افغانستان میں سچ بولنا جرم بن گیا، طالبان دور میں آزادیِ صحافت کا جنازہ نکل گیا
اشاعت کی تاریخ: 6th, November 2025 GMT
افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد آزادیِ صحافت بری طرح متاثر ہوئی ہے، جہاں سنسرشپ، گرفتاریوں اور تشدد نے میڈیا کا ماحول مفلوج کر دیا ہے۔
آمو ٹی وی کی رپورٹ کے مطابق طالبان کے دورِ حکومت میں میڈیا پر سخت پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں اور پریس فریڈم انڈیکس میں افغانستان کی درجہ بندی مسلسل نیچے جا رہی ہے۔ 2024 میں افغانستان 180 ممالک میں سے 178ویں نمبر پر آ گیا ہے، جو عالمی سطح پر تشویش کا باعث ہے۔
افغانستان میڈیا سپورٹ آرگنائزیشن کے مطابق 2021 کے بعد سے 539 واقعات ایسے سامنے آئے جن میں صحافیوں پر تشدد، گرفتاریوں اور زبردستی نشر شدہ اعترافی ویڈیوز شامل ہیں۔ تنظیم کے مطابق، متعدد صحافی اب بھی بے بنیاد الزامات پر طالبان کی قید میں ہیں۔
بین الاقوامی ادارہ رپورٹرز وِدآؤٹ بارڈرز (RSF) نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد افغانستان میں 12 میڈیا ادارے بند کر دیے گئے، جب کہ خواتین صحافیوں کی 80 فیصد نوکریاں ختم ہو چکی ہیں۔
اقوام متحدہ معاون مشن برائے افغانستان (UNAMA) کے مطابق طالبان نے ٹی وی چینلز پر کسی بھی جاندار کی تصویر دکھانے پر پابندی لگا کر میڈیا کو مزید محدود کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل نے بھی صحافیوں کے خلاف جرائم کے خاتمے کے عالمی دن کے موقع پر خبردار کیا کہ افغانستان میں آزادیِ اظہار شدید خطرے میں ہے۔
افغان صحافیوں کا کہنا ہے کہ ملک میں سچ بولنا اب جرم بن چکا ہے، جب کہ خوف اور دباؤ کی فضا میں خاموشی مجبوری بن گئی ہے۔ عالمی برادری سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ افغانستان میں آزادیِ صحافت اور اظہارِ رائے کے تحفظ کے لیے فوری اور مؤثر اقدامات کیے جائیں۔
.ذریعہ: Daily Mumtaz
کلیدی لفظ: افغانستان میں کے مطابق
پڑھیں:
طالبان سے کہا تھا 1 کپ چائے کیلئے آئے ہیں، وہ کپ بہت مہنگا پڑ گیا: اسحاق ڈار
اسحاق ڈار—فائل فوٹونائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار نے کہا ہے کہ جب 2021ء میں طالبان کی حکومت آئی تو پاکستان کی طرف سے جا کر کہا گیا کہ ہم یہاں ایک چائے کے کپ کےلیے آئے ہیں، وہ کپ آف ٹی ہمیں بہت مہنگا پڑا، ایسی غلطیاں نہیں کرنی چاہئیں۔
سینیٹ میں خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ دہشت گردی کے واقعات 2012ء سے بھی زیادہ بڑھ گئے ہیں، متقی صاحب کی کل 6 مرتبہ کال آئی، اُن سے کہا کہ آپ سے صرف ایک چیز چاہیے کہ آپ کی سرزمین ہمارے خلاف استعمال نہ ہو، اُن سے کہا کہ آپ نے مشکل میں ڈال دیا ہے، حکومت نے کلیئر فیصلہ کیا ہوا ہے، ہم آخری دم تک لڑیں گے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ 2018ء تک ان آپریشنز کی وجہ سے ملک میں دہشت گرد حملے بہت کم ہو گئے تھے، افغان طالبان کی حکومت آنے کے بعد 4 سال دونوں ممالک کے درمیان کوئی باضابطہ چیزیں نہیں ہوئیں، میں نے افغانستان جا کر ان کے ساتھ بات چیت کی اور معاہدے کیے۔
انہوں نے کہا کہ ان سے ایک ہی بات مانگی کہ افغانستان کی سر زمین پاکستان کے خلاف استعمال نہ ہو، وہاں کوشش کی گئی کہ ٹرین شروع کی جائے جو افغانستان سے دیگر ممالک میں جائے، بدقسمتی ہے کہ افغانستان میں جو موجودہ حکومت آئی ہے، روزانہ پرتشدد واقعات بڑھے ہیں۔
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے کہا کہ بلاول بھٹو کا بیان دیکھا تھا بیان دینا ان کا حق ہے، بلاول بھٹو نے جن باتوں کی نشاندہی کی وہ ہوا میں نہیں کی، ان پر بات ہوئی ہے۔
وزیرِ خارجہ نے کہا کہ افغانستان سے 40 ہزار ٹی ٹی پی والے پاکستان آئے، اس وقت کی حکومت نے 100 سے زائد ہارڈ کور دہشت گردوں کو جیلوں سے نکالا، ایسی غلطیاں نہیں کرنی چاہیے تھیں۔
ان کا کہنا ہے کہ آج سے چند سال پہلے 38 ہزار مدارس تھے آج ڈیڑھ لاکھ مدارس ہو چکے ہیں، حکومت نے کلیئر فیصلہ کیا ہوا ہے ہم آخری دم تک لڑیں گے، امید ہے کہ 6 نومبر کو ہمارے مذاکرات آگے جائیں گے۔
نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ نے کہا کہ ٹرمپ کا 6 مئی سے 10 مئی تک بہت فعال کردار تھا، انہوں نے ، یو اے ای، یو کے اور قطر نے بہت رابطہ رکھا، بھارت نے پاکستان پر 80 ڈرونز چھوڑ دیے تھے، 79 ڈرونز کو فوج نے ناکارہ کیا، ایک نے ملٹری تنصیبات کو تھوڑا سا نقصان پہنچایا۔
انہوں نے کہا کہ بھارت جو بیانیہ بنانے کے چکر میں تھا وہ بے نقاب ہو گیا، بھارت کے خلاف آپریشن 4 بجے شروع ہوا اور 8 بجے ختم ہوا، 8 بج کر 17 منٹ پر مارکو روبیو کی کال آئی کہ بھارت سیز فائر کے لیے تیار ہے۔
اسحاق ڈار نے کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کا خط 11 جون کو لکھا گیا، امریکا نے جو کردار ادا کیا یہ خط اس حوالے سے اس بات کا اعتراف تھا، وہ خط میرے دستخط سے گیا ہے۔
نائب وزیرِ اعظم و وزیرِ خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کو نوبل انعام دینے کا خط اگلے سال کے لیے زیرِ غور آئے گا، نوبل انعام کے لیے نامزدگیاں جنوری تک لی جاتی ہیں۔