سرحدیں بدل سکتی ہیں اور کل سندھ ہندوستان کو واپس مل سکتا ہے، راجناتھ سنگھ
اشاعت کی تاریخ: 24th, November 2025 GMT
بھارتی وزیر دفاع نے کہا کہ تقسیم کے بعد دریائے سندھ کا ایک بڑا حصہ پاکستانی حصے میں چلا گیا اور پورا صوبہ سندھ پاکستان میں ہے لیکن اسکا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے لئے سندھو، سندھ اور سندھی کی اہمیت کم ہوگئی ہے۔ اسلام ٹائمز۔ تقسیم کے باوجود بھارت کے ساتھ سندھ کے تہذیبی روابط پر بی جے پی کے سرپرست ایل کے ایڈوانی کے الفاظ کو یاد کرتے ہوئے وزیر دفاع راجناتھ سنگھ نے کہا کہ "سرحدیں بدل سکتی ہیں" اور "کل سندھ ہندوستان کو واپس مل سکتا ہے"۔ یہاں سندھی کمیونٹی کی طرف سے منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اڈوانی جی نے اپنی ایک کتاب میں لکھا کہ سندھی ہندو، خاص طور پر ان کی نسل کے لوگوں نے سندھ کی بھارت سے علیحدگی کو ابھی تک قبول نہیں کیا"۔ 1947ء میں غیر منقسم ہندوستان کی تقسیم کے نتیجے میں پاکستان وجود میں آیا اور دریائے سندھ کے قریب واقع سندھ کا علاقہ اسی وقت سے پاکستان کا حصہ ہے۔
راجناتھ سنگھ نے اپنی تقریر میں کہا کہ صرف سندھ میں ہی نہیں، بلکہ پورے بھارت کے ہندو دریائے سندھ (ہندی میں سندھو) کو مقدس سمجھتے تھے۔ سندھ کے بہت سے مسلمانوں کا بھی یہ ماننا تھا کہ دریائے سندھ کا پانی مکہ کے آب زم زم (پانیوں میں سے مقدس ترین) سے کم مقدس نہیں ہے، یہ اڈوانی جی کا اقتباس ہے۔ انہوں نے کہا کہ آج سندھ کی سرزمین بھلے ہی بھارت کا حصہ نہ ہو، لیکن تہذیبی طور پر سندھ ہمیشہ بھارت کا حصہ رہے گا اور جہاں تک زمین کا تعلق ہے، سرحدیں بدل سکتی ہیں، کون جانتا ہے، کل سندھ ہندوستان کو واپس مل جائے۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے سندھ کے لوگ، جو دریائے سندھ کو مقدس سمجھتے ہیں، ہمیشہ ہمارے ہی رہیں گے، چاہے وہ کہیں بھی ہوں، وہ ہمیشہ ہمارے ہی رہیں گے۔
راجناتھ سنگھ نے تاہم اس کتاب کے عنوان کا ذکر نہیں کیا جس کا وہ حوالہ دے رہے تھے۔ 2017ء میں اڈوانی، جو نائب وزیر اعظم کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں، نے دہلی میں ایک تقریب میں کہا تھا، میرا ماننا ہے کہ بھارت سندھ کے بغیر ادھورا لگتا ہے۔ اڈوانی جو آٹھ نومبر 1927ء کو صوبہ سندھ (جو اب پاکستان کا حصہ ہے) کے دارالحکومت کراچی میں پیدا ہوئے تھے، نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کا جائے پیدائش اب بھارت کا حصہ نہیں رہا۔ راج ناتھ سنگھ نے کہا کہ تقسیم کے بعد دریائے سندھ کا ایک بڑا حصہ پاکستانی حصے میں چلا گیا اور پورا صوبہ سندھ پاکستان میں ہے، لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ ہمارے لئے سندھو، سندھ اور سندھی کی اہمیت کم ہوگئی ہے، یہ اب بھی وہی اہمیت رکھتی ہے جو ہزاروں سال پہلے تھی۔ انہوں نے کہا کہ سندھ کا لفظ ہندوستان کی ثقافتی شناخت اور سندھی برادری سے جڑا ہوا ہے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: انہوں نے کہا کہ راجناتھ سنگھ دریائے سندھ تقسیم کے سندھ کا سندھ کے سنگھ نے کا حصہ
