ترکی کا بڑا قدم! برطانیہ سے 11 ارب ڈالر کے جنگی طیارے خریدنے کا معاہدہ
اشاعت کی تاریخ: 28th, October 2025 GMT
انقرہ: ترکیہ نے اپنی فضائی دفاعی صلاحیت کو مزید مضبوط بنانے کے لیے برطانیہ کے ساتھ 20 جدید یوروفائٹر ٹائیفون طیاروں کی خریداری کا معاہدہ کرلیا۔
انقرہ میں ہونے والی تقریب میں ترک صدر رجب طیب اردوان اور برطانوی وزیراعظم سر کیئر اسٹارمر نے شرکت کی۔ معاہدے پر دستخط کے بعد صدر اردوان نے اسے دونوں ممالک کے درمیان اسٹریٹجک تعلقات کے ایک نئے دور کی علامت قرار دیا۔
معاہدے کی مالیت تقریباً 11 ارب امریکی ڈالر بتائی گئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق پہلے یوروفائٹر جیٹس 2030 میں ترکیہ کو فراہم کیے جائیں گے۔
ترک وزارتِ دفاع نے بتایا کہ وہ قطر اور عمان سے بھی 12، 12 ٹائیفون طیارے خریدنے کے لیے مذاکرات کر رہے ہیں تاکہ خطے میں اسرائیل جیسے حریف ممالک کے مقابلے میں اپنی فضائی برتری برقرار رکھ سکیں۔
ترکی حکام کے مطابق ملک کا منصوبہ مجموعی طور پر 120 جنگی طیارے خریدنے کا ہے تاکہ اپنی فضائی قوت کو جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جا سکے۔
یاد رہے کہ جولائی میں ترکیہ اور برطانیہ کے درمیان 40 یوروفائٹر ٹائیفون طیاروں کی خریداری کا ابتدائی معاہدہ ہوا تھا۔
.ذریعہ: Express News
پڑھیں:
اسرائیل نے قبرص میں فضائی دفاعی نظام تعینات کر دیا
رپورٹ کے ایک اور حصے میں کہا گیا ہے کہ ماہرین کے مطابق یہ اقدام دراصل ایران اور اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بعد خطے میں طاقت کے توازن کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے، اس جنگ میں تل ابیب کو میزائل حملوں کے محاذ پر بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا، اور اب ترکیہ بھی اس جغرافیائی کشمکش کے دائرے میں آ گیا ہے۔ اسلام ٹائمز۔ عبرانی زبان کے میڈیا آوٹ لیٹ نے خبر دی ہے کہ اسرائیلی فوج نے اپنا فضائی دفاعی نظام قبرص میں نصب کر دیا ہے۔ خبر رساں ویب سائٹ روتر نٹ نے ذرائع کے حوالے سے بتایا کہ اسرائیل نے اپنے باراک ایم ایکس نامی جدید فضائی دفاعی نظام قبرص میں تعینات کر دیے ہیں، جن کی حدِ پرواز تقریباً 400 کلومیٹر تک ہے۔ یہ نظام ڈرونز، جنگی طیاروں اور کروز میزائلوں کو روکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں، اور یوں یہ اسرائیل کے ابتدائی وارننگ اور انٹیلیجنس نیٹ ورک کا حصہ بن کر مشرقی بحیرہ روم میں اس کی دفاعی موجودگی کو مزید مضبوط بنا دیتے ہیں۔
اسی کے ساتھ تل ابیب اور ایتھنز کے درمیان فوجی تعاون بھی اسٹریٹیجک سطح تک بڑھ جائیگا، جس کا مقصد ترکیہ کو مشرق اور مغرب دونوں سمتوں سے گھیرنا ہو سکتا ہے۔ رپورٹ کے ایک اور حصے میں کہا گیا ہے کہ ماہرین کے مطابق یہ اقدام دراصل ایران اور اسرائیل کی حالیہ جنگ کے بعد خطے میں طاقت کے توازن کے ایک نئے مرحلے کا آغاز ہے، اس جنگ میں تل ابیب کو میزائل حملوں کے محاذ پر بھاری نقصان اٹھانا پڑا تھا، اور اب ترکیہ بھی اس جغرافیائی کشمکش کے دائرے میں آ گیا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ قبرص، اپنے جدید دفاعی اور انٹیلیجنس نظاموں کے ذریعے، اسرائیل کے لیے ترکیہ پر دباؤ ڈالنے کا ایک نیا مرکز بن گیا ہے، کیونکہ انقرہ اب بھی ایک ایسی طاقتور ساخت رکھتا ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ اسی لیے اسرائیل، قبرص اور یونان کے ساتھ اپنے اتحاد کو مضبوط کر کے ترکی کے خلاف اپنے محاذوں کو وسعت دینے کی کوشش کر رہا ہے، جبکہ ترکی، اسرائیل کی وارننگز کے باوجود، شام اور غزہ میں اپنی موجودگی بڑھانے کی پالیسی پر قائم ہے۔