آن لائن مالیاتی فراڈ سے پاکستان کو سالانہ 9.3 ارب ڈالر کا نقصان
اشاعت کی تاریخ: 21st, October 2025 GMT
اسلام آباد: پاکستان تیزی سے ڈیجیٹل معیشت کی طرف بڑھ رہا ہے، مگر اس ترقی کے ساتھ ساتھ ڈیجیٹل فراڈ اور مالیاتی اسکیمز میں بھی خطرناک اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔
بین الاقوامی الائنس کی جاری کردہ تازہ رپورٹ کے مطابق پاکستان ہر سال 9.3 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان مالیاتی دھوکا دہی اور آن لائن فراڈ کے باعث اٹھا رہا ہے، جو کہ ملک کے مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) کا تقریباً 2.
گلوبل اینٹی اسکیم الائنس اور فیڈزائی کی مشترکہ گلوبل اسٹیٹ آف اسکیمز رپورٹ 2025 میں انکشاف کیا گیا ہے کہ پاکستان ان ترقی پذیر ممالک میں شامل ہو چکا ہے جہاں ڈیجیٹل فراڈ معیشت کے لیے بڑا خطرہ بن چکا ہے۔
رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں گزشتہ برس کے دوران 442 ارب ڈالر کے نقصانات رپورٹ ہوئے، جب کہ ہر دس میں سے سات بالغ افراد کسی نہ کسی دھوکے باز اسکیم کا نشانہ بنے۔
پاکستان میں اگرچہ فی کس نقصان دیگر ممالک کی نسبت کم یعنی اوسطاً 139 ڈالر ہے، مگر مجموعی طور پر یہ رقم اربوں روپے کے مالی نقصان میں بدل جاتی ہے۔ سب سے زیادہ دھوکا دہی کے کیسز آن لائن خریداری (54 فیصد)، جعلی سرمایہ کاری اسکیمز (48 فیصد) اور جعلی انعامی اسکیموں (48 فیصد) سے متعلق پائے گئے۔ ہیکرز اور فراڈیے زیادہ تر رقوم بینک ٹرانسفرز (29 فیصد) اور کریڈٹ کارڈز (18 فیصد) کے ذریعے منتقل کرتے ہیں۔
نجی ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے سینئر جوائنٹ ڈائریکٹر برائے سائبر رسک مینجمنٹ ریحان مسعود کے مطابق مالیاتی فراڈ سے بچنے کے لیے عوامی آگاہی ناگزیر ہے۔
انہوں نے کہا کہ اب کوئی بھی بینک اکاؤنٹ غیر شناخت شدہ ڈیوائس سے استعمال نہیں کیا جا سکتا، کیونکہ بینکنگ سسٹم میں دو مرحلہ جاتی توثیق (Two-Step Verification) اور بائیومیٹرک تصدیق کو لازمی قرار دیا جا چکا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ ایسے اقدامات سے مالیاتی فراڈ کے 90 فیصد سے زائد کیسز کم ہوئے ہیں، لیکن اصل مسئلہ وہاں پیدا ہوتا ہے جہاں صارفین خود ہی اپنے پن کوڈز یا او ٹی پی اسکیمرز کے ساتھ شیئر کر دیتے ہیں۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں زیادہ تر فراڈیے شہریوں کو ایس ایم ایس، واٹس ایپ یا سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے نشانہ بناتے ہیں۔ وہ جعلی بینک نمائندوں کے نام پر کالز کرتے ہیں یا پارسل کمپنیوں کی آڑ میں دھوکا دہی کرتے ہیں، اور صارفین سے حساس معلومات حاصل کرکے ان کے اکاؤنٹس خالی کر دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق پاکستان کے شہریوں کے لیے اب وقت آ گیا ہے کہ وہ ڈیجیٹل خواندگی (Digital Literacy) کو سنجیدگی سے لیں، کیونکہ صرف ٹیکنالوجی نہیں بلکہ آگاہی ہی ان دھوکے بازوں سے محفوظ رہنے کا مؤثر ذریعہ ہے۔
ذریعہ: Al Qamar Online
پڑھیں:
موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پاکستان کی غذائی سلامتی کو خطرہ ،2030 تک موافقت کےلئے ملک کو سالانہ 7 سے 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے ، ڈاکٹر سید توقیر شاہ
اسلام آباد(نیوز ڈیسک) وزیراعظم کے مشیر ڈاکٹر سید توقیر شاہ نے کہا ہے کہ پاکستان موسمیاتی اعتبار سے متاثر ہونے والا دنیا کا پانچواں ملک ہے، موسمیاتی تبدیلیوں سے پاکستان کی قومی غذائی سلامتی دوہرے خطرات سے دوچار ہے، ہماری ضرورت فوری اور واضح ہے جس میں پانی ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ فطرت پر مبنی حل، سیلابی میدانوں کی بحالی، آبپاشی کے شعبہ کی ترقی اور واٹر شیڈ مینجمنٹ کے نفاذ کا امتزاج ہونا چاہئے۔ یہاں موصول ہونے والی پریس ریلیز کے مطابق وہ عالمی موسمیاتی مالیاتی ادارے کے زیر اہتمام منعقدہ ’’روم واٹر ڈائیلاگ ‘‘ سے خطاب کررہے تھے۔ اس ڈائیلاگ میں سینکڑوں ممالک کے سربرہان مملکت و وزرا اور سول سوسائٹی اور ترقیاتی اداروں کے نمائندوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان موسمیاتی اور پانی کی بحرانوں کا شکار ہے۔ انہوں نے کہا کہ پانی کا بحران پاکستان سمیت بہت سے ممالک کےلئے ایک وجودی چیلنج ہے ، پاکستان موسمیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والا پانچواں ملک ہے جسے انتہائی موسمیاتی واقعات اور دائمی وسائل کے دبائو کے دوہرے خطرات کا سامنا ہے جس کی وجہ سے قومی غذائی سلامتی خطرے میں ہے ۔ انہوں نے کہا کہ پاکستان کو دو طرح کے حالات کا سامنا ہے جن میں تباہ کن سیلابی صورتحال جیسا 2022 میں دیکھا گیا جہاں ملک بھر میں سیلاب کی وجہ سے 3 کروڑ 30 لاکھ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ، 4 ملین ایکڑ زرعی اراضی تباہ ہوئی اور ایک کروڑ لوگ پینے کے صاف پانی سے محروم ہوگئے، حالیہ 2025 کے سیلاب کی تباہ کاریوں کی شدت بھی اتنی ہی تباہ کن ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ پاکستان کو دوسرا بڑا چیلنج پانی کی شدید کمی کا بھی ہے ، پاکستان میں پانی ذخیرہ کرنے کی صلاحیت صرف 30 دن کی سپلائی تک محدود ہے۔ انہوں نے کہا کہ واضح اور فوری ضرورت کے طور پر ہمیں اپنے واٹر سٹرکچر میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جہاں روایتی اور زیادہ ذخیرہ کرنے والے حل کے ساتھ ساتھ فطرت پر مبنی حل ، سیلابی میدانوں کی بحالی، لچکدار آبپاشی کی تکنیکوں کی ترقی اور واٹر شیڈ مینجمنٹ کے نفاذ کے امتزاج کی ضرورت ہے۔ انہوں نے عالمی موسمیاتی مالیاتی اداروں پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کو 2030 تک صرف موافقت کےلئے سالانہ 7 سے 14 ارب ڈالر کی ضرورت ہے،اس کے باوجود ہم ایک ایسے عالمی مالیاتی ڈھانچے کا سامنا کر رہے ہیں جو مطلوبہ سرمایہ کاری کو ایک تضاد میں بدل دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ موجودہ عالمی موسمیاتی فنڈ کی ناکامیوں کی وجہ سے پانی کی لچک میں سرمایہ کاری اور اختراع کی ہماری صلاحیت کو براہ راست متاثر کرتا ہے، قومی ضرورت کے باوجود پاکستان دستیاب عالمی موسمیاتی فنڈز سے محروم رہا ہے کیونکہ بین الاقوامی معیار اکثر انتہائی مخصوص ، تکنیکی طور پر پیچیدہ اور دیگر مطالبات کی زد میں ہے، اس میں ادارہ جاتی صلاحیت بڑھانے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ منظور شدہ فنڈز بھی سست ترسیل اور کئی سالہ قانونی عمل کے تابع ہوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ زیادہ تر دستیاب موسمیاتی فنڈز قرضوں اور رعایتی قرضوں کی شکل میں ہوتے ہیں جس میں صرف ایک چھوٹا سا حصہ گرانٹس کے طور پر دستیاب ہوتا ہے۔ انہوں نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ قرض ان کمزور معیشتوں پر لادا جاتا ہے جو پہلے ہی میکرو اکنامک استحکام کے مرحلے سے گزر رہی ہیں۔ انہوں نے زور دیا کہ عالمی موسمیاتی مالیات کو فنڈز کی کمی کی وجہ سے نہیں بلکہ بیورو کریسی کی وجہ سے روکا جا رہا ہے۔ موسمیاتی مالیاتی اداروں کی اصلاح کا مطالبہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ جی سی ایف میں بورڈ کی منظوری تک اوسط منظوری کا وقت 24 ماہ یا اس سے زیادہ ہے ، منظوری کے بعد پہلی ترسیل کا اوسط دورانیہ 9 سے 18 ماہ ہے ، خود جی سی ایف کی یونٹ آئی ای یو کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ فنڈ کے اندرونی عمل پیچیدہ ، منتشر اور رکاوٹوں سے بھرپور ہیں، بڑے موسمیاتی فنڈز کو ترقیاتی ماہرین کی طرف سے سست پروسیسنگ ، ضرورت سے زیادہ بیورو کریسی اور ترسیل میں تاخیر کے لئے تنقید کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ہم اپنے عالمی شراکت داروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ پیچیدگی اور قرض کے ڈھانچے سے رفتار اور اعتماد کی طرف ایک نمونہ کے طور پر تبدیل کریں ، ہمیں مالیاتی اختراع کے جزو کی ضرورت ہے جو ملاوٹ شدہ مالیات ، گرین بانڈز ، انشورنس میکنزم اور نجی سرمایہ کاری کو کم خطرہ بنانے اور چھوٹے کسانوں کےلئے مالیات تک رسائی بڑھانے کےلئے انکیوبیشن پروگراموں پر توجہ دے ۔ 2030 کے عالمی ترقیاتی ایجنڈے کو اجاگر کرتے ہوئے ڈاکٹر توقیر شاہ نے کہا کہ پائیدار ترقیاتی اہداف میں صاف پانی اور بھوک کے خاتمے کے اہداف اس وقت تک ناقابل حصول رہیں گے جب تک ہم اس چیلنج کا سامنا براہ راست نہ کریں۔ انہوں نے کہا کہ پانی صرف ندیوں اور نہروں کےلئے نہیں بلکہ لوگوں ، وقار اور زندگی کےلئے ہے۔ انہوں نے علاقائی اور عالمی شراکت داروں کو پاکستان کی طرف سے مکمل تعاون کی پیشکش کی۔