Jasarat News:
2025-07-26@07:13:23 GMT

لڑکی کی پیدائش: معاشرتی رویہ

اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT

اللہ تعالیٰ نے انسان کو اس دنیا میں جن نعمتوں سے نوازا ہے ان میں سے ایک نعمت اولاد ہے۔ اولاد انسان کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہوتی ہے۔ انھیں پاکر وہ خوشی محسوس کرتا ہے، ان کے دم سے اس کی زندگی کی رنگینیاں قائم رہتی ہیں۔ ان کی کفالت کے لیے معاشی جدوجہد کرنا اس پر بار نہیں ہوتا۔ اللہ تعالیٰ کا قانون یہ ہے کہ وہ بعض انسانوں کو اولاد عطا کرتا ہے اور بعض کو کسی مصلحت یا آزمایش کے مقصد سے اس سے محروم رکھتا ہے۔ پھر جن کو اولاد عطا کرتا ہے ان میں سے بعض کو لڑکے اور لڑکیاں دونوں دیتا ہے، بعض کو صرف لڑکے اور بعض کو صرف لڑکیاں۔ کوئی مرد صاحبِ اولاد ہوگا یا نہیں، کوئی عورت بچہ جنے گی یا بانجھ ہوگی، کسی کے یہاں لڑکے اور لڑکیاں دونوں ہوں گی یا صرف لڑکے یا صرف لڑکیاں، کسی کے صرف ایک اولاد ہوگی، وہ بھی لڑکا یا لڑکی، یہ سب اللہ تعالیٰ کی طے کی ہوئی تقدیر پر منحصر ہے۔ اس میں کسی مرد یا عورت کی خواہش یا کوشش کا کوئی عمل دخل نہیں ہوتا۔ سورئہ شوریٰ میں اس بات کو قطعی اور دو ٹوک الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
’’اللہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہی کا مالک ہے جو کچھ چاہتا ہے پیدا کرتا ہے۔ جسے چاہتا ہے لڑکیاں دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے دیتا ہے، جسے چاہتا ہے لڑکے اور لڑکیاں ملا جلا کر دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے بانجھ کردیتا ہے۔ وہ سب کچھ جانتا اور ہر چیز پر قادر ہے‘‘۔ (الشورٰی: 49-50)

بعض معاشروں میں لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر حیثیت دی جاتی ہے۔ اسی بنا پر ان کی پیدایش پر نہ صرف یہ کہ خوشی کا اظہار نہیں کیا جاتا، بلکہ انھیں بوجھ سمجھا جاتا ہے۔ زمانہ نزول قرآن میں عرب کے بعض قبیلوں کا یہی حال تھا۔ ان کے یہاں لڑکی پیدا ہوتی تو وہ بڑی خفت محسوس کرتے اور ان میں سے بعض اسے زندہ زمین میں گاڑ دیتے تھے۔ قرآن نے اس کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچا ہے:
’’جب ان میں سے کسی کو بیٹی کے پیدا ہونے کی خوش خبری دی جاتی ہے تو اس کے چہرے پر کَلَونس چھا جاتی ہے اور وہ بس خون کا سا گھونٹ پی کر رہ جاتا ہے۔ لوگوں سے چھپتا پھرتا ہے کہ اس بْری خبر کے بعد کیا کسی کو منہ دکھائے۔ سوچتا ہے کہ ذلّت کے ساتھ بیٹی کو لیے رہے یا مٹی میں دبا دے؟‘‘ (النحل: 58-59)

