Juraat:
2025-12-13@01:08:40 GMT

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں پوٹس نہ ہو!

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

رہیے اب ایسی جگہ چل کر جہاں پوٹس نہ ہو!

ڈاکٹر سلیم خان

مضمون کی سرخی پڑھ کر قارئین اگر سوچ رہے ہیں کہ غالب کے اس شعر میں یہ ‘پوٹس’ کون ہے ؟ تو ان کی معلومات کے لیے عرض ہے کہ یہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی عرفیت ہے اور چونکہ وزیر اعظم نریندر مودی ان سے محبت کرتے ہیں تو ظاہر ہے پیار کے اسی نام سے پکارتے ہوں گے ۔ اس تمہید سے شعر کا مخاطب بھی واضح ہے ؟ بقول میر تقی میر’پتاّ پتاّ بوٹا بوٹا راز ہمارا جانے ہے ‘۔ ویسے کل یگ کا گل ُ یعنی ڈونلڈ ٹرمپ سب جانتا ہے اور اس نے فی الحال نریندر مودی کی بتی گل کررکھی ہے ۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے آسیان میں عدم شرکت کی اطلاع سب سے پہلے ملیشیا کے وزیر اعظم انور ابراہیم نے دی ۔ انہوں نے کہا کہ ”ہم نے (مودی سے ) اس ماہ کے آخر میں کوالالمپور میں منعقد ہونے والے 47 ویں آسیان سمٹ کی تنظیم پر بات کی۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ وہ ہندوستان میں جاری دیوالی کی تقریبات کی وجہ سے ورچوئل طور پر شرکت کریں گے ۔ میں ان کے فیصلے کا احترام کرتا ہوں نیز انہیں اور تمام ہندوستانی عوام کو دیپاؤلی کی مبارکباد دیتا ہوں ”۔انور ابراہیم کو نہیں معلوم کہ دیوالی کا تہوار 19اکتوبر کو دھن تیرس سے شروع ہوکر 23 کو بھائی دوج کے ساتھ نمٹ گیا ۔ آسیان کانفرنس 26 کو شروع ہورہی ہے اس لیے دیوالی کا بہانہ نہایت نامعقول اور بچکانہ ہے ۔
وزیر اعظم نریندر مودی دیوالی منانے کی خاطر نہ تو اپنے خاندان میں جاتے ہیں اور نہ عوام سے ملتے ہیں ۔ ان کا معمول ہے کہ وہ اس تہوار کو فوجیوں کے ساتھ مناتے ہیں۔ امسال بھی 20اکتوبر(2025) کو وزیرِ اعظم نریندر مودی نے آئی این ایس وکرانت کے جہاز پر مسلح افواج کے ساتھ دیوالی کا تہوار منایا ۔ مودی جی چونکہ تقریر کا کوئی موقع نہیں گنواتے اس لیے انہوں دیوالی کے دن بھی فوجی جوانوں سے خطاب کرکے کہا تھا کہ آج کا دن، آج کا لمحہ اور آج کا منظر غیر معمولی ہے ۔ وہ دن آسیان کانفرنس سے جملہ ٦ دن پہلے تھا ۔ موصوف نے شاعرانہ انداز میں فرمایا تھا کہ ایک طرف وسیع سمندر ہے اور دوسری طرف بھارت ماتا کے بہادر سپاہیوں کی بے پناہ طاقت۔ لامحدود افق اور بے انتہا آسمان کے نیچے آئی این ایس وکرانت اپنی شاندار قوت کے ساتھ لامحدود طاقت کی علامت بن کر کھڑا ہواہے ۔ کاش کہ وزیر اعظم بھی اسی طاقت و قوت کی علامت ہوتے مگر آسیان کانفرنس سے کنی کاٹ کر انہوں نے دِکھا دیا کہ فوجی لباس پہن لینے سے دل میں جرأت و ہمت کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔ وزیرِ اعظم کے مطابق ہندوستانی بحریہ کے دلیر جوانوں کے درمیان دیوالی منانا اعزاز کی بات ہے مگر اس کے بہانے آسیان کے اجلاس میں نہیں جانا افسوس کا مقام ہے ۔ان کے اس اقدام نے آئی این ایس وکرانت سے ملک کے 140 کروڑ شہریوں کو دی جانے والی دیوالی کی دلی مبارکباد کا رنگ پھیکا کر دیا ۔
