Jasarat News:
2025-10-31@01:45:01 GMT

پاکستانی فوج اور غزہ

اشاعت کی تاریخ: 30th, October 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

251031-03-6

 

حامد میر

اسرائیلی اخبارات دعویٰ کررہے ہیں کہ پاکستان سمیت کچھ مسلم ممالک کی فوج کو غزہ میں قیام امن کے لیے تعینات کرنے کی ایک تجویز زیر غور ہے۔ میں نے اس دعوے کے بارے میں ڈپٹی وزیر اعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار سے پوچھا تو انہوں نے بتایا کہ اس سلسلے میں ابھی تک کوئی حتمی فیصلہ نہیں ہوا کیونکہ غزہ بھجوائی جانے والی انٹر نیشنل فورس کی ذمے داریوں کا ابھی تعین نہیں ہوا۔ میں نے ڈار صاحب کو اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے اس بیان سے بھی آگاہ کیا جس میں اْس نے بڑے رعونت آمیز انداز میں کہا کہ اسرائیل فیصلہ کرے گا کہ کس مسلمان ملک کی فوج کو غزہ بھیجنا ہے اور کس مسلمان ملک کی فوج کو غزہ نہیں بھیجنا۔ ڈار صاحب نے کہا کہ ہم نے غزہ کے لیے انٹرنیشنل فورس میں اپنے فوجی دستے شامل کرنے پر آمادگی تو ظاہر کی ہے لیکن ہماری آمادگی اس فورس کی ذمے داریوں کی نوعیت سے مشروط ہے۔ جب ذمے داریوں کا فیصلہ ہوجائے گا تو ہم بھی کوئی فیصلہ کرلیں گے۔ پاکستان کے ارباب اختیار کو یاد رکھنا چاہیے کہ شرم الشیخ میں اسرائیل اور حماس میں ایک امن معاہدے کے بعد اسرائیلی یرغمالی رہا ہو گئے تو ان یر غمالیوں کی رہائی کے بعد اسرائیل نے بڑی بے شرمی سے نا صرف غزہ پر دوبارہ بمباری شروع کردی بلکہ دریائے اردن کے مغربی کنارے پر قبضہ کرنے کا اعلان بھی کر دیا۔

مغربی کنارے پر قبضے کے اعلان نے ڈونلڈ ٹرمپ کو بھی پریشان کر دیا اور انہوں نے یقین دلایا کہ ایسا نہیں ہو گا۔ کیا ہم ٹرمپ پر یقین کر سکتے ہیں؟ ٹرمپ امریکا کی تاریخ کے وہ واحد صدر ہیں جنہوں نے اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا۔ جب وہ ایک طرف نیتن یاہو کی تعریف کرتے ہیں اور دوسری طرف شہباز شریف کی بھی تعریف کر ڈالتے ہیں تو ہم جیسے سادہ لوگ سوچ کے سمندر میں غوطے کھانے لگتے ہیں۔ جب ہم سے کوئی عرب، ایرانی یا افغانی صحافی یہ پوچھتا ہے کہ کیا یہ محض ایک اتفاق ہے کہ نیتن یاہو اور شہباز شریف دونوں نے ٹرمپ کو نوبل امن انعام کے لیے نامزد کیا تو ہمارا کوئی بھی جواب اْن کے لیے تسلی بخش نہیں ہوتا۔ بہر حال ہم کسی کی نیت پر شک کیے بغیر اپنے حقیر تجربے کی روشنی میں بڑے مودبانہ انداز میں صرف یہ عرض کریں گے کہ پاکستانی فوج کو غزہ بھیجنے کا فیصلہ بہت سوچ سمجھ کر ہونا چاہیے۔ ہماری فوج کا اصل کام پاکستان کی سرحدوں کا دفاع ہے۔ پہلے پاک افغان سرحد کو تو محفوظ بنا لیں۔ بعد میں کسی اور طرف رُخ کریں۔ غزہ کے فلسطینی پاکستان کی بہت عزت کرتے ہیں۔ میں نے آج بھی وہ فلسطینی کوفیہ سنبھال کر رکھا ہوا ہے جو مجھے غزہ میں ایک فلسطینی صحافی نے تحفہ میں دیا تھا۔ اس کوفیہ پر ایک طرف فلسطین اور دوسری طرف پاکستانی پرچم بنایا گیا تھا اور درمیان میں بیت المقدس ہے۔ اگر تو پاکستانی فوج کو غزہ کے فلسطینیوں کی حفاظت اور مدد کے لیے بھیجا جاتا ہے تو بہت اچھی بات ہے۔ ایسی صورت میں پاکستانی فوج کو اقوام متحدہ کی چھتری تلے بھیجنا زیادہ مناسب ہے اور اس امن فوج کی کمان بھی کسی مسلمان فوجی افسر کے پاس ہونی چاہیے۔ اگر پاکستانی فوج کو حماس کے خلاف آپریشن کے لیے بھیجا گیا اور حماس کو غیر مسلح کرنے کے نام پر کسی کارروائی کا حصہ بنایا گیا تو یاد رکھیے کہ مقامی آبادی شدید مزاحمت کرے گی۔ غزہ اور مغربی کنارے کے فلسطینیوں کو عرب ممالک کی حکومتوں سے بہت شکوے شکایتیں ہیں۔ آپ حماس کی پالیسی سے جتنا بھی اختلاف کریں لیکن غزہ کے فلسطینی حماس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ اگر