پڑھیں:
پاکستان، چین اور امریکا ایک مثلث
ایک انگریزی کہاوت ہے کہ ’’ عمل کی آواز الفاظ کی جھنکار سے زیادہ ہوتی ہے۔‘‘ اب اگر اس کہاوت کو سامنے رکھ کر پاکستان اور چین کی دوستی کو بیان کیا جائے کہ یہ دوستی ’’ ہمالیہ سے اونچی، سمندر سے گہری اور شہد سے میٹھی ہے‘‘ لیکن اس کے ساتھ اگر عمل یا کارروائی کو دیکھا جائے تو انگریزی کہاوت پر یقین آجاتا ہے۔
دنیا اس وقت نہایت تیزی سے ایک تبدیلی کے عمل سے گزر رہی ہے۔ پرانی دوستیاں ٹوٹ رہی ہے اور نئے رشتے استوار کیے جا رہے ہیں۔
پاکستان اور عرب دنیا کی اسرائیل کی جانب بالواسطہ یا بلاواسطہ جو موجودہ حکمت عملی ہے، آج سے صرف چند سال پہلے تک اس کا تصور بھی محال تھا۔
بنگلہ دیش میں حسینہ واجد کو سزائے موت، یہ حسینہ واجد اور بھارت کے لیے یکساں پیغام ہے اور تو اور نیپال نے بھی بھارتی کیمپ سے نکلنے کے لیے کمر کس لی ہے۔
بدقسمتی سے تاریخ کے اس اہم موڑ پر پاکستان ابہام کا شکار نظر آتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ چین اور روس اس بات پر متفق ہے کہ اب امریکا کو ایشیا سے نکلنا ہوگا۔
امریکا ویسے بھی ایک بجھتا ہوا چراغ ہے اور وہ اس وقت اپنے سپر پاور رہنے کی بقا کی جنگ لڑ رہا ہے اور ہمارے خطے میں اس وقت اس کے اتحادی عرب ممالک اور پاکستان ہیں۔
عرب ممالک کو خوف ہے کہ اگر انھوں نے امریکا کا ساتھ نہ دیا، تو ان کی بادشاہت ختم کردی جائے گی۔ اس تناظر میں آپ عرب ممالک کی امریکا میں سرمایہ کاری کے اعلانات کو دیکھیں تو ساری بات سمجھ میں آتی ہے۔
یہ خطرہ صرف بادشاہت کو ہی نہیں بلکہ کچھ ایسا ہی خوف جمہوری حکومتوں کو بھی ہوتا ہے کہ جس میں ہم بھی نہ صرف شامل ہیں بلکہ اس کا تجربہ بھی رکھتے ہیں۔
دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا دو سپر پاور کے درمیان تقسیم ہوگئی تھی، ایک امریکا اور دوسرا سوویت یونین۔
1962 کی ہندوستان اور چین کی جنگ کے بعد چین نے خود کو سوویت یونین کے بعد ایشیا کی دوسری بڑی عسکری قوت کے طور پر تسلیم کروایا تھا لیکن ہندوستان یہ ماننے کو تیار نہیں، کیونکہ اس خطے کا ایک ہی ’’چوہدری‘‘ ہوسکتا ہے اور وہ ہندوستان بننا چاہتا ہے۔
سوویت یونین اپنی پے در پے حماقتوں اور سازشوں کے نتیجے میں ٹوٹ گیا اور چین کے لیے میدان کھل گیا۔ آج چین ہر زاویے سے امریکا کے علاوہ دنیا کی دوسری سپر پاور ہے کہ جس کو روس نے بھی قبول کر لیا ہے اور اسی لیے اب چین امریکا کے لیے براہ راست خطرہ ہے۔
