اردو کے فروغ میں غیر مسلموں کی خدمات قابل ستائش ہیں، پروفیسر طارق منصور
اشاعت کی تاریخ: 10th, January 2025 GMT
مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کو اپنے قیام کی 28ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ یونیورسٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلیجی ممالک سے ہندوستان کے بہتر تعلقات کے پس منظر میں تعلیم اور تحقیق کا کام کرے۔ اسلام ٹائمز۔ اردو کا تعلق کسی خاص علاقہ یا مذہب سے نہیں ہے۔ یہ ایک ایسی ہندوستانی زبان ہے، جسے اب دنیا بھر میں مقبولیت حاصل ہے اور اس کے مداحوں میں آج غیر مسلم احباب زیادہ نظر آتے ہیں۔ ان خیالات کا اظہار علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے سابق وائس چانسلر پروفیسر طارق منصور نے کیا۔ وہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی میں منعقدہ یونیورسٹی کی 28ویں یومِ تاسیس کی تقریب سے خطاب کر رہے تھے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کیمپس میں منعقدہ یومِ تاسیس جلسے سے خطاب کرتے ہوئے پروفیسر طارق منصور نے مزید کہا کہ بر صغیر میں اردو کا آغاز اور فروغ پنجاب اور دکن کے علاقوں میں ہوا لیکن آج اردو برصغیر سے باہر نکل کر سارے عالم میں پہنچ چکی ہے، جہاں یہ ہندوستان کی 23 مسلمہ زبانوں میں شامل ہے، وہیں اردو کو اقوامِ متحدہ نے عالمی زبان کا درجہ دیا ہے۔
اردو کے فروغ کے لئے غیر مسلم حضرات کی خدمات کا ذکر کرتے ہوئے پروفیسر طارق منصور نے کہا کہ آج بھی غیر اردو داں حضرات تک اردو زبان کو پہنچانے میں ڈاکٹر سنجیو صراف کی ریختہ فاﺅنڈیشن پیش پیش ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ اردو کسی ایک خاص مذہب یا علاقے کی زبان نہیں ہے۔ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کو اپنے قیام کی 28ویں سالگرہ پر مبارکباد پیش کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کی ذمہ داری ہے کہ وہ خلیجی ممالک سے ہندوستان کے بہتر تعلقات کے پس منظر میں تعلیم اور تحقیق کا کام کرے۔ انہوں نے کہا کہ تاریخی طور پر بھی حیدرآباد دکن کا خاص کر سعودی عرب سے خاص تعلق رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ضرورت اس بات کی ہے کہ موجودہ دور میں بھی دونوں ملکوں کے تعلقات کو مزید بہتر بنانے کے لئے ایک تعلیمی ادارے کے طور پر مانو قدم بڑھائے۔
یومِ تاسیس کی تقریب میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے چانسلر ممتاز علی بطورِ مہمانِ خصوصی مدعو تھے جبکہ پروگرام کی صدارت وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے کی۔ ممتاز علی نے اپنے خطاب میں کہا کہ اردو یونیورسٹی نے جس کامیابی کے ساتھ قانون کی تعلیم کا اردو میں آغاز کیا اب وقت آگیا ہے کہ اردو یونیورسٹی طب کی تعلیم بھی شروع کرے۔ وائس چانسلر پروفیسر سید عین الحسن نے اپنے صدارتی خطاب میں کہا کہ یومِ تاسیس کی اہمیت سے کوئی بھی انکار نہیں کرسکتا۔ ان کے مطابق مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کا آغاز جس نیک نیتی کے ساتھ کیا گیا تھا آج وہ اظہر من الشمس ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ یونیورسٹی کے چانسلر کی خواہش کے مطابق اردو یونیورسٹی میں میڈیکل کالج کے آغاز کے لئے ہر ممکنہ کوشش کریں گے۔
ذریعہ: Islam Times
کلیدی لفظ: یونیورسٹی کی کرتے ہوئے
پڑھیں:
یوکرینی جنگ: ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ سے روس کو مزید حوصلہ ملے گا، جرمن چانسلر میرس
یوکرینی جنگ: ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ سے روس کو مزید حوصلہ ملے گا، جرمن چانسلر میرس یوکرینی جنگ: ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ سے روس کو مزید حوصلہ ملے گا، جرمن چانسلر میرسجرمن چانسلر فریڈرش میرس نے کہا ہے کہ ماسکو کی یوکرین میں فوجی مداخلت کے ساتھ شرو ع ہونے والی جنگ میں ’آزادی کے بغیر جبری امن‘ کے قیام سے روس کا حوصلہ آئندہ مزید بڑھے گا اور صدر پوٹن اپنے اگلے ہدف کی تلاش شروع کر دیں گے۔
وفاقی جرمن دارالحکومت برلن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق چانسلر میرس نے بدھ 17 ستمبر کے روز کہا کہ روسی یوکرینی جنگ میں ’’کوئی ایسا امن، جس کی شرائط کییف کو لکھائی گئی ہوں اور جس میں یوکرین کی آزادی کو مدنظر نہ رکھا گیا ہو، روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی اس حد تک حوصلہ افزائی کرے گا کہ وہ اپنے اگلے ہدف کی تلاش شروع کر دیں گے۔
(جاری ہے)
‘‘
اس کے علاوہ جرمن سربراہ حکومت کا یہ بھی کہنا تھا کہ روس کی طرف سے پولینڈ اور رومانیہ کی فضائی حدود کی خلاف ورزیوں کے حالیہ واقعات اس طویل المدتی رجحان کا حصہ ہیں، جس کے تحت روسی صدر پوٹن سبوتاژ کرنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کی برداشت کی حد کا امتحان بھی لیتے رہتے ہیں۔
دائیں بازو کی طرف جھکاؤ رکھنے والے قدامت پسندوں کی جماعت کرسچن ڈیموکریٹک یونین سے تعلق رکھنے والے چانسلر میرس نے جرمن پارلیمان کے بنڈس ٹاگ کہلانے والے ایوان زیریں سے اپنے خطاب میں مزید کہا، ’’روس اپنی ایسی کوششوں کے درپردہ ہمارے آزاد معاشروں کو عدم استحکام کا شکار بنانا چاہتا ہے۔‘‘
فریڈرش میرس نے جرمن پارلیمان کے ارکان کو بتایا کہ یوکرین میں قیام امن کے لیے کوئی بھی ایسا معاہدہ طے نہیں کیا جا سکتا، جس کی کییف حکومت کو قیمت اپنے ملک کی سیاسی خود مختاری اور علاقائی وحدت کی صورت میں چکانا پڑے۔
ادارت: شکور رحیم، کشور مصطفیٰ