افغانستان، عالمی دہشت گردی کا مرکز
اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT
افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہیں اور تربیتی مراکز دنیا بھرکے امن کے لیے سنگین خطرہ ہیں۔ عالمی جریدے’’ وریشیاریویو‘‘ کے مطابق افغانستان ایک عالمی دہشت گرد پناہ گاہ بن چکا ہے جس کے شواہد ناقابل تردید ہیں۔ جریدے کے مطابق داعش، خراسان، القاعدہ، مشرقی ترکستان کے عسکریت پسند اور وسطی ایشیائی گروہ افغانستان سے فعال ہیں، افغانستان میں دہشت گرد تنظیمیں بھرتی، پروپیگنڈا اورکرپٹو فنڈنگ چلارہی ہیں۔ دوسری جانب خیبرپختون خوا کے علاقے بنوں میں گاڑی پر نامعلوم مسلح افرادکی فائرنگ سے اسسٹنٹ کمشنر میرانشاہ اور دو پولیس اہلکاروں سمیت چار افراد شہید اور دو اہلکار زخمی ہوگئے، حملہ آور دہشت گردوں نے اسسٹنٹ کمشنرکی گاڑی کو آگ لگا دی اور سرکاری اسلحہ بھی ساتھ لے گئے۔
افغانستان کی سرزمین ایک بار پھر عالمی سطح پر تشویش، بے چینی اور خطرے کا محور بنتی جا رہی ہے۔ دو دہائیوں پر محیط جنگ، غیر ملکی افواج کی موجودگی اور پھر اچانک انخلا کے بعد جو خلا پیدا ہوا، اس نے پورے خطے کو عدم استحکام کی نئی لہرکے سامنے لا کھڑا کیا ہے۔
عالمی جریدے ’’وریشیاریویو‘‘ نے حالیہ رپورٹ میں جو انکشافات کیے ہیں، وہ کسی بھی ذمے دار ریاست، عالمی ادارے اور امن کے خواہاں معاشروں کے لیے ناقابلِ نظرانداز حقیقت رکھتے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق افغانستان ایک مرتبہ پھر ایسی محفوظ جغرافیائی پناہ گاہ بن چکا ہے، جہاں نہ صرف دہشت گردوں کوکھل کر سانس لینے کی گنجائش میسر ہے بلکہ جہاں وہ اپنی بھرتی، تربیت، منظم پروپیگنڈا اور جدید مالیاتی ذرایع، خصوصاً کرپٹو سرمایہ کاری کے ذریعے اپنے نیٹ ورک کو عالمی بنیادوں پر پھیلا رہے ہیں۔
یہ کوئی معمولی انکشاف نہیں کہ داعش، خاص طور پر اس کی خراسان شاخ، القاعدہ کی باقیات، مشرقی ترکستان موومنٹ کے عسکریت پسند اور وسطی ایشیا کے کئی تنظیمی گروہ، سب افغانستان کی سرزمین سے فعال ہیں۔ یہ فعال ہونا صرف کسی خفیہ چھاپے یا انٹیلی جنس کی غیر مصدقہ رپورٹوں کا نتیجہ نہیں بلکہ اس کے شواہد اتنے واضح اور ٹھوس ہیں کہ انھیں جھٹلانا ممکن ہی نہیں رہا۔ اگر عالمی برادری اور خصوصاً خطے کے ممالک ان انتباہات کو صرف الفاظ کی حد تک دیکھ کر خاموش بیٹھے رہے تو کل کو ہونے والی تباہی کے نتائج کا سامنا سبھی کو مشترکہ طور پر کرنا پڑے گا۔
افغانستان کی موجودہ صورتحال آیندہ کسی بھی عالمی یا علاقائی انتشار کے لیے خطرناک پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے، اور اس حقیقت کا ادراک جتنا جلد ہو، اتنا ہی بہتر ہے۔افغانستان کی موجودہ حکمران انتظامیہ بار بار دعویٰ کرتی ہے کہ اس کی سرزمین کسی ملک کے خلاف استعمال نہیں ہونے دی جائے گی، مگر حالات ان دعوؤں کی نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ سرحدی علاقوں میں دہشت گرد گروپوں کی نقل و حرکت، ان کے نیٹ ورکس کی وسعت، ان کی آن لائن سرگرمیوں میں مسلسل اضافہ اور سب سے بڑھ کر ان کی مالیاتی سرگرمیوں میں کرپٹو کرنسیوں کا استعمال، یہ سب کچھ ایسی وجہ تنازع ہے جو اب محض پاکستان ہی نہیں بلکہ دنیا کے وسیع تر امن اور سلامتی کے لیے خطرہ بنتا جا رہا ہے۔
