Jasarat News:
2025-10-28@00:47:08 GMT

نظام مبنی بر انصاف

اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251028-03-8

 

سید اقبال ہاشمی

ملک بنے ہوئے آٹھ دہائیاں گزر گئی ہیں لیکن ابھی تک ہم اپنے بنیادی مسائل کا پائدار حل تلاش نہیں کر سکے ہیں ناانصافی کی دہائیاں دیتے دیتے ربع صدی میں ہمارا ایک بازو کٹ گیا لیکن حالات و واقعات کی یکسانیت میں کوئی خاص فرق نہیں آیا ہے۔ چھوٹے صوبوں کا احساس محرومی ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا ہے۔ ختم کیا ہو؟ سیاست کی بنیاد ہی یہی ہے۔

 

ایسا بھی نہیں ہے کہ نظام سلطنت اور انتظام آمدن کے معاملے میں کوئی پیش رفت بالکل بھی نہیں ہوئی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں ہونے والی مفاہمت اس کی عمدہ مثال ہے۔ آرٹیکل 160 کے تحت 1973 کے آئین میں نیشنل فائنانس کمیشن کے خد و خال پہلے ہی بنا دیے گئے تھے اور یہ طے پایا تھا کہ صدر پاکستان ہر پانچ سال بعد نیشنل فائنانس کمیشن کی تشکیل دیں گے جو کہ ٹیکسوں کے تقسیم کا طریقہ کار وضع کرے گا۔ لیکن اس سلسلے میں قوانین اور تقسیم کے طریقہ کار پر بڑی پیش رفت اٹھارویں ترمیم کے ذریعے ممکن ہوئی۔ اس میں یہ بات واضح کر دی گئی کہ صوبوں کا حصہ پچھلے کمیشن میں طے کردہ حصے سے کم نہیں کیا جا سکے گا اور اس سے بڑھ کر یہ کہ صوبوں کو ملنے والا حصہ صرف آبادی کی بنیاد پر طے نہیں کیا جائے گا بلکہ متعدد پیمانوں کو استعمال کرکے طے کیا جائے گا۔ ساتویں این ایف سی ایوارڈ میں یہ فیصلہ ہوا کہ غربت، پسماندگی، ٹیکس ادا کرنے کی صلاحیت اور رقبہ کی بنیاد پر ٹیکس ریونیو کا 57.

5 فی صد حصہ صوبوں کو ملے گا جو کہ پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کو بالترتیب 52، 25، 15 اور 9 فی صد کے حساب سے ادا کی جائے گی۔

 

اب بھی تمام صوبوں بشمول پنجاب سے یہ آوازیں اٹھتی رہتی ہیں کہ این ایف سی ایوارڈ میں ہم اپنے بھائیوں کے لیے قربانیاں دے رہے ہیں۔ پنجاب کی منطق یہ ہے کہ ہماری سب سے زیادہ آبادی اور جی ڈی پی میں سب سے زیادہ حصہ یعنی 61 فی صد کے باوجودِ ریونیو میں نسبتاً کم حصہ ہے۔ بلوچستان اپنے وسیع رقبہ اور معدنی وسائل کی دہائی دیتا ہے تو سندھ سب سے زیادہ ٹیکس جمع کرنے کے باوجود کم حصہ پر شاکی نظر آتا ہے۔ کے پی کے وسائل پر دوسرے صوبوں کی دست درازیوں پر غیر مطمئن ہے۔

 