دیانتداری کا تقاضہ تو یہ تھا کہ وزیر اعظم کہہ دیتے کہ بہار کے انتخاب کے سبب وہ ملیشیا نہیں جائیں گے مگر مشکل یہ تھی کہ بہار میں مودی کی انتخابی مہم کا منصوبہ آسیان اجلاس کو پیش نظر رکھ کر طے کیا گیا ہے ۔ 25سے 29 اکتوبر کے درمیان کوئی پروگرام نہیں رکھا گیا مگر ٹرمپ کا خوف مودی کے پیروں کی زنجیر بن گیا اور 56 انچ کا سینہ اچانک پچک گئی۔ خودساختہ وشو گرو کی پہلے تو سانسں پھول گئی اورپھر ہوا نکل گئی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے بہار دورے کا اعلان کرتے ہوئے بی جے پی کے صوبائی صدردلیپ جیسوال نے فرمایا ”پی ایم، جو دنیا کے قد آور رہنماوں میں سے ہیں، سمستی پور ضلع میں اپنی پہلی ریلی سے 24اکتوبر کوکو خطاب کریں گے اور دوسری ریلی دوپہر کو بیگوسرائے میں ہوگی، سوال یہ ہے بہار سے فارغ ہوجانے کے بعد دنیا کے قدآور رہنمانے کوالالمپور جاکر دیگر بڑے رہنماؤں سے ملاقات کرنے سے کیوں بچ نکلے ؟ جیسوال کے مطابق پی ایم کا دوسرا انتخابی دورہ 30 اکتوبرکومظفر پور اور چھپرا کاہے ۔ درمیان میں پرچار منتری پوری طرح خالی ہیں اس لیے اگر وہ ملیشیا جاکر آجاتے تو الیکشن میں فائدہ ہی ہوتا مگر برا ہو ٹرمپ اور جن پنگ کی دہشت کا کہ اس نے ‘وشو گرو’ کی پول کھول دی اور ثابت کردیا کہ گیارہ سال حکومت کرنے باوجود بزدلی نہیں گئی تو نہیں گئی۔
وزیر اعظم نریندر مودی کے ملیشیا سے راہِ فرار کی لیپا پوتی بھی کم دلچسپ نہیں ہے ۔ سرکاری ویب سائٹ پر اطلاع دی گئی کہ موصوف نے وزیر اعظم انور ابراہیم کے ساتھ خوشگوار اور دوستانہ گفتگو کی۔ اس بات چیت کے دوران ملیشیا کے آسیان کی صدارت سنبھالنے پر وزیر اعظم ابراہیم کو دلی مبارکباد پیش کی گئی ۔ اس کے علاوہ ملیشیا کی قیادت میں آسیان کی آئندہ سربراہ اجلاس کے کامیاب انعقاد کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کرنے کے بعد وزیر اعظم مودی نے آسیانـہندوستان سمٹ میں ورچوئل طور پر شامل ہونے میں اپنی دلچسپی کا اظہار کیا ۔ موصوف نے ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا کہ :’میرے عزیز دوست، ملیشیاء کے وزیرِ اعظم انور ابراہیم کے ساتھ خوشگوار بات چیت ہوئی۔ ملیشیاکے آسیان کی صدارت سنبھالنے پر انہیں مبارکباد دی اور چوٹی کانفرنس کی کامیابی کے لیے نیک خواہشات کا اظہار کیا ۔ میں ہندوستان آسیان چوٹی کانفرنس میں ورچوئل طور پر شامل ہونے اور جامع اسٹریٹجک شراکت داری کو مزیدمستحکم کرنے کے لیے پرامید ہوں’ ۔ مگراس اہم اجلاس میں حقیقی کے بجائے مجازی شرکت سے یہ باہمی تعلقات کیسے مستحکم ہوں گے یہ مودی جی ہی بتا سکتے ہیں ۔
وزیر اعظم انور ابراہیم نے اپنے حالیہ گفتگو کی تفصیلات بتاتے ہوئے یہ انکشاف کیا ان کی وزیراعظم نریندر مودی سے نہیں بلکہ ان کے ایک ساتھی سے سے دو طرفہ تعلقات کو مضبوط بنانے کی کوششوں پر بات چیت ہوئی ۔ ان کے مطابق’ گزشتہ رات، مجھے ہندوستانی وزیراعظم نریندر مودی کے ایک ساتھی کی کال موصول ہوئی، جس میں ملیشیاـہندوستان کے دو طرفہ تعلقات کو مزید اسٹریٹیجک اور جامع سطح پر مضبوط بنانے پر گفت و شنید ہوئی’۔ ہندوستان، تجارت اور سرمایہ کاری کے شعبوں میں ملیشیا کا ایک اہم شراکت دار ہے ، اور ٹیکنالوجی، تعلیم اور علاقائی سلامتی کے شعبوں میں بھی قریبی تعاون موجود ہے ۔ انور ابراہیم نے ملیشیا کی دو طرفہ اور علاقائی تعاون کے عزم کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ملیشیا ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مضبوط بنانے اور آسیانـہندوستان تعاون کو مزید پرامن اور خوشحال علاقے کے لیے فروغ دینے کے لیے پرعزم رہے گا۔ اس طرح وزیر اعظم نریندر مودی کی انور ابراہیم کے ساتھ براہِ راست گفتگو کا تاثر دینے کی کوشش مشکوک ہو گئی ۔
آسیان سربراہی اجلاس میں جانے سے معذوری کا اعلان کرکے وزیر اعظم مودی نے کانگریس پارٹی کو ان پر شدید تنقید کرنے کا نادر
موقع عنایت کردیا۔ کانگریس نے الزام لگایا کہ وزیر اعظم مودی کی غیر حاضری محض مصروفیات کی وجہ سے نہیں بلکہ اس کا اصل مقصد اجلاس
میں شرکت کے لیے کوالالمپور پہنچنے والے امریکی صدر ڈونالڈ ٹرمپ سے براہِ راست ملاقات سے گریز ہے ۔ پارٹی کے جنرل سیکریٹری جے
رام رمیش نے ‘ایکس’ پر لکھا کہ ، ”گزشتہ کئی دنوں سے یہ قیاس آرائیاں تھیں کہ وزیر اعظم مودی کوالالمپور اجلاس میں جائیں گے یا نہیں؟ اب یہ تقریباً طے ہو گیا ہے کہ وہ وہاں نہیں جائیں گے ۔ اس کا مطلب ہے کہ کئی عالمی رہنماؤں سے گلے ملنے ، تصویریں کھنچوانے اور خود کو ‘وشو گرو’ کے طور پر پیش کرنے کے کئی مواقع ان کے ہاتھ سے نکل گئے ”۔مودی جی دراصل بڑے بڑے اجلاس میں یہی سب تو کرتے ہیں کیونکہ کوئی سنجیدہ سفارتکاری ان کے بس کا روگ نہیں ہے ۔
جے رام رمیش نے بنیادی مسئلہ کی جانب توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا کہ ”وزیر اعظم کے وہاں نہ جانے کی وجہ وہاں موجودصدر ٹرمپ کے سامنے نہیں آنا ہے ۔ چند ہفتے قبل مصر میں غزہ امن سربراہی اجلاس میں شرکت کی دعوت بھی اسی لیے ٹھکرائی گئی”۔ یہ معاملہ صرف شرم الشیخ میں غیر موجودگی تک محدود نہیں ہے بلکہ اس سے قبل یہ توقع کی جارہی تھی کہ اقوام متحدہ کے سالانہ اجلاس میں جاکر وزیر اعظم نریندر مودی ساری دنیا کو بتائیں گے کہ کس طرح ان کی قیادت میں ہندوستانی فوج نے پاکستان کو زیر کردیا اور ان کے کئی جہاز گرا دیے لیکن اس خیال سے کہ کوئی یقین نہیں کرے گا نہیں گئے ۔ اس بار فلسطین کو تسلیم کرنے کی لہر چلی ہوئی تھی ایسے میں غزہ کی حمایت سے اسرائیل کی ناراضی کا خوف بھی رہا ہوگا ۔ اس سے قبل جی ٧ سے واپسی میں بھی ٹرمپ نے واشنگٹن آنے دعوت دی تھی مگر جنرل عاصم منیر کی موجودگی کے سبب مودی جی وہاں جانہیں پائے ۔ اس لیے جئے رام رمیش کا یہ طنزجائز ہے کہ، ”سوشل میڈیا پر صدر ٹرمپ کی تعریف میں پیغامات پوسٹ کرنا ایک بات ہے مگر روبرو ہونا دوسری بات ہے ۔ وہ 53 مرتبہ ‘آپریشن سندور’ کو روکنے کا اور 5 مرتبہ ہندوستان کے روس سے تیل خریدنا بند کرنے کا دعویٰ کرچکے ہیں ۔ یہ مودی کے لیے بہت خطرناک صورتحال ہو سکتی ہے ”۔ مودی کی روپوشی سے خود کو مودی کا معشوق سمجھنے والے ٹرمپ کی زبان پر فی الحال یہ نغمہ ہوگا
چرالیا ہے تم نے جو دل تو ، نظر نہیں چرانا صنم
بدل کے میری تم زندگانی ، کہیں بدل نہ جانا صنم