کرپٹو فنڈنگ کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ عسکری گروہ جدید ٹیکنالوجی اور مالیاتی طریقوں کا استعمال کرتے ہوئے عالمی بینکاری اور انٹیلی جنس نظام کی آنکھوں میں دھول جھونکنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ یہ محض اتفاق نہیں کہ جب عالمی سطح پر افغانستان کو دہشت گردوں کا نیا مرکز قرار دیا جا رہا ہے، اُسی دوران پاکستان کے اندر تشدد اور دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ خیبر پختون خوا کے حساس علاقے، خصوصاً شمالی اضلاع، ایک بار پھر ایسے نشانے پر ہیں جیسے برسوں قبل تھے۔
بنوں میں اسسٹنٹ کمشنر میرانشاہ کی گاڑی پر نامعلوم مسلح افراد کی فائرنگ اور اس سانحے میں ان سمیت چار افراد کی شہادت کسی معمولی واقعے کے مترادف نہیں۔ اس واقعے میں حملہ آور نہ صرف گاڑی کو آگ لگا کر اپنی درندگی کا اظہار کرتے ہیں بلکہ سرکاری اسلحہ بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں۔ یہ کسی منظم گروہ، منصوبہ بندی اور مہارت کے بغیر ممکن ہی نہیں۔ اس نوعیت کی کارروائی ایک یا دو افراد کا کام نہیں بلکہ اس کے پیچھے ایک مربوط مشینری، ٹھکانے اور خفیہ سہولت کار موجود ہوتے ہیں جو کہیں نہ کہیں سے اپنی پناہ اور سہولت حاصل کرتے ہیں۔یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ان دہشت گرد عناصر کو یہ سہولت کہاں سے مل رہی ہے؟
پاکستان کے اندر ایسی کوئی پناہ گاہ موجود نہیں جہاں دہشت گرد اس سادہ و آسانی کے ساتھ آ جا سکیں، اپنی قوت مجتمع کر سکیں اور پھر ایسی کارروائیاں کر کے بخیریت واپس ہو جائیں۔ بنوں اور شمالی وزیرستان کے علاقوں کی جغرافیائی پوزیشن صاف ظاہر کرتی ہے کہ ان عناصر کی آمد و رفت سرحد پار سے ہوتی ہے۔ سرحد اس قدر وسیع اور دشوار گزار ہے کہ اگر ہم اسے مکمل طور پر سیل بھی کر دیں تو خفیہ راستوں کا استعمال روکنے کے لیے افغانستان کی حکومت کی سیاسی اور عملی معاونت لازمی ہے۔ مگر افغانستان کی موجودہ انتظامیہ اگر عالمی سطح پر دہشت گردوں کے وجود اور سرگرمیوں سے انکاری رہے یا ان سے نظریاتی یا سیاسی وابستگی کی بنیاد پر آنکھیں بند رکھے، تو پھر نتیجہ واضح ہے کہ پاکستان سمیت پورا خطہ تیزی کے ساتھ ایک نیا بحران جنم لیتا دیکھے گا۔
عالمی جریدے کی رپورٹ میں خاص طور پر یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ افغانستان کے اندر دہشت گرد گروہ نہ صرف اپنی نظریاتی تربیت کر رہے ہیں بلکہ جدید تکنیک، کمیونیکیشن سسٹم اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کے استعمال میں بھی ایک واضح مہارت حاصل کر گئے ہیں۔ وہ سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر فعال ہیں، پروپیگنڈا تیارکررہے ہیں، نوجوانوں کو گمراہ کرنے کے طریقے تلاش کر رہے ہیں اور سب سے بڑھ کر ایسے لوگوں کی شناخت کر رہے ہیں جو مالی، ذہنی یا جذباتی کمزوری کا شکار ہوں اور ان کے لیے آسان ’’بھرتی‘‘ ثابت ہو سکیں۔ یہ طرزِ عمل آج کے ڈیجیٹل دور میں کسی بھی ملک کے لیے خطرناک ترین چیلنج ہے۔
جو دہشت گرد گروہ پہلے پہاڑوں یا خفیہ غاروں تک محدود تھے، وہ اب اسمارٹ فون کی اسکرین پر بیٹھ کر دنیا کے کسی بھی حصے میں اپنا اثر و رسوخ پیدا کر سکتے ہیں۔ یہی وہ خطرہ ہے جسے دنیا سنجیدگی سے دیکھنے کو تیار نہیں، مگر پاکستان جیسے ملک جو ان کی زد میں ہیں، وہ اس خطرے کو روزانہ کی بنیاد پر محسوس کرتے ہیں۔پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بے شمار قربانیاں دی ہیں۔ ہزاروں شہری اور سیکیورٹی اہلکار اس جنگ میں شہید ہوئے، اربوں روپے کی معاشی تباہی کا بوجھ اٹھایا گیا، امن و ترقی کے خواب مجروح ہوئے اور عالمی سطح پر بھی پاکستان کو ایک مشکل بیانیے کا سامنا کرنا پڑا۔ مگر آج جب ایک بار پھر دہشت گردی کی نئی لہر سر اٹھا رہی ہے، تو اس کا تعلق پاکستان کے داخلی عوامل سے زیادہ افغانستان کی بدلتی صورتحال سے جڑا ہوا ہے۔
یہ حقیقت تسلیم کرنی ہوگی کہ دہشت گردی کی وارداتیں صرف بندوق سے نہیں روکی جا سکتیں، جب تک ان گروہوں کی بنیادی جڑیں، ان کے ٹھکانے، ان کی تربیت گاہیں اور ان کا مالیاتی ڈھانچہ باقی رہے گا، اس وقت تک کوئی ملک مکمل طور پر محفوظ نہیں رہ سکتا۔ پاکستان سفارتی سطح پر بارہا توجہ دلا چکا ہے کہ افغانستان اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروہوں کے استعمال سے پاک کرے، مگر بدقسمتی سے افغانستان کی طرف سے ایسے اقدامات نظر نہیں آ رہے جو حقیقی اور ٹھوس ہوں۔ دنیا کو بھی اس حقیقت کو سمجھنا ہوگا کہ اگر افغانستان ایک بار پھر عالمی دہشت گردی کا مرکز بن گیا تو اس کے نتائج صرف پاکستان، ایران یا وسطی ایشیا تک محدود نہیں رہیں گے، بلکہ یورپ، امریکا اور مشرق وسطیٰ بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔
داعش خراسان کی عالمی اہداف پر نظریں کسی سے پوشیدہ نہیں۔ کوئی یہ نہ بھولے کہ دہشت گردی کی کوئی سرحد نہیں ہوتی۔ آج اگر یہ عناصر افغانستان میں پنپ رہے ہیں تو کل کو یہ دنیا کے کسی بھی خطے میں اپنے مقاصد کے لیے اپنا وجود ظاہر کرسکتے ہیں۔بنوں میں ہونے والے تازہ سانحے کی اہمیت اس لیے بھی زیادہ ہے کہ اس نے واضح کر دیا کہ دہشت گرد اپنی سرگرمیوں میں پہلے سے زیادہ منظم، زیادہ بے خوف اور زیادہ مضبوط ہو چکے ہیں۔ سرکاری گاڑی کو روکنا، ہدف کو شہید کرنا، گاڑی کو آگ لگانا اور اسلحہ لے کر فرار ہونا، کوئی عام واردات نہیں۔ اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ دہشت گرد نہ صرف حملے کے لیے تیار تھے بلکہ ان کے پاس محفوظ راستے، سہولت کار اور سرحد پار پناہ گاہیں موجود تھیں۔ اگر یہ صورتحال جاری رہی تو مستقبل میں ایسے واقعات کی شدت میں اضافہ بھی ممکن ہے اور ان کے ہدف مزید وسیع بھی ہو سکتے ہیں۔