پنجاب کی جی ڈی پی کی منطق بادی النظر میں تو بڑی جاندار نظر آتی ہے لیکن ہمیں دیکھنا پڑے گا کہ جی ڈی پی سے اس معاملے کا تعلق کتنا ہے؟ آسان الفاظ میں جی ڈی پی کسی علاقے میں زراعت، صنعت اور خدمات کی کل سالانہ پیداوار کو کہتے ہیں۔ یہ اس علاقے کا سال بھر کا آؤٹ پٹ ہوتا ہے جس کا فائدہ اس علاقے کے لوگ خود اٹھاتے ہیں۔ اس پر جو ٹیکس دیا جاتا ہے وہ البتہ حکومت وصول کرتی ہے۔ این ایف سی ایوارڈ میں ٹیکس تقسیم کیا جاتا ہے نہ کہ جی ڈی پی۔ اس بات کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے۔ پنجاب، سندھ، کے پی کے اور بلوچستان کا وفاق کی ٹیکس آمدنی میں فی صد حصہ بالترتیب 49، 25، 16 اور 10 فی صد ہے جبکہ جی ڈی پی میں فی صد حصہ 61، 25، 10 اور 3 فی صد ہے۔ اصولی طور پر تو جتنا حصہ جی ڈی پی میں ہے اتنا ہی ٹیکس میں ہونا چاہیے لیکن بہ نسبت جی ڈی پی پنجاب کا ٹیکس میں حصہ حیرت انگیز طور پر کم کیوں ہے؟ سندھ کا برابر کیوں ہے؟ کے پی کے اور بلوچستان کا زیادہ کیوں ہے؟ صرف پنجاب واحد صوبہ ہے جہاں ٹیکس بہ نسبت جی ڈی پی کم جمع ہوتا ہے۔ کیا وہاں ٹیکس چوری زیادہ ہوتی ہے؟ یا کوئی اور عناصر کار فرما ہیں؟ کے پی کے اور بلوچستان زیادہ ٹیکس دیتے ہیں تو اصولی طور پر تو انہیں زیادہ حصہ ملنا چاہیے۔ نمبروں اور فارمولوں کے گورکھ دھندے میں انصاف گم نہیں ہو جانا چاہیے۔

 

اب رہا یہ سوال کہ صوبوں کو حصہ ملنے کے بعد کیا یہ پیسہ عوام پر خرچ ہو رہا ہے تو اس کا جواب یہی ہے کہ پنجاب اور کے پی کے میں تو پھر بھی صوبائی حکومتیں کچھ کام کرتی ہوئی نظر آرہی ہیں اور سی پیک کے منصوبوں کی وجہ سے بلوچستان میں بھی ترقی ہو رہی ہے لیکن سندھ میں نہ تو سی پیک کا کوئی قابل ذکر حصہ ہے اور نہ وسائل کی تقسیم مبنی بر انصاف ہے۔ کراچی صوبے کا نوے فی صد ریونیو پیدا کرتا ہے لیکن ترقیاتی منصوبوں میں اس کا حصہ صرف پانچ فی صد ہے اور کراچی کا ابتر حال کسی سے مخفی بھی نہیں ہے۔ کراچی کے ساتھ سمندر ہے تو یہ اس کا قدرتی ایڈوانٹیج ہے۔ جیسے کہ کے پی کے کو پانی اور قدرتی وسائل ، پنجاب کو زراعت اور صنعت اور بلوچستان کو قدرتی وسائل کا ایڈوانٹیج ہے۔ قدرت بے انصاف نہیں ہے۔ کراچی کا بہت سا ریونیو تو ڈرائی پورٹس بنا کر منتقل کیا جا چکا ہے پھر بھی کراچی ریونیو میں سب سے زیادہ حصہ ڈالتا ہے۔ اور اس کی اصل وجہ یہاں کی تجارتی برادری ہے جو کہ صنعت و تجارت کے تمام میدانوں میں ہمیشہ نت نئے آئیڈیاز تواتر سے لے کر آتی رہتی ہے۔

 

ساری دنیا میں زیادہ تر ٹیکس وصول کرنے کا اختیار صوبوں کے پاس ہوتا ہے لیکن وفاق سے لڑ جھگڑ کر بمشکل صوبوں کو ایک مناسب حصہ ملنا شروع ہوا ہے۔ ابھی اس میں بھی بہت کچھ پیش رفت باقی ہے جس میں سر فہرست نیتوں کی درستی ہے۔ پیپلز پارٹی نے جس گراس روٹ لیول کا نعرہ لگا کر صوبوں کو حصہ دلوایا تھا اب اسے بلدیاتی سطح پر منتقل کرنے سے کیوں گریزاں ہے؟ اور اس سلسلے میں پیپلز پارٹی ہی کیا باقی پارٹیاں بھی برابر کی ہی قصور وار ہیں۔

