ظہیر بابر اور پنج لیلیٰ
اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
نئی دہلی ابھی تک مئی 2025 کے واقعات کے زخم نہیں بھلا سکا۔ بھارت کے فضائی سربراہ ائرچیف امر پریت سنگھ جنہیں ان کے ناقدین ’’نیرو کی بانسری بجانے والا‘‘ قرار دیتے ہیں آج بھی مبینہ طور پر ڈراؤنے خوابوں میں ’’آٹھ (8) آٹھ‘‘ پکار کر چونک جاتے ہیں۔ یہ وہی دور ہے جب سابق امریکی صدر ٹرمپ ’’سات‘‘ کے عدد کو ایک ہزار ایک سے زائد بار کھلے عام کنفرم کر چکے ہیں۔
اسی دوران فرانس کے نیول بیس کے ایک سینئر کمانڈر جو تین دہائیوں سے رافیل طیارے اُڑا رہے ہیں، نے ایک بین الاقوامی کانفرنس میں، جہاں بھارتی وفد بھی موجود تھا، رافیل کے گرنے کی تصدیق کرتے ہوئے پاک فضائیہ کے شاہینوں کی مہارت کو کھلے دل سے سراہا۔ ادھر وزیراعظم مودی کی صحت کے بارے میں ان کے ذاتی معالج کے قریبی حلقوں میں یہ سرگوشیاں سنی جا رہیں ہیں کہ 10 مئی 2025 کے بعد سے موصوف کو بار بار بیت الخلا جانے کی حاجت محسوس ہوتی ہے، جس سے بین الاقوامی تقریبات میں انہیں خاصی سبکی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ تاہم بھارتی سیاسی منظرنامے میں ان کی حکومت ویسے بھی اپنی ’’آخری سانسیں گننے‘‘ کے مرحلے میں ہے۔
عالمی تبدیلیوں کے دور میں بھارت کے دانشور بھی اپنی سمت بدلنے کو بے قرار دکھائی دیتے ہیں۔ صدیوں پرانی سنسکرت کی پنج تنتر اور عرب دنیا کی الف لیلیٰ جیسی کلاسیکی کہانیوں کو ’’فرسودہ‘‘ قرار دیتے ہوئے بھارت میں ایک نئی فکری مہم اور بیانیہ تشکیل دیا جا رہا ہے، جس کا عارضی عنوان ہے: A Journey to Story Revolution
غیر مصدقہ رپورٹس کے مطابق اس نئے بیانیے کا ایک مسودہ پاکستان سے محبت رکھنے والے کچھ بھارتی احباب نے اپنے دوستوں کو فراہم کیا، جس میں اس آنے والے دور کا جو خاکہ پیش کیا گیا ہے، وہ حیران کن ہے۔ جنوری 2026 سے بھارت اپنی نئی تعلیمی نصاب میں کلاسیکی ادب کے ایک نئے سلسلے کا آغاز کرنے جا رہا ہے ایسا سلسلہ جس کے بعد رامائن، مہا بھارت، پنج تنتر اور حتیٰ کہ الف لیلیٰ تک کو Null & Void قرار دیا جائے گا۔
نئے نصاب کا ہر قصہ فجر کے وقت سے شروع ہوگا، کیونکہ بھارت نے فجر اور ’’ظہیر بابر‘‘ کو علامتی طور پر Lock کر لیا ہے۔ اسی مناسبت سے اس نئی کلاسیکی انسائیکلوپیڈیا کا مجوزہ نام رکھا گیا ہے: ’’ظہیر بابر اور پنج لیلیٰ‘‘
لفظ پنج، سنسکرت کے ’’پنج تنتر‘‘ سے اور لیلیٰ، عربی ’’الف لیلیٰ‘‘ سے لیا گیا ہے جبکہ ظہیر بابر کو اس نئے دور کا ’’ہیرکیولیس‘‘ قرار دیا جا رہا ہے۔
کتاب کا تعارفی حصہ
پہلا صفحہ
بندے ماترم۔۔۔
دوسرا صفحہ
ظہیر بابر کا تعارف:
1530 میں ظہیرالدین بابر (بانیِ سلطنت ِ مغلیہ) کی پیدائش کے ٹھیک 435 سال بعد، اپریل 1965 میں اسلامی ماہِ ذوالحج کے دوران، پنجاب پاکستان میں سدھو جٹ خاندان میں حکیم غلام محمد کے ہاں ظہیر بابر سدھو کی پیدائش ہوئی۔ بعدازاں یہی بچہ آگے چل کر پاکستان کے ’’اُڑنے والے پرندوں‘‘ یعنی پاک فضائیہ کا نگہبان بنا۔
