طالبان وزیر خارجہ کا بھارت میں پورے سفارتی آداب کیساتھ استقبال
اشاعت کی تاریخ: 10th, October 2025 GMT
خبر رساں ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ امیر خان متقی اپنے دورے کے دوران دارالعلوم دیوبند جو کہ ہندوستان کے سب سے باوقار مذہبی مراکز میں سے ایک ہے اور تاج محل بھی جائیں گے۔ اسلام ٹائمز۔ بھارتی اخبار نے طالبان عبوری حکومت کے وزیر خارجہ کے نئی دہلی کے سرکاری دورے کے حوالے سے خبر دی ہے کہ طالبان وزیر خارجہ کا مکمل سفارتی رسم و آداب کے ساتھ استقبال کیا گیا۔ ہندوستان ٹائمز کے مطابق طالبان حکومت کے وزیر خارجہ امیر خان متقی ایک ہفتے کے سرکاری دورے پر نئی دہلی پہنچے ہیں۔ یہ دورہ، جس کی خصوصی علامتی اور سفارتی اہمیت ہے، طالبان حکومت کے ساتھ ہندوستان کے تعلقات میں ایک نئے قدم کی نشاندہی کرتا ہے۔
بھارتی حکومتی ذرائع کا کہنا ہے کہ طالبان کے وزیر خارجہ کے لیے وزیر خارجہ کی سطح پر معمول کی تمام سفارتی کارروائیاں انجام دی گئیں، ان میں باضابطہ استقبال، خصوصی سفارتی مہمان خانے میں رہائش اور سینئر ہندوستانی عہدیداروں سے ملاقاتیں شامل تھیں۔ طالبان کے وزیر خارجہ نئی دہلی میں اپنے قیام کے دوران ہندوستانی وزیر خارجہ ایس جے شنکر اور قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کے ساتھ دو طرفہ تعلقات، تجارتی تعاون اور علاقائی سلامتی کے امور پر وسیع بات چیت کرنے والے ہیں۔
خبر رساں ذرائع نے یہ بھی بتایا ہے کہ امیر خان متقی اپنے دورے کے دوران دارالعلوم دیوبند جو کہ ہندوستان کے سب سے باوقار مذہبی مراکز میں سے ایک ہے اور تاج محل بھی جائیں گے۔ اس رپورٹ کے مطابق حکومتی حکام سے ملاقات کے علاوہ بھارتی وزیر خارجہ بھارتی تاجروں کے ایک گروپ اور بھارت میں مقیم افغان کمیونٹی کے ارکان سے بھی ملاقات کریں گے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ متقی کا دورہ سرکاری رابطوں میں چار سال کے وقفے کے بعد علاقائی تعلقات کو نئے سرے سے متعین کرنے کی باہمی خواہش کا مظہر ہے۔
بھارت نے کابل کے سقوط کے بعد 2021 میں اپنا سفارت خانہ بند کر دیا تھا اور صرف ایک سال بعد افغانستان میں انسانی امداد کو مربوط کرنے کے لیے ایک محدود تکنیکی مشن کا آغاز کیا۔ طالبان کی واپسی سے پہلے، ہندوستان افغانستان کے سب سے بڑے مالی اور ترقیاتی عطیہ دہندگان میں سے ایک تھا، جس نے ملک کے بنیادی ڈھانچے، تعلیم اور ترقیاتی منصوبوں میں $3 بلین سے زیادہ کی سرمایہ کاری کر رکھی تھی۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: کے وزیر خارجہ
پڑھیں:
آج کسی وقت غزہ جنگ بندی کا اعلان کیا جا سکتا ہے، ترک وزیر خارجہ
اپنے شامی ہم منصب کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں ترک وزیر خارجہ کا کہنا تھا کہ امن مذاکرات میں دونوں فریقوں نے فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کیلئے غیر معمولی سنجیدگی اور عزم کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ امن مذاکرات میں قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی افواج کے انخلا کی حدود اور شرائط، غزہ میں امداد کی فراہمی اور ممکنہ جنگ بندی کے اصول و ضوابط پر بات کی گئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ ترک وزیرِ خارجہ حاکان فیدان نے کہا ہے کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان اتفاقِ رائے آج ممکن ہے، اگر ایسا ہو جاتا ہے تو شام تک غزہ میں جنگ بندی کا اعلان کیا جا سکتا ہے۔ ترک خبررساں ادارے کے مطابق وزیر خارجہ حاکان فیدان نے اس بات کا امکان ایک پریس کانفرنس میں شامی ہم منصب کے ساتھ میڈیا سے گفتگو میں ظاہر کیا۔ ترک وزیرِ خارجہ ان دنوں شام کے سرکاری دورے پر ہیں۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ مصر میں جاری امن مذاکرات میں دونوں فریقوں نے فلسطینی اور اسرائیلی قیدیوں کی رہائی کے لیے غیر معمولی سنجیدگی اور عزم کا اظہار کیا ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ امن مذاکرات میں قیدیوں کی رہائی، اسرائیلی افواج کے انخلا کی حدود اور شرائط، غزہ میں امداد کی فراہمی اور ممکنہ جنگ بندی کے اصول و ضوابط پر بات کی گئی ہے۔
ترک وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ان نکات پر "اب تک نمایاں پیش رفت" ہوئی ہے اور امید ہے کہ جلد کسی حتمی نتیجے پر پہنچا جائے گا۔ ادھر ترک صدر کا کہنا ہے کہ جنگ بندی کے لیے ساری شرائط حماس پر لادنا درست نہیں، اسرائیل کو بھی غزہ پر بمباری بند کرنا ہوگی۔ صدر طیب اردوان نے مزید بتایا کہ حماس نے امن مذاکرات کے لیے مثبت رویہ اپنایا ہے، جسے میں ایک نہایت اہم قدم سمجھتا ہوں، حماس اس معاملے میں اسرائیل سے آگے ہے۔ واضح رہے کہ صدر ٹرمپ کے غزہ امن منصوبے پر حماس اور اسرائیل کے درمیان مذاکرات آج تیسرے دن میں داخل ہوگئے ہیں۔