلم تھک چکے آج ٹرمپ کے 20 نکاتی ایجنڈے پر لکھنے کی کوشش کروں گا۔ پوری قوم کو گلوبل صمود فلوٹیلا کے اسیر شرکا اور خصوصاً مشتاق احمد خان کی رہائی مبارک ہو۔

اللہ رب العزت نے قرآن مجید فرقان حمید کی سورۃالمائدہ کی آیت نمبر51 میں قیامت تک آنے والے مسلمانوں کو خبردار کیا ہے کہ " اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو دوست نہ بناؤ وہ آپس میں ایک دوسرے کے دوست ہیں، اور جو کوئی تم میں سے ان کے ساتھ دوستی کرے تو وہ انھی میں سے ہے، اللہ ظالموں کو ہدایت نہیں کرتا"۔

اللہ رب العزت کی اس واضح اور دوٹوک تنبیہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو روئے زمین پر "شاد و آباد" 57 اسلامی ممالک اور ان کے بے حس حکمرانوں نے مسلم امہ کو مایوسی کے سوا کچھ نہیں دیا۔ سارے واشنگٹن کی دہلیز پر سجدہ ریز، سفید گھرمیں بیٹھے متکبر شخص کی جی حضوری کررہے ہیں۔

ایک چھوٹی سی ناجائز ریاست اسرائیل جو دولت مند اور طاقتور اسلامی ممالک کے قدرتی"محاصرے" میں ہے، نے امریکی سرپرستی میں صرف غزہ کا نہیں ہر مسلمان ملک کا "محاصرہ" کر رکھا ہے۔ مگر عالم اسلام کی واحد نمایندہ تنظیم او آئی سی کا کردار مایوس کن اور اقوام متحدہ امریکا کی لونڈی بنا ہوا ہے، جہاں اسرائیل کے خلاف اور اہل غزہ کے حق میں ہر آواز کو تو امریکا ویٹو کردیتا ہے۔ مگر تاریخ میں پہلی بار امریکی اور یورپی رائے عامہ اسرائیل کے خلاف ہوگئی ہے اور یہ حماس کے سرفروشوں کی قربانیوں کی وجہ سے ممکن ہوا مگر تبدیلی کی اس لہر کے اثرات جب تک حکومتوں کے اندر دکھائی نہیں دیں گے تب تک اسرائیلی بربریت نہیں رکے گی۔

مگر امریکا اور یورپ میں حکومتی سطح پر تبدیلی اس وقت آئے گی جب مسلم ممالک میں حکومتی سطح پر جاندار تبدیلی آئے گی۔ غزہ اور فلسطینی مظلومین کے مسائل کا واحد علاج امت مسلمہ کی وحدت کا علمبردار خالد بن ولید بریگیڈ ہے ورنہ اسرائیلی بربریت بڑھتی، مظلومین غزہ و فلسطین مرتے اور مسلم امہ کے حکمران خوار ہوتے رہیں گے۔

امریکی صدر جمی کارٹر نے کہا تھا کہ حماس ایک سیاسی اور عوامی تنظیم ہے۔ مگر آج امریکی صدر ان کو دہشت گرد جماعت کہتے ہیں۔ اگر اپنی سرزمین اور قوم کی حفاظت کے لیے لڑنا دہشت گردی ہے تو پھر تو ہر ملک کی حکمران پارٹی دہشت گرد کہلائے گی۔ ٹرمپ 20 نکاتی لاٹھی پر پوری دنیا بالخصوص اسلامی دنیا کو اس لاٹھی سے ہانک رہا ہے، پاک سعودی دفاعی معاہدے کے بعد مسلمہ امہ کے اتحاد کی آس پیدا ہوگئی تھی اور شاید ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ خطرہ بھانپتے ہوئے اسلامی ممالک کے سربراہان کو شرف ملاقات سے نواز کر حصہ بقدر جثہ کے مصداق ہر ایک کی تعریف کی اور احساس کمتری کے شکار مسلمان حکمران فوراً رام ہوگئے۔ جس پر ایک واقعہ یاد آیا کہ ایک پنڈ میں راجو نامی کمی (غریب اور ڈرپوک بندہ) روزانہ پنڈ کے چوہدری سے ڈانٹ کھاتا تھا۔

