شادی سے ایک روز قبل نوجوان دلہا کے قتل کیس میں فریقین کے درمیان صلح ہوگئی، ملزمان رہا
اشاعت کی تاریخ: 10th, December 2025 GMT
کراچی میں شادی سے ایک روز قبل اغوا ہونے والے نوجوان کے مقدمے میں فریقین کے درمیان صلح نامہ ہوگیا، جسے عدالت نے منور کر کے پانچوں ملزمان کو بری کردیا۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شرقی نے شادی سے ایک دن قبل نوجوان کے قتل کے مقدمے میں ملزمان اور مقتول کے ورثا کے درمیان ہونے والا صلح نامہ منظور کرتے ہوئے گرفتار پانچوں ملزمان کو مقدمے سے بری کردیا۔
ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج شرقی کی عدالت کے روبرو شادی سے ایک دن قبل نوجوان اسامہ کے قتل کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
مقتول اسامہ کے اہل خانہ اور ملزمان کے درمیان باقاعدہ صلح نامہ عدالت میں پیش کیا گیا، جسے فریقین کے اتفاقِ رائے سے عدالت نے قبول کرلیا۔
استغاثہ کے مطابق مقتول اسامہ کو عوامی کالونی میں شادی سے ایک روز قبل قتل کیا گیا تھا اور اس کا ملزمان کے ساتھ پہلے سے تنازع بھی موجود تھا۔
استغاثہ نے مؤقف اختیار کیا کہ ملزم طلحہ مقتول اسامہ کو گھر سے لے کر گیا اور دیگر ملزمان راحیل، عباد، عرفان اور مزمل کی مدد سے اسے کورنگی دار العلوم کے قریب فائرنگ کرکے قتل کیا گیا۔
واقعے کا مقدمہ تھانہ عوامی کالونی میں درج کیا گیا تھا۔عدالت نے صلح نامہ منظور ہونے کے بعد مقدمے میں گرفتار تمام 5 ملزمان کو بری کرنے کا حکم جاری کردیا۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: شادی سے ایک کے درمیان کیا گیا کے قتل
پڑھیں:
ہر سال ثقافتی دن ہوتا ہے، ایف آئی آر کاٹنے والا جاہل ہے، شاہراہ فیصل جلاؤ گھیراؤ کیس میں جج کے ریمارکس
انسدد دہشتگردی کی منتظم عدالت نے شاہراہ فیصل سے جلاؤ گھیراؤ اور ملک مخالف نعروں کے الزام میں گرفتار ملزمان کا جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کرتے ہوئے پولیس پر شدید برہمی کا اظہار کیا ہے۔
ایکسپریس نیوز کے مطابق انسداد دہشت گردی کی عدالت میں شاہراہ فیصل پر جلاؤ، گھیراؤ، ہنگامہ بلوہ، نجی وہ سرکاری املاک کو جلانے، توڑ پھوڑ اور ریاست مخالف نعروں کے مقدمے کی سماعت ہوئی۔
معزز جج نے ریمارکس دیئے کہ یہ تفتیشی افسر نہیں ہے کٹھ پتلی ہے جو کہا جائے گا وہ ہی کرے گا، سندھی ٹوپی اجرک کلچر ڈے تھا، وہ ریمانڈ پیپر پر لکھتے ہوئے شرم آتی۔
دوران سماعت پولیس کی جانب سے 12 ملزمان شہروز، سلمان، شمن علی، ارشاد، زبیر احمد، علی محمد، عبید اللہ، ذوالفقار علی، ساجد حسین، اویس اور اطہر کو پیش کیا گیا۔
عدالت نے ریمارکس دیئے کہ پولیس کو کوئی شرم نہیں ہے، پاکستان بچاکر آئے ہو یا تڑواکر آئے ہو۔ جج نے تفتیشی افسر کو ہدایت کی کہ ایف آئی آر پڑھو۔ سندھی ٹوپی اجرک کلچر ڈے تھا، وہ ریمانڈ پیپر پر لکھتے ہوئے شرم آتی ہے۔
جج نے کہا کہ یہ دفعہ 144 کی خلاف ورزی کا کیس ہے اس میں یہ دہشتگردی کہاں سے آگئی۔ تفتیشی افسر نے کہا کہ میں نے یہ دفعہ نہیں لگائی، مدعی نے لگائی ہے۔
عدالت نے ریمارلس دیئے کہ جس نے لگائی ہے وہ بھی جاہل جو یہاں لایا وہ بھی جاہل۔
پراسیکیوٹر علی رضا نے مؤقف دیا کہ ریڈ زون میں سرکاری املاک کو نقصان پہنچایا ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ یہ ریلی تو ہر سال نکلتی ائیر پورٹ کراس کرنے کے بعد کیا ہوا؟۔
سرکاری وکیل علی رضا نے موقف دیا کہ ریاست کیخلاف نعرے بازی کی گئی ہے۔ عدالت نے استفسار کیا کہ کہاں ہیں نعرے، صرف زبانی باتیں نہ کریں، یہ دہشتگردی کیسے بن گئی، یہ تو اچانک ایک واقعہ ہوگیا ہے۔ ان کا گاڑیوں کو آگ لگانے کا ارادہ نہیں تھا یہی بات تو آئی او کہہ رہا ہے۔
جج نے ریمارکس دیے کہ پرامن ریلی سے ملزمان کو گرفتار کرکے ایک جعلی ایف آئی آر درج کرلی۔ پولیس کی ایف آئی آر بھی مبہم ہے۔تفتیشی افسر دہشتگردی کے بارے میں عدالت کومطمن کرسکا نہ ہی یہ بتاسکا کہ کوئی سنجیدہ نقصان ہوا ہے۔
جج نے کہا کہ آپ جوڈیشل مجسٹریٹ کے پاس جائیں۔ یہ تفتیشی افسر نہیں ہے کٹھ پتلی ہے جو کہا جائے گا وہ ہی کرے گا۔ عدالت نے جسمانی ریمانڈ دینے سے انکار کرتے ہوئے ہدایت کی کہ ملزمان کو جوڈیشل مجسٹریٹ کے روبرو پیش کیا جائے۔
استغاثہ کے مطابق ملزمان پر شاہراہ فیصل کو بلاک کرنے نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہنچانے، ریاست کیخلاف نعرے بازی، پولیس موبائل، ریڈ بس اور دیگر گاڑیوں کو نقصان پہنچانے کا الزام ہے۔