میرے خیال میں آسمان میں اب ایک پارٹی ہونے والی ہے۔ بات ہوگی اسکوائر ڈرائیو اور اسکوائر کٹ کی؛ آؤٹ سوئنگرز اور ان سوئنگرز کی۔
کرکٹ کے میدانِ میں گزرنے والے دنوں کی یاد میں قہقہے چھوٹیں گے اور اْن راتوں کی یاد میں جو دوستی کے بندھن میں گزریں۔ پانچ دوستوں کی یادیں، جنہوں نے ایک ہی مقصد کے لیے مختلف کردار نبھائے اور کرکٹ کے سٹیج کو اپنی صلاحیت سے جگمگا دیا۔ شخصیات مختلف تھیں مگر اْن کا باطنی جوش اور کردار ایک جیسا تھا۔ یہ ایک زبردست محفل ہوگی — جس کی گرد صبح کی روشنی تک بیٹھے گی۔ مالکم مارشل، مارٹن کرو، شین وارن اور مائیک پراکٹر پہلے ہی دوسرے جہان جا چکے ہیں؛ اب رابن سمتھ بھی اْن میں شامل ہو گئے۔
کرو اْن سے کہیں گے کہ نرم ہاتھوں سے کھیلیں۔ پراکٹر کہیں گے کہ اسپنرز کو دور بہت دور باؤنڈری سے باہر پھینک دو۔ وارن کہے گا، ’’میں نے تم سے کہا تھا، جج (دوست انہیں پیار سے جج کہتے تھے)، یہ بہت آسان ہے: تم اْس سے بہتر ہو، جاؤ، اسے زیر کرو۔‘‘
مارشل کہے گا، ’’ججی، چائنا، ہم یہ کام اکٹھے کریں گے۔‘‘
مارشل کے ساتھ تو رشتہ ہی ایسا تھا، وہ دونوں ہمیشہ اکٹھے نظر آئے۔ اْن کے درمیان رشتے کی گہرائی اْس وقت سے چلی آتی تھی جب لیسٹر کے ایک بار میں دو اوباش لوگ مارشل کو نسلی جملے کس رہے تھے۔ کچھ دیر بعد اوباشوں کے ساتھی بھی آ گئے، تو ہیمپشائر کے دونوں بہترین کرکٹر وہاں سے نکل آئے تاکہ کچھ کھا سکیں۔ مگر وہ اوباش اْن کے پیچھے ہو لیے اور بدزبانی میں ایک قدم اور آگے نکل گئے۔ تب رابن نے کہا کہ بس بہت ہو گیا۔ لیکن وہ باز نہ آئے، تو رابن نے کہا کہ اگر انہوں نے زبان بند نہ کی تو وہ اْنہیں گھونسہ مارے گا۔ پھر بھی وہ باز نہ آئے، تو جج نے اْیک کو شاندار رائٹ ہک رسید کر دیا۔ جس کے بعد دونوں اوباش اپنی جان بچا کر بھاگ کھڑے ہوئے۔
میں یہ واقعہ اس لیے بیان کر رہا ہوں کہ یہ اْس خاص اور انتہائی نرم دل انسان کی اصل شخصیت کے بالکل خلاف تھا، جو چند دن قبل دنیا سے رخصت ہوا ہے۔ رابن کو کبھی بھی اس لمحے سے ’جج‘ نہیں کیا جا سکتا — صرف ایک دوست کی حیثیت سے۔ ویسے بھی، اْن کی نہایت طاقتور اسکوائر کٹ کو بھی کسی طرح اْن کے خلاف بطور ثبوت استعمال نہیں کیا جا سکتا تھا — مگر یہ کسی بولر کے لیے خطرے کے ثبوت ضرور تھے۔ وہ اس سارے واقعے سے پریشان تھے، حیران تھے کہ وہ اپنا آپ کھو بیٹھے، اور اس ردِعمل پر شرمندہ بھی تھے۔ مارشل کا کہنا تھا کہ یہی واحد ممکنہ ردِعمل تھا — اور یہ کہ رابن نے صرف ایک دو سیکنڈ اْن سے پہلے ہاتھ چلا دیا۔
