دہلی کے سابق وزیراعلیٰ نے کہا کہ بی جے پی حکومت کے ذریعہ گجرات کے ہر خاندان کو مکمل طور سے برباد کیا جا رہا ہے، اب بی جے پی حکومت کے گجرات میں آخری دن چل رہے ہیں۔ اسلام ٹائمز۔ راجکوٹ جیل میں بند کسانوں سے نہ ملنے دینے پر عام آدمی پارٹی کے قومی سربراہ اروند کیجریوال نے گجرات کی بی جے پی حکومت کو ہدف تنقید بنایا ہے۔ تین روزہ دورے پر گجرات آئے اروند کیجریوال نے کہا کہ میں نے درخواست دی تھی، لیکن حکومت نے ملنے کی اجازت نہیں دی۔ اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ گجرات میں ایک طرف کسان بی جے پی حکومت کے جبر سے پریشان ہے تو دوسری طرف قرض لے کر پڑھنے والے بچے پیپر لیک ہونے کے سبب بے روزگار ہیں۔ اروند کیجریوال نے دعویٰ کیا کہ گجرات کے لوگ اب متحد ہو رہے ہیں اور بی جے پی کی 30 سالہ بدتر حکمرانی کو ختم کرنے کا وقت آ گیا ہے۔

اروند کیجریوال کے مطابق گجرات ایک زرعی ریاست ہے۔ گجرات کی 50 فیصد آبادی زراعت سے اپنی روزی روٹی کماتی ہے۔ گجرات میں تقریباً 54 لاکھ کسان خاندان کسانی پر منحصر ہیں لیکن آج گجرات میں کسانوں کا بہت برا حال ہے، کسان بہت پریشان ہیں۔ کسانوں کو بیج نہیں ملتا، کھاد کے لئے لمبی لمبی قطاریں لگ رہی ہیں، کسانوں کو فصل کی مکمل قیمت نہیں ملتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ کچھ لوگ کسانوں کے ساتھ ناانصافی کر رہے ہیں، فصل کی قیمت 1500 تک طے ہوتی ہے لیکن کسانوں کو 1200 روپے ہی دیتے ہیں۔

دہلی کے سابق وزیراعلیٰ اروند کیجریوال نے کہا کہ 2 ماہ قبل گجرات کے ہڑدڑ میں "کَردا پرتھا" کے خلاف کسان اکٹھے ہوئے تھے۔ ظالم بی جے پی حکومت نے کسانوں پر لاٹھیاں برسائیں، آنسو گیس کے گولے چھوڑے۔ پولیس نے بے قصور کسانوں کے گھروں میں داخل ہو کر کنبہ کے غیر مسلح لوگوں اور پرامن طور پر مطالبات کر رہے 88 کسانوں کو گرفتار کیا تھا۔ کسانوں پر فرضی مقدمے درج کئے گئے اور 2 ماہ سے یہ کسان جیل میں بند ہیں۔ اس میں سے اب تک 42 کسانوں کی ضمانت ہوگئی ہے اور بقیہ اب بھی جیل میں بند ہیں، جس روز ضمانت کے متعلق عدالت میں سماعت ہوتی ہے اس دن پولیس عدالت ہی نہیں پہنچتی ہے۔

اروند کیجریوال کا کہنا ہے کہ پیر کو جیل میں بند اور ضمانت پر باہر آئے کسانوں کے خاندانوں سے ملاقات کی۔ جیل میں ان کو دی گئی اذیتوں کی کہانیاں سن کر رونا آ جائے گا۔ جیل سے باہر آئے کسانوں کے بچوں نے بتایا کہ گرفتاری کے بعد 24 گھنٹے تک انہیں پانی نہیں دیا گیا اور نہ ہی کھانے کے لیے کچھ دیا گیا، پولیس نے ان کی پٹائی بھی کی۔ اروند کیجریوال کے مطابق ایک طرف کسان پریشان ہیں اور دوسری طرف کسانوں کے بچے جیل میں ہیں۔ کسان سود پر لاکھوں روپے قرض لے کر اپنے بچوں کو پڑھاتے ہیں، جب یہ بچے ملازمت کے لئے مسابقتی امتحان دینے جاتے ہیں تو پیپر لیک ہو جاتا ہے۔ اروند کیجریوال نے کہا کہ بی جے پی حکومت سے نوجوانوں کو روزگار نہیں دیا جا رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ بی جے پی حکومت کے ذریعہ گجرات کے ہر خاندان کو مکمل طور سے برباد کیا جا رہا ہے، اب بی جے پی حکومت کے گجرات میں آخری دن چل رہے ہیں۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: اروند کیجریوال نے بی جے پی حکومت کے جیل میں بند کسانوں کو کسانوں کے گجرات میں نے کہا کہ گجرات کے رہے ہیں

