data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
یہ جو ہمارے ہاں جمہوریت کا ڈھونگ رچا ہوا ہے یہ درحقیقت موروثیت کا وہ شاخسانہ ہے کہ انسان زبانِ حال سے توبہ ہی کہے صاف نظر آتا ہے کہ ملک میں جمہوریت نہیں بلکہ ایک خاندانی سلطنت کا ایسا کھیل ہے جو پشت در پشت چلا آ رہا ہے۔ جمہوریت؟ یہ تو محض نام بڑے اور درشن چھوٹے والا معاملہ رہ گیا ہے۔ یہ تو ایک کھوکھلی ڈگڈگی ہے جسے پردے کے پیچھے بیٹھا کوئی خاندان اپنی مرضی سے بجاتا ہے، باہر سے نعرہ بلند ہوتا ہے سب کا ساتھ سب کا وکاس مگر اندرونی حقیقت یہ ہے کہ جب دیکھو وہی پرانی دال وہی پرانا سالن یعنی باپ گیا تو بیٹا، بیٹا نہ ہو تو بھتیجا اور اگر وہ بھی دستیاب نہ ہو تو داماد صاحب وارث بن کر پگڑی سنبھال لیتے ہیں۔ یہ کیسا انصاف ہے کہ عوام ہمیشہ اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے رہتے ہیں اور کرسی کی بغل گیری کا حق ہمیشہ ایک ہی خاندان کے لیے مخصوص ہو کر رہ گیا ہے۔
پہلے زمانے میں یہ موروثیت کا روگ صرف سیاست کی بغل تک محدود تھا مگر کوا چلا ہنس کی چال اپنی بھی بھول گیا کے مصداق اب تو یہ مرض چھوت کی طرح ہر جانب پھیل گیا ہے حیرت ہے اب تو سرکاری دفتروں کا حال یہ ہے کہ گویا یہ باپ دادا کی جاگیر ہوں جو تقسیم ہو رہی ہو محکمہ در محکمہ ایک موروثی لائسنس بٹ رہا ہے یہ موروثیت نہیں بلکہ ایک ایسا بڑا پیڑ ہے جس کے پھل ہمیشہ کڑوے ہی ہوتے ہیں۔
جب اہلیت اور لیاقت کی جگہ خاندان اور تعلق کی بنیاد پر کرسی مل جائے تو پھر اندھیر نگری چوپٹ راج کا سماں بننا تو یقینی ہے افسروں کے بچے بغیر دوڑ دھوپ کے وہی کرسی پر براجمان ہو جاتے ہیں گویا گھر کی مرغی دال برابر والا معاملہ ہے باہر کے لائق فائق جوان محض تماشائی بنے رہ جاتے ہیں جبکہ صاحب بہادر کا شہزادہ بڑے ٹھاٹھ باٹھ سے فائلوں پر دستخط کرتا ہے۔
یہ موروثی شاہزادے کرپشن نہیں کرتے بلکہ یوں سمجھیے کہ اپنے خاندانی حق کا بجٹ وصول کرتے ہیں۔ سامنے ہی بیٹھے مال ہڑپ کر رہے ہیں اور پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ایسا لگتا ہے جیسے یہ مرض نہیں بلکہ کوئی خاندانی تمغہ ہو جسے سینے پر سجا کر چچا غالب کی طرح اکڑ کر چلا جا رہا ہو یہ کرپشن ان کے لیے کوئی عیب نہیں بلکہ ایک خاندانی رسم ہے جسے وہ بڑے فخر سے نبھاتے ہیں۔
اب نوکریاں قابلیت سے نہیں بلکہ یہ دیکھ کر ملتی ہیں کہ آپ کا ماموں کس کرسی پر بیٹھا ہے یا آپ کی خالہ کس افسر کی اہلیہ ہیں اندھوں میں کانا راجا بن کر سارے نااہل رشتہ دار اہم عہدوں پر بڑے آرام سے براجمان ہو جاتے ہیں اور لائق لوگ محض منہ تکتے رہ جاتے ہیں یہاں سارا کام خیر سے نہیں بلکہ سفارش سے ہوتا ہے۔ چور چور مَو سیرا بھائی والی بات ہے ایک کرپٹ دوسرے کو تحفظ دیتا ہے۔
