مودی کے ریاستی جبر نے لداخ کے عوام کو بغاوت پر مجبور کر دیا
اشاعت کی تاریخ: 16th, October 2025 GMT
نئی دہلی: بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے آمرانہ اقدامات اور ریاستی جبر کے خلاف لداخ کے عوام ایک بار پھر سڑکوں پر نکلنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
بھارتی جریدے ’دی وائر‘ کے مطابق، ایپکس باڈی لیہہ اور کارگل ڈیموکریٹک الائنس نے اپنے دیرینہ مطالبے کو دہراتے ہوئے کہا ہے کہ لداخ کو فوری طور پر ریاست کا درجہ دیا جائے اور اسے آئین کے چھٹے شیڈول میں شامل کیا جائے تاکہ عوام کو مکمل آئینی حقوق حاصل ہوں۔
مقامی قیادت نے وزارت داخلہ کو خبردار کیا ہے کہ وہ اس غلط فہمی میں نہ رہے کہ لداخ میں حالات معمول پر ہیں۔ رہنماؤں نے اعلان کیا ہے کہ جلد ہی ایک بھرپور عوامی مارچ نکالا جائے گا تاکہ مودی سرکار کے خلاف عوامی آواز بلند کی جا سکے۔
مقامی رہنماؤں کے مطابق، لداخ کے عوام انصاف اور آئینی حقوق کی فراہمی تک خاموش نہیں رہیں گے۔ ان کا کہنا ہے کہ مودی حکومت دھمکیوں، گرفتاریوں اور ریاستی تشدد کے باوجود عوامی تحریک کو دبانے میں ناکام رہے گی۔
دی وائر کے مطابق، لداخ کے معروف ماحولیاتی کارکن سونم وانگچک سمیت گرفتار تمام افراد کی رہائی بھی مظاہرین کے اہم مطالبات میں شامل ہے۔
رپورٹ کے مطابق، لیہہ میں احتجاج کے دوران بھارتی سیکورٹی فورسز کی فائرنگ سے چار شہری ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، جس کے بعد علاقے میں کشیدگی بڑھ گئی ہے۔
.
ذریعہ: Express News
پڑھیں:
مڈغاسکر میں نوجوانوں کی بغاوت کامیاب، صدر راجویلینا فرانسیسی فوجی طیارے میں فرار
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ڈوڈوما : مشرقی افریقہ کے جزیرہ نما ملک مڈغاسکر میں نوجوانوں کی قیادت میں ہونے والی بغاوت کے نتیجے میں صدر اینڈری راجویلینا ملک چھوڑ کر فرانسیسی فوجی طیارے کے ذریعے فرار ہوگئے، یہ چند ہفتوں کے اندر دنیا بھر میں جنریشن زی کے احتجاج سے گرنے والی دوسری حکومت ہے، جس نے عالمی سطح پر نوجوانوں کے بڑھتے سیاسی اثر و رسوخ کو نمایاں کر دیا ہے۔
عالمی میڈیا رپورٹس کے مطابق حزبِ اختلاف کے رہنما سیتنی رانڈریاناسولونائیکو نے دعویٰ کیا کہ اینڈری راجویلینا ہفتے کی شب ملک چھوڑ گئے، جب فوج کے کئی یونٹس نے عوامی مظاہرین کا ساتھ دینا شروع کر دیا۔ ایک فوجی ذریعے نے اس بات کی تصدیق کی کہ مشرقی افریقہ کے صدر فرانسیسی فوجی طیارے میں سوار ہو کر روانہ ہوئے۔
فرانسیسی میڈیا کے مطابق اینڈری راجویلینا نے صدر ایمانوئل میکرون کے ساتھ ایک خفیہ معاہدہ کیا تھا، میکرون نے صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ وہ اس خبر کی تصدیق نہیں کر سکتے، البتہ یہ ضرور زور دیا کہ مڈغاسکر میں آئینی نظام برقرار رہنا چاہیے۔
واضح رہے کہ مڈغاسکر میں 25 ستمبر کو پانی اور بجلی کی قلت کے خلاف شروع ہونے والے مظاہرے تیزی سے بدعنوانی اور مہنگائی کے خلاف ایک عوامی تحریک میں تبدیل ہوگئے۔
مظاہرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ 16 سالوں میں حکمران طبقہ امیر جبکہ عوام شدید غربت کا شکار ہو گئے ہیں، خاص طور پر نوجوان نسل (جنریشن زی) سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہے۔
صورتحال اس وقت فیصلہ کن موڑ پر پہنچی جب فوج کے ایک اہم یونٹ کیپسیٹ نے حکومت کے احکامات ماننے سے انکار کر دیا اور مظاہرین کے ساتھ شامل ہو گئی، اس کے بعد سینیٹ نے صدر کو برطرف کرتے ہوئے ژاں آندرے ندرمنجاری کو عبوری صدر مقرر کر دیا۔
اقوام متحدہ کے مطابق گزشتہ تین ہفتوں کے دوران ہونے والے مظاہروں میں کم از کم 22 افراد ہلاک جبکہ ہزاروں افراد دارالحکومت کے مرکزی چوک میں جمع ہو کر صدر کے استعفے کا مطالبہ کر رہے تھے۔
مڈغاسکر کی آبادی کا تقریباً نصف حصہ 20 سال سے کم عمر نوجوانوں پر مشتمل ہے جب کہ تین چوتھائی عوام غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کر رہے ہیں ، یہی وہ طبقہ ہے جس کی قیادت میں اس تاریخی بغاوت نے جنم لیا۔