’’کیا یہ اچانک ہوا؟‘‘ میرے بھائی نے کل رات اْن کی وفات پر پوچھا۔ ہاں، لیکن یہ حیران کن نہیں۔ ہم (کرکٹ برادری، جسے وہ بہت یاد کرتے تھے) نے انہیں پرتھ ٹیسٹ کے دوران دیکھا تھا، جہاں انہوں نے ذہنی صحت کے موضوع پر ایک جذباتی سوال و جواب کا سیشن کیا تھا، جو میچ کے دوسرے اور آخری دن ہوا — جس کے اختتام پر کارپوریٹ لنچ میں کھڑے ہو کر تالیاں بجائی گئیں۔ اگلی صبح ہم نے ہیمپشائر ناشتہ کیا — بیری رچرڈز، پال ٹیری، رابن کے بھائی کرس، اور میں۔
رابن کو فکر تھی کہ کارپوریٹ لنچ میں انہوں نے خود کے بارے میں بہت کچھ کہہ دیا ہے، لیکن پھر بھی انہوں نے پرانی کہانیاں اور ناقابلِ فراموش میچ یاد دلانے کا وقت نکالا۔ وہ بہت مزاحیہ تھے — اْن کا یہ پہلو ہر وقت نظر نہیں آتا تھا، کیونکہ عام طور پر اْن کی شرمیلا پن غالب رہتا تھا۔ مگر پرتھ کی اس روشن صبح انہوں نے ہمیں خوب ہنسایا۔ بیری نے اْس کوچنگ کتاب کا ذکر کیا جو انہوں نے تقریباً 53 برس پہلے لکھی تھی، جس میں نو سالہ رابن کی تصویر بطور بہترین شاگرد شامل تھی۔ تب بھی وہ اتنے ہی اچھے تھے۔ وہ ہر شاٹ کھیل سکتے تھے — زیادہ تر مضبوطی کے ساتھ، اور ہمیشہ توازن میں رہتے ہوئے۔ بیری کو انہیں زیادہ کچھ سکھانے کی ضرورت ہی نہیں تھی — مگر رابن اسے بکواس قرار دیتے۔ ظاہر ہے، وہ تو حد سے زیادہ منکسر المزاج تھے۔ ناشتہ ختم ہوا تو ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا۔ آخری بار۔
میں نے انہیں پہلی بار اْس وقت جانا جب وہ 1982ء میں ہیمپشائر آئے — اپنے بھائی کے کامیاب معاہدے کے دو سال بعد۔ اوہ خدا — وہ کیا خوب بیٹنگ کرتے تھے! اْن کی پرورش ایک خوش مزاج مگر کچھ عجیب و غریب والد نے کی، جو انہیں بہت محنت کرواتے تھے، اور ایک نہایت مہربان، نرم دل، بیلے سکھانے والی والدہ نے۔ انہوں نے ایک کوچ بھی رکھا — نیٹل کے سابق بیٹر، صاف گو گریسن ہیتھ — یوں سیکھنے اور سدھار کی یہ تکون مضبوطی سے قائم ہو گئی۔
رابن زیادہ تر آگے بڑھ کر کھیلتے، سیدھے اور آف اسٹمپ کی طرف اپنی انگلیوں کے پاس سے خوب اعتماد کے ساتھ ڈرائیو لگاتے۔ جو انہیں پچھاڑنے کی کوشش کرتا، وہ انتہائی بے رحمی سے کٹ یا پل کر دیا جاتا۔ یہ سادہ، پْرجوش اور بے حد مؤثر تھا۔ ہم سب کے لیے اْس وقت بہت واضح تھا کہ ایک ستارہ جنم لے چکا ہے۔ انہیں رات کی محفلیں پسند تھیں، اور کبھی کبھار بس اپنے والد کے اْس چائے کے کپ سے چند لمحے پہلے گھر پہنچتے، جو صبح پانچ بجے اْن کے کمرے میں آتا تھا — سرما میں رگبی ٹریننگ کے لیے روانگی سے بیس منٹ پہلے، اور گرمیوں میں کرکٹ نیٹس کے لیے۔