جمہوریت کا کیا کہیے یہ ہے بظاہر گْل؍ مگر حقیقت میں شاخسانہ ہے یہ موروثیت کا؍ ہر ایک منصب یہاں وراثت میں بٹ رہا ہے؍ گویا یہ ملک نہیں کوئی خاندانی جاگیر ہے؍ ہمارے حال پر ہنسنا تو بنتا ہے یارو
ہم نے خود ہی اپنے لیے یہ بیماری چْنی ہے۔
یہاں قانون صرف غریب کی پہچان کے لیے ہے جب کہ طاقتور کے لیے تو قانون ایک رَبر اسٹیمپ کی مانند ہے جسے جب چاہا مروڑ دیا یہ ناانصافی اب دین و ایمان بن چکی ہے اور غریب کی آہ کو سننے والا کوئی نہیں۔
یہ موروثیت تو ملک کے لیے زہر ِ ہلاہل سے کم نہیں جو پوری قوم کو اندر ہی اندر کھوکھلا کر رہی ہے یہ جمہوریت ایک کاغذی شیر سے زیادہ کچھ نہیں جو صرف دکھاوے کے لیے کھڑا کیا گیا ہے حقیقی طاقت وہی خاندان ہے جو نسلوں سے تخت اور حکومت کو اپنا حق ِ وراثت سمجھتا آ رہا ہے۔
تو صاحبو خلاصۂ کلام یہ ہے کہ یہ جو ہمارے ہاں جمہوریت کی بڑی بڑی باتیں ہوتی ہیں نا یہ دراصل میاں کی دوڑ مسجد تک والی بات ہے ہمیں تو اب اس موروثیت کے مرض پر غم کم اور مسکراہٹ زیادہ آنی چاہیے کہ قوم نے خود ہی اپنی تقدیر کو خاندانی نائی کے ہاتھوں میں دے رکھا ہے جو ہر پانچ سال بعد ایک ہی پرانے اوزار سے نیا بال کاٹتا ہے۔
یہ موروثی شاہزادے کہتے ہیں کہ وہ ملک کی خدمت کر رہے ہیں۔ اللہ جھوٹ نہ بلوائے یہ خدمت نہیں ہے جناب یہ تو ان کی پشتینی دکان کی مفت کی دیہاڑی ہے جسے یہ بڑے سج دھج کر سمیٹتے ہیں اور عوام کو جمہوریت کے خوشنما خواب دکھا کر یہ دھن بجتی رہتی ہے۔
ڈگڈگی بجاتے راج گھرانے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: یہ موروثیت نہیں بلکہ جاتے ہیں ہیں اور ہے جسے گیا ہے رہا ہے
پڑھیں:
ڈاکٹر طاہر القادری سے ملاقات
ڈاکٹر طاہر القادری پاکستان کی سیاست کا اہم حصہ رہے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ انھوں نے پاکستان کی سیاست کو اپنے ارد گرد گھما لیا تھا۔ وہ کچھ نہ ہوتے ہوئے بھی سب کچھ بن گئے تھے۔ وہ ملک کے سیاسی منظر نامہ میں مرکزی حیثیت حا صل کر گئے تھے۔
ان کے دھرنے کامیاب دھرنے تھے۔ بلکہ پاکستان میں کامیاب دھرنوں کا فارمولہ انھوں نے ہی پیش کیا۔ طویل دھرنوں کا فارمولہ بھی انھوں نے ہی پیش کیا۔ سیاست میں کنٹینر کو بھی طاہر القادری ہی لے کر آئے۔ وہ پاکستان کی قومی اسمبلی کے رکن بھی رہے ہیں۔ انھوں نے اپنی سیاسی جماعت پاکستان عوامی تحریک بھی بنائی۔ انھوں نے بڑے سیاسی اتحاد بھی بنائے۔ پھر ایسا بھی ہوا کہ ڈاکٹر طاہر القادری نے پاکستان کی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی۔ انھوں نے عملی سیاست کو خیر باد کہ دیا۔