لڑکیوں کے معاملے میں عہد جاہلیت کے بعض قبیلوں کی جو سوچ تھی، موجودہ دَور کے بہت سے معاشروں کی سوچ اس سے مختلف نہیں ہے۔ ان کے یہاں لڑکی کو بوجھ سمجھا جاتا ہے، اسی بنا پر اس کی پیدایش کی خبر سن کر پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے۔ نکاح کے مسائل اور اس کے ہوش ربا مصارف، جہیز کی فراہمی کے لیے مطلوبہ خطیر رقم وغیرہ کے بارے میں سوچ کر آدمی کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کے یہاں لڑکی پیدا ہی نہ ہو۔ لڑکی پیدا ہونے پر قدیم زمانے میں اسے زندہ درگور کرکے اس سے پیچھا چھڑا لیا جاتا تھا۔ جدید جاہلیت نے اس کام کے لیے نئی نئی تکنیکیں دریافت کرلی ہیں، جن کی مدد سے دورانِ حمل میں ہی جنین کی جنس معلوم کرلی جاتی ہے اور لڑکی ہونے کی صورت میں ولادت کی نوبت ہی نہیں آنے دی جاتی، پہلے ہی اسقاط (abortion) کروادیا جاتا ہے۔ لڑکیوں کو لڑکوں سے کم تر سمجھنے کی سوچ، افسوس ہے کہ مسلمانوں میں بھی سرایت کررہی ہے۔ کسی خاندان میں کئی لڑکیاں پیدا ہوجائیں تو عموماً اس کا ذمے دار عورت کو سمجھا جاتا ہے۔ یہ تصور کرلیا جاتا ہے کہ یہ عورت صرف لڑکیاں جننے والی ہے۔ اسی بنا پر اس طرح کا مشورہ دیا جاتا ہے کہ اگر لڑکا چاہیے تو مرد کو دوسری شادی کرلینی چاہیے، تبھی لڑکا پیدا ہوسکتا ہے۔ حالانکہ لڑکا پیدا ہونے میں نہ مرد کا اختیار ہوتا ہے نہ عورت کا اور لڑکی پیدا ہونے میں عورت کا، کوئی قصور نہیں ہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک خام تصور ہے کہ موروثی طور پر کوئی عورت صرف لڑکیاں پیدا کرنے والی ہوتی ہے اور کسی عورت سے لڑکے زیادہ پیدا ہوسکتے ہیں۔ اوپر قرآن کریم کی صراحت گزری کہ کسی کے لڑکا یا لڑکی پیدا ہونا محض اللہ تعالیٰ کی قدرت، توفیق اور تقدیر پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سلسلے میں جدید میڈیکل سائنس سے جو معلومات حاصل ہوئی ہیں وہ بہت سوں کے لیے حیرت واستعجاب کا باعث ہوں گی۔ ان سے معلوم ہوتا ہے کہ لڑکا یا لڑکی پیدا ہونے میں اصل کردار عورت کا نہیں، بلکہ مرد کا ہوتا ہے۔

جسم انسانی کے تولیدی خلیّات (cells reproductive) میں ایک جوہر پایا جاتا ہے، جسے کروموسوم (chromosome) کہتے ہیں۔ ان میں تمام موروثی خصوصیات موجود ہوتی ہیں۔ حتیٰ کہ انھی کے ذریعے بالوں کے رنگ، آنکھوں کے رنگ اور جنس کا تعیین ہوتا ہے۔ تولیدی خلیے میں کرو موسوم کے جوڑے پائے جاتے ہیں۔ ان میں سے ایک جوڑا جنس (sex) کے تعیین کے لیے مخصوص ہوتا ہے۔ اسے chromosome sex کہا جاتا ہے۔ یہ جوڑا دو طرح کے کروموسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ ایک کو X کروموسوم اور دوسرے کو Y کروموسوم کہتے ہیں۔
عورت کے بیضہ (ovum) میں سیکس کروموسوم کا جو جوڑا پایا جاتا ہے اس کے دونوں کروموسوم X نوعیت کے ہوتے ہیں۔ اسی بنا پر انھیں homogametic کہا جاتا ہے، جب کہ مرد کے نطفے (sperm) میں پایا جانے والا سیکس کروموسوم کا جوڑا دو الگ الگ نوعیت کے (X اور Y) کروموسوم پر مشتمل ہوتا ہے۔ اسی بنا پر انھیں Hetrogametic کہا جاتا ہے۔