ایک دن چوہدری نے اپنے ڈیرے پر بلا کر کھانا کھلایا، چائے پلائی اور پھر گالیوں کی بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا کہ راجو آیندہ میں ماروں تو کسی کو مت بتانا۔ راجو بولا چوہدری صاحب اتنی خاطر مدارت کے بعد منہ کھولنا تو نمک حرامی ہوگی۔

باہر نکلا تو لوگوں نے پوچھا کہ راجو کیوں اتنے خوش ہو انھوں نے کہا کہ پر تکلف دعوت تو ایک طرف مگر آج پھر چوہدری نے بڑے پیار سے ’’گالیاں دی ہیں‘‘۔ گالیوں کی طویل فہرست (ٹرمپ 20 نکاتی ایجنڈا) ہاتھوں میں لیے جس طرح مسلمان حکمران خوش ہورہے ہیں مجھے تو لگتا ہے بین الاقوامی راجو کو بین الاقوامی چوہدری نے پر تکلف عشائیہ کے بعد پھر بڑے پیار سے گالیاں دے کر اپنے ڈیرے (وائٹ ہاؤس) سے رخصت کیا۔ اگر ایسا نہیں تو پھر اسرائیلی جارحیت کو مکمل تحفظ اور مظلومین غزہ کے خون کی توہین کرنے والے ٹرمپ کے 20 نکاتی سازشی منصوبے کو مسلمان حکمرانوں نے پڑھا ہی نہیں یا ایک بار پھر بڑے پیار سے گالیاں دے کر سب کے سافٹ ویئر اپڈیٹ کر دیے گئے۔

اگر ایسا نہیں اور واقعی مسلمان حکمران اسرائیلی بربریت کو روکنا چاہتے ہیں تو فوراً OIC کا اجلاس بلا کر 20 نکاتی منصوبے کے بجائے ایک مختصر مگر جامع ایسا منصوبہ پیش کریں جو مظلومین غزہ کو مکمل تحفظ ، اسرائیلی جارحیت و بربریت کو لگام ڈالے اور مکمل امن کا ضامن ہو۔

بنیادی شرائط میں فوراً جنگ بندی اور اسرائیل کا 1967 کے پوزیشن پر جانا ہو، معاہدے کو اقوام متحدہ کا مکمل جاندار تحفظ حاصل ہو۔ اسرائیل مظلومین غزہ کے ساتھ پوری مسلم امہ سے معافی مانگے اور آیندہ جارحیت نہ کرنے کا پابند بنائیں۔ اس معاہدے کی آخری شق یہ ہونی چاہیے کہ "غزہ و فلسطین سمیت کسی اسلامی ملک پر اسرائیلی جارحیت کو 57 اسلامی ممالک پر حملہ تصور کیا جائے گا اور پاکستانی انداز میں جواب دیا جائے گا"۔

معرکہ حق کے دوران پاکستان نے دندان شکن جواب دیا تو انڈیا کے چودہ طبق روشن ہوگئے اب مدتوں تک اپنے زخم چاٹنے پر ہی اکتفا کرے گا اور آیندہ جارحیت کی غلطی نہیں کرے گا۔ کیونکہ ان کو بتایا جاچکا ہے کہ اس بار تو صرف ٹریلر دکھایا گیا ہے اگلی بار بھارت کی سطح زمین پر گاؤماتا کو پوجنے والا کوئی نہیں بچے گا۔ معرکہ حق نے ثابت کر دیا کہ لاتوں کے بھوت باتوں سے نہیں مانتے، ہندوستان تو چند لاتوں سے مان گیا ہے اب اسرائیل پر بھی یہی فارمولا اپلائی کرنے کی ضرورت ہے۔