پاکستان میں ویسے تو سیاست سے ریٹائرمنٹ کا کوئی رواج نہیں ہے۔ یہاں آپ مرتے دم تک سیاست کرتے رہتے ہیں۔ آپ جتنے پرانے ہوتے جاتے ہیں سیاست میں اتنے ہی انمول ہو جاتے ہیں۔ سنیئرز کی سیاست میں بہت قدر ہے۔ سب سیاستدانوں کو دیکھ لیں، کسی نے سیاست سے ریٹائرمنٹ نہیں لی۔ لیکن ڈاکٹر طاہر القادری نے باقاعدہ عملی سیاست سے ریٹائرمنٹ لے لی ہے۔ وہ آٹھ سال سے پاکستان نہیں آئے۔ کینیڈا میں مقیم ہیں۔ پاکستان کی سیاست پر کوئی تبصرہ نہیں کرتے۔ ہم نے کبھی ان کا کوئی بیان نہیں دیکھا۔ وہ اب میڈیا کو کوئی انٹرویو بھی نہیں دیتے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان کی عوام سے ڈاکٹر طاہر القادری نے گوشہ نشینی کر لی ہے۔ وہ آجکل کینیڈا میں مقیم ہیں۔ حال ہی میں ٹورنٹو جانا ہوا۔ پرانے صحافی دوست اور بھائی بدر منیر چوہدری سے ملاقات ہوئی۔
لاہور میں ایک اردو اخبار میں وہ میرے ساتھ رپورٹر تھے۔ پھر چیف رپورٹر بھی بنے۔ آجکل کینیڈ ا میں مقیم ہیں۔ ہم نے دس سال اکٹھے کام کیا تھا۔ انھوں نے کینیڈ ا میں اپنے ٹی وی میں مجھے انٹرویو کے لیے بلایا۔ وہاں کافی گپ شپ رہی۔ پرانا وقت یاد کر کے ہم دونوں ماضی میں چلے گئے۔ میں نے پوچھا یہاں ڈاکٹر ظاہر القادری ہوتے ہیں۔ بندر منیر نے کہا میرے ہمسائے ہیں۔ اکثر ملاقات ہو جاتی ہے۔ بدر نے بتایا کہ میڈیا سے کم ملتے ہیں۔ اپنے تنظیمی کام کرتے رہتے ہیں۔ میں نے کہا میں چند دن یہاں ہوں۔ میں ملنا چاہتاہوں۔ میرا پیغام پہنچا دیں۔ بدر منیر چوہدری نے ایک ساتھی کو میرے سامنے فون پر کہا کہ پاکستان سے مزمل سہر وردی آئے ہیں۔ ملنا چاہتے ہیں۔ چند ہی لمحوں بعد جواب آگیا کہ اگلے دن ملنے آجائیں۔
میں ملاقات کے لیے ڈاکٹر طاہر القادری کے گھر پہنچ گیا۔ مجھے بتایا گیا کہ یہ ان کی رہائش گاہ نہیں لیکن ملاقات کے لیے وہ اس گھر کو ہی استعمال کرتے ہیں۔ ملاقات گرمجوشی سے شروع ہوئی۔ بطور رپورٹر میں ان کی بیٹ کور کرتا رہا ہوں۔ اس لیے کافی ملاقاتیں تھی۔ لیکن اب کئی برس سے کوئی ملاقات نہیں تھی۔ آٹھ سال سے تو وہ پاکستان ہی نہیں آئے۔ میں نے پوچھا کہ آپ آٹھ سال سے پاکستان نہیں آئے۔ انھوں نے کہا لکھنے کے کاموں میں اس قدر مصروف ہوں کہ پاکستان جانے کا وقت ہی نہیں ملا۔ لیکن اب جاؤں گا۔ بہت سال ہوگئے پاکستان نہیں گیا۔ سیاسی حالات پر بات شروع ہوئی۔ انھوں نے کہا میرا سیاست سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ اٹل ہے۔
