مہنگائی کا طوفان؛ عوام پریشان
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
پاکستان ایک طویل عرصے سے سیاسی، معاشی اور سماجی مسائل کی زد میں ہے مگر حالیہ برسوں میں مہنگائی کی شدت نے عوام کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔ روزمرہ کے اخراجات سے لے کر بنیادی ضروریاتِ زندگی تک ہر شے کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے۔ متوسط طبقہ، جو کبھی ملک کی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی سمجھا جاتا تھا آج کچلے ہوئے طبقات کی صف میں شامل ہو چکا ہے۔ غریب آدمی کا چولہا ٹھنڈا ہے۔ بچوں کی تعلیم خواب بن چکی ہے اور صحت کی سہولت ایک نایاب نعمت بن گئی ہیں۔ بازاروں کا حال یہ ہے کہ سبزی، دال، گوشت، دودھ، آٹا، چینی جیسی بنیادی اشیاء بھی عام آدمی کی دسترس سے باہر ہو چکی ہیں۔ ہر ہفتے قیمتوں میں اضافہ ہوتا ہے مگر آمدنی وہی کی وہی۔ تنخواہ دار طبقے کی حالت تو مزید ناگفتہ بہ ہے۔ جو لوگ پہلے مہینے کے آخر تک کسی نہ کسی طرح گزارا کر لیتے تھے وہ اب مہینے کے وسط تک ہی معاشی بحران کا شکار ہو جاتے ہیں۔ معاشی ماہرین کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی بنیادی وجوہات میں حکومتی ناقص پالیسیاں، کرپشن، روپے کی قدر میں کمی، اور درآمدات پر انحصار شامل ہے۔ جب ایک ملک اپنی ضروریات کے لیے بیرونی منڈیوں کا محتاج ہو جائے تو مہنگائی ناگزیر ہو جاتی ہے۔ پاکستان میں بھی یہی صورتحال درپیش ہے۔
زراعت جو کبھی اس ملک کی معیشت کا ستون تھی اب زبوں حالی کا شکار ہے۔ کسان کو اس کی فصل کا جائز دام نہیں ملتا جبکہ صارف کو وہی اجناس کئی گنا زیادہ قیمت پر دستیاب ہوتی ہیں۔ یہ سب کچھ ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب حکمران طبقہ اپنی عیش و عشرت میں مصروف ہے۔ ان کے اخراجات، سہولتیں اور پروٹوکول میں کوئی کمی نہیں آئی۔ وزیروں، مشیروں اور بیوروکریسی کے لیے تنخواہیں، الاوئنسز اور مراعات بڑھتی جا رہی ہیں جبکہ عوام کو قربانی، صبر، اور حب الوطنی کے بھاشن دیے جا رہے ہیں۔ جب حکمران خود کفایت شعاری کی مثال نہ بنیں تو عوام سے قربانی کی امید رکھنا بے معنی ہے۔ پاکستان کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ ہر حکومت نے عوام کو خوشحالی کے خواب دکھائے مگر حقیقت میں ان کے مسائل میں اضافہ ہی ہوا۔ جمہوریت کے نام پر اقتدار میں آنے والے ہوں یا آمریت کے دعویدار، کسی نے بھی عوامی فلاح کو اپنی ترجیح نہیں بنایا۔ اقتدار میں آتے ہی سیاسی وفاداریاں تبدیل ہو جاتیںہیں۔ وعدے فراموش کر دیے جاتے ہیں اور پالیسیوں میں عوام کے بجائے مخصوص طبقوں کو فائدہ پہنچایا جاتا ہے۔ دوسری جانب اداروں کی بے حسی بھی کھل کر سامنے آ چکی ہے۔ کوئی قیمتوں پر کنٹرول کرنے والا نہیں، کوئی ذخیرہ اندوزوں اور منافع خوروں کے خلاف موثر کارروائی کرنے والا نہیں۔ ہر چیز خودکار نظام کے رحم و کرم پر چھوڑ دی گئی ہے۔ پرائس کنٹرول کمیٹیاں صرف کاغذوں میں فعال ہیں جبکہ عملی طور پر بازار میں لاقانونیت کا راج ہے۔
اس تمام تر صورتحال کا سب سے زیادہ اثر نوجوان نسل پر پڑ رہا ہے۔ تعلیم مہنگی ہو چکی ہے۔ روزگار کے مواقع ناپید ہیں اور جو تھوڑے بہت روزگار دستیاب ہیں وہ یا تو سفارش کی بنیاد پر ملتے ہیں یا پھر اتنی کم اُجرت پر کہ گزارا ممکن نہیں۔ ایسے حالات میں نوجوان یا تو جرائم کی دنیا کا رُخ کرتے ہیں یا پھر بیرون ملک جانے کے خواب میں اپنی جمع پونجی لٹا دیتے ہیں۔ یہ ہنر مند، پڑھے لکھے نوجوان ملک کا اثاثہ ہیں مگر انہیں موقع نہ دینا ایک قومی سانحہ ہے۔ مسائل کے حل کے لیے سب سے پہلے دیانتدار قیادت کی ضرورت ہے جو قوم کے مفاد کو ذاتی مفاد پر ترجیح دے۔ ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو مقامی پیداوار کو فروغ دیں۔ زراعت اور صنعت کو مضبوط بنائیں۔ تعلیم اور صحت پر سرمایہ کاری کو بڑھائیں اور سب سے بڑھ کر ایک ایسا نظام تشکیل دیں جو شفافیت، احتساب اور میرٹ پر مبنی ہو۔ اس وقت ملک کو وقتی ریلیف کی نہیں بلکہ ایک جامع، مستقل اور طویل المدتی معاشی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔ مہنگائی پر صرف شور مچانے سے کچھ حاصل نہیں ہو گا جب تک ہم بطور قوم اپنی ترجیحات کا تعین نہ کریں، فضول خرچی کو ترک نہ کریں اور اپنے وسائل کا درست استعمال نہ کریں۔ ہمیں ایسے نمائندے منتخب کرنا ہوں گے جو ہمارے مسائل کو سمجھیں۔ ان کا ادراک رکھیں اوران میں انہیں حل کرنے کی صلاحیت بھی ہو۔
