بھگوڑے عادل راجہ کا جھوٹ آخر کار بے نقاب، برطانوی عدالت نے آئی ایس آئی کو کلین چٹ دیدی
اشاعت کی تاریخ: 9th, October 2025 GMT
لندن (نیوز ڈیسک)لندن ہائیکورٹ نے ایک اہم مقدمے میں بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے خلاف یوٹیوبر اور بھگوڑے عادل راجہ کے تمام الزامات کو جھوٹا، بے بنیاد اور بدنیتی پر مبنی قرار دیتے ہوئے 50,000 پاؤنڈ (تقریباً دو کروڑ پاکستانی روپے) ہرجانے کی ادائیگی کا حکم سنا دیا۔
عدالت کا دوٹوک فیصلہ
عدالت نے اپنے تحریری فیصلے میں کہا کہ عادل راجہ نے دانستہ طور پر جھوٹے الزامات لگا کر ایک معصوم شخص کی ساکھ کو نقصان پہنچایا۔ عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ “پبلک انٹرسٹ میں جھوٹ بولنا نہیں، بلکہ سچ بولنا ضروری ہے”۔ جج نے عادل راجہ کو مستقبل میں بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کے خلاف وہی پرانے الزامات دہرانے سے بھی سختی سے روک دیا ہے۔
مقدمے کی تفصیلات
یہ مقدمہ جون 2022 میں اس وقت دائر کیا گیا جب عادل راجہ نے سوشل میڈیا اور مختلف ویڈیوز میں بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر پر سنگین نوعیت کے الزامات عائد کیے۔ ان الزامات میں آئی ایس آئی اور مرحوم صحافی ارشد شریف کے قتل سے جوڑنے کی کوشش بھی شامل تھی۔
عدالت میں ان تمام الزامات کی مکمل جانچ پڑتال کے بعد جج نے واضح طور پر کہا کہ عادل راجہ کوئی بھی ٹھوس ثبوت پیش نہ کر سکے اور ان کی تمام باتیں جھوٹ اور قیاس آرائیوں پر مبنی تھیں۔
جج کے اہم ریمارکس
فیصلے کے دوران جج نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ راشد نصیر نے صرف 50,000 پاؤنڈ ہرجانے کا مطالبہ کیوں کیا، جبکہ ان پر لگنے والے الزامات اتنے سنگین تھے کہ وہ اس سے کہیں زیادہ ہرجانے کے حق دار تھے۔ عدالت نے بعد ازاں ازخود فیصلہ کرتے ہوئے 350,000 پاؤنڈ کی خطیر رقم بطور ہرجانہ مقرر کی۔
شہزاد اکبر کا بیان مسترد
مقدمے میں شہزاد اکبر کا دیا گیا بیان بھی عدالت میں پیش کیا گیا، تاہم جج نے اس بیان کو ناقابلِ اعتبار قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا۔
آئی ایس آئی کو کلین چٹ
عدالت نے یہ بھی قرار دیا کہ عادل راجہ کی جانب سے انٹر سروسز انٹیلیجنس (آئی ایس آئی) پر لگائے گئے الزامات بھی بے بنیاد تھے، کیونکہ ان کا کوئی ثبوت فراہم نہیں کیا گیا۔ اس فیصلے کو پاکستان کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی کے مؤقف کی توثیق کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔
یہ فیصلہ نہ صرف بریگیڈیئر (ر) راشد نصیر کی شخصی بحالیِ عزت کا باعث بنا ہے بلکہ یہ سوشل میڈیا پر جھوٹے پراپیگنڈے، کردار کشی اور جعلی بیانیوں کے خلاف ایک مضبوط عدالتی نظیر بھی ہے۔ ماہرین کے مطابق، اس فیصلے کے اثرات مستقبل میں ایسے تمام کیسز پر مرتب ہوں گے جہاں بغیر ثبوت سوشل میڈیا کو بطور ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔
پس منظر
عادل راجہ پاکستان کے سابق فوجی افسر ہیں جو حالیہ برسوں میں خود ساختہ جلاوطنی کے بعد لندن میں مقیم ہو گئے اور وہاں سے سوشل میڈیا پر پاکستانی اداروں اور شخصیات کے خلاف بیانات دیتے رہے۔ یہ مقدمہ ان کے ان بیانات کے خلاف پہلا بڑا عدالتی فیصلہ ہے جو عالمی سطح پر بھی قابلِ توجہ ہے۔
ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: آئی ایس آئی سوشل میڈیا عدالت نے کے خلاف
پڑھیں:
توہین رسالت کیس میں لاہور ہائی کورٹ نے 4 مجرموں کی پھانسی کالعدم قرار دیدی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
لاہور ہائی کورٹ کے راولپنڈی ڈویژن بینچ نے توہین رسالت کے زیر سماعت مقدمے میں اہم فیصلہ سناتے ہوئے 4 ملزمان کی سزائے موت کالعدم قرار دے دی۔
عدالت نے فیصلے میں واضح کیا کہ مقدمے کی بنیاد بننے والے شواہد نہ صرف نامکمل تھے بلکہ وہ ضروری قانونی تقاضوں پر بھی پورا نہیں اترتے تھے، جس کے باعث سزا برقرار رکھنا ممکن نہیں رہا۔ فیصلے کے مطابق فیضان رزاق، عثمان لیاقت، وزیر گل اور امین رئیس اب کسی دیگر مقدمے میں مطلوب نہ ہونے کی صورت میں اڈیالہ جیل سے رہا کیے جائیں گے۔
عدالتی ریکارڈ کے مطابق یہ مقدمہ 2023ء میں اُس وقت منظر عام پر آیا تھا جب ایف آئی اے سائبر کرائم ونگ نے چاروں نوجوانوں کے خلاف مقدس شخصیات کی توہین پر مبنی مواد سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کا الزام لگاتے ہوئے مقدمہ درج کیا۔
اس کے بعد ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج راولپنڈی نے ٹرائل مکمل ہونے پر ملزمان کو سزائے موت اور فی کس ایک لاکھ روپے جرمانے کی سزا سنادی تھی۔
ہائی کورٹ کے فیصلے میں مرکزی نکتہ یہی تھا کہ استغاثہ موبائل فونز کی ملکیت، ان کے فرانزک تجزیے اور مبینہ مواد کے حقیقی ماخذ کے ثبوت دینے میں ناکام رہا۔ عدالت نے کہا کہ جب تک یہ ثابت نہ ہوجائے کہ یہ فون واقعی ملزمان کے استعمال میں تھے اور ان سے ہی وہ مواد اپ لوڈ ہوا، اس وقت تک کسی شخص پر جرم ثابت کرنا انصاف کے بنیادی اصولوں کے خلاف ہے۔
عدالت نے اپنے فیصلے میں یہ بھی لکھا کہ ایسے حساس مقدمات میں شفاف تفتیش، معیاری شواہد اور تکنیکی پہلوؤں کی درست جانچ نہایت ضروری ہے۔ محض الزام، شک یا نامکمل ڈیجیٹل ریکارڈ کسی شخص کو موت کی سزا دینے کے لیے کافی نہیں ہوسکتا۔
عدالتی حکم کے مطابق ملزمان اگر کسی دیگر کیس میں مطلوب نہیں ہیں تو انہیں فوری طور پر جیل سے رہا کردیا جائے۔