معرکہ حق کے دوران اسرائیلی ٹیکنالوجی کو ہم دیکھ چکے جب آمنے سامنے آئیں گے تو لگ پتا جائے گا۔ مگر اگر مسلمان حکمرانوں نے ٹرمپ کا ساتھ دیا تو اسرائیلی بربریت رکے گی اور نہ مظلومین غزہ سکھ کا سانس لے سکیں گے۔ کیونکہ عراق کی تباہی میں ٹونی بلیئر کے دوغلے کردار اور ٹرمپ منصوبے کے 20 نکات کو دیکھتے ہوئے لگتا ہے کہ یہ عراق کے اسٹائل پر غزہ پر قبضے کا منصوبہ ہے۔

یہ مظلومین غزہ و فلسطین کے لیے معاہدہ نہیں اسرائیل کے در پر سجدہ ریز ہونے کے لیے ٹرمپ کا حکم نامہ ہے۔ جس پر عمل درآمد مظلومین غزہ کو ہاتھ پاؤں سے باندھ کر اسرائیلی درندوں کے آگے ڈالنے کے مترادف ہوگا۔ اس سے بہتر ہے کہ مسلمان حکمران ان کو اسرائیلی میزائلوں اور ٹینکوں کے مقابلے میں غلیلوں سے لڑ کر مرنے دیں اور سرزمین انبیاء ومظلومین غزہ کو امریکی سائے میں اسرائیل کو فروخت کرنے سے اجتناب کریں ورنہ تاریخ معاف نہیں کرے گی۔

 ٹرمپ کی کھلی دھمکیوں اور مسلمان حکمرانوں کی مجرمانہ خاموشی کے نتیجے میں حماس نے بھی غزہ کے مظلوم عوام کو امن دینے کی خاطر ٹرمپ فارمولے پر رضا مندی کا اظہار کردیا ہے تادم تحریر اسرائیل اور حماس کے مابین مصر میں بلا واسطہ مذاکراتی عمل شروع ہونے جارہا ہے۔ لیکن اسرائیل لاتوں کا بھوت ہے یہ مذاکرات کا نہیں اسرائیل کی مرمت کا وقت ہے مگر اس کے لیے پوری امت مسلمہ کو تھوڑا سا حوصلہ کرنا ہوگا۔ ابتدا میں سورۃ المائدہ کے مذکورہ قرآنی آیت کے تناظر میں مجھے ٹرمپ اور نیتن یاہو کی نیتوں پر پورا شک نہیں یقین ہے۔ اگر وہ امن چاہتے تو اس دوران چالیس ممالک کے گلوبل صمود فلوٹیلا پر صیہونی فوج کا حملہ کیوں ہوا؟

 قافلے میں شریک 40 سے زیادہ ممالک سے تعلق رکھنے والے ہر رنگ ونسل اور مذہب کے ان عظیم انسانوں کو گرفتار اور انسانیت سوز مظالم کیوں کیے؟

اگر معاہدہ ہونا ہوتا تو اسرائیل نے ایک فلسطینی شہید کے جسد خاکی میں ریموٹ کنٹرول بم رکھ کر حوالے کیوں کیا؟ اس شہید کے نماز جنازہ کے جلوس میں شہید کے جسم کے اندر بم دھماکا کیا گیا اور کئی فلسطینی شہید اور زخمی ہوئے۔ اس قسم کی بربریت اور سفاکی کی شاید تاریخ میں کوئی مثال موجود ہو۔ یہ کس قسم کا معاہدہ ہے جس کے مذاکرات کے دوران یہ سب کچھ ہو رہا ہے؟

امت مسلمہ کے حکمرانوں سے ایک بار پھر کہوں گا یہ اسرائیل کی مذمت کا نہیں مرمت کا وقت ہے اگر آپ لوگوں نے اسرائیل کی مرمت نہیں کی تو اپنی اپنی مرمت کے لیے تیار رہیں۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: اسرائیلی بربریت اسلامی ممالک غزہ و فلسطین مظلومین غزہ کے لیے غزہ کے

پڑھیں:

