data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
ملک بنے ہوئے آٹھ دہائیاں گزر گئی ہیں لیکن ابھی تک ہم اپنے بنیادی مسائل کا پائدار حل تلاش نہیں کر سکے ہیں ناانصافی کی دہائیاں دیتے دیتے ربع صدی میں ہمارا ایک بازو کٹ گیا لیکن حالات و واقعات کی یکسانیت میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے۔ چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا ہے۔ ختم کیا ہو؟ سیاست کی بنیاد ہی یہی ہے۔
ایسا بھی نہیں ہے کہ نظام سلطنت اور انتظام آمدن کے معاملے میں کوئی پیش رفت بالکل بھی نہیں ہوئی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں ہونے والی مفاہمت اس کی عمدہ مثال ہے۔ آرٹیکل 160 کے تحت 1973 کے آئین میں نیشنل فائنانس کمیشن کے خد و خال پہلے ہی بنا دیے گئے تھے اور یہ طے پایا تھا کہ صدر پاکستان ہر پانچ سال بعد نیشنل فائنانس کمیشن کی تشکیل دیں گے جو کہ ٹیکسوں کے تقسیم کا طریقہ کار وضع کرے گا۔ لیکن اس سلسلے میں قوانین اور تقسیم کے طریقہ کار پر بڑی پیش رفت اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ممکن ہوئی۔ اس میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ صوبوں کا حصہ پچھلے کمیشن میں طے کردہ حصے سے کم نہیں کیا جا سکے گا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ صوبوں کو ملنے والا حصہ صرف آبادی کی بنیاد پر طے نہیں کیا جائے گا بلکہ متعدد پیمانوں کو استعمال کرکے طے کیا جائے گا۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں یہ فیصلہ ہوا کہ غربت، پسماندگی، ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت اور رقبہ کی بنیاد پر ٹیکس ریونیو کا 57.
اب بھی تمام صوبوں بشمول پنجاب سے یہ آوازیں اٹھتی رہتی ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ میں ہم اپنے بھائیوں کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ پنجاب کی منطق یہ ہے کہ ہماری سب سے زیادہ آبادی اور جی ڈی پی میں سب سے زیادہ حصہ یعنی 61 فی صد کے باوجودِ ریونیو میں نسبتاً کم حصہ ہے۔ بلوچستان اپنے وسیع رقبہ اور معدنی وسائل کی دہائی دیتا ہے تو سندھ سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے باوجود کم حصہ پر شاکی نظر آتا ہے۔ کے پی کے وسائل پر دوسرے صوبوں کی دست درازیوں پر غیر مطمئن ہے۔
پنجاب کی جی ڈی پی کی منطق بادی النظر میں تو بڑی جاندار نظر آتی ہے لیکن ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ جی ڈی پی سے اس معاملے کا تعلق کتنا ہے؟ آسان الفاظ میں جی ڈی پی کسی علاقے میں زراعت، صنعت اور خدمات کی کل سالانہ پیداوار کو کہتے ہیں۔ یہ اس علاقے کا سال بھر کا آؤٹ پٹ ہوتا ہے جس کا فائدہ اس علاقے کے لوگ خود اٹھاتے ہیں۔ اس پر جو ٹیکس دیا جاتا ہے وہ البتہ حکومت وصول کرتی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں ٹیکس تقسیم کیا جاتا ہے نہ کہ جی ڈی پی۔ اس بات کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کا وفاق کی ٹیکس آمدنی میں فی صد حصہ بالترتیب 49، 25، 16 اور 10 فی صد ہے جبکہ جی ڈی پی میں فی صد حصہ 61، 25، 10 اور 3 فی صد ہے۔ اصولی طور پر تو جتنا حصہ جی ڈی پی میں ہے اتنا ہی ٹیکس میں ہونا چاہیے لیکن بہ نسبت جی ڈی پی پنجاب کا ٹیکس میں حصہ حیرت انگیز طور پر کم کیوں ہے؟ سندھ کا برابر کیوں ہے؟ کے پی کے اور بلوچستان کا زیادہ کیوں ہے؟ صرف پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ٹیکس بہ نسبت جی ڈی پی کم جمع ہوتا ہے۔ کیا وہاں ٹیکس چوری زیادہ ہوتی ہے؟ یا کوئی اور عناصر کار فرما ہیں؟ کے پی کے اور بلوچستان زیادہ ٹیکس دیتے ہیں تو اصولی طور پر تو انہیں زیادہ حصہ ملنا چاہیے۔ نمبروں اور فارمولوں کے گورکھ دھندے میں انصاف گم نہیں ہو جانا چاہیے۔