اب یہاں سے ہندوستان کے کردار کا آغاز ہوتا ہے۔ امریکا چین کو ہندوستان کے ذریعے قابو میں رکھنا چاہتا ہے اور ان کے درمیان براہ راست تصادم اس کی دیرینہ ترجیح ہے۔ اس کی اس خواہش کے درمیان پاکستان رکاوٹ ہے۔
سب کو پتہ ہے کہ پاکستان چین کی پہلی دفاعی لکیر ہے، اس لیے چین پاکستان کے دفاع سے غافل ہونے کا متحمل نہیں ہوسکتا ہے۔ ہم نے اس صورتحال میں چین کے ساتھ یارانہ اور امریکا کے ساتھ بھی دوستانہ حکمت عملی اختیار کی ہوئی ہے جو نقصان دہ ہوسکتی ہے۔
ویسے بھی دو کشتیوں کے سوار کے لیے درسی کتابوں میں کچھ اچھا نہیں لکھا ہوا ہے۔ ہمیں یہ ماننا اور سمجھنا ہوگا کہ حقیقی جنگ امریکا اور چین کے درمیان ہے اور اس میں ہم دونوں کے حلیف نہیں ہوسکتے۔
ہماری اس حکمت عملی سے کبھی کبھی چین کی جانب سے دبے الفاظ میں تشویش کا اظہار بھی کیا جاتا ہے اور ایسا محسوس ہورہا ہے کہ چین نے متبادل حکمت عملی پر کام بھی شروع کردیا ہے۔
بنگلہ دیش اور نیپال میں تبدیلی اسی عالمی بلواسطہ جنگ کا حصہ ہے کہ جس میں اگر ضرورت پڑی تو آگے چل کر ہندوستان کی شمال مشرقی ریاستوں کو بھی شامل کیا جاسکتا ہے کہ جن کو سات بہنیں ان کی جغرافیائی قربت کی وجہ سے کہتے ہیں۔
افغانستان نے ایک وقت میں چین کے کہنے پر پاکستان سے مفاہمت کا آغاز کیا تھا جو آج بری طرح مجروح ہوگیا ہے اور ہم افغانستان کے ساتھ قریب قریب جنگ کے دہانے پر کھڑے ہیں۔
امریکا کی حکمت عملی دنیا پر اپنی اجارہ داری قائم رکھنے کے لیے چین مخالف ہی رہے گی اور اس لیے ہندوستان امریکا کی ضرورت ہی نہیں بلکہ مجبوری ہے اور اسی مجبوری نے پچھلے دروازے کی سفارت کاری کے ذریعے ان کے تعلقات بہتر کیے ہیں۔
ہندوستان نے سمجھ لیا ہے کہ چینی اسلحے کا مقابلہ صرف امریکی اسلحے سے ہی کیا جاسکتا ہے اور روس اس میدان میں بہت پیچھے رہ گیا ہے۔ یورپ نقد مانگتا ہے کیونکہ اس کا چین سے براہ راست کوئی تصادم نہیں ہے۔ اس صورتحال میں ایک امریکا ہی بچتا ہے جو اس پر سرمایہ کاری کرے گا کیونکہ اس میں اس کا بھی مفاد ہے۔
ہندوستان امریکا سے F35 اسٹیلتھ جہاز اور دیگر جدید جنگی ساز و سامان اور سیٹلائیٹ ٹیکنالوجی لینا چاہتا ہے۔ پاکستان کو اس وقت اعلیٰ درجے کی سفارت کاری اور مدبر قیادت کی ضرورت ہے۔ دنیا ہم سے اپنی غلاظت صاف کروانا چاہتی ہے اور ماضی میں بھی دوسروں کی جنگیں لڑنے میں ہمارا کردار کوئی قابل ستائش نہیں رہا ہے۔
اس لیے ان حالات میں بہت ضروری ہے کہ یہ دیکھا جائے کہ آنے والے دنوں میں پاکستان اپنے کارڈز کیسے کھیلے گا؟ ہر چند کہ یہ تو وقت ہی بتائے گا لیکن اس وقت ہمیں بیرونی دشمنوں کے ساتھ ساتھ اپنی صفوں میں بھی کالی بھیڑوں پر نظر رکھنے کی ضرورت ہے۔
آنے والا وقت غیر یقینی ہی نہیں، بلکہ مشکل بھی ہوگا اور اس مثلث میں ہم کیا کردار ادا کرتے ہیں وہ ہمارے مستقبل کا تعین کرے گا۔ اللہ اس مشکل وقت میں پاکستان کا حامی و ناصر ہوں۔