Express News:
2025-12-03@22:14:35 GMT

گورنر راج کے ممکنہ نقصانات

اشاعت کی تاریخ: 4th, December 2025 GMT

کیا خیبر پختون خوا میں گورنر راج لگنے کے مفید نتائج برآمد ہونگے؟ اس بات کا تاریخی تناظر میں جائزہ لینا ضروری ہے۔ آئین میں کی گئی 18ویں ترمیم سے قبل صدر پاکستان کو آئین کی شق 58(2)B کے تحت قومی اور صوبائی اسمبلیاں توڑنے، صوبوں میں گورنر راج نافذ کرنے، صوبائی اسمبلی کو ایک خاص مدت تک معطل کرنے اور اسمبلی کو توڑنے کے اختیارات حاصل تھے مگر 2010 میں پارلیمنٹ میں موجود تمام سیاسی جماعتوں نے 18ویں ترمیم کو اتفاق رائے سے منظورکیا تھا۔

اس ترمیم کے تحت پارلیمنٹ کی منظوری سے کسی صوبے میں محدود مدت کے لیے گورنر راج نافذ ہوسکتا ہے۔ پیپلز پارٹی اگر خیبر پختون خوا میں گورنر راج کے لیے تیار ہوجاتی ہے تو اس کی قیادت کو سوچنا ہوگا کہ اس فیصلہ کا اطلاق کسی وقت بلوچستان پر بھی ہوسکتا ہے جہاں امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے، یوں پیپلز پارٹی ملکی رقبہ کے اعتبار سے سب سے بڑے صوبے کی حکومت سے محروم ہوجائے گی اور سندھ کی حکومت کے لیے بھی خطرے کی ایک لال بتی روشن ہوجائے گی۔

بہرحال تاریخی تناظرکا جائزہ لیا جائے تو یہ حقائق سامنے آتے ہیں کہ ملک آزاد ہوا اور آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر بیرسٹر محمد علی جناح نے گورنر جنرل کا عہدہ سنبھالا تو گورنر جنرل کی ہدایت پر پہلے سندھ کے اس وقت کے پریمیئر ایوب کھوڑو کو برطرف کیا گیا اور پھر سابقہ صوبہ سرحد میں ڈاکٹر خان صاحب کی قیادت میں قائم حکومت کو برطرف کیا گیا۔ اس برطرفی کے بعد سابق کانگریسی رہنما اور مسلم لیگ کے مرد آہن خان عبدالقیوم خان صوبے کے پریمیئر بنائے گئے۔

خان عبدالقیوم خان کے دور میں انگریز راج کے خلاف جدوجہد کرنے والی خدائی خدمت گار تحریک کے کارکنوں کے خلاف پولیس ایکشن ہوا۔ سرحد پولیس نے خدائی خدمت گار تحریک کے کارکنوں کے اجتماع پر فائرنگ کی تھی جس سے سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے۔ تحریک کے رہنما خان عبدالغفار اور ان کے ساتھیوں کو کئی برسوں تک مختلف جیلوں میں نظربند رکھا گیا۔ قیوم خان کی حکومت نے سابق پریمیئر ڈاکٹر خان صاحب پر ملک سے غداری کا الزام لگایا تھا مگر جب 1955 میں ون یونٹ بنایا گیا تو اس وقت کے گورنر جنرل اسکندر مرزا نے ڈاکٹر خان صاحب کو مغربی پاکستان کا پہلا وزیر اعلیٰ مقررکر دیا۔ یوں وفاقی حکومت نے ڈاکٹر خان صاحب کے خلاف غداری کا الزام واپس لے لیا۔

