Jasarat News:
2025-11-25@02:44:39 GMT

سہ روزہ بستی

اشاعت کی تاریخ: 25th, November 2025 GMT

data-id="863a0a8" data-element_type="widget" data-widget_type="theme-post-content.default">

ہم پہنچے تو مینارِ پاکستان سبز روشنی میں نہایا ہوا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے دودھیا سفید رنگ کی چادر اوڑھ لی۔ یہ پرچم کے رنگ ہیں۔ وہی پرچم جس کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ ہم ایک ہیں۔ نہایت بلند اسٹیج پر لفٹ اور سیڑھیوں کا انتظام تھا اور اسٹیج بھی روشنیوں میں جگمگ کرتا تھا۔ پنڈال تاحد نظر تک پھیلا ہوا تھا‘ اور گریٹر اقبال پارک میں رات گئے بھی بہت چہل پہل تھی۔ جہاں ہزاروں لوگ جمع ہو جائیں‘ وہاں میلے کا سماں ہو جاتا ہے اور میلے کے اطراف اور اس کے اندر کھانے پینے کے اسٹال اور خوانچے تو لگ ہی جاتے ہیں۔ یہ تین دن کی بستی بسائی گئی تھی اور بستی بسنا کھیل نہیں ہے۔

21 نومبر کو اسٹیج پر بیٹھا میں پنڈال میں ان لوگوں کو دیکھتا تھا جو کراچی سے گلگت تک کے مختلف علاقوں سے دور دراز کا سفر کرکے اس سہ روزہ بستی میں پہنچے تھے۔ اکثر وہ تھے جنہیں اسٹیج پر نہیں‘ پنڈال میں بیٹھنا تھا۔ اَن گنت مرد اور خواتین اپنے الگ الگ مخصوص پنڈالوں میں بیٹھے تھے اور صبح سے تقاریر اور بیانات سن رہے تھے۔ لیکن ان پر تھکاوٹ کے آثار نہیں تھے۔ نومبر کے آخری دنوں کی میں لاہور کی راتیں اچھی خاصی سرد ہوا کرتی ہیں‘ اور لاکھوں لوگوں کا انتظام بہت مشکل ہے لیکن یہ سب انتظام موجود تھا۔ پنڈال میں طے شدہ جماعتیں تمام تر انتظام کر رہی تھیں اور اسٹیج پر کارکنوں اور منتظمین کی الگ ایک جماعت موجود تھی۔ یہ بنیادی طور پر سیاسی اجتماع نہیں تھا۔ یہ سالانہ اجتماع تھا جو دعوتی رخ رکھتا تھا اور اس کی اجازت بھی حکومت سے اسی شرط کے ساتھ ملی تھی۔ اس کا عنوان ’’بدل دو نظام‘‘ جماعت کے سیاسی رخ کی غمازی کرتے ہوئے بھی غیر سیاسی تھا۔ یہ نظام معاشرتی بھی ہے‘ سیاسی بھی‘ انتظامی بھی۔ نظام بدلنے کا یہ نعرہ اور یہ عزم نیا تو نہیں لیکن بہت اہم ہے۔ جس گلے سڑے فرسودہ نظام کو ہم سب روز بھگتتے اور روز اس کے نئے سے نئے عذاب سے گزرتے ہیں‘ اسے بدلنے کا نعرہ پرانا ہو بھی کیسے سکتا ہے۔