استقرار حمل (fertilization) کے وقت عورت کے بیضے سے ایک کروموسوم نکلتا ہے، اسی طرح مرد کے نطفے سے ایک کروموسوم نکلتا ہے اور دونوں کے اتصال سے استقرار کا عمل انجام پاتا ہے۔ عورت کے بیضہ سے نکلنے والا کروموسوم ہر حال میں X ہوتا ہے، جب کہ اس سے ملنے والا نطفہ مرد کا کروموسوم X بھی ہوسکتا ہے اور Y بھی۔ اگر عورت کے X کروموسوم سے مرد کا X کروموسوم ملتا ہے تو اس صورت میں لڑکی پیدا ہوتی ہے۔ اور اگر اس سے مرد کا Y کروموسوم ملتا ہے تو لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ اب عورت کے X کروموسوم سے مرد کا (X اور Y میں سے) کون سا کروموسوم ملے؟ اس میں انسانی کوشش کا کچھ بھی دخل نہیں ہوتا، یہ محض تقدیر الٰہی پر منحصر ہوتا ہے۔ اس سے ثابت ہوا کہ جو کروموسوم جنین (foetus) کی جنس متعین کرتا ہے اور جس سے طے ہوتا ہے کہ آیندہ پیدا ہونے والا بچہ لڑکا ہوگا یا لڑکی، وہ مرد سے حاصل ہوتا ہے، نہ کہ عورت سے۔

قرآن کریم نے اس سلسلے میں جو لطیف تعبیر اختیار کی ہے اس سے مذکورہ بالا سائنسی بیان کی تصدیق ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’تمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں‘‘۔ (البقرہ: 223) کھیتی کا کام یہ ہوتا ہے کہ اس میں جو بیج ڈالا جائے اسے پروان چڑھائے اور اس کی اچھی پیداوار کرے۔ اگر کسی کھیت میں گیہوں کے بیج ڈالے جائیں گے تو اس سے گیہوں ہی پیدا ہوگا۔ اگر اس میں چنا یا جوار کے بیج ڈالے جائیں گے تو چنا یا جوار ہی اْگے گا۔ یہ ناممکن ہے کہ بیج تو چنا یا جوار کا ڈالا جائے اور امید گیہوں اْگنے کی رکھی جائے اور جب گیہوں نہ اْگے تو کھیت کو قصور وار قرار دیا جائے۔ مفسرین کرام نے آیت مذکورہ کی تفسیر میں یہی بات کہی ہے۔

علامہ زمخشریؒ (م: 538ھ) فرماتے ہیں: ’’یہ مجاز ہے۔ اس آیت میں عورتوں کو کھیت سے تشبیہ دی گئی ہے اور ان کے رحم میں ڈالے جانے والے نطفے کو، جس سے نسل انسانی کا سلسلہ چلتا ہے، بیج کے مشابے قرار دیاگیا ہے‘‘۔ (الکشاف، ص 434) امام فخر الدین رازیؒ (م: 606ھ) نے لکھا ہے: ’’اس آیت میں عورتوں کو کھیتی بہ طور تشبیہ کہا گیا ہے۔ گویا عورت زمین کے مثل ہے جس میں کاشت کی جاتی ہے، نطفہ بیج کے مثل ہے اور پیدا ہونے والا بچہ پیداوار کے مثل ہے‘‘۔ (التفسیر الکبیر، ج6، ص 75) یہی تشریح بعض دیگر مفسرین، مثلاً علامہ قرطبی (م: 671ھ) اور علامہ ابوحیان (م: 745ھ) نے بھی کی ہے۔
علامہ راغب اصفہانی (م: 502ھ) نے اس موقع پر ایک نکتے کی بات کہی ہے: کھیتی کے لیے عربی زبان میں دو الفاظ مستعمل ہیں: ایک حرث اور دوسرا زرع۔ دونوں الگ الگ معنوں میں مستعمل ہیں۔ حرث کہتے ہیں زمین میں بیچ ڈالنے اور اسے کاشت کے لیے تیار کرنے کو۔ اور زرع کہتے ہیں زمین سے جو کچھ اْگے اس کی دیکھ بھال کرنے کو۔ سورۂ واقعہ کی آیات 63-64 میں یہ دونوں الفاظ الگ الگ معنوں میں آئے ہیں۔ یہاں سورۂ بقرہ کی آیت میں اللہ تعالیٰ نے زرع کا لفظ نہیں، بلکہ حرث کا لفظ استعمال کیا ہے۔ گویا عورتیں کھیتی کے مثل ہیں، جس میں مرد بیج ڈالتے اور پیداوار چاہتے ہیں۔ (تفسیر الراغب الاصفہانی)