تیسرا صفحہ
تو آئو بچو ، کہانی شروع کرتے ہیں۔
’’رات کا وقت تھا۔ چاندنی کھڑکی سے اندر جھانک رہی تھی۔ کمروں میں چھوٹے قدموں کی سرسراہٹ گونج رہی تھی۔ بچے اپنے کمبلوں میں لپٹے کبھی روتے، کبھی چپ ہوتے۔ ایسے میں ماں کی آواز آتی: ’بیٹا سوجا، ورنہ ظہیر بابر آجائے گا!‘
یہ سنتے ہی بچے فوراً چپ ہوجاتے، کیونکہ ظہیر بابر صرف فضائیہ کا نام نہیں تھا… بلکہ بچپن میں سنایا جانے والا سب سے بڑا ’’ڈر‘‘ اور طاقت کی علامت بن چکا تھا۔
صبح بچے فخر سے کہتے: ’’ہم تو جلدی اٹھ گئے تھے… کہیں ظہیر بابر دیکھ نہ لیتے!‘‘
چوتھا صفحہ
……
اس طرح یہ کتاب چھپنے کے لیے تیار ہے۔
یوں ’’ظہیر بابر اور پنج لیلیٰ‘‘ کا یہ سلسلہ بھارت کی نئی تعلیمی اصلاحات کا حصہ بنایا جا رہا ہے۔ اس منصوبے پر بھارتی دانشور، ادیب، فلمساز اور مختلف مکاتب ِ فکر کے پنڈت کام کر رہے ہیں۔ تمام رائے اور سفارشات کو حتمی شکل دے کر جنوری 2026 میں اسے باقاعدہ طور پر نصاب اور کلاسیکی کہانیوں میں شامل کیا جائے گا۔نوٹ: یہ کالم آپ کی حس مزاح کو پروان چڑھانے کے لیے لکھا گیا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: ظہیر بابر ا جا رہا ہے گیا ہے
پڑھیں:
جنرل دیویدی کی چین کو تھپکی پاکستان کو دھمکی
data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">
251123-09-6
بھارتی فوج کے سربراہ جنرل دیویدی نے چانکیہ ڈیفنس ڈائیلاگ میں سوالوں کے جواب دیتے ہوئے پہلی بار پاکستان اور چین کے بارے میں دو مختلف انداز اپنائے ہیں۔ یوں تو چین کے مقابلے میں مونچھ نیچی کرنا ہی بھارت کی قومی پالیسی ہے مگر تب بھی چین کو ایک خطرے کے طور پر دیکھنا اور بیان کرنا اور پاک چین دفاعی تعاون پر خدشات ظاہر کرنا ان کا معمول رہا ہے۔ اس بار بھارتی فوج کے سربراہ اس روایتی زاویۂ نظر سے ہٹتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ جنرل دیویدی نے چین کے حوالے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ چین کے ساتھ حقیقی خط ِ قبضہ ایل اے سی پر صورت حال میں نمایاں بہتری آئی ہے اور برسوں سے جمی ہوئی برف پگھل گئی ہے۔ گزشتہ ایک سال میں بھارت اور چین کی فوجوں کے درمیان زمینی سطح پر گیارہ سو بار بات چیت ہوئی جس کے اچھے نتائج برآمد ہوئے۔ یہ کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں کافی پیش رفت ہوئی ہے۔ اکتوبر 2024 سے اب تک ہمارے تعلقات میں بہتری آئی ہے۔ یہ بہتری اس لیے ممکن ہوئی کہ ہمارے اپنے سیاسی قائدین کے ساتھ کافی گفتگو ہوئی اور دونوں جانب سے اس پر اتفاق تھا کہ سرحد پر حالات جتنے معمول پر آئیں گے دونوں ممالک کے لیے اتنا ہی اچھا ہے۔
