پوٹن ٹرمپ کے ساتھ بات چیت کے لیے تیار ہیں، کریملن
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
اسلام آباد (اُردو پوائنٹ ۔ DW اردو۔ 10 جنوری 2025ء) امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ 20 جنوری کو بطور صدر حلف اٹھا لیں گے۔ انہوں نے ابھی تک کوئی ٹھوس منصوبہ تو پیش نہیں کیا لیکن ان کا کہنا ہے کہ وہ روس اور یوکرین کے درمیان تقریباً تین سال سے جاری تنازعے کو تیزی سے ختم کرا سکتے ہیں۔
صدر پوٹن کے ترجمان دیمتری پیسکوف نے آج بروز جمعہ نامہ نگاروں کو بتایا، ''صدر نے بارہا امریکی صدر بشمول ڈونلڈ ٹرمپ بین الاقوامی رہنماؤں سے رابطے کے لیے کھلے پن کا اظہار کیا ہے۔
‘‘قبل ازیں ڈونلڈ ٹرمپ نے جمعرات کو کہا تھا کہ پوٹن کے ساتھ ایک ملاقات کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔ ٹرمپ نے فلوریڈا میں ریپبلکن گورنروں کے ساتھ ملاقات میں کہا، ''وہ ملنا چاہتے ہیں اور ہم ایک ملاقات طے کر رہے ہیں۔
(جاری ہے)
‘‘ ٹرمپ کا مزید کہنا تھا، ''صدر پوٹن ملنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے عوامی سطح پر بھی کہا ہے اور ہمیں اس جنگ کو ختم کرنا ہے، یہ ایک خونی گندگی ہے۔
‘‘کریملن نے ٹرمپ کی طرف سے ''بات چیت کے ذریعے مسائل حل کرنے کی تیاری‘‘ کا خیرمقدم کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس ملاقات کے انعقاد کے لیے ماسکو کی کوئی پیشگی شرط نہیں ہے۔
دیمتری پیسکوف نے روزانہ کی بریفنگ میں نامہ نگاروں کو بتایا، ''کسی شرط کی ضرورت نہیں ہے۔ بات چیت کے ذریعے مسائل کے حل کے لیے باہمی خواہش اور سیاسی عزم کی ضرورت ہے۔
‘‘یوکرین نے روسی علاقے کرسک پر بڑا فوجی حملہ شروع کر دیا
روسی یوکرینی تنازعےکے تیزی سے خاتمے کے لیے ٹرمپ کی امیدوں نے کییف میں اس تشویش کو جنم دیا ہے کہ یوکرین کو ماسکو کے لیے موافق شرائط پر امن معاہدہ قبول کرنے پر مجبور کیا جا سکتا ہے۔
فروری 2022 میں روس کی طرف سے یوکرین میں مکمل فوجی کارروائی شروع کرنے کے بعد سے واشنگٹن نے کییف حکومت کو دسیوں ارب ڈالر کی امداد فراہم کی ہے۔
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی کے مطابق اگر امریکہ اس طرح کی حمایت نہ کرتا، تو ان کا ملک اس جنگ میں ہار جاتا۔ یوکرینی صدر اب بھی ٹرمپ پر زور دے رہے ہیں کہ وہ لڑائی کے خاتمے کے لیے کسی بھی تصفیے کے حصے کے طور پر نیٹو کے تحفظات اور مغربی سلامتی کی ٹھوس ضمانتیں مانگتے ہوئے ان کی ''طاقت کے ذریعے امن‘‘ کی تجویز کی حمایت کریں۔دریں اثنا یوکرینی وزارت خارجہ نے پوٹن کے ساتھ آئندہ کسی بھی ملاقات کے بارے میں ٹرمپ کے تبصروں کو مسترد کیا ہے۔ یوکرینی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ''ٹرمپ پہلے بھی اس طرح کی میٹنگ کے منصوبوں کے بارے میں بات کر چکے ہیں، اس لیے ہمیں اس میں کوئی نئی بات نظر نہیں آتی۔‘‘
روس کا آٹھ امریکی ساختہ میزائل مار گرانے کا دعویٰ، نئی دھمکی بھی
بیان میں مزید کہا گیا، ''ہمارا موقف بہت سیدھا ہے۔
یوکرین میں ہم سب لوگ جنگ کو منصفانہ طور پر ختم کرنا چاہتے ہیں اور ہم دیکھ رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ بھی جنگ کے خاتمے کے لیے پرعزم ہیں۔‘‘یوکرین نے مزید کہا ہے کہ ملکی صدر زیلنسکی 20 جنوری کے بعد ٹرمپ سے ملاقات کی تیاری کر رہے ہیں۔
ا ا / م م ( اے ایف پی، ڈی پی اے)
.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: کے ساتھ رہے ہیں کے لیے
پڑھیں:
مودی کیلئے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چھوٹ واپس لے لی
مودی کیلئے نئی مشکل؛ ٹرمپ نے بھارت کو ایرانی بندرگاہ پر دی گئی چھوٹ واپس لے لی WhatsAppFacebookTwitter 0 18 September, 2025 سب نیوز