لڑکیوں کا وجود ان کے والدین کے لیے باعث خیر وبرکت ہوتا ہے۔ اس دْنیا میں بھی اور آخرت میں بھی۔ وہ زمانہ گیا جب تعلیم کو صرف لڑکوں کا حق سمجھا جاتا تھا اور لڑکیوں کو اس سے محروم رکھا جاتا تھا۔ یہ خیال کیا جاتا تھا کہ لڑکے بڑے ہوں گے تو کماکر لائیں گے اور لڑکیاں بڑی ہوں گی تو خود ان پر خرچ کرنا پڑے گا۔ اب لڑکیاں تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں تو وہ دْنیاوی اعتبار سے اپنے والدین کے لیے بسا اوقات لڑکوں کے مقابلے میں زیادہ فائدہ مند ثابت ہورہی ہیں۔ جہاں تک آخرت کا معاملہ ہے، لڑکیوں کی پرورش وپرداخت پر ان کے والدین کو جنت کی بشارت دی گئی ہے، جب کہ لڑکوں کی پرورش پر ایسی کوئی بشارت نہیں ہے۔ انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسولؐ نے ارشاد فرمایا: ’’جس شخص نے دو لڑکیوں کی ان کے بالغ ہونے تک کفالت کی وہ روزِ قیامت مجھ سے اتنا قریب ہوگا۔ یہ فرماتے ہوتے آپؐ نے اپنی دو انگلیاں ملائیں‘‘۔ (مسلم) ابن عباسؓ روایت کرتے ہیں کہ آپؐ نے فرمایا: ’’جس شخص کی دو لڑکیاں ہوں اور وہ جب تک اس کے پاس رہیں وہ ان کے ساتھ اچھا سلوک کرتا رہے تو وہ اس کے جنت میں داخلے کا ذریعہ بنیں گی‘‘۔ (ابن ماجہ)
اللہ نے جن لوگوں کو صرف لڑکیوں سے نوازا ہو اور وہ لڑکوں کے بھی خواہش مند ہوں، انھیں اپنی بیویوں کو قصور وار ٹھہرانے کے بجاے اللہ سے دْعا کرنی چاہیے کہ وہی حقیقی عطا کرنے والا ہے۔ اولاد یا لڑکے یا لڑکیاں عطا کرنا اسی کے اختیار میں ہے۔

.

ذریعہ: Jasarat News

کلیدی لفظ: پیدا ہونے کرتا ہے عورت کے ہے کہ ا بعض کو مرد کا سے ایک کو صرف کے لیے یت میں ہے اور اور دو کے مثل

پڑھیں:

جنسی درندے، بھیڑیئے اور دین کا لبادہ

اسلام ٹائمز: مدارس دینیہ و مراکز میں کم سن بچوں کیساتھ زیادتی کے واقعات و سانحات اس قدر عام فعل بن چکا ہے کہ کوئی شہر ایسے سکینڈلز سے محفوظ نہیں، شاید ہی کوئی شہر بچ گیا ہو، جہاں باقاعدہ ایف آئی آرز درج نا کی گئی ہوں، مگر اسکی روک تھام کیلئے کہیں سے کوئی موثر آواز نہیں سنائی دیتی۔ جو بے حد افسوسناک و خطرناک ہے، معاشرے کی تعلیم و تربیت اور تہذیب کا ذمہ چونکہ دین کے ٹھیکیداروں کے سپرد ہی سمجھا جاتا ہے۔ لہذا یہ مسئلہ ہماری سوسائٹی میں جوں کا توں ہی رہنے کا اندیشہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ خاندان کے ایک بچے کو حافظ قرآن بنا کر بخشوانے کے چکر میں اپنے لعل و گوہر کو جہنم کے گڑھے میں مت پھینکیں۔ تحریر: ارشاد حسین ناصر