میں اس کو واپس لینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ بس ختم ۔ جتنا کام میرے حصہ کا تھے، میں نے کر دیا۔اب باقی کاموں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ بانی تحریک انصاف کے بارے میں بھی بات ہوئی۔ وہ بانی تحریک انصاف سے کوئی زیادہ خوش نظر نہیں آئے۔ میں نے کہا کوئی رابطہ۔ آپ نے تو اکٹھے دھرنے دیے ہیں۔ آپ دونوں کو تو سیاسی کزن بھی کہا جاتا تھا۔ وہ مسکرائے۔ اور پھر کہنے لگے جب تک وہ وزیر اعظم رہے، کوئی رابطہ نہیں تھا۔ بطور وزیر اعظم میری اور ان کی کوئی بات نہیں ہوئی۔ لیکن وزیر اعظم کے منصب سے ہٹنے کے بعد جب دوبارہ احتجاجی سیاست کی طرف آئے تو مجھے فون کیا تھا۔ شاید تب کئی سیٹوں پر ضمنی انتخاب بھی ہو رہے تھے۔ میں نے فون پر ہیلو کہتے ہی کہا کہ آپ کو میری یاد کیسے آئی۔ میں نے سانحہ ماڈل ٹاؤن پر ان کی حکومت کے رویہ کا ذکر کیا ، عوامی تحریک کے کارکنوں پر مقدمات ختم نہ کرنے پر گلہ کیا۔
ڈاکٹڑ طاہر القادری نے کہا کہ عمران خان نے کہا میں مجبور تھا۔ آپ ملیں گے تو بتاؤں گا۔ میری ٹیم سچ نہیں بتا رہی تھے اور کہا کہ میں آپ کو دوبارہ فون کرتا ہوں۔ پھر دوبارہ فون نہیں آیا۔ میں نے کہا کہ 2014میں آپ نے بانی تحریک انصاف کی سیاست کو بہت کندھا دیا تھا۔ آپ ساتھ نہ ہوتے تو دھرنے کامیاب نہ ہوتے۔ مسکرائے اور کہنے لگے۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں۔ لیکن انھوں نے اس کا خیال نہیں کیا۔
میں نے کہا کہ آپ کو انداذہ ہے کہ آپ استعمال ہوئے۔ وہ بھی اکٹھے جدو جہد کے حامی تھے۔ اس کے پیچھے کیا گیم پلان تھا مجھے نہیں معلوم۔میں نے کہا آجکل کیا کر رہے ہیں۔ ساتھ بیٹھے ایک ساتھی سے تعارف کروایا کہ یہ بھارت سے آئے ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ بھارت کی تمام زبانوں میں ڈاکٹڑ طاہر القادری کی تصانیف کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ دنیا کی تما م زبانوں میں ان کی تصا نیف کا ترجمہ ہو چکا ہے۔ انھوں نے گجراتی زبان میں کتابیں مجھے بھی دیں۔ انھوں نے کہا کہ میں اپنے کاموں میں مصروف ہوں۔ مجھے اکثر خبریں بھی نہیں معلوم ہوتیں۔ میں سوشل میڈیا پر نہیں ہوں۔ سوشل میڈیا نہیں دیکھتا۔ ٹی وی بھی نہیں دیکھتا۔ کوئی کچھ بتا دے تو معلوم ہو جاتا ہے۔ لیکن جاننے کی کوئی خاص دلچسپی بھی نہیں ہے۔ بس بہت کر لیا۔ میں نے کہا سوشل میڈیا کا شور نہیں سنا۔ کافی درد سر بنا ہوا ہے۔ کہنے لگے سنا ہے دیکھا نہیں۔ اللہ بچائے۔