جب 50ء کی دہائی میں صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات منعقد کرائے گئے تو مشرقی بنگال میں مسلم لیگ کے خلاف حزب اختلاف کی تمام جماعتیں جگتو فرنٹ میں متحدہ ہوگئیں۔ جگتو فرنٹ کی قیادت مولوی فضل الحق کررہے تھے، جنھوں نے 23 مارچ 1940 کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اساسی جلسے میں قرارداد لاہور پیش کی تھی جو بعد میں قرارداد پاکستان کہلائی۔ جگتو فرنٹ نے 26 نکات پر مشتمل ایک منشور کے تحت صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں حصہ لیا۔ جگتو فرنٹ نے صرف دو نشستوں کے علاوہ اسمبلی کی تمام نشستیں جیت لی تھیں۔

فرنٹ کے 26 نکات مشرقی بنگال کی بنگلہ زبان کے تحفظ سے لے کر صوبے کو بااختیار کرنے کے متعلق تھے مگر کراچی کی حکومت کو ڈھاکا میں جگتو فرنٹ کی حکومت اس لیے نہیں بھائی تھی کہ فرنٹ نے قرارداد پاکستان کی روشنی میں صوبے کے تمام حقوق کا مطالبہ کیا تھا۔ کراچی کے حکومت نے اسکندر مرزا کو مشرقی بنگال کا گورنر مقررکیا۔ انھوں نے 9ماہ بعد وزیر اعلیٰ کلکتہ کی ایک تقریر کی آڑ لیتے ہوئے صوبائی حکومت کو برطرف کیا تھا۔

جگتو فرنٹ کی حکومت تو برطرف ہوگئی مگر اس حکومت کی برطرفی سے مشرقی بنگال اور وفاقی دار الحکومت کراچی کے درمیان فاصلے بڑھ گئے۔ جگتو فرنٹ کی حکومت میں عوامی لیگ کے رہنما شیخ مجیب الرحمن کو ثقافت کی وزارت سونپی گئی تھی۔ شیخ مجیب الرحمن نے صوبے میں فلمی صنعت میں ترقی کے لیے نیشنل فلم ڈیولپمنٹ کارپوریشن قائم کی تھی۔ پیپلز پارٹی کی پہلی حکومت میں کارپوریشن پاکستان میں قائم کی گئی۔ جگتو فرنٹ کی حکومت کے خاتمے اور گورنر راج کے نفاذ سے مغربی پاکستان کے خلاف نفرت پیدا ہونی شروع ہوئی تھی۔ یہ نفرت وفاق اور صوبائی حکومتوں نے امتناعی پالیسیوں کے خلاف بڑھتی چلی گئی۔

سابقہ مشرقی پاکستان کے سیاسی حالات کا جائزہ لینے والے سینئر صحافیوں کا کہنا تھا کہ 60ء کی دہائی میں جب جنرل ایوب خان نے صدارتی انتخابات میں بانی پاکستان بیرسٹر محمد علی جناح کی ہمشیرہ فاطمہ جناح کو دھاندلی کے ذریعے شکست دی تھی تو اس کے کچھ عرصے بعد عوامی لیگ کے صدر شیخ مجیب الرحمن نے لاہور میں دونوں صوبوں کے درمیان سیاسی مفاہمت کے مشہور زمانہ 6 نکات پیش کیے گئے۔

یہ چھ نکات دراصل جگتو فرنٹ کے 26 نکات کا خلاصہ تھے، اگر اس وقت وفاقی حکومت کے اکابرین حقیقت پسندانہ پالیسی اختیار کرتے اور جگتو فرنٹ کی حکومت کو پانچ برس پورے کرنے کا موقع ملتا تو پاکستان کے دونوں حصوں کے متحد رہنے کے امکانات خاصے روشن ہوجاتے۔ تاریخ میں بلوچستان میں نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کی حکومت کی برطرفی کا معاملہ بلوچستان کے موجودہ حالات سے منسلک ہوتا ہے۔ 70ء کی دہائی میں عام انتخابات میں نیشنل عوامی پارٹی نے بلوچستان کی قومی اور صوبائی اسمبلی کی اکثریتی نشستیں حاصل کیں۔