.

ذریعہ: Juraat

کلیدی لفظ: اعظم نریندر مودی کے اعظم انور ابراہیم کہ وزیر اعظم اجلاس میں کے ساتھ مودی کی کے لیے اس لیے

پڑھیں:

کرپشن کے خاتمے کو بیانیہ بنا لیں

پی ٹی آئی کے ایک رہنما فیصل چوہدری کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت اپنے تین سالوں میں کوئی سیاسی بیانیہ بنا سکی نہ ہی بانی پی ٹی آئی کی مقبولیت کا توڑ کر سکی ہے۔ فوجی ترجمان کی پریس کانفرنس کے بعد الزامات کا جواب دینے کے لیے پی ٹی آئی کے پاس کچھ مواد نہیں، انھیں الزامات کا جواب دینا چاہیے تھا، بس انھیں جمہوریت یاد آگئی ہے کہ یہی رویہ رہا تو جمہوریت کی ایسی تیسی ہو جائے گی۔

پی ٹی آئی اپنے وزیر اعظم کی آئینی برطرفی کو درست نہیں سمجھتی بلکہ سازش قرار دیتی آ رہی ہے۔ جب تحریک عدم اعتماد پیش ہوئی تھی اس وقت پی ٹی آئی کے پسندیدہ چیف جسٹس پاکستان موجود تھے اور سپریم کورٹ کے حکم پر ہی تحریک عدم اعتماد پیش کرنے کے لیے قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد ہوا تھا کیونکہ پی ٹی آئی کے ڈپٹی اسپیکر نے مذکورہ اجلاس کو غیر قانونی قرار دے کر منسوخ کر دیا تھا اور وہاں موجود وزیر اعظم نے تحریک عدم اعتماد کا سامنا کرنے کے بجائے ڈپٹی اسپیکر کے غیر قانونی اقدام کے بعد اپنے صدر مملکت کو قومی اسمبلی توڑنے کی ہدایت کی تھی جس پر عمل کرتے ہوئے صدر مملکت نے قومی اسمبلی تحلیل کردی تھی جو جمہوریت کے خلاف صدارتی فیصلہ تھا جو سپریم کورٹ نے فوری طور کالعدم قرار دے کر تحریک عدم اعتماد کا اجلاس منعقد کرنے کا حکم دیا تھا جو جمہوری فیصلہ تھا جس پر عمل ہوا تھا اور آئین کے مطابق ہی اجلاس میں وزیر اعظم کے خلاف جمہوری طور پر تحریک عدم اعتماد منظور کی گئی تھی جس کو بانی پی ٹی آئی نے غیر ملکی سازش قرار دیا تھا۔