 

ہم مسلمان ہیں اور پاکستان اسلام کے نام پر بنا تھا لیکن معاشی اعداد و شمار کو بھی ہم تعصب کی عینک سے دیکھتے ہیں۔ متوازن سوچ کے ساتھ دیکھیں تو پتا چل جائے گا کہ کہاں کہاں کون کون سی بے ایمانیاں ہو رہی ہیں؟ اور انہیں کیسے درست کیا جا سکتا ہ

اقبال ہاشمی

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: کے پی کے اور بلوچستان ایف سی ایوارڈ میں سب سے زیادہ صوبوں کو جی ڈی پی ہے لیکن

پڑھیں:

سپریم کورٹ کی ٹیکنالوجی پر مبنی عوام دوست عدالتی اصلاحات پر پیش رفت رپورٹ جاری

سپریم کورٹ کی ٹیکنالوجی پر مبنی عوام دوست عدالتی اصلاحات پر پیش رفت رپورٹ جاری WhatsAppFacebookTwitter 0 25 October, 2025 سب نیوز

اسلام آباد(آئی پی ایس )سپریم کورٹ نے ٹیکنالوجی پر مبنی عوام دوست عدالتی اصلاحات پر تازہ پیش رفت رپورٹ جاری کر دی۔عدالت عظمی کے جاری اعلامیہ کے مطابق اصلاحات کا مقصد عدالتی نظام میں شفافیت، کارکردگی اور انصاف تک عوامی رسائی کو بہتر بنانا ہے، اہم اصلاحات میں مقدمات کا ڈیجیٹل نظام، ای فائلنگ، آن لائن کاز لسٹ اور مقدمات کی حقیقی وقت میں ٹریکنگ شامل ہے۔

اعلامیہ میں بتایا گیا کہ ٹیکنالوجی کی مدد سے انصاف تک رسائی کے تحت چار ایریاز میں اصلاحات کی گئیں، عدالتی اصلاحات کے تحت ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن ، شفافیت میں بہتری، عوامی سہولت اور اصلاحاتی اقدامات شامل ہیں۔اسی طرح نئی اصلاحات کے تحت 24098 تصدیق شدہ فیصلے جاری کیے گئے، ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے تحت 7242 الیکٹرانک بیان حلفی جمع کرائے گئے، 16334 درخواستیں ای فائلنگ کے ذریعے دائر ہوئیں۔سپریم کورٹ کے اعلامیہ میں کہا گیا کہ ڈیجیٹل ٹرانسفارمیشن کے تحت تا حال 54473 فیصلے ڈیجیٹائز کیے گئے، عدالتی اصلاحات کے تحت 8735 کیو آر کوڈ والی ججمنٹس جاری کی گئی، اصلاحات کے تحت جوڈیشل ڈیش بورڈ لانچ کیا گیا۔نئی اصلاحات کے تحت سپریم کورٹ رولز 2025، ججز کوڈ آف کنڈکٹ کی منظوری دی گئی، عدالتی اصلاحات کے تحت آن لائن فیڈ بیک سسٹم، اینٹی کرپشن ہاٹ لائن، عوامی سہولت مرکز انفارمیشن سیل، سمندر پار پاکستانیوں کے لیے سہولت سیل کا آغاز کیا گیا۔