سابق صدر ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا تو وفاقی حکومت نے بلوچستان کی اکثریتی جماعت کو نظرانداز کرتے ہوئے نواب غوث بخش رئیسانی کو بلوچستان کا گورنر مقررکیا تھا جس پرکوئٹہ میں نیشنل عوامی پارٹی اور بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن کے کارکنوں نے زبردست احتجاج کیا تھا۔ احتجاج کرنے والوں میں نواب اکبر بگٹی بھی شامل تھے۔ صدر ذوالفقارعلی بھٹو، نیشنل عوامی پارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان ایک سہ فریقی معاہدہ ہوا۔ اس معاہدے کے تحت صدر ذوالفقارعلی بھٹو نے صوبہ سرحد کے لیے ارباب خلیل کو اور بلوچستان کے لیے میر غوث بخش بزنجو کو گورنر مقررکیا گیا۔ سرحد میں جمعیت علمائے اسلام کے مفتی محمود اور بلوچستان میں سردار عطاء اللہ مینگل وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے۔

صوبہ کا درجہ ملنے کے بعد بلوچستان میں پہلی عوامی حکومت تھی۔ نیپ کی حکومت نے تعلیم اور صحت کے شعبوں میں اہم ترین اقدامات کیے تھے۔ بلوچستان یونیورسٹی، بولان میڈیکل کالج اور بلوچستان میٹرک انٹرمیڈیٹ بورڈ اس دوران قائم ہوئے مگر وفاقی حکومت نے 9 ماہ بعد عطاء اللہ مینگل کی حکومت کو برطرف کیا۔ اس کے ساتھ غوث بخش بزنجو اور سردار ارباب خلیل برطرف کردیے گئے۔

سرحد کے وزیر اعلیٰ مفتی محمود نے احتجاجاً اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا تھا۔ نیپ نے مرکز کے ان اقدامات کے خلاف احتجاجی تحریک شروع کردی۔ اس تحریک کے دوران ریاست اور عوام میں فاصلے بڑھتے چلے گئے۔ بلوچستان میں ایک آپریشن ہوا۔ نیپ اور بائیں بازو کی تنظیموں نے اس آپریشن کے خلاف شدید مزاحمتی تحریک شروع کی۔ یہ آپریشن 5سال تک جاری رہا۔ نیپ کے رہنماؤں کے خلاف حیدرآباد سازش کیس کی بنیاد پڑی۔ جنرل ضیاء الحق نے اقتدار میں آنے کے بعد مقدمہ واپس لیا۔ مگر نیپ کی حکومت کی برطرفی سے ملک کے مجموعی نظام پر منفی اثرات برآمد ہوئے۔ اسٹیبلشمنٹ کا منتخب حکومتوں پر دباؤ بڑھ گیا اور پی پی پی کی حکومت اسٹیبلشمنٹ کی سازش کا شکار ہوگئی۔

 صدر پاکستان آصف علی زرداری نے اپنے پہلے دورِ صدارت میں شہباز شریف کو عدالت سے نااہل قرار دینے کے بعد پنجاب میں گورنر راج نافذ کرنے کا تجربہ کیا تھا مگر یہ تجربہ ناکام ثابت ہوا۔ وفاقی حکومت کو شہباز شریف کی نااہلی کے فیصلے کو ختم کروانے کے لیے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنا پڑی۔ خیبر پختون خوا میں صورتحال بہتر نہیں ہے۔ بعض علاقوں میں طالبان کے متحرک گروپوں کا قبضہ ہوچکا ہے۔ کے پی کی حکومت کی ترجیحات مختلف ہیں لیکن یہ حقیقت ہے کہ کے پی کے عوام کی اکثریت صوبائی حکومت کے ساتھ ہے۔ اس صورتحال میں گورنر راج نافذ کیا گیا تو ماضی کی طرح یہ تجربہ ناکام ہوجائے گا۔

.