پاکستان میں اس وقت جہاں اور بہت سے ایشوز میڈیا پر دیکھے، سنے اور پڑھے جا رہے ہیں، وہاں ایک اہم ایشو ایسا ہے، جس پر سوشل میڈیا کے مختلف ذرائع اپنا نکتہ نظر پیش کر رہے ہیں، مگر چھوٹی چھوٹی سی بات پر ہنگامنہ کھڑا کر دینے پر تیار مذہبی عناصر کو اس ایشو پر بات کرنا مدارس کو بدنام کرنا لگتا ہے۔ ایسے ایشو کو سامنے لانا دینی حلقوں کی برائی کرنے کے مترادف محسوس کیا جاتا ہے، جبکہ یہ ایشو تقریباً ہر دن کسی نا کسی علاقے میں ایسے ہی سامنے آتا ہے، مگر تھوڑا سا ہائی لایٹ ہونے کے بعد دبا دیا جاتا ہے۔ ہم جس ایشو پر بات کر رہے ہیں، وہ مدارس و مساجد میں بچوں، کم سن بچیوں کیساتھ ہونے والی جنسی زیادتی، ہراسمنٹ اور مدارس میں رائج تشدد کا ہونا ہے۔ حالیہ دنوں میں سوات کے ایک مدرسہ میں ایک کم سن طالبعلم کو اس قدر تشدد کا نشانہ بنایا گیا کہ اس کی موت واقع ہوگئی، کم سن طالبعلم سے دراصل جنسی ہوس کو پورا کرنے کی وجہ سے تشدد کیا جاتا تھا، تاکہ وہ مار کے ڈرسے خود کو قاری کے رحم و کرم پر چھوڑ دے اور قاری جسے بھیڑیا کہنا زیادہ مناسب ہے، اسے اپنی شہوت مٹانے کیلئے صبح مساء نوچتا رہے اور اسے کوئی پوچھنے والا نہ ہو۔

سوات کا یہ واقعہ جس میں ایک بارہ سال کا بچہ جان سے چلا گیا، کوئی پہلا واقعہ نہیں اور نہ ہی آخری ہے۔ یہ واقعات روزانہ کی بنیاد پر کسی نہ کسی مدرسہ، اسکول اور دیگر مقامات پر ہوتے ہیں، جہاں والدین بچوں کو تعلیم و تربیت کیلئے بھیجتے ہیں، اعتماد کرتے ہیں۔ پاکستانی مدارس میں چونکہ آج بھی پرانے طرز کی سختی ہوتی ہے، اساتذہ عمومی طور پر غیر شادی شدہ جوان ہوتے ہیں، شادی شدہ بھی ہوں تو تو کم عمر بچوں کیساتھ مستقل رہنے کی وجہ سے ان میں شہوانیت ابھر آتی ہے اور وہ اپنے شہوانی جذبات پر قابو نہیں رکھ پاتے۔ نتیجتاً یہ سلسلہ دراز ہو جاتا ہے، ہر ایک بچہ ایسا نہیں ہوتا کہ وہ مزاحمت کرے، اکثر بچے کم عمری میں اپنے استاد کے رعب و دبدبہ میں ہوتے ہیں۔ اسکولز کی نسبت مدارس میں آج بھی بچوں کو بدترین طریقہ سے مارا جاتا ہے، سختی کی جاتی ہے، ڈنڈے سوٹے، پلاسٹک کے پائیپ اور نا جانے کیسے کیسے طریقہ سے سبق یاد کروانے کیلئے تشدد کیا جاتا ہے۔

جس کی وجہ سے بچوں کے ذہن میں خوف بیٹھ جاتا ہے، جبکہ بچوں کو والدین یا سرپرستوں کی جانب سے بھی سخت تاکید کی جاتی ہے کہ وہ دین کے عالم و فاضل بننے کیلئے سختیاں جھیلیں، اسی میں بہتری ہے۔ اصل مسئلہ یہ ہے کہ دینی اداروں سے وابستہ لوگ اس طرح کی نازیبا حرکات کرتے ہیں، ان پر پرچے اور ایف آئی آرز بھی کٹتی ہیں، گرفتاریاں بھی ہوتی ہیں، مگر نتیجہ وہ نہیں نکلتا، جو ایسے ہی کسی جرم کرنے والے عام آدمی کیساتھ نکلتا ہے، عام آدمی تو بچوں کیساتھ بدفعلی کرکے جیل جا کر ذلیل و رسوا ہو جاتا ہے، جبکہ کسی مسجد کا ملاں اگر پکڑا جائے تو اہل محلہ اسے خاموشی سے مسجد سے رات کے اندھیرے میں بہ حفاظت نکال دیتے ہیں، تاکہ مسجد اور متاثرہ بچہ کی بدنامی نا ہو، بہت ہی کم کیسز میں جب کچھ حد سے آگے بڑھ جائے تو کیس سامنے آتا ہے، ورنہ ملاں، قاری کسی دوسرے محلے کی مسجد میں جا کر مصلیٰ سنبھال لیتا ہے، مجموعی طور پر ایسا ہی دیکھنے میں آتا ہے۔