پاکستانی فوج کو کسی مغربی ملک کے فوجی افسر کی کمان میں غزہ بھیجا گیا تو اسرائیل کوئی نہ کوئی ایسی سازش ضرور کرے گا جس کے نتیجے میں مقامی فلسطینیوں اور پاکستانی فوج میں غلط فہمیاں پیدا ہو سکتی ہیں۔ پاکستانی فوج نے مئی 2025ء میں بھارت کو عبرتناک شکست دیکر جو مقام بنایا ہے اس مقام و مرتبے کو اسرائیلی سازشوں کے براہ راست نشانے پر نہ لائیں۔ صرف فلسطینی نہیں بلکہ عام پاکستانی بھی یہ چاہتے ہیں کہ افواج پاکستان کو غزہ میں حماس کو غیر مسلح کرنے کے لیے نہیں بلکہ بیت المقدس کی آزادی کے لیے بھیجا جائے۔ یہ بات کچھ لوگوں کو اچھی نہیں لگے گی اور وہ اپنی عقل و دانش کا رعب جھاڑنے کے لیے میرا مذاق بھی اُڑائیں گے۔ آپ میرا مذاق ضرور اُڑائیے لیکن پا کستان کے کسی بھی شہر یا قصبے کے چوک میں کھڑے ہو کر عام پاکستانیوں سے پوچھ لیں کہ پاکستانی فوج کو غزہ کیوں بھیجنا چاہیے؟ اکثریت کہے گی کہ اپنی فوج کو فلسطینیوں کی حفاظت اور بیت المقدس کی آزادی کے لیے بھیجیں۔ ہمارے ہاں کچھ ایسے دانشور بھی پائے جاتے ہیں جو فرماتے ہیں ہمیں بیت المقدس سے کیا لینا دینا؟ یہ تو عربوں کا معاملہ ہے۔ عرب جانیں اور اسرائیل جانے۔ تو پھر پاکستانی فوج کو غزہ بھیجنا کیوں ضروری ہے؟ ہمیں یہ ضرور غور کرنا چاہیے کہ ہمارے جن بزرگوں نے پاکستان بنایا وہ مسلسل فلسطینیوں کی حمایت کیوں کرتے رہے؟ جب بھی رجب کے مہینے میں شب معراج آتی تھی تو قائد اعظم محمد علی جناح ’’یوم فلسطین‘‘ کیوں مناتے تھے؟ دراصل بیت المقدس پر اسرائیل کا قبضہ کوئی سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔ یہ لا الہ الا اللہ پڑھنے والے ہر مسلمان کے ایمان کا مسئلہ ہے۔ بیت المقدس کو انبیائے کرام نے تعمیر کیا۔ وہ سرزمین فلسطین جس پر آج اسرائیل قائم ہے یہ دراصل سرزمین ِ انبیاء ہے۔ وہ عرب حکمران جو ٹرمپ کے معاہدہ ابراہیمی میں بہت دلچسپی رکھتے ہیں انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ سیدنا ابراہیم ؑ کا اصل وطن تو عراق تھا لیکن وہ ہجرت کرکے فلسطین آگئے۔ یہاں اْن کا جس علاقے میں زیادہ وقت گزرا وہ آج بھی الخلیل کہلاتا ہے۔ اس علاقے میں سیدنا اسحاقؑ کی پیدائش ہوئی۔ یہودی اس علاقے کو حیبرون کہتے ہیں۔ یہاں سیدنا ابراہیم ؑ، سیدنا اسحاقؑ، سیدنا یعقوب ؑ، سیدنا یوسف ؑ اور اْن کے اہل خانہ کی قبریں ہیں۔ الخلیل کے قریب حلحول ہے جہاں مقام یونس ہے۔ اس جگہ سیدنا یونس ؑ نے وقت گزارا۔ سیدنا موسیٰؑ، سیدنا دائود ؑ اور سیدنا ذوالکفل ؑ سمیت کئی انبیاء کی قبریں بیت المقدس کے آس پاس ہیں۔ مسجد اقصیٰ کو سیدنا سلیمان ؑ نے تعمیر کیا۔ سیدہ مریم ؑ مسجد اقصٰی کے قریب عبادت کیا کرتی تھیں۔ فلسطین کے شہر الخلیل میں ناصرت کا علاقہ ہے جہاں سیدنا عیسیٰ ؑ کا بچپن گزرا۔ ان کی جائے پیدائش بیت اللحم ہے۔