ایک بار اسکول کے رگبی میچ میں، سینٹر کی پوزیشن پر کھیلتے ہوئے رابن نے فلائی ہاف سے ہاف وے لائن پر گیند پکڑی اور مخالف ٹیم کے لگ بھگ ہر کھلاڑی کو پیچھے چھوڑتے ہوئے سیدھا رائٹ وِنگ سے ٹرائی لائن کی جانب دوڑ لگا دی۔ اْن کے ساتھ ساتھ پوری رفتار سے اْن کے والد بھی بھاگ رہے تھے — ہمیشہ کی طرح سفید جوتے، موزے، نیکر اور سفاری شرٹ میں۔
وہ چلاتے جا رہے تھے: ’’چلو میرے بچے! تیز میرے بچے! چلو رابن! دوڑو رابن، دوڑو…‘‘
جان خود بھی لائن پھلانگ کر اپنے بیٹے کے اوپر جا کر گر گئے، پھر یوں جشن منایا جیسے انہوں نے خود ورلڈ کپ فائنل میں ٹرائی اسکور کی ہو۔ دونوں مٹی میں لت پت نکلے — ان میں سے ایک شدید شرمندہ مسکراہٹ کے ساتھ۔
انگلینڈ واپسی پر، ہیمپشائر کے نیٹس کا علاقہ رابن کے لیے چھوٹا پڑ جاتا تھا، اور کلب کوچ نے انہیں چھکے مارنے سے منع کر دیا تھا — کیونکہ آس پاس کے گھروں والے کرکٹ گیندیں واپس نہیں کرتے تھے، اور بار بار نئی گیندیں خریدنا مہنگا تھا۔ میچ کے دوران اْن کے ساتھ بیٹنگ کرنا بہت لطف دیتا تھا — اور چیلنج یہ تھا کہ انہیں تھوڑا زیادہ دکھاوا کرنے پر آمادہ کیا جائے، کیونکہ فطری طور پر وہ بہت محتاط اور شرمیلے تھے۔
بیری رچرڈز کے ’’سرٹیفکیٹ‘‘ کے بعد، وِیو رچرڈز کی رائے بھی آ گئی: ’’ججی، یار، اس کے سینے میں بڑا دل ہے، بہت حوصلہ ہے، اور وہ گیند کو ویسا مارتا ہے جیسے کوئی اور نہیں مارتا۔ میں اس بندے سے پیار کرتا ہوں۔ جب وہ بیٹنگ کرنے آتا ہے تو دل میں چاہتا ہوں کہ چند رنز ضرور کرے — لیکن صرف چند، بس اتنے ہی، سمجھ رہے ہو؟‘‘
انٹیگا میں اِیان بشپ کے ساتھ جج کی ’’ریٹڈ-R‘‘ لڑائی شاید اس تبصرے کا ایک سبب رہی ہو۔ اْن کا پہلا ٹیسٹ 1988ء میں ہیڈنگلے میں ویو کی ٹیم کے خلاف تھا، لارڈز میں بینسن اینڈ ہیجز کپ کے فائنل میں ان کی پْرجوش کارکردگی کے بعد، جو ٹیلی ویژن پر دکھائی گئی — جس میں انہوں نے ڈربی شائر کے تیز حملے کو چیر کر رکھ دیا تھا۔ گھبراہٹ سے کانپتے ہوئے، وہ ہیڈنگلے میں کریز پر آئے تو اْن کا سامنا اپنے دوست مارشل سے ہوا — اور انہوں نے پہلی گیند کو ٹانگوں سے کِلپ کر کے دو رنز بنا لیے۔ رابن کا کہنا تھا کہ وہ جان بوجھ کر ہلکی سی لیگ اسٹمپ پر فل ٹاس تھی۔ ویو اس سے متفق تھے، مگر انہیں کوئی اعتراض نہ تھا۔ مارشل نے اس کی تردید کی، مگر کچھ شرمندہ سے انداز میں۔
اگلی گیند ایک باؤنسر تھی — اور اس کے بعد وہ جم گئے؛ 62 ٹیسٹ میچوں میں 4236 رنز، اوسط 43.