ایک اور پہلو یہ ہوتا ہے کہ مدارس نیٹ ورک ہر فرقہ و مکتب کے الگ الگ ہیں اور ان کے بورڈ بھی اپنے اپنے ہیں، لہذا جب کسی مکتب یا فرقہ کے مدرسہ میں ایسا کوئی واقعہ ہوتا ہے تو عمومی طور پر اس فرقہ و بورڈ والے بہر صورت اسے جھوٹا الزام، اسلام کے خلاف سازش اور دینی مدارس کے خلاف عالمی سازش کا حصہ ثابت کرنے کی پوری کوشش ہوتی ہے، ایسا بھی ہوتا آرہا ہے کہ ایسے واقعات کے شرمناک مناظر کو ریکارڈ کیا جاتا ہے، جو لیک ہو جاتے ہیں، اس کے باوجود ملاں کے ہم فرقہ اس کی حمایت میں نکل آتے ہیں۔ عجیب ہے کہ یہاں معمولی بات پر توہین توہین کا کھیل کھیلنے والے سب کچھ دیکھتے ہوئے کبھی مسجد کے تقدس کیلئے سراپا احتجاج نہیں ہوتے، کبھی محراب کی توہین پر جلاو گھیراو نہیں کرتے، کبھی قرآن کی بے حرمتی پر جیتے جی کسی ملزم کو آگ و خون میں نہیں نہلاتے، جبکہ بہت سے واقعات میں ایسی ویڈیوز اور تصاویر دیکھنے کو ملتی ہیں، جن میں قاری یا مدرس سامنے قرآن رکھ کے سبق پڑھا رہا ہے اور ساتھ بچے یا بچی کیساتھ جنسی استحصال کرر ہا ہے۔

محراب مسجد جہاں نمازیں پڑھائی جاتی ہیں، جس کی اسلام میں قدر و منزلت ہے، اس کو جنسی استحصال اور زنا خانہ میں تبدیل کرنے والے کے خلاف سراپا احتجاج نہیں ہوتے۔ سوشل میڈیا ایسی ویڈیوز سے بھرا پڑا ہے، جن میں واضح طور پر مسجد، مدرسہ، محراب، منبر کی توہین، قرآن کی بے حرمتی کا قانون لگنا چاہیئے، مگر اس میں انہیں دین کے خلاف سازش کی بو آنے لگتی ہے۔ حقیقت میں تو دین کے خلاف جنسی بھیڑیا نما قاری اور مسجد کا ملاں کرتا ہے، جس پر دین کے نام پر اعتماد کیا جاتا ہے اور کم سن نابالغ بچے اور بچیوں کو اس کے پاس بھیجا جاتا ہے اور وہ اس اعتماد کا بیڑا غرق کرتا ہے۔ اس کے اس عمل سے اسلام بدنام ہوتا ہے، مسجد و مدرسہ اور اس کے دیگر اساتذہ پر بھی انگلیاں اٹھتی ہیں۔ اصولی طور پر اس درندے کے خلاف بذات خود مدرسہ کے بورڈ کو ایکشن لینا چاہیئے اور اس مدرسہ کی رجسٹریشن کینسل کرکے اس ملاں کو نشان عبرت بنا دیا جائے، تاکہ وہ کسی دوسرے علاقے میں جا کر اپنا دھندہ نا کرسکے۔