اعلامیہ میں بتایا گیا کہ اصلاحات کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کا سیکرٹریٹ قائم کیا گیا، نئے رولز نوٹیفائی کیے گئے، سپریم جوڈیشل کونسل اپنے چار اجلاسوں میں 130 شکایات نمٹا چکی ہیں، عدالتی اصلاحات کے تحت جوڈیشل کمیشن سیکرٹریٹ قائم کیا گیا۔اعلی عدلیہ میں ججوں کی تعیناتی کے لیے جوڈیشل کمیشن رولز 2024 نوٹیفائی کیے گئے، عدالتی اصلاحات کے تحت لاہور ہائیکورٹ، سندھ ہائیکورٹ، پشاور ہائیکورٹ، بلوچستان ہائیکورٹ، اسلام آباد ہائیکورٹ میں ججوں کی تعیناتیاں کی گئیں۔سپریم کورٹ اعلامیہ کے مطابق جوڈیشل کمیشن کے ذریعے نومبر 2024 سے اب تک 31 اجلاسوں میں 53 جج تعینات کیے جا چکے، جسٹس ڈیویلپمنٹ فنڈ کے ذریعے 2026 تک تمام اضلاع میں سولرائزیشن، ای لائبریریوں کا قیام، خواتین کے لیے خصوصی سہولیات، واٹر فلٹریشن پلانٹ فراہم کیے جائیں گے۔عدالتی اصلاحات کے تحت جہیز سے متعلق فیملی لا ریفارمز کی جا رہی ہیں، فیملی لا ریفارمز کے تحت نکاح نامے میں جہیز کا کالم شامل کرنے کے لیے اصلاحات جاری ہے، اصلاحات کے تحت غیر رجسٹرڈ شادیوں کے خلاف جرمانے کی تجویز زیر غور ہے۔علاوہ ازیں مقدمات کی اسلام آباد منتقلی بھی اصلاحات میں شامل ہے، عدالتی اصلاحات کے تحت 23 ججز ٹریننگز، تین کورٹ سٹاف ٹریننگز، پانچ بار ممبرز ٹریننگز، نو سٹیک ہولڈر ٹریننگز کا انعقاد کیا جا چکا ہے۔

روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔

WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرپاکستان اور قازقستان کی افواج کے درمیان انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں مشترکہ مشق،آئی ایس پی ار پاکستان اور قازقستان کی افواج کے درمیان انسدادِ دہشت گردی کے شعبے میں مشترکہ مشق،آئی ایس پی ار ٹرمپ کا شمالی کوریا کے حکمراں کم جونگ سے ملاقات کی خواہش کا اظہار این سی سی آئی اے کے افسروں پر کرپشن الزامات کا معاملہ، وفاقی وزیر داخلہ کا اظہار برہمی، سخت کارروائی کا حکم پی پی کا پارلیمانی اجلاس، وزیراعظم آزاد کشمیر کیخلاف تحریک عدم اعتماد لانے پر غور نومبر 2024میں عمران خان کی رہائی کیلئے اسٹیبلشمنٹ سے معاملات طے پا گئے تھے، شیر افضل مروت کا دعوی فیلڈ مارشل کی مصری صدر سے ملاقات، خطے کی صورتحال اور باہمی دلچسپی کے امور پرگفتگو TikTokTikTokMail-1MailTwitterTwitterFacebookFacebookYouTubeYouTubeInstagramInstagram

Copyright © 2025, All Rights Reserved

رابطہ کریں ہماری ٹیم

متعلقہ مضامین

  • پاکستان میں نان فائلرز کے لیے اے ٹی ایم سے نقد رقم نکلوانے پر نیا ٹیکس نافذ
  • ڈینگی کا وبائی صورت اختیار کرنا پیپلزپارٹی کی نااہلی کا ثبوت ہے ، تحریک انصاف
  • کھیل میں سیاست نہیں ہونی چاہیے، وفاقی وزیر اطلاعات
  • فضائی آلودگی اب صرف سانس کا مسئلہ نہیں بلکہ یہ دماغ اور جسم پر مکمل حملہ ہے، جے رام رمیش
  • نظام انصاف میں شفافیت، رسائی اورکارکردگی اولین ترجیح ہے،چیف جسٹس
  • مجھے انصاف کہاں سے ملے گا؟ زیادتی کا شکار لڑکی نے مریم نواز سے اہم اپیل کردی
  • ٹیکنالوجی ایک طاقتور حلیف لیکن انسانی فیصلے اور ہمدردی کی جگہ نہیں لے سکتی، جسٹس سوریا کانت
  • سپریم کورٹ کی ٹیکنالوجی پر مبنی عوام دوست عدالتی اصلاحات پر پیش رفت رپورٹ جاری
  • آسٹریا سمیت یورپ بھر میں کل صبح گھڑیاں 1 گھنٹہ پیچھے کر دی جائیں گی