نئی دہلی(آئی پی ایس )امریکا نے ایرانی چابہار بندرگاہ پر عائد پابندیوں سے بھارت کو حاصل استثنی ختم کر دیا جس سے براہِ راست بھارت کے منصوبوں اور سرمایہ کاری پر اثر پڑ سکتا ہے۔عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق ایران کی بندرگاہ چابہار، جسے خطے میں تجارتی روابط اور جغرافیائی حکمتِ عملی کے اعتبار سے کلیدی حیثیت حاصل ہے، ایک بار پھر غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہو گئی۔بھارت نے 2016 میں ایران کے ساتھ معاہدہ کر کے چابہار بندرگاہ کی ترقی میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری شروع کی تھی۔
چابہار کو افغانستان اور وسطی ایشیا تک بھارت کی رسائی کے لیے ٹریڈ کوریڈور کے طور پر دیکھا جاتا ہے تاکہ پاکستان کے راستے پر انحصار نہ کرنا پڑے۔بھارت نے اب تک بندرگاہ اور ریل لنک کے منصوبے پر اربوں ڈالر لگائے ہیں جو پابندیوں پر استثنی ختم ہونے کے باعث متاثر ہوسکتے ہیں۔چابہار کو بھارت، افغانستان اور وسطی ایشیا کے درمیان رابطے کے لیے متبادل راستہ سمجھا جاتا تھا۔ پابندیوں کے باعث یہ منصوبہ تعطل کا شکار ہو سکتا ہے۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اگر چابہار میں پیش رفت رک گئی تو بھارت کو وسطی ایشیا تک رسائی کے لیے دوبارہ پاکستان کے راستے یا دیگر مہنگے ذرائع اختیار کرنا پڑ سکتے ہیں۔ماہرین کا بھی کہنا ہے کہ پابندیوں کے بعد بھارتی کمپنیاں مالیاتی لین دین اور سامان کی ترسیل کے حوالے سے مشکلات کا شکار ہوں گی۔کچھ تجزیہ کاروں کے مطابق بھارت ممکنہ طور پر یورپی یونین یا روس کے ساتھ سہ فریقی تعاون کے ذریعے اس منصوبے کو زندہ رکھنے کی کوشش کرے گا۔
امریکا نے ماضی میں اس منصوبے کو افغانستان کی تعمیرِ نو اور خطے میں استحکام کے لیے ضروری قرار دے کر ایران پر عائد بعض پابندیوں سے مستثنی رکھا تھا۔تاہم اب امریکا نے اعلان کیا ہے کہ ایران پر سخت اقتصادی دبا برقرار رکھنے کے لیے چابہار منصوبے کا استثنی ختم کیا جا رہا ہے۔امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران کی موجودہ پالیسیوں، خاص طور پر روس کے ساتھ بڑھتے تعلقات اور مشرقِ وسطی میں اس کے کردار کے باعث نرمی کی کوئی گنجائش باقی نہیں رہی۔
ایرانی وزارتِ خارجہ نے امریکی اقدام کو “غیر قانونی” قرار دیتے ہوئے کہا کہ چابہار ایک علاقائی ترقیاتی منصوبہ ہے جسے سیاسی دبا کی نذر کرنا خطے کے استحکام کے لیے نقصان دہ ہوگا۔ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ بھارت اور دیگر شراکت داروں کے ساتھ مل کر اس منصوبے کو جاری رکھنے کے لیے متبادل حکمتِ عملی اپنائے گا۔تاحال بھارت کی جانب سے امریکی اقدام پر کوئی بیان سامنے نہیں آیا۔
روزانہ مستند اور خصوصی خبریں حاصل کرنے کے لیے ڈیلی سب نیوز "آفیشل واٹس ایپ چینل" کو فالو کریں۔
WhatsAppFacebookTwitter پچھلی خبرفینٹانل بنانے والے اجزا کی اسمگلنگ: امریکا نے بھارتی کاروباری افراد کے ویزے منسوخ کردیے فینٹانل بنانے والے اجزا کی اسمگلنگ: امریکا نے بھارتی کاروباری افراد کے ویزے منسوخ کردیے اسرائیل اور غزہ کا معاملہ پیچیدہ ہے مگر حل ہوجائے گا، افغانستان سے بگرام ایئربیس واپس لینا چاہتے ہیں، ٹرمپ وزیراعظم شہباز شریف برطانیہ کے 4 روزہ دورے پر لندن پہنچ گئے پیپلزپارٹی کا پنجاب میں زرعی ایمرجنسی نافذ کرنے اور عالمی برادری سے مدد لینے کا مطالبہ چمن میں پاک افغان بارڈر ٹیکسی اسٹینڈ پر دھماکا، 5 افراد جاں بحق پاکستان کے ساتھ دفاعی معاہدہ: کیا سعودی عرب کے بعد دیگر عرب ممالک بھی حصہ بنیں گے؟Copyright © 2025, All Rights Reserved
رابطہ کریں ہماری ٹیم