مجھے یاد ہے کہ چند سال پہلے ہی لاہور کے ایک نامور مدرسہ و دینی جماعت سے وابستہ بڑے مفتی اور استاد پر الزام لگا تو اس نے قرآن پر ہاتھ رکھ کر اس کی تردید کی اور اسے سازش قرار دیا۔ اس کے ہم فرقہ بھی میدان میں نکلے اور پریس کانفرنسیں کرنے لگے کہ یہ سازش ہے۔ بعد ازاں اس عمل کی ویڈیوز سامنے آئیں تو ملاں جی نے فرار کیا، جسے بعد ازاں گرفتار کر لیا گیا، اس لیے کہ ایک ویڈیو نہیں تھی، تین چار کلپس تھے، جن سے کچھ بھی پردہ نہیں رہا تھا۔ یہ ایک مثال ہے، جس میں ایک بڑے مفتی کی جنسی ویڈیوز سامنے آنے کے بعد اس کے ہم مکتبوں نے باقاعدہ احتجاج بھی کیا، پریس کانفرنسز بھی کیں۔ ایسے ان گنت واقعات اس دھرتی پر وقوع پذیر ہوچکے ہیں، ہو رہے ہیں اور ہوتے رہیں گے۔ اس لیے کہ کبھی بھی کسی ایک واقعہ میں کسی مجرم کو سزا نہیں ملی، عدالتیں بھی دین کے نام پر بنے جتھوں سے بلیک میل ہوتی ہیں، انہیں ڈرایا دھمکایا جاتا ہے۔

اول تو عدالتی کارروائی سے قبل ہی معاملات کنٹرول میں لائے جا چکے ہوتے ہیں، متاثرہ فیملی کو کسی نا کسی طریقہ سے رام کر لیا جاتا ہے، جیسے ایک دو برس قبل ایک کیس جڑانوالہ کے علاقے میں ہوا تھا، اس میں ملاں اور متاثرہ بچہ ایک ہی گروہ سے تھے، جسے بچانے کیلئے لاہور سے ایک نامور ملاں کے صاحبزادے فوری طور پر اپنے گروہ کے ملاں کو بچانے کیلئے میدان میں آن کھڑے ہوئے اور اندر کھاتے مل ملا کر چپکے سے صلح کروا دی۔ پاکستان میں دینی جماعتوں پر عام عوام کا اعتماد اسی وجہ سے نہیں بنتا کہ یہ منافقت، دوغلا پن اور دوہرا معیار بنائے ہوئے ہیں، ان کے اپنے معیارات اور کلیے و قاعدے ہیں، جن سے اسلام کا کوئی تعلق نہیں، جس کی وجہ سے پاکستان کی اسلام پسند اکثریت ان نام نہاد دینی جماعتوں کو الیکشن میں آگے نہیں آنے دیتی۔

بہرحال مدارس دینیہ و مراکز میں کم سن بچوں کیساتھ زیادتی کے واقعات و سانحات اس قدر عام فعل بن چکا ہے کہ کوئی شہر ایسے سکینڈلز سے محفوظ نہیں، شاید ہی کوئی شہر بچ گیا ہو، جہاں باقاعدہ ایف آئی آرز درج نا کی گئی ہوں، مگر اس کی روک تھام کیلئے کہیں سے کوئی موثر آواز نہیں سنائی دیتی۔ جو بے حد افسوسناک و خطرناک ہے، معاشرے کی تعلیم و تربیت اور تہذیب کا ذمہ چونکہ دین کے ٹھیکیداروں کے سپرد ہی سمجھا جاتا ہے۔ لہذا یہ مسئلہ ہماری سوسائٹی میں جوں کا توں ہی رہنے کا اندیشہ ہے۔ بہتر یہی ہے کہ خاندان کے ایک بچے کو حافظ قرآن بنا کر بخشوانے کے چکر میں اپنے لعل و گوہر کو جہنم کے گڑھے میں مت پھینکیں۔

متعلقہ مضامین

  • یہ جنگ مرد و عورت کی نہیں!
  • اک چادر میلی سی
  • جنسی درندے، بھیڑیئے اور دین کا لبادہ
  • سپریم کورٹ کا تاریخی فیصلہ: بانجھ پن پر عورت کو نان و نفقہ سے محروم کرنا غیر قانونی قرار
  • غزہ میں قحط کی المناک صورت حال لمحہ فکریہ ہے، حاجی حنیف طیب
  • جبر و فسطائیت کا عالم یہ ہے کہ مجھے وضو کے لیے جو پانی دیا جاتا ہے وہ تک گندہ ہوتا ہے
  • ہیپاٹائٹس سے بچاؤ
  • کراچی میں بیک وقت پیدا ہونے والے 5 بچوں میں سے 2 انتقال کرگئے
  • کراچی: خاتون کے ہاں 5 بچوں کی پیدائش، 2 انتقال کرگئے
  • معاشرتی سختیوں کی نظرایک اور دوہرا قتل!