بھارتی آرمی چیف کے مطابق اس عرصے میں زمینی سطح کے مذاکرات کے گیا رہ سو دور ہوئے۔ اوسطاً روزانہ مذاکرات کے تین دور ہوئے۔ پہلے بات چیت کورکمانڈرز کی سطح پر ہوتی تھی مگر اب ہم اسے بٹالین کمانڈر، کمپنی کمانڈر اور پھر زمینی کمانڈروں کی سطح پر لائے ہیں۔ اس بات چیت کا بڑا فائدہ یہ ہوا اگر ہندوستان کی فوج کسی بات پر اعتراض کرتی ہے تو چینی فوج اس پر غور کرتی ہے اور ہمارے اعتراضات دور کیے جاتے ہیں۔ اس کے بعد پاکستان کے حوالے سے ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے بھارتی کمانڈر بھنویں تان کر آنکھیں ماتھے پر سجا لیتے ہیں۔ پاکستان کے بار ے میں اظہار خیال کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ ہم ایٹمی جنگ کی دھمکیوں سے بلیک میل نہیں ہوں گے۔ آپریشن سندور ابھی تو فلم شروع ہی نہیں ہوئی صرف ٹریلز دکھایا گیا تھا جو اٹھاسی گھنٹوں میں ختم ہوا۔ اگر پاکستان دوبارہ کوئی حماقت کرتا ہے تو ہندوستان پوری تیاری سے مناسب جواب دے گا۔ جنگ کی مدت کا اندازہ لگانا بھی ممکن نہیں۔ یہ اٹھاسی گھنٹے بھی ہوسکتی ہے چار ماہ اور چار سال بھی۔ فوج ہر طرح کے حالات کے لیے تیار ہے۔ ہندوستان دہشت گردوں کی پشت پناہی کرنے والوں کے ساتھ بلا تامل یکساں سلوک کرے گا۔ ہندوستان نے ترقی اور آگے بڑھنے کا تہیہ کیا ہے اس کو راہ سے ہٹانے کی کوشش کی گئی تو بلا جھجک کارروائی کرے گا۔
اس گفتگو میں بھارتی فوج کے سربراہ چین اور پاکستان کو الگ الگ ہینڈل کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔ چین کے بارے میں بھارت کا فدویانہ رویہ چانکیہ کی فلاسفی کے عین مطابق ہے جس میں طاقتور دشمن کے آگے جھک جانا اور کمزور دشمن کو دبوچنا بہترین حکمت عملی ہوتی ہے۔ حالیہ برسوں کی مخاصمت کے دوران بھارت کی حکومت اور قیادت اسی فلاسفی پر عمل پیرا رہی۔ کانگریسی راہنماؤں اور مسلمان راہنما اسدالدین اویسی نے پارلیمنٹ میں مودی کی اس پالیسی کا جم کا مذاق اْڑایا کہ وہ چین کو لال آنکھ اور چھپن انچ چوڑا سینہ کیوں نہیں دکھاتے حالانکہ چین لداخ میں بھارتی حدود میں پیش قدمی کررہا ہے مگر مودی اس تنقید اور طنز کے تیروں سے بھی بدمزہ نہ ہوئے اور چین کے بار میں ان کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ اس کے برعکس پاکستان کا ذکر جب بھی ہوا بھارت کے حکمران جھاگ اْگلتے ہی پائے گئے۔ اس پس منظر کے باوجود بھارتی آرمی چیف دو محاذوں کی جنگ کا ذکر کرنے سے کنی کترا گئے جو بہت معنی خیز اور الارمنگ ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ دہائی میں جب سے پاک چین اقتصادی راہداری کا منصوبہ عملی شکل میں ڈھلنا شروع ہوا تھا تو بھارت کی فوجی حکمت کاروں کی گفتگو میں دو محاذوں کی جنگ کا خوف جھلکتا تھا۔ بھارت کے کسی فوجی سربراہ یا فوجی دماغ کی دو محاذوں کی جنگ کے خدشے کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی۔ پچھلے فوجی سربراہ تو کھل کرکہا تھا کہ بھارتی فوج خو د کو دو محاذوں کی جنگ کے لیے تیار کر رہی ہے۔ دو محاذوں کی جنگ کے فوجی ڈاکٹرائن نے اس خوف سے جنم لیا تھا مستقبل میں بھارت کی چین یا پاکستان کے ساتھ جنگ ہوتی ہے تو دوسرا ملک اس میں کود پڑے گا اور اس طرح بھارت کو بیک وقت چین اور پاکستان کے ساتھ لڑنا پڑے گا۔ دو محاذوں کی جنگ کا تصور ہی بھارت کے لیے سوہان ِ روح اور مستقل دردِ سر تھا۔ یہی تصور کسی ممکنہ جنگ میں پاکستان کی مکمل برتری کی ضمانت بھی تھا۔