عالمی جریدے کے انکشافات کے بعد دنیا کو یہ حقیقت سمجھنی چاہیے کہ افغانستان کا مسئلہ صرف افغانوں کا مسئلہ نہیں۔ یہ ایک ایسا آتش فشاں ہے جس کے لاوے میں پوری دنیا کو لپیٹنے کی صلاحیت موجود ہے۔ دہشت گرد تنظیمیں کسی بھی ملک کی پابند نہیں ہوتیں۔ وہ جہاں انھیں مواقع ملیں وہیں سے اپنا نیٹ ورک پھیلا لیتی ہیں۔ اگر انھیں افغانستان کی سرزمین پر کھلی چھوٹ مل گئی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ کل کو وہ پاکستان کے کسی شہر، ایران کے کسی علاقے، چین کی کسی پالیسی، روس کی کسی سیکیورٹی تنصیب یا یورپ کے کسی عوامی مقام کو نشانہ بنا سکتی ہیں۔ اس حقیقت سے آنکھیں بند کرنا ایسی غلطی ہوگی جس کا خمیازہ پوری دنیا کو بھگتنا پڑ سکتا ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: افغانستان کی عالمی سطح پر عالمی جریدے کہ دہشت گرد ایک بار پھر پاکستان کے کی سرزمین ہیں بلکہ دنیا کو رہے ہیں گاڑی کو کسی بھی کے کسی اور ان کے لیے
پڑھیں:
پاکستان آرمی اور پی ایل اے کی مشترکہ مشق وارئیرIX کا آغاز
راولپنڈی(ویب ڈیسک) پاکستان آرمی اور چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے مشترکہ فوجی مشق وارئیر-IX کا آغاز کر دیا۔ یہ مشق پاک چین سالانہ انسدادِ دہشت گردی تعاون کا نواں ایڈیشن ہے، جو دونوں ممالک کے درمیان دفاعی شراکت داری کی مضبوط روایت کا تسلسل ہے۔
آئی ایس پی آر کے مطابق مشق کا آغاز 2 دسمبر 2025 کو نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم سینٹر پبی میں ہوا، جہاں دونوں ممالک کے سینئر عسکری حکام نے افتتاحی تقریب میں شرکت کی۔ منگلا کور کے کمانڈر سمیت چین کی ویسٹرن تھیٹر کمانڈ کے ڈپٹی چیف آف اسٹاف میجر جنرل بیان شیاؤمِنگ بھی تقریب میں موجود تھے۔اس سال وارئیر-IX کا بنیادی فوکس کاؤنٹر ٹیررازم آپریشنز ہے، جس کا مقصدپاک چین افواج کے درمیان انٹرآپریبلٹی میں اضافہ, جدید جنگی مہارتوں کو نکھارنا،پروفیشنل اسکلز کی بہتری اورانسدادِ دہشت گردی سے متعلق بہترین طریقہ کار کا تبادلہ ہے، پاکستان اور چین کے درمیان دفاعی تعاون باہمی اعتماد پر مبنی دہائیوں پر محیط اسٹریٹجک شراکت داری کا حصہ ہے۔ مشترکہ مشق وارئیر-IX دونوں ممالک کے مضبوط ملٹری ٹو ملٹری تعلقات اور خطے میں امن و استحکام کے مشترکہ عزم کی واضح مثال ہے۔مشق آئندہ دنوں میں مختلف کاؤنٹر ٹیررازم ڈرلز اور مربوط آپریشنز پر مشتمل ہوگی، جن کا مقصد دہشت گردی سے نمٹنے کے لیے پیشہ ورانہ صلاحیتوں کو مزید تقویت دینا ہے۔