غزہ جنگ بندی کی نگرانی: اسرائیل نے ترکی کے فوجیوں کی تعیناتی مسترد کر دی
اشاعت کی تاریخ: 27th, October 2025 GMT
اسرائیل نے واضح کیا ہے کہ وہ ترکیہ کے فوجیوں کو اُس بین الاقوامی امن فورس کا حصہ بننے کی اجازت نہیں دے گا، جسے امریکا غزہ میں اسرائیل اور حماس جنگ بندی کی نگرانی کے لیے تشکیل دینا چاہتا ہے۔
یہ اعلان اسرائیل کے وزیرِ خارجہ گیڈن سار نے پیر کے روز ہنگری کے دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا۔
یہ بھی پڑھیں:امریکا اسرائیل کا نگراں نہیں، شراکت دار ہے، نائب امریکی صدر جے ڈی وینس
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ثالثی میں طے پانے والے 20 نکاتی جنگ بندی معاہدے میں ایک بین الاقوامی فورس کے قیام کا تصور شامل ہے، تاہم اس میں یہ واضح نہیں کیا گیا کہ کون سے ممالک اپنی افواج اس مشن کے لیے فراہم کریں گے۔
Israeli FM Gideon Sa’ar emphasizes that nations wishing to deploy forces must maintain a fair stance towards Israel, citing Turkey's hostile approach under Erdogan.
— The Inquiry (@InquiryTh) October 27, 2025
معاہدے کے مطابق امریکا عرب اور بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر ایک ’عارضی بین الاقوامی استحکام فورس‘ تشکیل دے گا جو غزہ میں تعینات ہو کر تربیت یافتہ فلسطینی پولیس کی معاونت کرے گی۔
اس ضمن میں اردن اور مصر سے بھی مشاورت کی جائے گی جنہیں اس میدان میں طویل تجربہ حاصل ہے۔
امریکی حکام کے مطابق اس فورس کی تشکیل کا عمل جاری ہے، تاہم اسرائیلی حکام کا کہنا ہے کہ جنگ بندی معاہدے کا دوسرا مرحلہ تاحال شروع نہیں ہوا۔
مزید پڑھیں: نیتن یاہو نے غزہ میں ترک سیکیورٹی فورسز کے کسی بھی کردار کی مخالفت کردی
وزیرِ خارجہ گیڈون سار نے کہا کہ اسرائیل ترکیہ کی شمولیت کی مخالفت کرتا ہے کیونکہ صدر رجب طیب ایردوان طویل عرصے سے اسرائیل کے مخالف رہے ہیں۔
اُن کے مطابق اسرائیل نے اس مؤقف سے امریکی حکام کو بھی آگاہ کر دیا ہے۔
’جن ممالک کو اپنی افواج بھیجنے کی خواہش ہے، انہیں کم از کم اسرائیل کے ساتھ انصاف پر مبنی رویہ رکھنا چاہیے۔‘
مزید پڑھیں:امریکی سینٹرل کمانڈ کے سربراہ کا غزہ کا دورہ، امریکی افواج کی عدم تعیناتی کی یقین دہانی
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ غزہ میں کسی امریکی فوجی کی تعیناتی نہیں ہوگی۔
نائب صدر جے ڈی وینس اور وزیرِ خارجہ مارکو روبیو نے گزشتہ ہفتے اسرائیل کے دورے کے دوران کہا تھا کہ کئی ممالک اس امن فورس میں شمولیت کے خواہشمند ہیں جو غزہ میں فلسطینی پولیس فورس کی تربیت کرے گی۔
مارکو روبیو کے مطابق امریکا اس فورس کے لیے اقوامِ متحدہ کی منظوری یا کسی بین الاقوامی اجازت نامے کے حصول پر کام کر رہا ہے۔
مزید پڑھیں: عرب اسلامی ہنگامی اجلاس: ’گریٹر اسرائیل‘ کا منصوبہ عالمی امن کے لیے سنگین خطرہ بنتا جارہا ہے: امیر قطر