ذریعہ: Express News

کلیدی لفظ: نیشنل عوامی پارٹی گورنر راج نافذ ڈاکٹر خان صاحب صوبائی اسمبلی میں گورنر راج بلوچستان میں کو برطرف کیا مشرقی بنگال وفاقی حکومت مسلم لیگ کے وزیر اعلی حکومت کی تحریک کے حکومت کو حکومت نے حکومت کے کے خلاف کیا تھا کیا گیا کے بعد کے تحت کے لیے راج کے

پڑھیں:

پی ٹی آئی کا ممکنہ احتجاج: خیبرپختونخوا پولیس کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کی ہدایت

خیبر پختونخوا میں پولیس افسران کو ہدایت جاری کی گئی ہے کہ وہ اپنی قانونی اور جغرافیائی حدود کے اندر رہ کر فرائض انجام دیں اور کسی قسم کی سیاسی سرگرمی میں حصہ نہ لیں۔

سیکیورٹی ڈویژن کے ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) شاکر حسین داوڑ نے صوبے کے تمام سینیئر افسران کو بھیجے گئے سرکاری سرکلر میں یاد دہانی کرائی کہ پولیس فورس کا ہر رکن غیرجانبدار رہنے کا پابند ہے اور کسی جماعت کے ساتھ سیاسی طور پر نہ جڑ سکتا ہے اور نہ ہی کوئی جلوس یا ریلی جوائن کر سکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیے: لاہور: ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی پر پولیس سمیت سینکڑوں سرکاری گاڑیوں کے خلاف کارروائی

ہدایات میں موجودہ قوانین کا اعادہ کیا گیا ہے جو قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں کو کسی بھی سیاسی جانبداری سے منع کرتے ہیں۔ یہ ہدایات اُس وقت سامنے آئی ہیں جب وفاقی حکومت نے صوبائی حکومت کی جانب سے ریاستی مشینری کے سیاسی مقاصد کے لیے مبینہ استعمال پر تشویش ظاہر کی ہے۔

یہ اقدامات ایسے وقت میں کیے گئے ہیں جب وفاقی سطح پر یہ خدشات بڑھ رہے ہیں کہ پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) اپنے ممکنہ احتجاج کے دوران صوبائی پولیس کو سیاسی استعمال میں لانے کی کوشش کر سکتی ہے۔

یہ بھی پڑھیے: پی ٹی آئی احتجاج کے دوران فیک نیوز کی بھرمار، عالمی ادارے کی رپورٹ میں انکشاف

واضح رہے کہ  پی ٹی آئی 2 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ کے باہر احتجاج کرنے کا اعلان کر چکی ہے جبکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کی ضلعی انتظامیہ نے پی ٹی آئی کے اعلان کردہ احتجاج کے پیش نظر جڑواں شہروں میں دفعہ 144 نافذ کر رکھی ہے۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

پولیس پی ٹی آئی احتجاج دفعہ 144

متعلقہ مضامین

  • چہرے پر فلر انجیکشن لگوانے کے نئے ممکنہ نقصانات سامنے آگئے
  • کتاب ہر ہاتھ میں، بلوچستان حکومت کا ’کتاب گاڑیوں‘ کا منفرد منصوبہ
  • کوئٹہ، انٹرنیٹ سروسز ایک بار پھر معطل، عوام شدید پریشان
  • ہم کسی سے نہیں ڈرتے، ہمت ہے تو صوبے میں گورنر راج لگا کر دکھائیں: سہیل آفریدی کا چیلنج
  • پی ٹی آئی کا ممکنہ احتجاج: خیبرپختونخوا پولیس کو سیاسی سرگرمیوں سے دور رہنے کی ہدایت
  • PTI کا ممکنہ احتجاج: اسلام آباد و پنڈی میں دفعہ 144 نافذ
  • خیبر پختونخوا میں گورنر راج کا حتمی فیصلہ نہیں کیا، طارق فضل چوہدری
  • صوبائی حکومت  ناکام  ہوچکی  : عطاتارڑ  : خیبر پی کے  میں  گورنرراج  پر سنجیدگی  سے  غور  جاری  : وزیر  مملک  قانون 
  • خیبرپختونخوا میں گورنر راج لگے گا کہ نہیں؟