اسرائیلی حکام اور یہودی آباد کاروں کا مسجد اقصیٰ میں داخلہ، سعودی عرب کی شدید مذمت

سعودی عرب نے اسرائیلی حکام اور یہودی آبادکاروں کی جانب سے مسجد اقصیٰ کے صحنوں میں گھسنے کے واقعے کی شدید مذمت کی ہے۔

سعودی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ یہ کارروائیاں اسرائیلی قبضے کے فوجی تحفظ میں کی گئیں، جو اسلام کے مقدس ترین مقامات میں سے ایک کی حرمت کی سنگین خلاف ورزی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسجد اقصی پر اسرائیلی حملے کے دوران پہنچایا گیا نقصان تصاویر میں

بدھ کے روز جاری بیان میں سعودی وزارتِ خارجہ نے کہا کہ مملکت مسجد اقصیٰ کی حرمت پر مسلسل حملوں کی شدید ترین الفاظ میں مذمت کرتی ہے۔ بیان میں کہا گیا کہ سعودی عرب ہر اس اقدام کو مسترد کرتا ہے جو القدس اور اس کے مقدس مقامات کے تاریخی و قانونی درجے کو نقصان پہنچائے۔

سعودی وزارت نے عالمی برادری سے مطالبہ کیا کہ وہ اسرائیلی قابض حکام کو اسلامی مقدس مقامات کی توہین اور فلسطینی شہریوں پر مسلسل مظالم پر جوابدہ ٹھہرائے۔

رپورٹس کے مطابق اسرائیل کے انتہا پسند وزیر برائے قومی سلامتی ایتامار بن گویر نے بدھ کو مسجد اقصیٰ کے احاطے کا دورہ کیا اور ایک ویڈیو میں کہا کہ 7 اکتوبر 2023 کے حملے کے 2 سال بعد اسرائیل یہاں جیت رہا ہے اور یہودی قوم ہی اس مقام کی مالک ہے۔

یہ بھی پڑھیں: مسجد اقصیٰ میں اسرائیلی اشتعال انگیزیاں اور اسکول تباہ کرنے پر پاکستان کی شدید مذمت

بن گویر نے وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو سے مطالبہ کیا کہ وہ غزہ میں مکمل فتح حاصل کریں اور حماس کو مکمل طور پر تباہ کریں۔ وہ پہلے بھی مسجد اقصیٰ کے اسٹیٹس کو کو چیلنج کرنے کے بیانات دے چکے ہیں، جس کے تحت مسلمانوں کو عبادت اور یہودیوں کو صرف وزٹ کی اجازت ہے.

سعودی عرب کا کہنا ہے کہ اس طرح کے اقدامات پورے خطے میں اشتعال اور کشیدگی میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں اور عالمی امن کے لیے خطرہ ہیں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

wenews اسرائیل بیت المقدس سعودی عرب فلسطین مذمت مسجد اقصی یہودی آباد کار

متعلقہ مضامین

  • دو ریاستی حل یا صرف فلسطینی ریاست؟
  • ٹرمپ، نیتن یاہو اور مسلم دنیا
  • اسرائیلی حکام اور یہودی آباد کاروں کا مسجد اقصیٰ میں داخلہ، سعودی عرب کی شدید مذمت
  • اسرائیل پر اعتبار نہیں، حماس ، مذاکرات کیلئے ٹرمپ سے ضمانت مانگ لی
  • صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی کوششوں کو سراہتے ہیں لیکن اسرائیل نے نسل کشی نہیں روکی، حماس
  • طوفان الاقصیٰ کے دو سال، حافظ نعیم الرحمن کی اپیل پر کراچی بھر میں مظاہرے، امریکہ و اسرائیل کی مذمت
  • ٹرمپ کا امن منصوبہ یا دفاعِ اسرائیل روڈ میپ؟
  • زنجیر غلامی نامنظور!
  • مصر: اسرائیل اور حماس کے درمیان ممکنہ جنگ بندی مذاکرات، قیدیوں کے تبادلے پر بات چیت متوقع