ترکیہ کو اس فورس کے ممکنہ اہم امیدوار کے طور پر دیکھا جا رہا ہے کیونکہ وہ نہ صرف ایک مضبوط فوجی طاقت رکھتا ہے بلکہ حماس کے ساتھ قریبی تعلقات بھی رکھتا ہے، جسے جنگ بندی معاہدے کے تحت غیر مسلح ہونا ہے۔
تاہم اسرائیل اور ترکیہ کے تعلقات غزہ کی جنگ کے بعد بدترین سطح پر پہنچ چکے ہیں۔
صدر ایردوان نے جنگ کے آغاز سے اسرائیل اور خصوصاً وزیراعظم نیتن یاہو پر شدید تنقید کی ہے، اُن پر نسل کشی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان کا موازنہ نازی رہنما ایڈولف ہٹلر سے کیا ہے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
اسرائیل اقوام متحدہ ایڈولف ہٹلر ترکیہ جے ڈی وینس حماس صدر رجب طیب ایردوان غزہ گیڈن سار گیڈون سار مارکو روبیو نائب صدر وزیر خارجہ وزیراعظم نیتن یاہوذریعہ: WE News
کلیدی لفظ: اسرائیل اقوام متحدہ ترکیہ جے ڈی وینس صدر رجب طیب ایردوان گیڈن سار گیڈون سار مارکو روبیو وزیراعظم نیتن یاہو بین الاقوامی اسرائیل کے کے مطابق کے لیے
پڑھیں:
غزہ فورس میں غیرملکی افواج کا انتخاب اسرائیل کرے گا: نیتن یاہو
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو نے کہا ہے کہ اسرائیل یہ فیصلہ کرے گا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصوبے کے تحت غزہ میں جنگ بندی کو مستحکم کرنے کے لیے مجوزہ بین الاقوامی فورس میں کون سی غیر ملکی افواج کو شامل ہونے کی اجازت دی جائے گی۔
غیرملکی خبر ایجنسی کے مطابق اب تک واضح نہیں ہے کہ عرب یا دیگر ممالک اس فورس کے لیے اپنے فوجی بھیجنے پر آمادہ ہوں گے یا نہیں، خاص طور پر اس وجہ سے کہ حماس نے منصوبے کے مطابق اپنے ہتھیار ڈالنے سے انکار کر دیا ہے، جب کہ اسرائیل نے اس فورس کی ساخت پر تحفظات ظاہر کیے ہیں۔
ٹرمپ انتظامیہ نے امریکی فوجیوں کو غزہ پٹی میں بھیجنے سے انکار کر دیا ہے، لیکن وہ انڈونیشیا، متحدہ عرب امارات، مصر، قطر، ترکی اور آذربائیجان سے اس کثیر القومی فورس میں شمولیت کے لیے بات چیت کر رہی ہے۔
نیتن یاہو نے کہا کہ ہم اپنی سکیورٹی کے خود ذمہ دار ہیں، دشمنوں پر حملوں کے لیے کسی سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں اور ہم نے یہ بات واضح کر دی ہے کہ بین الاقوامی افواج کے حوالے سے بھی اسرائیل ہی فیصلہ کرے گا کہ کون سی افواج ہمارے لیے ناقابلِ قبول ہیں، اور ہم اسی پالیسی کے تحت عمل کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ بات بلاشبہ امریکا کے لیے بھی قابلِ قبول ہے، جیسا کہ اس کے اعلیٰ ترین نمائندوں نے حالیہ دنوں میں واضح طور پر کہا ہے، اسرائیل اب بھی اس علاقے کے تمام راستوں پر کنٹرول رکھتا ہے۔
اسرائیلی وزیراعظم نے اشارہ دیا تھا کہ وہ غزہ میں ترک سکیورٹی فورسز کے کسی بھی کردار کے خلاف ہوں گے، ترک صدر طیب اردوان نے فلسطینی علاقے میں اسرائیلی فضائی اور زمینی کارروائیوں کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا تھا جس کے بعد ترک۔اسرائیلی تعلقات غزہ پر اسرائیلی حملوں کے دوران بری طرح خراب ہو گئے تھے۔