اب رہا یہ سوال کہ صوبوں کو حصہ ملنے کے بعد کیا یہ پیسہ عوام پر خرچ ہو رہا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں تو پھر بھی صوبائی حکومتیں کچھ کام کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں اور سی پیک کے منصوبوں کی وجہ سے بلوچستان میں بھی ترقی ہو رہی ہے لیکن سندھ میں نہ تو سی پیک کا کوئی قابل ذکر حصہ ہے اور نہ وسائل کی تقسیم مبنی بر انصاف ہے۔ کراچی صوبے کا نوے فی صد ریونیو پیدا کرتا ہے لیکن ترقیاتی منصوبوں میں اس کا حصہ صرف پانچ فی صد ہے اور کراچی کا ابتر حال کسی سے مخفی بھی نہیں ہے۔ کراچی کے ساتھ سمندر ہے تو یہ اس کا قدرتی ایڈوانٹیج ہے۔ جیسے کہ کے پی کے کو پانی اور قدرتی وسائل ، پنجاب کو زراعت اور صنعت اور بلوچستان کو قدرتی وسائل کا ایڈوانٹیج ہے۔ قدرت بے انصاف نہیں ہے۔ کراچی کا بہت سا ریونیو تو ڈرائی پورٹس بنا کر منتقل کیا جا چکا ہے پھر بھی کراچی ریونیو میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے۔ اور اس کی اصل وجہ یہاں کی تجارتی برادری ہے جو کہ صنعت و تجارت کے تمام میدانوں میں ہمیشہ نت نئے آئیڈیاز تواتر سے لے کر آتی رہتی ہے۔
ساری دنیا میں زیادہ تر ٹیکس وصول کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس ہوتا ہے لیکن وفاق سے لڑ جھگڑ کر بمشکل صوبوں کو ایک مناسب حصہ ملنا شروع ہوا ہے۔ ابھی اس میں بھی بہت کچھ پیش رفت باقی ہے جس میں سر فہرست نیتوں کی درستی ہے۔ پیپلز پارٹی نے جس گراس روٹ لیول کا نعرہ لگا کر صوبوں کو حصہ دلوایا تھا اب اسے بلدیاتی سطح پر منتقل کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟ اور اس سلسلے میں پیپلز پارٹی ہی کیا باقی پارٹیاں بھی برابر کی ہی قصور وار ہیں۔
ہم مسلمان ہیں اور پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن معاشی اعداد و شمار کو بھی ہم تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ متوازن سوچ کے ساتھ دیکھیں تو پتا چل جائے گا کہ کہاں کہاں کون کون سی بے ایمانیاں ہو رہی ہیں؟ اور انہیں کیسے درست کیا جا سکتا ہ
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کے پی کے اور بلوچستان ایف سی ایوارڈ میں سب سے زیادہ صوبوں کو جی ڈی پی ہے لیکن
پڑھیں:
ایم ایل ون کا سن رہے ہیں لیکن گرائونڈ پر کچھ نہیں، جام سیف اللہ
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251028-01-5
اسلام آباد (صباح نیوز)چیئرمین قائمہ کمیٹی برائے ریلوے جام سیف اللہ خان نے کہاہے کہ وزارت ریلوے کا غیر سنجیدہ رویہ ہے،کافی عرصے سے ایم ایل ون کا سن رہی ہیں لیکن گرائونڈ پر کچھ نہیں ہے، منسٹر آئیں،وہ کابینہ میں بیٹھتے ہیں وہ بتائیں سہی کیا ہو رہا ہے، وزیر ریلوے حنیف عباسی کی عدم موجودگی پر ایجنڈا آئندہ کے لئے موخر کردیا گیا۔ سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے ریلوے کا چیئرمین جام سیف اللہ خان کی زیر صدارت اجلاس ہوا۔ اجلاس میں ریلوے میں کرپشن کو کنٹرول کرنے کے لئے اٹھائے گئیحکومتی اقدامات سے متعلق معاملہ زیر بحث آیا ۔ وزیر ریلوے حنیف عباسی کے کمیٹی اجلاس میں نہ آنے پر کمیٹی ارکان نے اعتراض کیا ۔سینیٹر شہادت اعوان نے کمیٹی کو غلط ریکارڈ دیئے جانے کا معاملہ اٹھاتے ہوئے کہاکہ منسٹر کو کمیٹی میں آنا تھا۔انہوں نے کہاکہ 15 دن کاوقت دیں میں خود میٹنگ بلائوں گا، سابقہ آئی جی نے ہمیں متضاد ریکارڈ دیا، ریلوے نے اپنے ملازمین کو شوکاز گیا، ثابت ہوا کہ کمیٹی کو غلط ریکارڈ دیا گیا،جب ریکارڈ غلط دیا گیا تو یہ معاملہ استحقاق کمیٹی کو ریفر کیا گیا، اس کمیٹی کو غلط ریکارڈ دیا گیا مس گائیڈ کیا گیا،وزیر وعدہ کر کے گئے تھے کہ میں میٹنگ بلائوں گا۔سیکرٹری ریلوے نے بتایا کہ وزیرصاحب کی طبعیت ٹھیک نہیں تھی، سینیٹر ناصر بٹ نے کہاکہ سب اس کمیٹی کو سنجیدہ لیتے ہیں تو منسٹرز کو بھی آنا چاہئے، منسٹر جب آتا ہے تو سب سنجیدہ لیتے ہیں، سینیٹر دوست علی نے کمیٹی میں انکشاف کیا کہ رات وہ(وزیر)کسی ٹی وی پروگرام میں تھے۔ چیئرمین کمیٹی نے کہاکہ یہ بہت سنجیدہ معاملہ ہے، تین دفعہ ہم نے میٹنگ کو موخر کیا،وزیراعظم کو لکھیں کہ وزارت کمیٹی کے ساتھ تعاون نہیں کررہی، وزارت کا غیر سنجیدہ رویہ ہے،کافی عرصے سے ایم ایل ون کا سن رہی ہیں لیکن گرائونڈ پر کچھ نہیں ہے، وزیر آئیں،وہ کابینہ میں بیٹھتے ہیں وہ بتائیںتو سہی کیا ہو رہا ہے۔