مہنگائی کا یہ طوفان وقتی نہیں لگتا بلکہ یہ ایک ایسا سلسلہ بن چکا ہے جو ہر سال نئی شدت کے ساتھ آتا ہے۔ اگر اس کا تدارک نہ کیا گیا تو یہ نہ صرف معیشت کو تباہ کر دے گا بلکہ سماجی انتشار کو بھی جنم دے گا۔ جرائم میں اضافہ، ذہنی دباؤ، خودکشیاں، اور معاشرتی اقدار کا زوال اس مہنگائی کی ہی پیداوار ہیں اگر ہم نے اب بھی آنکھیں نہ کھولیں تو وہ وقت بہت دور نہیں جب یہ بحران ناقابل ِ واپسی شکل اختیار کر لے گا۔
ملک کو اس دلدل سے نکالنے کے لیے محض بیانات یا اعلانات کافی نہیں۔ عملی اقدامات، نیک نیتی، اور سخت فیصلوں کی ضرورت ہے۔ عوام کی حالت سدھارنے کے لیے ان کی آواز کو سننا ہوگا، ان کے دکھ کو محسوس کرنا ہوگا اور ان کی زندگی میں بہتری لانے کے لیے سنجیدہ کوششیں کرنا ہوں گی۔ حکمرانوں کو یہ سمجھنا ہوگا کہ اقتدار صرف مراعات کا نہیں، بلکہ ذمے داریوں کا نام بھی ہے۔ جب تک یہ احساس بیدار نہیں ہوتا، پاکستان کے عوام اسی طرح مہنگائی کے طوفان میں ڈوبتے رہیں گے اور حکمران محلات میں بیٹھے بے حسی کا مظاہرہ کرتے رہیں گے۔
سردار محمد ریاض
سیف اللہ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی ضرورت ہے کے لیے
پڑھیں:
پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے: آئی ایم ایف
اسلام آباد(ڈیلی پاکستان آن لائن)انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ (آئی ایم ایف) نے کہا ہے کہ پاکستان میں مہنگائی میں اضافے کا امکان ہے، مہنگائی کی شرح 4.5 فیصد سے 6.3 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
روزنامہ جنگ کے مطابق آئی ایم ایف نے کہا کہ جون 2026 میں مہنگائی بڑھنے کی شرح 8.9 فیصد تک پہنچ سکتی ہے، مہنگائی کی شرح جون 2025 میں 3.2 فیصد تھی۔
آئی ایم ایف نے گزشتہ 2 سال کی معاشی کارکردگ اور رواں مالی سال کی معاشی پروجیکشنز بھی جاری کر دیں۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا کہنا ہے کہ رواں مالی سال معاشی ترقی کی شرح 3.2 فیصد پہنچنے کا امکان ہے، پاکستان میں بیروزگاری کی شرح 8 فیصد سے کم ہو کر 7.5 فیصد تک پہنچ سکتی ہے۔
پاکستان اور یو اے ای کی دوستی ہمیشہ مثالی رہی ہے، ابراہیم حسن مراد کی یومِ الاتحادپر مبارکباد
آئی ایم ایف نے کہا کہ مالی سال 2026 میں معیشت میں ٹیکسوں کا حصہ 16.3 فیصد تک پہنچنے کی توقع ہے جبکہ مالی سال 2025 میں معیشت میں ٹیکسوں کا حصہ 15.9 فیصد تھا۔
انٹرنیشنل مانیٹری فنڈ کا کہنا ہے کہ مالی سال 2026 میں مالیاتی خسارہ 4 فیصد تک پہنچنے کا امکان ہے، مالی سال 2025 میں مالیاتی خسارہ 5.4 فیصد تھا، مالی سال 2026 میں معیشت میں قرضوں کا بوجھ 69.6 فیصد تک ہو سکتا ہے۔
آئی ایم ایف کے مطابق مالی سال 2025 میں معیشت پر قرضوں کا بوجھ 70.6 فیصد تھا، مالی سال 2026 میں غیرملکی قرضے معیشت کا 22.5 فیصد تک ہوسکتے ہیں، مالی سال 2025 میں غیرملکی قرضے معیشت کا 22.5 فیصد تھے۔
’’وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کے رشتہ دار منشیات کے کاروبار میں ملوث ہیں،یہ سرپرستی کرتے ہیں‘‘وزیراعظم کے کوآرڈینیٹر اختیار ولی کا بڑا الزام
آئی ایم ایف نے کہا کہ مالی سال 2026 میں سرمایہ کاری معیشت کا 0.5 فیصد ہوسکتی ہے، مالی سال 2025 میں سرمایہ معیشت کا 0.6 فیصد تھی، مالی سال 2026 میں زرمبادلہ ذخائر 17.8 ارب ڈالر ہو سکتے ہیں جو 2025 میں 14.5ارب ڈالر تھے۔
مزید :