فتنہ الہندستان کا بزدلانہ وار، بلوچستان پھر انسانیت سوز دہشتگردی کا شکار
اشاعت کی تاریخ: 13th, December 2025 GMT
فتنہ الہندوستان کی دہشت گرد تنظیم بی ایل اے نے بلوچستان کے علاقے آواران میں نمازِ جمعہ کے دوران مارٹر گولوں اور راکٹس سے معصوم بچوں کو نشانہ بنادیا۔
سویلین آبادی پر حملے میں 4 بچے زخمی ہو گئے۔ یہ کارروائی ہندوستانی ایجنڈے کے تحت بلوچ نسل کشی اور امن تباہ کرنے کی ایک کڑی قرار دی جا رہی ہے۔
سکیورٹی فورسز بلوچستان میں فتنہ الہندوستان کے ایجنڈے کو بے نقاب کرنے اور کچلنے کے لیے مسلسل کارروائیاں کر رہی ہیں۔
سیکیورٹی فورسز کا کہنا ہے کہ نہتے بچوں پر حملہ دہشت گردوں کی سفاکیت، بزدلی اور شکست خوردہ ذہنیت کا کھلا ثبوت ہے۔
سیکیورٹی فورسز نے کہا کہ فتنہ الہندوستان کا ایجنڈا بلوچستان کے امن و امان کو تباہ کرنا اور خوف وحراس کی فضا قائم کرنا ہے، بلوچستان کے عوام دہشت گردی کے اس مکروہ کھیل کو پہچان چکے ہیں۔
سیکیورٹی فورسز کا یہ بھی کہنا تھا کہ فتنہ الہندوستان کا نہتے بچوں پر حملہ دہشت گردوں کی سفاکیت، بزدلی اور شکست خوردہ ذہنیت کا واضح ثبوت ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: فتنہ الہندوستان
پڑھیں:
خاتون ٹیچر اور بچوں کی محنت نے چھونپڑی کو درسگاہ بنادیا
خضدار کے نواحی علاقے سنی تیغ میں بچوں نے اپنی محنت سے ایک جھونپڑی کو اسکول میں بدل دیا ہے جہاں مقامی خاتون گزشتہ 3 برس سے بغیر کسی معاوضے کے 100 کے قریب بچوں کو تعلیم دے رہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: کتاب ہر ہاتھ میں، بلوچستان حکومت کا ’کتاب گاڑیوں‘ کا منفرد منصوبہ
یہ علاقہ شہر سے تقریباً 5 کلو میٹر دور ہے یہاں زیر تعلیم بچوں میں زیادہ تعداد بچیوں کی ہے جو میلوں دور سے پیدل وہاں پہنچتی ہیں۔
علاقے کی رہائشی رضاکار سلمیٰ بتاتی ہیں کہ وہ اپنے شوہر کی محنت مزدوری اور اپنی کشیدہ کاری سے ہونے والی آمدنی کے ذریعے بچوں کے لیے کتابیں اور دیگر سامان خریدتی ہیں اس نیکی کے کام میں محلے کے لوگ بھی بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہے ہیں۔
جھونپڑی اسکول پہاڑیوں کے درمیان ایک جھیل کے قریب واقع ہے اور قومی شاہراہ سے صرف ایک کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بڑی آبادی یہاں رہتی ہے تاہم اس اسکول کی حالت انتہائی خستہ ہے۔ نہ چھت، نہ پانی، نہ بجلی، نہ چٹائیاں، نہ فرنیچر ہے۔
مزید پڑھیے: ملک کے پسماندہ ترین علاقوں کی فہرست جاری، بلوچستان کے کتنے اضلاع شامل ہیں؟
بچے ناہموار اور پتھریلی زمین پر بیٹھ کر پڑھتے ہیں جگہ کم ہونے کی وجہ سے اکثر کھلے آسمان تلے سخت سردی اور شدید گرمی برداشت کرتے ہیں۔
اس جھونپڑی اسکول میں نہ کلاس کا کوئی ڈھانچہ ہے اور نہ عمر کا فرق سارے بچے ایک ساتھ بیٹھتے ہیں اور ایک ہی خاتون ٹیچر انہیں باری باری تمام مضامین پڑھاتی ہیں۔
اسکول میں وائٹ بورڈ تک موجود نہیں، بنیادی مضامین اردو، انگریزی کے حروف تہجی اور گنتی ایک مستقل بینر پر لکھے گئے ہیں جو کبھی مٹایا نہیں جا سکتا اور اسی کو ہی بچے وائٹ بورڈ سمجھ کر پڑھتے ہیں۔
مزید پڑھیں: بلوچستان خشک سالی کی لپیٹ میں، بارشوں میں شدید کمی کے بعد قابل کاشت رقبہ مزید سُکڑ گیا
بچوں کو سہولتوں کی کمی سے تو کوئی خاص گلہ نہیں مگر ان کا اصل خوف یہ ہے کہ غیر رجسٹرڈ اسکول ہونے کی وجہ سے انہیں سرٹیفکیٹ نہیں ملے گا اور وہ آگے کی تعلیم سے محروم رہ جائیں گے۔ دیکھیے عامر باجوئی کی یہ ویڈیو رپورٹ۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
بلوچستان خضدار خضدار جھونپڑی اسکول سنی تیغ جھونپڑی اسکول