اگر تحریک عدم اعتماد غیر آئینی تھی تو برطرف ہونے والے وزیر اعظم کو اسے فوری طور سپریم کورٹ میں چیلنج کرنا چاہیے تھا اور امریکی سائفر کا معاملہ بھی سپریم کورٹ میں ثبوت کے طور پر پیش کرنا تھا۔ تحریک عدم اعتماد اگر غیر آئینی اور امریکی سازش ہوتی تو ممکن تھا کہ ججز وزیر اعظم کو بحال کر دیتے۔ اپنی برطرفی کو درست سمجھ کر ہی برطرف وزیر اعظم بنی گالا چلے گئے تھے اور اپنا سیاسی بیانیہ سائفر اور امریکی سازش کو بنایا تھا جس کا کوئی ثبوت موجود نہ تھا اور وہ بیانیہ ناکام رہا تھا جس کے بعد برطرف وزیر اعظم نے اپنے صدر کے ذریعے اسٹیبلشمنٹ سے خفیہ ملاقاتوں میں اپنی بحالی کی کوشش کی تھی جو ناکام ثابت ہوئی۔

امریکی سائفر، خفیہ بحالی کی کوشش کی ناکامی کے بعد برطرف وزیر اعظم سخت مشتعل تھے اور انھوں نے نیا بیانیہ بنایا کہ خفیہ قوتوں نے میری حکومت ختم کرائی ہے۔ اپنی بحالی کی ہر کوشش میں ناکامی کے بعد اپنی مرضی کے نئے آرمی چیف کی تقرری کے لیے بانی نے پچاس سے زیادہ جلسے اور راولپنڈی تک لانگ مارچ کیا مگر ان کی خواہشات خاک میں مل گئیں اور نئے حالات نے بانی کو مکمل مایوس کر دیا ہے اور ان کے پاس 2030 تک برداشت کے سوا کچھ نہیں ہے۔

یہ بات سو فی صد درست ہے کہ پی ڈی ایم کا نیا وزیر اعظم سولہ ماہ تک رہا جس کے دوران بانی نے نئے انتخابات کا مطالبہ کیا جس میں کامیابی کے لیے انھوں نے اپنی دو حکومتیں بھی ختم کرائیں اور ججز دونوں صوبوں میں حکم دے کر بھی نئے انتخابات نہ کرا سکے جس میں ناکامی کے بعد بانی کو نئے انتخابات کا انتظار کرنا پڑا جو نوے دنوں کے بجائے 6 ماہ کی نگراں حکومت میں منعقد ہوئے تھے۔

سولہ ماہ تک وزیر اعظم رہنے والے شہباز شریف اور ان کی پارٹی اپنا نیا بیانیہ بنانے میں ناکام رہے اور (ن) لیگ وہ انتخابی مہم بھی نہ چلا سکی تھی جس کی توقع تھی کیونکہ (ن) لیگ کے پاس کوئی بیانیہ تھا ہی نہیں اور اس کے سابقہ حلیف بلاول بھٹو نے اپنی انتخابی مہم (ن) لیگ کے خلاف چلائی تھی۔ (ن) لیگ فروری الیکشن کے بعد پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم سمیت نئی حکومت بنانے پر اس لیے مجبور تھی کہ بانی نے انتخابات کے نتائج ماننے سے انکار کرکے اپنی پارٹی کی 80 فی صد کامیابی اور زبردست دھاندلی کا نیا بیانیہ بنایا جس کے وہ ماہر ہیں۔