پڑھیں:

یمن میں نیا فتنہ

اسلام ٹائمز: جنوبی یمن نامی ایک ملک یمن میں 27 سال سے موجود ہے۔ جنوبی یمن 1967ء میں برطانوی اثر و رسوخ کے خاتمے کے بعد "پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف یمن" کے نام سے قائم ہوا تھا اور اسے عرب دنیا کی واحد مارکسی حکومت سمجھا جاتا تھا۔ اسے برسوں سے ملک کے اندرونی بحرانوں، دھڑے بندیوں اور شمالی یمن کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا سامنا رہا۔ بین الاقوامی تبدیلیوں اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد، دونوں یمنوں نے 1990ء میں اتحاد کا عمل شروع کیا اور ایک سرکاری معاہدے پر دستخط کے ساتھ، "جمہوریہ یمن" کا قیام عمل میں آیا۔ تاہم، سیاسی کشیدگی جاری رہی اور 1994ء میں خانہ جنگی کا باعث بنی، لیکن شمال جیت گیا اور یمن کا متحد ڈھانچہ قائم ہوا۔ اگرچہ جنوب اور شمال کے درمیان تقسیم اب بھی باقی ہے۔ تحریر: رضا دھقانی

متحدہ عرب امارات کے کرائے کے فوجیوں نے یمن کو تقسیم کرنے کے لیے وسیع پیمانے پر دھرنوں کا مطالبہ کیا ہے۔ اس علیحدگی پسند گروپ (جنوبی عبوری کونسل)، جو یو اے ای کے ساتھ منسلک ہے، اس نے ایک بیان میں اپنے تمام حامیوں سے مختلف شہروں میں دھرنے دینے اور جنوبی یمنی ریاست کے قیام کا مطالبہ کرنے کی اپیل کی ہے۔ فارس نیوز ایجنسی کے مطابق، متحدہ عرب امارات کے ساتھ منسلک "جنوبی عبوری کونسل" گروپ نے کل رات گئے ایک بیان میں اپنے تمام حامیوں سے مطالبہ کیا کہ وہ "عدن"، "مکلہ" (صوبہ حضرموت کا دارالحکومت) اور الغایدہ (صوبہ المہرہ) سمیت مختلف شہروں میں دھرنے دیں اور یمن سے علیحدگی کا مطالبہ کریں۔ بیان میں، گروپ نے اپنے حامیوں سے شہر کے اہم چوکوں میں آج اتوار کی صبح سے خیمے لگانے کا مطالبہ کیا۔

یہ کال، جسے اپنی نوعیت میں بے مثال سمجھا جا رہا ہے، کیونکہ یہ یمن کے 70 فیصد سے زائد تیل کے ذخائر پر مشتمل صوبہ حضرموت میں ناامنی کا باعث بن سکتی ہے۔ حالیہ دنوں میں عبوری کونسل کے عناصر اور ریاض سے وابستہ حکومت اور صوبہ حضرموت کے قبائل کے درمیان جھڑپوں کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ رپورٹس کے مطابق، SNC فورسز نے 2 دسمبر 2025ء کو "مستقبل کا وعدہ" کے نام سے ایک فوجی آپریشن شروع کیا اور اسٹریٹجک شہر سیون، وادی حضرموت کے اہم فوجی اور شہری مراکز اور یہاں تک کہ تیل کے ذخائر پر قبضہ کرنے میں کامیابی حاصل کی۔ آپریشن، جسے SNC نے "سکیورٹی کی بحالی اور دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے ایک ضروری قدم" کے طور پر بیان کیا ہے، اسے حکومت کی حامی فورسز اور مقامی قبائل کی جانب سے شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ہے، لیکن SNC عناصر اب تک برتری حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔

یہ لڑائی 30 نومبر کو شروع ہوئی تھی اور اس میں بھاری گولہ باری، بھاری ہتھیاروں کا استعمال اور شہری ہلاکتیں شامل ہیں۔ SNC کا دعویٰ ہے کہ پیش قدمی خطے میں القاعدہ، ISIS اور انصار اللہ کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنے کے لیے ضروری تھی، جبکہ حکومت کے حامی اہلکار اسے "مسلح بغاوت" کے طور پر بیان کرتے ہیں۔ دوسری جانب کشیدگی میں اضافے کے درمیان سعودی وفد ثالثی کے لیے خطے میں داخل ہوا اور بظاہر چار روز قبل متحارب فریقوں کے ساتھ ایک عارضی معاہدہ طے پایا، جو کہ اب تک صرف کاغذوں پر ہی رہ گیا ہے۔ ادھر ریاض سے وابستہ حکومت کے سربراہ عدن سے فرار ہوگئے۔ اس پیش رفت کے ساتھ ساتھ باخبر ذرائع نے کل اطلاع دی کہ "یمن صدارتی کونسل" (ریاض کے ساتھ منسلک) کے نام سے مشہور تنظیم کے سربراہ رشاد العلیمی نے عدن کے علاقے الماشیق میں واقع صدارتی محل کو اچانک چھوڑ دیا اور اس روانگی کے ساتھ دفتر کا مکمل انخلاء اور دستاویزات کی منتقلی بھی شامل ہے۔

Arabi21 ویب سائٹ کے مطابق العلیمی کے عملے نے ان کی روانگی سے قبل حساس دستاویزات اور فائلوں کو جلا دیا اور صدارتی محل سے منسلک ہتھیاروں اور گاڑیوں کو محل سے ہٹا دیا۔ ایک ایسی کارروائی جو ہنگامی حالت اور عدن حکومت سے وابستہ سکیورٹی ڈھانچے کے سقوط کے امکان کی نشاندہی کر رہی ہے۔ دوسری جانب، متحدہ عرب امارات کی حمایت یافتہ افواج کی پیش قدمی کے جواب میں، حضرموت قبائل کے گرینڈ الائنس نے ایک سخت بیان جاری کرتے ہوئے، UAE کو صوبہ حضرموت میں فوجی جھڑپوں کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ حضرموت اور المہرہ صوبوں میں وسیع پیمانے پر دھرنے اور فوجی مہم کا مطالبہ ایک ایسے وقت میں کیا گیا ہے، جب علی عبداللہ صالح کی حکومت کے خاتمے کے بعد سے، جنوبی عبوری کونسل نے ہمیشہ جنوب کو شمال سے الگ کرنے پر زور دیا ہے اور اس سلسلے میں متحدہ عرب امارات کی جانب سے وسیع مالی اور ہتھیاروں کی مدد سے فائدہ اٹھایا ہے۔

جنوبی یمن نامی ایک ملک یمن میں 27 سال سے موجود ہے۔ جنوبی یمن 1967ء میں برطانوی اثر و رسوخ کے خاتمے کے بعد "پیپلز ڈیموکریٹک ریپبلک آف یمن" کے نام سے قائم ہوا تھا اور اسے عرب دنیا کی واحد مارکسی حکومت سمجھا جاتا تھا۔ اسے برسوں سے ملک کے اندرونی بحرانوں، دھڑے بندیوں اور شمالی یمن کے ساتھ کشیدہ تعلقات کا سامنا رہا۔ بین الاقوامی تبدیلیوں اور سوویت یونین کے انہدام کے بعد، دونوں یمنوں نے 1990ء میں اتحاد کا عمل شروع کیا اور ایک سرکاری معاہدے پر دستخط کے ساتھ، "جمہوریہ یمن" کا قیام عمل میں آیا۔ تاہم، سیاسی کشیدگی جاری رہی اور 1994ء میں خانہ جنگی کا باعث بنی، لیکن شمال جیت گیا اور یمن کا متحد ڈھانچہ قائم ہوا۔ اگرچہ جنوب اور شمال کے درمیان تقسیم اب بھی باقی ہے۔

متعلقہ مضامین

  • پنجاب نے تمام صوبوں سے زیادہ 16.5 ملین ایکڑ گندم کی ریکارڈ بوائی کر لی
  • پنجاب حکومت کا چین کے ساتھ زرعی تعاون بڑھانے پر اتفاق، کسانوں کو قرضے جاری
  • سندھ، بیشتر شوگر ملز میں کرشنگ شروع نہ کی جاسکی، آبادگار پریشان
  • جولانی کا ایک سال
  • ٹرانسپورٹرز کی پنجاب بھر میں پہیہ جام ہڑتال، متعدد بس اڈے بند، مسافر پریشان
  • پنجاب، بھاری ٹریفک جرمانوں کیخلاف ٹرانسپورٹرز کی ہڑتال، شہری پریشان
  • گجرات :امیر جماعت اسلامی پنجاب ڈاکٹر طارق سلیم پنجاب کے بلدیاتی ایکٹ کے خلاف احتجاجی مظاہرے سے خطاب کررہے ہیں
  • یمن میں نیا فتنہ
  • ماسکو: یونیورسٹی نے 25 پاکستانی طلبہ کے ویزے ری نیو کرنے سے انکار کردیا، طلبہ پریشان