لوگ کہتے ہیں کہ وہ اسپن کے خلاف کمزور تھے — مگر اْن کا بھارت کے خلاف اوسط 63 اور سری لنکا کے خلاف 67 تھا۔ وارن نے انہیں چند بار آؤٹ ضرور کیا — پہلی بار اْس ’’بال آف دی سنچری‘‘ کے چند گیند بعد، جس میں 1993ء میں اولڈ ٹریفورڈ پر مائیک گیٹنگ کو آؤٹ کیا گیا۔ یوٹیوب پر دیکھیں — کمال کی ڈلیوری ہے، اور کسی بھی طرح سے جج کو اسپن کے خلاف کمزور ثابت نہیں کرتی۔ مگر ایک بار جب میڈیا کی کہانی بن گئی، اور جج کے کان تک پہنچی — تو وہ سکڑ گئے۔
1988ء کے فائنل مقابلے کے بعد، ہم نے 1991ء اور 1992ء میں دو بار پھر کپ جیتا۔ ہمارا ہیرو دونوں بار پلیئر آف دی میچ تھا۔ وہ چالیس برس تک ہیمپشائر کے لیے کھیلتے رہے — اور میری نظر میں وہ کاؤنٹی کے تاریخ کے سب سے عظیم کرکٹر ہیں — اس اعزاز میں وہ مارشل سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ یہ نہیں کہ وہ کلب کے بہترین کرکٹر تھے — کیونکہ اس اعزاز کے لیے رچرڈز، گورڈن گرینیج، مارشل اور وارن میں مقابلہ ہوتا ہے (وسیم اکرم نے بھی چند میچ کھیلے ہیں) — مگر یہ کہ جب بھی ضرورت پڑی، اور لمبے عرصے تک، انہوں نے جادو دکھایا۔
ان سنجیدہ تبصروں کے درمیان، ہنسی کے بھی بہت سے مقامات آتے ہیں۔ رابن اپنی پرجوش جوانی میں حد سے زیادہ بھولے تھے۔ ایک بار ہم ایک منصوبے کے ساتھ کارڈف جا رہے تھے۔ رابن اپنے بھائی کے ساتھ اْن کی لال سفید پورش میں سفر کر رہے تھے — اور پیچھے کسی کم دلکش گاڑی میں پال ٹیری اور میں تھے۔
سیون برج سے چند میل پہلے، کرس — یا ’کِپی‘ — نے کہا کہ اپنا پاسپورٹ نکالو۔
’’پاسپورٹ؟‘‘ جج نے کہا۔
’’ہاں، ہم اب ویلز میں داخل ہونے والے ہیں۔‘‘
’’ارے… میرے پاس پاسپورٹ نہیں ہے، کِپس۔ کسی نے نہیں بتایا۔‘‘
’’اوہ خدایا، جج، مسئلہ ہو گیا ہے۔‘‘
وہ ایک سروس اسٹیشن پر رکے۔ ہم بھی اْن کے پیچھے رک گئے۔
’’جج کے پاس پاسپورٹ نہیں ہے۔‘‘
’’ہمم۔‘‘ میں نے کہا۔
’’تو یا تو یہ اب ٹیکسی لے کر ساؤتھ ہیمپٹن واپس جائے اور پھر ٹرین سے کارڈف پہنچے، یا…‘‘۔
’’یا… کیا؟‘‘
’’ہم اسے کسی جگہ چھپا دیں جب تک کہ ہم امیگریشن کراس نہ کر لیں۔‘‘
’’کیااااااا؟‘‘
اور وہ واقعی اندر چلے گئے — اور وہیں رہے، یہاں تک کہ ہم شہر کے مرکز کے قریب ہلٹن پہنچ گئے۔
اسے یہ مذاق دیر تک برداشت کرنا پڑا۔ اب وہ گزر گئے — شراب کے عفریت سے برسوں لڑنے کے بعد، جب کہ اپنے والدین کی اور حالیہ برسوں میں اپنی گرل فرینڈ کارِن کی دیکھ بھال کرتے رہے — جو وہیل چیئر تک محدود ہیں۔ انہوں نے بہت سخت زندگی گزاری — واقعی بہت سخت۔
ایلن لیمب نے— جن کے ساتھ انہوں نے پہلی ٹیسٹ اننگز میں بیٹنگ کی — اْنہیں اپنے بے ساختہ مزاح اور غیر متزلزل ہمدردی کے ساتھ سہارا دیا۔ راڈ برانسگرو — ہیمپشائر کے چیئرمین — نے رابن کو اپنے بیٹے کی طرح سمجھا۔ بہت سے اچھے لوگوں نے اْن کی بھرپور مدد کی، مگر پروفیشنل کرکٹ کے بعد حقیقی خوشی انہیں کبھی نہ مل سکی — اور وہ کسی اور دنیا میں جگہ نہ بنا سکے۔
وہ دو الگ الگ شخصیتوں کا ذکر کرتے — رابن سمتھ اور جج — اور افسوس سے کہتے کہ وہ اب دوسرا نہیں بن سکتے۔ جج کوئی آوارہ نہیں تھا — بلکہ ایک شاندار آدمی تھا، ایک بہترین کرکٹر تھا — جو دنیا کے بہترین اور خوفناک ترین حریفوں کا مقابلہ کرتا تھا اور اکثر جیت جاتا تھا۔ رابن سمتھ ایک خوبصورت انسان تھے — مگر اچانک ایک ایسی دنیا کے سامنے تھے جو اب اْن کے لیے قابلِ فہم نہ رہی تھی۔