اپنے حامی اینکروں، صحافیوں اور جھوٹے پروپیگنڈے کے انتہائی موثر پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا نے بانی کے اس بے بنیاد بیانیے کو کامیاب کرانے میں اہم کردار ادا کیا اور انتخابات اب تک متنازع چلے آ رہے ہیں۔ بانی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہیں کہ اگر دھاندلی سے پی ٹی آئی کو ہروایا گیا تھا تو ایسا کرنے والوں نے پی ٹی آئی کی کے پی میں بھاری اکثریت سے تیسری بار حکومت کیسے قائم ہونے دی۔ دھاندلی تو کے پی میں بھی کرائی جا سکتی تھی جہاں دھاندلی کا جے یو آئی ودیگر بھی الزام لگا رہے ہیں۔

سیاسی بیانیہ میں ناکام مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کو پونے دو سال گزر چکے ہیں جن میں حکمرانوں کے غیر ملکی دوروں کا ضرور ریکارڈ قائم ہوا ہے اور اب بھی (ن) لیگ کے پاس ملکی ترقی کے لیے بیانیہ نہیں ہے مگر حال ہی میں وزیر اعظم نے گوجرانوالہ میں یہ دعویٰ کیا ہے کہ عوامی خدمت سے آیندہ انتخابات بھی جیتیں گے۔ انھوں نے یہ حقیقت بھی تسلیم کی کہ تعمیر و ترقی کا سفر نواز شریف نے شروع کیا تھا جو مریم نواز شریف جاری رکھے ہوئے ہیں۔

شہباز شریف کی حکومت میں عوامی خدمت یہ ہوئی ہے کہ مہنگائی و بے روزگاری انتہا پر ہے۔ آئی ایم ایف نے (ن) لیگی حکومت میں ہونے والی کرپشن بے نقاب کی ہے مگر حکومت حقیقت تسلیم نہیں کر رہی۔ پنجاب میں جاری تعمیر و ترقی وزیر اعلیٰ کا ریکارڈ بن رہی ہے اس لیے وفاقی حکومت کو آئی ایم ایف کی رپورٹ کو درست مان کر ملک میں کرپشن کے خاتمے کا نیا بیانیہ بنانا چاہیے جس کی ابتدا وزیر اعظم اور وزرا سادگی سے شروع کریں۔ ضرورت سے زائد مراعات واپس کرکے کرپشن کے خاتمے کا آغاز کریں کیونکہ مہنگائی و بے روزگاری کا شکار عوام اب کرپشن کا خاتمہ چاہتے ہیں۔
 

متعلقہ مضامین

  • کرپشن کے خاتمے کو بیانیہ بنا لیں
  • بھارت 2027ء میں پہلی ڈیجیٹل مردم شماری کیلئے تیار ہے، نریندر مودی کی صدارت میں کابینہ میٹنگ
  • علماء کنونشن سے وزیر اعظم کا خطاب
  • درست دماغ، سیاست ایسی نہیں ہوتی
  • فیض حمید کی سزا کا فیصلہ تاریخی ہے، یہ پیغام ہے کہ آئندہ ایسی غلطیاں نہ کی جائیں: بلاول بھٹو زرداری
  • جادو ٹونہ نہیں، ترقی صرف محنت سے: شہباز شریف
  • اپوزیشن حالات کو اس نہج پر لے گئی جہاں سے واپسی ممکن نہیں، ایاز صادق
  • افواج پاکستان کا مزاق اڑائیں گے تو کون ملک کی عزت کرےگا؛ وزیراعظم
  • 50 فیصد ٹیرف کی وجہ روسی تیل نہیں مودی کی ہٹ دھرمی بنی، سابق گورنر اسٹیٹ آف انڈیا کا دعویٰ
  • جہاں اتفاق نئے صوبے بنائیں، ایک پارلیمنٹ سے 2 ترامیم کافی، موجودہ حالات میں وزیراعظم نہیں بن سکتا: بلاول