جماعت اسلامی کے حامی تو ایک طرف‘ کچھ باتوں سے جماعت اسلامی کے مخالفین بھی انکار نہیں کر سکتے۔ اس کا جماعتی نظم وضبط‘ اس کی برصغیر میں سیاسی اہمیت‘ اس کی اپنے حامیوں کو جمع کرنے کی طاقت۔ ضروری سمجھا جائے تو سڑکوں پر بڑی تعداد میں نکلنے کی قوت اور آزمائش کے وقت مار کھانے اور قربانیاں دینے کی صلاحیت۔ میں ان صلاحیتوں میں جماعت کی فلاحی‘ ادبی اور قلمی تاریخ کو بھی شامل کرتا ہوں۔ یہ سب بار بار آزمودہ‘ مسلمہ طاقتیں ہیں۔ مخالفین جماعت اسلامی پر کتنے ہی جملے اچھالیں‘ اس کے نظریاتی مخالف جتنا بھی تمسخر اڑانے کی کوشش کریں‘ اس میں کیا شک ہے کہ سیاسی جماعتوں میں‘ جو کرپشن کے کیچڑ سے لت پت ہیں‘ یہ وہ بڑی سیاسی جماعت ہے جس کے دامن پر بدعنوانی کا داغ نہیں ہے۔ مجھے حیرت ہوتی ہے کہ نظریاتی مخالف کس ڈھٹائی سے جماعت پر فقرے کستے ہیں۔ خیر یہ اپنا اپنا موقف ہے۔ آپ نظریات اور راہِ عمل سے متفق ہوں یا اختلاف رکھتے ہوں لیکن جب بے بنیاد الزامات اور جملے بازی کے ذریعے مخالف کو زیر کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو خود آپ کا قد چھوٹا ہو جاتا ہے۔ وہ لوگ جو ہر بار پس پردہ طاقتوں اور طے شدہ بندوبست کے ذریعے کسی طرح کرسی پر آ بیٹھتے ہیں جماعت اسلامی اور دیگر مذہبی جماعتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ ہے کہ عوام انہیں ووٹ نہیں دیتے اور انہیں اقتدار کے قابل نہیں سمجھتے‘ تو واقفانِ حال ان کی باتوں پر مسکراتے ہیں۔ یہ الگ موضوع ہے کہ مذہبی جماعتیں‘ جن میں جماعت اسلامی موثر ترین جماعتوں میں ہے‘ کیونکر انتخابی نظام میں کامیاب نہیں ہو پاتیں۔ یہ زمانہ سیاسی شعور کا ہے اور لوگ جانتے ہیں کہ کون کتنا شفاف اور پاک ہے‘ کون کس طرح کرسی پر بیٹھا ہے اور اسے کن طاقتوں کی مدد ملتی ہے۔ یہ وہ نظام ہے جس سے یہ ملک بار بار گزرتا ہے اور یہ آواز ہر دل کی ہے کہ بدل دو نظام۔ جب تک یہ نظام نہیں بدلے گا‘ یہ عذاب بھی نہیں بدل سکتے۔ پھر جماعت کے فلاحی بازوئوں نے وہ بے مثال کار کردگی دکھائی ہے جس کے اعتراف کے لیے بہت کچھ لکھا جانا چاہیے۔ ایک اور بات جس کی طرف توجہ کم کم کی گئی ہے‘ جماعت اسلامی کے رہنمائوں اور عام کارکنوں کا ادبی رخ ہے۔ میرے خیال میں یہ موضوع کئی تحقیقی مقالوں کا محتاج ہے۔ بانی جماعت اسلامی سید ابوالاعلیٰ مودودی کی رواں اور خوبصورت نثر اپنی مثال آپ ہے جو دل میں اترتی ہے۔ یہ دلّی کی وہ ٹکسالی نثر ہے جسے مثال کے طور پر پیش کیا جا سکتا ہے اور جس کی تحسیب بڑے بڑے ادیبوں نے کی ہے۔ یہ بات بھی کم لوگوں کے علم میں ہے کہ مودودی صاحب عمدہ شاعر تھے اور ابتدا میں ’’طالب‘‘ تخلص کرتے تھے۔ ان کے دو شعر سن لیجیے:

فطرت کی کانِ سنگ کا حاصل نہیں ہوں میں
پگھلوں نہ غم سے کیوں کہ ترا دل نہیں ہوں میں
ساقی کے تغافل سے مایوس نہ ہو رندو
خود طالبِ گردش ہے اب فطرتِ پیمانہ

مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کو میں نے اپنے سمن آباد موڑ والے گھر میں کئی بار دیکھا۔ یہ میرے بچپن کی بات ہے۔ ان کے لباس اور شخصیت کی نفاست کا تاثر اب تک حافظے میں ہے۔ اْس زمانے میں 1970ء کے انتخابات کا غلغلہ تھا۔ ہمارے گھر کے مستقل مہمان مولانا ظفر احمد انصاری کا جماعت کے عمائدین سے قریبی رابطہ تھا۔ میرے والد گرامی جناب محمد زکی کیفی بھی دینی جماعتوں کے اتحاد کے داعی تھے۔ ہمارا گھر ان مشوروں اور مجلسوں کا مرکز تھا اور ان سب عمائدین کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملتا رہتا تھا۔ ہمارے گھر جو رسالے آتے تھے ان میں ’’سیارہ‘‘ بھی شامل تھا جو جماعت سے وابستہ معروف شاعر اور ادیب جناب نعیم صدیقی کی زیر ادارت شائع ہوتا تھا۔ نعیم صدیقی صاحب سے جناب زکی کیفی کے دوستانہ مراسم تھے اور سیارہ سے بہت کچھ سیکھنے کو ملتا تھا۔ وہ اعلیٰ پائے کے شاعر تھے اور ان کی

نعت ’’میں ایک نعت لکھوں‘ سوچتا ہوں کیسے لکھوں‘‘ اب تک میرے حافظے میں ہے۔ جیسا کہ بدقسمتی سے ہمیشہ ہوتا رہا ہے‘ نظریاتی مخالفوں نے اسلامی پس منظر رکھنے والے شاعروں ادیبو ں کو ان کی مقدار اور معیار کے باوجود کبھی تسلیم نہیں کیا۔ مولانا مودودی‘ نعیم صدیقی اور نسیم حجازی کو بھی ان کا ادبی مقام اور مرتبہ نہیں دیا گیا۔ حالانکہ ان میں بہت سے نام بڑے بڑے مخالف ناموں سے کہیں بلند تھے۔ جماعت سے وابستہ مولانا ماہر القادری بھی ہمارے گھر کے مستقل مہمان ہوا کرتے تھے اور جب بھی لاہور آتے جماعت اور جمعیت کے نوجوان ان سے ملنے یا کسی تقریب میں لے جانے کے لیے ہمارے گھر تشریف لایا کرتے تھے۔ ان سب کا ادبی ذوق اور خوش مزاجی متاثر کن تھی اور یہ سلسلہ نسل در نسل اب تک چلا آتا ہے۔

میں پچھلے دنوں غزالی پبلک اسکول پھالیہ کے برادرم ضیغم مغیرہ کی دعوت پر اس اجتماع میں شریک ہوا جو ملک بھر کے ہم مزاج اہلِ قلم کو یکجا کرنے اور انہیں اپنے قلم کی طاقت کا بہترین استعمال کرنے کے لیے منعقد کیا گیا تھا۔ یہاں بھی ملک بھر کے اہم قلم موجود تھے اور ان سے ملنا خود ایک خوشگوار موقع تھا۔ نوواردان ادب کی تربیت کے لیے بیانات بھی بہت عمدہ تھے‘ اور ان میں سیکھنے کو بہت کچھ تھا۔ اصلاحی تحریکوں کا یہ ادبی رخ بیشتر دینی جماعتوں میں مفقود ہے۔ حالانکہ اہلِ قلم کو ساتھ لے کر چلنا فی زمانہ نہایت اہم ہے۔