واقعہ معراج نے مکہ مکرمہ کو بیت المقدس سے جوڑ دیا تھا اسی لیے تاریخ اسلام میں فلسطین کو حجاز کا حصہ قرار دیا گیا۔ سرزمین فلسطین میں سیدنا عیسیٰؑ پیدا ہوئے اور پھر اسی مقام سے آسمان کی طرف اْٹھا لیے گئے۔ مسلمانوں کے نبی سیدنا محمد عربیؐ بھی بیت المقدس تشریف لائے اور پھر اسی مقام سے آسمان کی طرف سفر معراج فرمایا۔ ایک حدیث میں فرما یا گیا کہ: حوض کوثر کی لمبائی خانہ کعبہ سے بیت المقدس تک ہے۔ بیت المقدس کی آزادی کے لیے جدو جہد کرنا ہر مسلمان کا فرض ہے۔ اقوام متحدہ کی قراردادوں میں بھی بیت المقدس پر اسرائیلی قبضے کی مذمت کی گئی ہے لہٰذا پاکستان کو ایسے کسی بھی عالمی بندوبست سے دور رہنا چاہیے جس سے یہ تاثر ملے کہ پاکستان بالواسطہ یا بلاواسطہ طور پر بیت المقدس پر قابض اسرائیل کی سہولت کاری کررہا ہے۔

(بشکریہ: روزنامہ جنگ)

حامد میر.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پاکستانی فوج کو غزہ کے فلسطینی بیت المقدس کہ پاکستان نہیں ہو کے لیے غزہ کے

پڑھیں:

پاکستان کا چین کے ساتھ خلابازوں کو خلائی مشن پر بھیجنے کا اعلان

 چین کی انسانی خلائی ایجنسی نے اعلان کیا ہے کہ دو پاکستانی خلا باز چینی خلا بازوں کے ساتھ تربیت حاصل کریں گے، جن میں سے ایک کو مختصر مدت کے مشن پر چین کے خلائی سٹیشن بھیجا جائے گا۔چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے مطابق پاکستانی خلا باز کو پے لوڈ سپیشلسٹ کے طور پر مختصر دورانیے کے خلائی مشن میں حصہ لینے کے لیے منتخب کیا جائے گا، رواں برس فروری میں ہونے والے اس معاہدے کے تحت پاکستانی خلا بازوں کے انتخاب کا عمل 2026 تک مکمل کر لیا جائے گا اور وہ چین کے آئندہ مشن میں خلائی سفر کریں گے۔یہ پیش رفت پاکستان کے خلائی تحقیقی ادارے سپارکو اور چین کی انسانی خلائی ایجنسی کے درمیان معاہدے کا نتیجہ ہے۔چینی خلائی سٹیشن کا نام تیانگ گونگ ہے، جس کے معنی آسمانی محل کے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کے پہلے قومی خلا باز مشن کے دوران مختلف سائنسی تجربات کیے جائیں گے، جن میں حیاتیاتی و طبی سائنس، ایرو سپیس، اپلائیڈ فزکس، فلوئیڈ میکینکس، خلائی شعاعیں، ماحولیاتی تحقیق، مٹیریلز سائنس، مائیکرو گریویٹی سٹڈیز اور فلکیات جیسے شعبے شامل ہوں گے۔وزیراعظم شہباز شریف نے پاک چین معاہدے کے وقت اپنے بیان میں کہا تھا کہ پاکستان کی چین کے خلائی سٹیشن پروگرام میں شمولیت دونوں ممالک کے گہرے تعلقات کا مظہر ہے اور یہ باہمی سائنسی تعاون اور پرامن خلائی تحقیق کے وسیع تر وژن میں اہم کردار ادا کرے گا۔ سپارکو کے مطابق چینی خلائی مشن تیانگ گونگ میں پاکستانی خلابازوں کی شمولیت پاکستان کی خلائی ترقی کو سائنسی اور تکنیکی میدان میں آگے لے جائے گی۔

متعلقہ مضامین

  • چین کا پاکستانی خلا بازوں کو مشن پر خلا میں بھیجنے کے منصوبے کا اعلان
  • پاکستانی بچوں کے ہنر اور تعلیم پر 500 ارب بھی خرچ کرنا پڑے تو کریں گے؛ وزیراعظم
  • ایک پاکستانی خلاباز کو چین کے خلائی مشن میں شامل کرنے کا اعلان
  • خلائی تاریخ میں نیا باب: پاکستانی خلاباز چین کے مشن میں شامل
  • معروف اداکار عزیر عباسی چل بسے
  • پاکستان کا چین کے ساتھ خلابازوں کو خلائی مشن پر بھیجنے کا اعلان
  • پاکستان اور چین کا نیا سنگِ میل، خلائی تعاون میں اہم پیش رفت
  • مالٹا :برٹش پاکستانی باپ بیٹا سمندر میں ڈوب کر جاں بحق
  • چین کا تاریخی اعلان، پاکستانی خلا بازوں کی چینی خلائی مشن میں شمولیت اور تربیت کا اعلان