مودی کی متنازع چائلد میرج ایکٹ کو مسلمانوں پر تھوپنے کی کوشش ناکام
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
بھارت کی عدالتِ عظمیٰ نے چائلڈ میرج ایکٹ کا اطلاق تمام مذاہب پر کرنے کی مودی حکومت کی درخواست کو مسترد کیا۔
بھارتی میڈیا کے مطابق سپریم کورٹ میں مرکزی حکومت نے کم عمری کی شادی کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قانون پرسنل لا سے قطع نظر تمام مذاہب پر بلااستثنیٰ لاگو کرنے کی استدعا کی تھی۔
تاہم سپریم کورٹ نے کہا کہ مودی حکومت نے عدالت کو پرسنل لا اور چائلڈ میرج ایکٹ کے مابین اختلافات کی تفصیلی مثالیں فراہم نہیں کیں۔
عدالت نے بتایا کہ پارلیمنٹ میں اب بھی ایک بل زیرِ غور ہے جو واضح کرے گا کہ چائلڈ ایکٹ مروجہ پرسنل لا پر فوقیت رکھتی ہے۔
عدالت کے بقول اس نئے بل کی منظوری تک عدالت خود کو کوئی فیصلہ دینے کی پوزیشن میں محسوس نہیں کرتی۔ فی الحال فوری طور پر کوئی قانونی وضاحت جاری کرنا ممکن نہیں ہے۔
تاہم عدالت نے بچوں کی شادی کے روک تھام کے حوالے سے متعدد رہنما اصول تجویز کیے، مگر پرسنل لا کے تسلسل کو ختم یا تبدیل کرنے کا حکم نہیں دیا۔
جس کا مطلب یہ ہے کہ فی الحال ذاتی قوانین (مثلاً مسلم پرسنل لا، ہندو پرسنل لا وغیرہ) اور PCMA کے مابین کسی حتمی ٹکراؤ کا عدالتی فیصلہ نہیں آیا۔
خیال رہے کہ چائلڈ میرج ایکٹ کے تحت لڑکیوں کی شادی کے لیے کم از کم عمر 18 سال جب کہ لڑکوں کی 21 سال مقرر کی گئی ہے۔
خلاف ورزی کی صورت میں عدالت کو شادی منسوخ کرنے کا اختیار ہے اگر لڑکا یا لڑکی کے والدین میں سے کسی ایک نے شکایت دائر کی ہو۔
علاوہ ازیں نابالغ شادی کروانے یا سہولت دینے والے والدین، سرپرست، پجاری یا قاضی وغیرہ کو قید یا جرمانہ کی سزا بھی دی جا سکتی ہے۔
اسی طرح زبردستی، اغوا یا دھوکے سے نابالغ کی شادی کو کسی بھی صورت میں تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
.
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: میرج ایکٹ پرسنل لا کی شادی
پڑھیں:
عوام کو نچوڑ کر معاشی استحکام لانے والی پالیسی ناکام ہو چکی ‘ شاہد رشید
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسلام آباد (کامرس ڈیسک) معروف تاجر رہنما اور اسلام آباد چیمبر آف کامرس کے سابق صدر شاہد رشید بٹ نے حکومت کی معاشی پالیسیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے کہا ہے کہ عوام کو نچوڑ کر معاشی استحکام لانے کی پالیسی ناکام ہو چکی ہے۔مثبت اور قابلِ عمل پالیسیاں اپنائی جائیں اور لاڈلی اشرافیہ پر بھی معاشی بوجھ ڈالا جائے۔شاہد رشید بٹ نے کہا کہ مراعات یافتہ گروہ صنعتی ترقی اور معاشی مساوات کو اپنے مفادات کے لیے خطرہ سمجھتا ہے اس لیے اس نے اصلاحات کے عمل کو روکا ہوا ہے اور ملک میں صنعتکاری کو پنپنے نہیں دیا جاتا۔ بے رحم اشرافیہ کبھی بھی ملک کو اپنے پیروں پر کھڑا نہیں ہونے دے گی کیونکہ طاقتور طبقات صحت، تعلیم، روزگار اور معاشی ترقی کو اپنے اقتدار اور مراعات کے لیے خطرہ سمجھتے ہیں۔مسلسل مہنگائی، سخت ٹیکس اقدامات اور توانائی کی بڑھتی قیمتوں نے تاجروں، صنعتکاروں اور عام صارف کو شدید پریشانی میں مبتلا کر رکھا ہے۔ جب ملک میں صنعتکاری نہیں ہو گی تو ٹیکس، روزگار اور برآمدات کیسے بڑھیں گی۔توانائی کی قیمتوں، ٹیکس ایڈمنسٹریشن، اور مسلسل پالیسی تبدیلیوں سے تنگ آ کر مقامی سرمایہ کار ملک سے بھاگ رہے ہیں یا اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کر رہے ہیں۔ کاروبار کا غیر یقینی ماحول اور غیر دوستانہ ٹیکس سسٹم اس رجحان کو مزید بڑھا رہا ہے۔اگرچہ سرکاری حکام سخت مالیاتی اقدامات کو آئی ایم ایف پروگرام کے تحت ضروری قرار دیتے ہیں تاہم حقیقت یہ ہے کہ یہ نظم و ضبط صرف کمزور طبقوں اور چھوٹے کاروباروں تک محدود نظر آتا ہے جبکہ بڑے گروہوں کو استثنیٰ حاصل رہتا ہے۔ آئی ایم ایف کی وہی باتیں مانی جاتی ہیں جس کی اجازت اشرافیہ دیتی ہے۔شاہد رشید بٹ نے خبردار کیا کہ اگر صنعتی شعبے کو فوری ریلیف نہ دیا گیا تو نہ صرف روزگار کے مواقع مزید کم ہوں گے بلکہ درآمدی انحصار بھی بڑھے گا جس سے زرمبادلہ کا دباؤ اور مہنگائی مزید بڑھ جائے گی جس سے وہ گھریلو صارفین بنیادی جو اپنی ضروریات پوری کرنے میں مشکل محسوس کر رہے ہیں فاقے کرنے لگیں گے۔