اْس دن مینار پاکستان کی سبز وسفید روشنیوں کے سائے میں بیٹھا وقاص جعفری‘ سید عامر محمود جعفری‘ شعیب ہاشمی‘ ضیغم مغیرہ اور دیگر خوش ذوق دوستوں کی مہمان نوازی کا لطف اٹھاتے میں سوچ رہا تھا کہ مینار پاکستان کے سائے تلے اس سہ روزہ بستی میں ایک کل پاکستان مشاعرے کا انعقاد کرکے عمائدین جماعت نے اپنے اس تاریخی ورثے کا احیا کیا ہے جو ناقابلِ تردید بھی ہے اور ناقابلِ فراموش بھی۔ نظام بدلنے کی اہمیت اپنی جگہ ہے اور اپنے تاریخی ورثے کو سینے سے لگائے رکھنے کی اہمیت اپنی جگہ۔ سہ روزہ بستی کو دونوں مبارک! (بشکریہ: روز نامہ دنیا)

سعود عثمانی سیف اللہ.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: سہ روزہ بستی ہمارے گھر اسٹیج پر تھے اور اور ان کے لیے میں ہے ہے اور اور اس

پڑھیں:

انتخابی شیڈول کے اعلان تک ہمارا کوئی امیدوار نہیں: حافظ نعیم  

لاہور(ڈیلی پاکستان آن لائن)امیر جماعت اسلامی حافظ نعیم الرحمان نے کہا ہے کہ جب تک قومی انتخابات کے شیڈول کا اعلان نہیں ہوتا جماعت اسلامی کا کوئی امیدوار نہیں، ہماری جماعت میں جو چلے گا وہ نظام کے تحت چلے گا۔

روزنامہ جنگ کے مطابق لاہور میں بدل دو نظام کے اجتماع عام سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کی خارجہ پالیسی آزاد ہونی چاہیے، امریکا سمیت کسی ملک کو ڈاکا ڈالنے کا حق نہیں، ہمارا اختلاف بھی وقار کے ساتھ ہونا چاہیے۔

حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ فلسطین کی حمایت کریں اور پوری قوم کو اس پر ساتھ لے کر چلیں، کشمیر کے لیے لاکھوں لوگوں نے قربانیاں دی ہیں، کشمیر پاکستان کا ہے اور پاکستان کشمیر کا ہے، کشمیر اور فلسطین ہماری ڈیڈ لائن ہے۔ 
انہوں نے کہا کہ پارلیمنٹ میں بیٹھے لوگ خواتین کے حقوق کی بات نہیں کرتے، موقع ملا تو ہر خاتون کو وراثت میں حق دلائیں گے۔

ٹائی ٹینک کے امیر ترین مسافر کی سونے کی گھڑی نے نیلامی کے ریکارڈ توڑ دیئے

امیر جماعت اسلامی کا مزید کہنا تھا کہ ٹھیکیداری نظام میں خواتین کو حقوق نہیں دیے جاتے، حکمرانوں کو عوام کے مسائل سے کوئی سروکار نہیں۔

حافظ نعیم الرحمان نے کہا کہ موجودہ نظام جاگیرداروں اور سرمایہ کاروں کو عزت دیتا ہے، 2015ء سے پنجاب میں بلدیاتی الیکشن نہیں ہوئے، غیر جماعتی الیکشن کی بات کرنے والے چاہتے ہیں کہ ہر یو سی میں ہارس ٹریڈنگ ہو۔
 

مزید :

متعلقہ مضامین

  • سسٹم کا بحران اور امکانی خدشات
  • جماعت اسلامی کا ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان
  • حافظ نعیم الرحمن نے’’بدل دو نظام‘‘ تحریک کا اعلان کر دیا
  • انتخابی شیڈول کے اعلان تک ہمارا کوئی امیدوار نہیں: حافظ نعیم  
  • انتخابی شیڈول کے اعلان تک ہمارا کوئی امیدوار نہیں: حافظ نعیم
  • بدل دو نظام: جماعت اسلامی کا ملک گیر احتجاجی تحریک شروع کرنے کا اعلان
  •  طاغوتی نظام کے دن گنے جاچکے، نظام بدلے بغیر ملک نہیں چلے گا، اجتماع سے اختتامی خطاب
  • ناکارہ ملکی نظام کی تبدیلی کا عزم
  • خواتین کو وراثت سے محروم کرنے والے منصب کے اہل نہیں: امیر جماعت اسلامی