پاکستان اور بھارت کی حالیہ جھڑپوں میں تین دن تک بھارت نے اپنا اٹھارہ سالہ ہدف پاکستان کے شہری علاقوں میں نشان زدہ مقامات پر حملوں کے ذریعے پورا کیا۔ ممبئی دھماکوں کے بعد سے بھارت براہ راست اور کبھی امریکی مہربانوں کے ذریعے ایسی نمائشی کارروائی کا مطالبہ کرتا رہا جس سے اس کا ہاٹ پرسیوٹ یعنی گرم تعاقب کا فوجی تصور تکمیل پزیر ہو۔ جواب میں پاکستان اس کارروائی کو خواہ وہ نمائشی ہی سہی اپنی ریڈ لائن قرار دے رہا تھا۔ اٹھارہ برس بعد بھارت نے یہ کارروائی کرلی مگر طاقت کا پانسہ اس وقت پلٹ گیا جب چین کے سیٹلائٹ نظام نے پاکستان کی مدد کی۔ یہ صورت حال بھارت کے لیے پریشان کن اور امریکا کے لیے بھی حیران کن تھی جو مدت دراز سے بھارت کے لیے یہ حق مانگ رہا تھا۔
بھارت کے عسکری ماہر پروین ساہنی مسلسل خبردار کر رہے تھے کہ یہ شاید دو سرحدوں کی باضابطہ لڑائی نہ ہو مگر چین اپنی ٹیکنالوجی اور مہارت پاکستان کو منتقل کرکے اس سے عملی طور پر دو محاذوں کی ہی جنگ بنائے گا۔ حالیہ جھڑپوں میں ایسا ہی ہوا۔ 1962 کی ہند چین جنگ میں بھی چین نے اس کو دو محاذوں کی جنگ بنانے کی کوشش کی تھی اور پاکستان کو کشمیر میں کارروائی کرنے کا پیغام بھیجا تھا مگر امریکا نے درمیان میں آکر تنازع کشمیر حل کرنے کی یقین دہانی کراکے پاکستان کو کسی کارروائی سے روک دیا تھا۔ آج بھی دو محاذوں کی یہ جنگ اور چین اور پاکستان کے درمیان اس نوعیت کا دفاعی تعلق جس سے خطے میں اسٹیٹس کو ٹوٹنے کا خطرہ ہو، امریکا کو قبول نہیں تھا۔ اس لیے وہ پاکستان پر مسلسل یہ دباؤ ڈالے رہے ہیں کہ چین کے ساتھ تعاون کواس سطح پر نہ لے جائیں کہ زمینی حالات میں کوئی عملی تبدیلی رونما ہو۔ اب بھارت پاکستان کے ساتھ کسی ممکنہ جنگ میں چین کو اس انداز سے نیوٹرلائز کرنا چاہتا ہے کہ یہ دو محاذوں کی جنگ میں ڈھلنے نہ پائے۔ ٹیکنالوجی کا توڑ ٹیکنالوجی سے ہو سکتا ہے مگر جب دو ملک عملی طور پر دو اطراف سے کسی ملک پر پل پڑیں تو اس کے لیے اپنا وجود سنبھالنا اور بچانا مشکل ہوجاتا ہے۔ پاکستان جس تیزی کے ساتھ مغربی لابی کے زیر اثر جا رہا ہے اور جس طرح گوادر پورٹ بے رونق اور تجارت کا مرکز بننے سے محروم ہے اس میں یہ سوال اہم ہوجاتا کہ کیا پاکستان اور چین کے تعلقات کا پرانا لیول برقر ار ہے؟۔ بھارت اس تعلق کو منہ میں رام رام کے ذریعے اس انداز سے کمزور کررہا ہے کہ یہ تعلق اور تعاون اس کے لیے ایک دیوہیکل چیلنج بن کر سامنے نہ آئے۔ بھارتی آرمی چیف کا یہ بدلا ہوا انداز اسی حکمت عملی کا مظہر ہے۔