کرکٹ نے انہیں گلے لگایا تھا — اور پھر دروازے سے باہر دھکیل دیا۔ باہر کی گلیاں اْنہیں سن کر دیتی تھیں، اور مستقبل میں اْن روشن نیلے آسمانوں جیسا کچھ نہ تھا، جن کے سائے میں وہ پہلے پروان چڑھے تھے۔ پرتھ کی ایک پارٹی میں ہم ایک چھوٹے صوفے پر ساتھ بیٹھے۔ انہوں نے بتایا کہ اوپس اسٹیڈیم میں ٹیسٹ میچ کے دوران رہنا کتنا مشکل تھا — اور عمومی طور پر، وہ اب پذیرائی برداشت نہیں کر پاتے تھے۔
ہم مارگو اور ہیریسن — اْن کے دونوں بچوں — کو سلام پیش کرتے ہیں، جو اب بڑے ہو چکے ہیں اور اپنی راہیں بنا رہے ہیں — اْن کے اْس والد کے عشق سے بھری محبت پر، جس نے اپنے محبوب کھیل کو اپنا ہر ذرہ، ہر سانس دے دیا۔ یہ پیغام میں نے اْن بہت سے دوستوں کو بھیجا ہے جو رابطے میں تھے: ’’یہ بہت برا ہے… مگر اْن کی زندگی آسان نہیں رہی تھی۔ ایک نہایت خاص انسان اور سنسنی خیز کرکٹر رخصت ہو گیا ہے۔ میں اْن سے محبت کرتا تھا — جیسے دنیا بھر میں بہت سے لوگ کرتے تھے — اور خوش نصیب ہوں کہ پچھلے ہفتے بہت سے پیارے دوستوں کے ساتھ اْن کے قریب تھا، جب اْن کی روح اب بھی جگمگا رہی تھی۔ خدا اْن کی عظیم روح کو سکون دے۔‘‘
ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہیمپشائر کے کرتے تھے انہوں نے نے انہیں ایک بار رہے تھے کے خلاف کے ساتھ نے کہا ا نہیں کے بعد تھا کہ اور وہ کے لیے کی یاد بہت سے
پڑھیں:
فیض حمید کی سزا فوج کا اندرونی معاملہ ہے، ترجمان تحریکِ انصاف کا تبصرے سے گریز
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے سابق ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض حمید کی سزا کے معاملے پر تبصرہ کرنے سے انکار کرتے ہوئے اسے فوج کا اندرونی معاملہ قرار دیا ہے۔
پی ٹی آئی کے مرکزی سیکریٹری اطلاعات شیخ وقاص اکرم نے کہا ہے کہ سابق آئی ایس آئی چیف کے ٹرائل، سزا اور دیگر کارروائیوں پر بات کرنا فوجی ادارے کا داخلی معاملہ ہے، جس پر پارٹی کا کوئی مؤقف نہیں۔
انہوں نے بتایا کہ جب فیض حمید کو حراست میں لیا گیا تو اس وقت بھی پارٹی سے ردِعمل مانگا گیا، مگر یہ واضح کیا گیا کہ فوج کے اپنے احتسابی نظام موجود ہیں۔
شیخ وقاص اکرم کا کہنا تھا کہ اس معاملے میں سیاسی عناصر کا ذکر کیا جا رہا ہے، جس کی وجہ سے بعض حلقوں کی جانب سے پی ٹی آئی کو بھی اس سے جوڑنے کی کوشش کی جا رہی ہے، تاہم اس حوالے سے کوئی واضح بات سامنے نہیں آئی۔
انہوں نے یاد دلایا کہ آئی ایس پی آر پہلے ہی یہ کہہ چکا ہے کہ سزا یافتہ افسر کے سیاسی بے چینی اور عدم استحکام میں مبینہ کردار کے پہلو کو الگ سے دیکھا جا رہا ہے۔
پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ جب تک کسی سیاسی شخصیت کا نام واضح طور پر سامنے نہیں آتا، تب تک بیان بازی کا کوئی جواز نہیں۔ ان کے مطابق اگر آئندہ کسی سیاسی شخصیت کا براہِ راست حوالہ دیا گیا تو وہ خود اس پر جواب دیں گے۔
انہوں نے واضح کیا کہ فی الحال پارٹی کا مؤقف یہی ہے کہ یہ ایک ادارہ جاتی معاملہ ہے، جس پر کوئی تبصرہ کرنا مناسب نہیں۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں