خطرات کی زد میں (حصہ اول)
اشاعت کی تاریخ: 18th, October 2025 GMT
موجودہ صدی پوری دنیا کے لیے بے شمار خطرات اپنے ساتھ لے کر آئی ہے، زمینی و سماوی آفات کا کوئی شمار نہیں ہے، اس کے علاوہ انسان کی اپنی پیدا کردہ تکالیف اپنی جگہ ہیں۔ پاکستان میں تو ایسی صورتحال زمانہ بعید سے زمانہ قریب تک جوں کی توں ہے بلکہ مصائب و مسائل میں بے پناہ اضافہ ہو چکا ہے۔
ان مشکلات کی خاص وجہ ناخواندگی ہے، جب تعلیم سے دوری ہو جاتی ہے تب انسان تہذیب، شرافت، ہمدردی اور رحم جیسی صفات سے محروم ہو جاتا ہے۔ ساتھ میں والدین کا بھی کردار ہے وہ اپنے بچوں پر بالکل توجہ نہیں دیتے ہیں۔
فی زمانہ ایسی ایسی مثالیں سامنے آئی ہیں کہ جانوروں نے اپنے عمل سے انسانوں جیسی عادات اور عفو و درگزرکو اپنا کر مثال قائم کر دی ہے۔ بلی،کتے اور دوسرے جنگلی جانور ایک دوسرے کے لیے مددگار بن گئے ہیں، زخمی اور مجبور اپنے ہم جنس جانوروں کی مدد اور ان کے بچوں کو گود لے کر ماں جیسا سلوک کرتے ہیں، لیکن آج کا انسان درندہ صفت بن چکا ہے۔
چند سکوں کی خاطر اپنے ہی بھائی کا خون کردیتا ہے، سفاکی کی انتہا نے اپنے والدین، بہن بھائیوں کو تھوڑے سے فائدے یا معمولی سے لڑائی جھگڑے پر جان سے مار دیتا ہے۔ اسلام سے قبل جس قدر ظالمانہ رسمیں اور طور طریقے رائج تھے، وہ سب آج کے زمانے میں لوگوں نے اپنا لیے ہیں۔
طلوع آفتاب سے غروب آفتاب تک سڑکوں، شاہراہوں اور گھروں میں جنم لینے والے سانحات اپنے ساتھ قیامت لے کر آتے ہیں۔ نوحہ، بین اور گریہ و زاری متاثرہ علاقوں کو قبرستان میں بدل دیتی ہے۔ یہ تو ہمارے ملک میں ہونے والے روزمرہ کے خونی واقعات ہیں لیکن ذرا آگے دیکھیں دوسرے ملکوں کے حالات کو تو دل تڑپ جاتا ہے۔
غزہ میں ہزاروں لوگ شہید اور سیکڑوں بچوں کو والدین سے جدا کردیا گیا۔ ان کے جسم سے گوشت ختم ہوگیا لیکن ظالموں کو رحم نہیں آتا، ہر روز بمباری اور جاتے جاتے بھی مسلمانوں کے خون سے ہاتھ رنگ گئے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
سیکڑوں صحافیوں کو ابدی نیند سلانے کے بعد معروف صحافی صالح الحفراوی بھی شہید کر دیے گئے۔ جنگ بندی کے تاریخی امن معاہدے پر دستخط 20 سربراہان مملکت نے کیے۔
اس امن معاہدے کے باوجود غزہ، حماس و غمش میں جھڑپوں کے نتیجے میں 27 کی ہلاکت کی خبر ہے، پاکستانی سرحد پر بھی جھڑپیں جاری ہیں، ان جھڑپوں میں 200 افغان طالبان اور خوارج مارے گئے۔ پاک فوج کے 23 جوان شہادت کے درجے پر فائز ہوئے۔
کشمیر میں بھی مودی کی بربریت نے ہر گھرکا سکون برباد کر دیا ہے۔ کشمیری رہنما یٰسین ملک کی سزائے موت کے خلاف آواز اٹھانے اور اسلامی ملکوں کی تائید ضروری ہے، یٰسین ملک کا جرم اتنا ہی تو ہے کہ وہ آزادی کا استعارہ ہیں۔
شرم آنی چاہیے ہندوستان کے مقتدر حضرات کو، وہ روز اول سے ہی پاکستان کے حصے میں جو خطے آئے تھے، ان کے حصول کے لیے خون کی ندیاں بہا رہے ہیں۔
اگر 57 ملکوں کے اسلامی سربراہان ان دنوں ہی سے اتحاد کی شکل میں سامنے آتے اور اپنے مسلمان بھائیوں کو صہیونیوں، نصرانیوں اور اہل ہنود کے مظالم اور درندگی سے بچانے کے لیے بیانات کے ساتھ عملی اقدامات کرتے تو آج مسلمان کفارکی ایذا رسانی سے بچ سکتے تھے۔
یہ تو پاکستان اور باہرکی دنیا کے حالات تھے جہاں ہر مسلمان ہی ناانصافی، درندگی اور بربریت کی چکی میں پس رہے ہیں۔ اب رہے پاکستان کے اندرونی حالات یہاں امن و سکون عنقا ہو چکا ہے۔
پاکستان اور بیرون پاکستان کے دانشور، علما، اساتذہ، اہل علم و فن، عام شہری، مچھلی پھل اور چاٹ فروخت کرنے والے بھی ایک ہی نعرہ لگا رہے ہیں کہ ملک میں انصاف قائم کیا جائے۔غریب عوام کے انصاف دیا جائے ،مظلوم عوام کے ساتھ ایسا سلوک کیوں؟ ان حالات میں عوام معجزے کا انتظار کر رہے ہیں۔
کیا ہی اچھا ہو کہ صاحبان اقتدار اپنے اعمال نامے کا جائزہ لیں اور انھیں حق کے ترازو میں تولیں اور پھر جو بھی نتیجہ آئے اس کو قبول کر لیں ، اگر نیکی کا پلڑا بھاری ہوا تو رب جلیل مالک کائنات کے حضور سجدہ شکر بجا لائیں کہ اس دور میں وہ گناہ کبیرہ سے دور رہا۔
پاکستان کا ہر خطہ بنیادی ضرورتوں سے محروم ہے، بلوچستان میں بھی ناانصافی اور مفاد پرستی عروج پر ہے وہاں پر بسنے والے خاندان کسمپرسی کی زندگی بسر کر رہے ہیں، وہ اپنوں کی مدد کی طالب ہیں ان کے گھر بار اور بچے بے آسرا ہو چکے ہیں اس جگہ انصاف اور امن کی روشنی کو پھیلانے کی ضرورت ہے یہ ہمارے ہی مسلمان بھائی ہیں۔
بلوچستان کی پسماندگی کی ایک بڑی وجہ وہاں کا قبائلی نظام ہے،قبائلی سردار اپنے ہی لوگوں کی تعلیم،صحت کی بہتر سہولتوں، بہتر روزگار اور ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔قبائلی سردار اپنے لوگوں کو پسماندہ رکھنا چاہتے ہیں کیونکہ جب تک لوگ پسماندہ رہیں گے ،قبائلی نظام کو تحفظ ملتا رہے گا،قبائلی نظام کی بقا لوگوں کی پسماندگی اور جہالت میں مضمر ہے۔
(جاری ہے۔)
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
افغان حکمرانوں کی ہٹ دھرمی اپنے عوام کی مشکلات کیسے بڑھا رہی ہے؟
رواں برس افغانستان کی کل برآمدات کا 41.2 فیصد پاکستان کو گیا جبکہ سمندری راستے سے ہونے والی 20 فیصد برآمدات پاکستان کے راستے دوسرے ممالک گئیں۔
یہ بھی پڑھیں: پاکستان اور افغانستان کے درمیان سیز فائر میں مزید 48 گھنٹے کی توسیع
افغانستان کے زیادہ تر تجارتی راستے پاکستان میں کھلتے ہیں یہیں سے وہ بآسانی اپنی مصنوعات نہ صرف پاکستان بلکہ سمندری راستے سے برآمد بھی کر سکتا ہے۔
اس وقت پاکستانی سرحدیں افغانی برآمدات کے لیے بند ہیں جس سے افغانستان کو سالانہ 2 ارب ڈالر کا نقصان پہنچتا ہے۔ سنہ 2025 کے پہلے 6 ماہ پاکستان اور افغانستان کے درمیان تجارت کا حجم 1.1 بلین ڈالر تھا۔ اس سال جولائی میں پریفریشنل ٹریڈ ایگریمنٹ کے بعد دونوں ملکوں کی تجارت میں اِضافہ ہوا تھا۔ جہاں افغانستان 41 سے 43 فیصد پاکستان کو برآمد کرتا ہے وہیں اپنی ضرورت کی 14 سے 15 فیصد چیزیں پاکستان سے درآمد کرتا ہے۔
افغانستان کے زیادہ تر صوبے پاکستانی سرحد کے ساتھ ہیں جبکہ ایرانی بندرگاہ تک فاصلہ طویل اور خرچ زیادہ ہے۔ پاکستان، افغانستان کا ایک ایسا پڑوسی ملک ہے جس کی زیادہ تر تجارت، درآمدات و برآمدات کا انحصار پاکستان پر ہے۔ پاکستان نہ صرف افغان مصنوعات کے لیے ایک بڑی منڈی ہے بلکہ افغان برآمدات بھی کراچی بندرگاہ سے دوسرے ملکوں کو بھجوائی جاتی ہیں۔
12/11 اکتوبر کو ہونے والی سرحدی کشیدگی کے بعد اس وقت تجارت، درآمدات و برآمدات کے لیے پاک افغان سرحد مکمل طور پر بند ہے سوائے چمن کے جہاں سے افغان غیر قانونی مہاجرین کو وطن واپس بھجوایا جا رہا ہے۔
پاکستانی سرحد کی بندش سے عام افغان کس طرح متاثر ہوتا ہے؟دونوں مُلکوں کے درمیان سرحد کی بندش شاید افغان حکمرانوں کو اُس طرح سے متاثر نہیں کرتی جس طرح ایک عام افغان شہری اِس سے متاثر ہوتا ہے۔ افغان تعلیم، علاج اور کاروبار کے لیے ہر طرح سے پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔
اس وقت بھی ہزاروں افغان تعلیم اور علاج معالجے کے لیے پاکستان میں مقیم ہیں۔ زراعت افغان معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہے جس میں 60 سے 65 فیصد افغان کام کرتے ہیں۔
مزید پڑھیے: افغانستان سے کشیدگی کا ذمہ دار کون؟ پاکستان کا سخت مؤقف اور طالبان کی خوش فہمی
افغانستان کی برآمدات میں ایک بڑا حصہ وہاں کی زرعی مصنوعات کا ہے۔ اس وقت بھی پاک افغان سرحد کے سینکڑوں ٹرک حالات کی بہتری کے انتظار میں کھڑے ہیں۔
امیر خان متقی کی درفطنی اور پاکستان کا جوابدورہ بھارت کے دوران افغان قائم مقام وزیر خارجہ امیر خان متقی نے کہا کہ افغانستان کے ساتھ کئی دوسرے ممالک کی سرحدیں بھی متصل ہیں لیکن اُن کو پاکستان سے شکایت نہیں جبکہ پاکستان کو یہ شکایت کیوں رہتی ہے۔
گزشتہ روز ترجمان دفتر خارجہ شفقت علی خان نے افغان قائم مقام وزیرِخارجہ کی اِس دُرفطنی کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایک تو باقی تمام ممالک چاہے وہ ایران ہو ازبکستان یا تاجکستان اُن سب کو بھی افغانستان سے شکایات رہتی ہیں دوسرے یہ کہ افغانستان کے کسی اور ہمسایہ مُلک نے 40 لاکھ پناہ گزینوں نہیں آنے دیے۔
افغانستان برآمدات کے لیے کس طرح پاکستان پر انحصار کرتا ہے؟
افغانستان ایک لینڈ لاکڈ یعنی ایک ایسا ملک ہے یعنی اس کے ساتھ بندرگاہ نہیں لگتی۔ افغانستان اپنی تجارت اور معیشت کے لیے پاکستان پر کافی حد تک انحصار کرتا ہے۔ یہ انحصار خاص طور پر برآمدات، درآمدات، اور ٹرانزٹ ٹریڈ یعنی بحری راستوں تک رسائی اور افغانستان کی بھارت کو کی جانے والی درآمدات و برآمدات میں نمایاں ہے۔
یہاں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ اِس سال 22 اپریل کو پہلگام واقعے کے فوراً بعد جب دونوں مُلکوں کے درمیان جنگ کا ماحول بنا اور بھارت نے پاکستان کے خلاف سخت اقدامات کرتے ہوئے پاکستان کے ساتھ اپنے سرحدی راستے بند کر دیے تو افغانستان نے بھارت مال لے جانے والے ٹرکوں کے حوالے سے پاکستان سے درخواست کی جو پاکستان میں پھنس گئے تھے۔
اُس وقت پاکستانی وزارت خارجہ نے خصوصی طور پر افغانستان کو اجازت دی تھی کہ وہ اپنے ٹرک بھارت لے جا سکتا ہے۔ بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ، افغانستان زمینی راستے سے تجارت کرے یا سمندری راستے سے اُسے بحرحال پاکستان سے گزرنا پڑتا ہے۔
گو کہ ایرانی بندرگاہ چاہ بہار بھی افغانستان کو میّسر ہے لیکن وہ کراچی کی نسبت ایک لمبا راستہ اور اب ایران نے بھی افغان سرحد پر اپنی سیکیورٹی بڑھا دی ہے۔
افغان تجارت کے اعداد و شمارورلڈ بینک کے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق اس سال 2025 میں افغانستان کی کُل برآمدات کا 41 سے 43 فیصد حصہ پاکستان کو گیا۔ سال کے شروع کے 5 ماہ میں افغانستان کی کُل برآمدات 548.4 ملین ڈالر تھیں جن میں سے 41 فیصد پاکستان کو برآمد کی گئیں۔ جبکہ جون میں جب دونوں مُلکوں کے درمیان حالات ٹھیک تھے تو برآمدات 43 فیصد تھیں۔ پریفرنشل ٹریڈ ایگریمنٹ کے بعد اگست 2025 میں افغانستان کی پاکستان کو برآمدات 55 ملین ڈالر تک پہنچ گئیں جو جولائی سے 50 فیصد زیادہ تھیں۔
افغانستان کی پاکستان سے درآمداتافغانستان میں درآمدات کے لحاظ سے پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ پہلے نمبر پر ایران جہاں سے 29 فیصد چیزیں افغانستان میں درآمد کی جاتی ہیں، دوسرے نمبر پر متحدہ عرب امارات جہاں سے 19 فیصد اور تیسرے نمبر پر پاکستان جہاں سے 14 سے 15 فیصد چیزیں افغانستان میں درآمد کی جاتی ہیں۔
مزید پڑھیں: پاکستان کی افغان پالیسی کتنی درست، افغانستان پر ہمارا کنڑول کتنا تھا، سابق کور کمانڈر پشاور کا تبصرہ
تازہ ترین دستیاب اعداد و شمار (2023-2025) کے مطابق، پاکستان سے افغانستان برآمد ہونے والی اہم اشیاء میں چاول (212 ملین ڈالر)، ادویات (103 ملین ڈالر)، اور دیگر خوراک کی تیاریاں (86.7 ملین ڈالر) شامل ہیں۔اہم درآمد شدہ اشیاء میں مشینری، ٹیکسٹائل، پلاسٹک، اور خوراک شامل ہیں۔ یہ انحصار افغانستان کی تجارتی خسارے کو بڑھاتا ہے، جو 2025 کے پہلے پانچ ماہ میں 4.8 بلین ڈالر تک پہنچ گیا تھا۔
ٹرانزٹ ٹریڈ اور مجموعی معیشت میں انحصارافغانستان کی بحری راستوں تک رسائی کے لیے پاکستان کے بندرگاہوں جیسے کراچی اور سرحدی راستوں پر تقریباً مکمل انحصار ہے، کیونکہ یہ لینڈ لاکڈ ہے۔ افغانستان کی کم از کم 40 فیصد معیشت پاکستان پر منحصر ہے جبکہ پاکستان کی سرحد سے متصل افغان علاقوں کی عوام ہر طرح سے پاکستان پر انحصار کرتے ہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
افغان طالبان افغان طالبان کی ہٹ دھرمی افغانستان افغانستان کے عوام طالبان رجیم