غاصب و سفاک صیہونی رژیم کیساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری کیخلاف لیبیا کے کئی ایک بڑے شہروں میں وسیع عوامی احتجاجی مظاہرے دیکھنے میں آئے ہیں اسلام ٹائمز۔ غاصب و سفاک صیہونی رژیم کیساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری کیخلاف تاجوراء، بنی ولید اور الزاویہ سمیت لیبیا کے متعدد بڑے شہروں میں وسیع عوامی احتجاجات ریکارڈ کئے گئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق عوامی احتجاجی مظاہروں کا یہ سلسلہ گذشتہ روز لیبیا کے دارالحکومت طرابلس تک بھی پھیل گیا جہاں احتجاجی مظاہرین نے طرابلس کو مشرقی علاقوں کے ساتھ جوڑنے والی اہم البیفی ہائی وے کو بھی بند کر دیا۔ اس دوران احتجاجی مظاہرین نے اس ہائی وے پر ٹائر جلا کر رکاوٹیں کھڑی کر دیں جس سے ٹریفک مکمل طور پر ٹھپ ہو کر رہ گئی۔ روسی خبررساں ایجنسی رشیاٹوڈے (RT) کے مطابق لیبیا کے تینوں بڑے شہروں میں وسیع احتجاجی مظاہرے منعقد کرتے ہوئے لیبیائی عوام نے غاصب و بچوں کی قاتل صیہونی رژیم کے ساتھ معمول کے تعلقات استوار کرنے پر حکومت کو سختی کے ساتھ خبردار کیا اور اس جعلی صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری پر مبنی اقدامات اٹھانے يا ایسے اقدامات کی حمایت میں بات کرنے والے حکام کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔ اس دوران لیبیائی عوام نے قومی خودمختاری کے تحفظ کی ضرورت پر زور دیا اور غاصب و اپارتھائیڈ صہیونی رژیم کے ساتھ کسی بھی قسم کے تعاون کو یکسر مسترد کر دیا۔ احتجاجی مظاہرین نے سابق وزیرخارجہ نجلاء المنقوش پر، غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری کے لئے زمین ہموار کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے سابق وزیرخارجہ نجلاء المنقوش پر فرد جرم عائد کرنے کا مطالبہ کیا اور تاکید کی کہ غاصب صیہونی رژیم کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی استواری پر مبنی کوئی بھی اقدام؛ قومی و عوامی اصولوں کے صریحا خلاف ہے۔

یاد رہے کہ نجلاء المنقوش نے حال ہی میں اعلان کیا ہے کہ لیبیائی وزیر اعظم عبد الحميد الدبیبہ نے ہی سال 2023 میں اسرائیل کے سابق وزیر خارجہ ایلی کوہن کے ساتھ اس کی ملاقات کو مربوط کیا تھا جس پر طرابلس-تل ابیب تعلقات کے خلاف پورے لیبیا میں ہونے والے عوامی احتجاجات ایک مغربی پھر پھوٹ پڑے ہیں۔ ادھر صیہونی اخبار یدیعوت احرونوت کا بھی کہنا ہے کہ لیبیا کی اس وقت کی وزیر خارجہ المنقوش کے ساتھ اسی ماہ روم میں ہونے والی اس خفیہ ملاقات کا مقصد تل ابیب و طرابلس کے درمیان باہمی تعاون و دوستانہ تعلقات کی استواری کے امکان کا جائزہ لینا تھا۔ واضح رہے کہ اس خفیہ ملاقات کے منظر عام پر آ جانے کے بعد لیبیا کے عوام میں شدید غم و غصے کی لہر دوڑ گئی اور ملک میں لاکھوں افراد سڑکوں پر نکل آئے جس کے باعث عبدالحمید الدبیبہ نے نجلاء المنقوش کو باضابطہ طور پر برطرف کرتے ہوئے اس معاملے پر تحقیقات کا حکم دے دیا تھا۔

.

ذریعہ: Islam Times

کلیدی لفظ: لیبیا کے

پڑھیں:

جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے

جن لوگوں کو فلسطینیوں سے اسرائیل کے بے رحمانہ سلوک پر حیرت ہے۔انھیں یہ سن کے شاید مزید حیرت ہو کہ اسرائیل گزشتہ اٹھاون برس میں چونتیس فوجیوں سمیت چالیس امریکی شہریوں کو ہلاک اور لگ بھگ دو سو کو زخمی اور درجنوں کو گرفتار کر کے ٹارچر کر چکا ہے۔مگر آج تک کسی امریکی انتظامیہ نے چوں تک نہیں کی اور ہر ہلاکت خیز واقعہ کے بارے میں اسرائیلی معذرت اور موقف کو من و عن تسلیم کر کے معاملات پر مٹی ڈال دی۔

گویا جہاں اسرائیل کی دل جوئی کا سوال ہو وہاں کسی بھی امریکی انتظامیہ کے لیے اپنے ہی شہریوں کی جانوں کی کوئی اوقات نہیں۔ہم مرحلہ وار ان وارداتوں کا جائزہ لیں گے تاکہ آپ کے ذہن میں اسرائیل امریکا ریاستی گٹھ جوڑ کے بارے میں اگر کوئی ابہام اب تک ہے تو وہ بھی صاف ہو جائے۔

یہ تو آپ جانتے ہیں کہ امریکا کا چھٹا بحری بیڑہ مستقل بحیرہ روم میں تعینات رہتا ہے اور اس کا ہیڈکوارٹر اطالوی بندرگاہ نیپلز ہے۔ اس بیڑے کو یونان ، قبرص اور مالٹا سمیت علاقے کے ناٹو رکن ممالک کی بحری سہولتیں بھی حاصل ہیں۔

انیس سو تریسٹھ میں جاسوسی آلات سے لیس ایک بحری جہاز یو ایس ایس لبرٹی چھٹے بحری بیڑے میں شامل ہوا۔مئی انیس سو سڑسٹھ میں اسرائیل اور مصر کے مابین انتہائی کشیدگی کے سبب یو ایس ایس لبرٹی کو برقیاتی سن گن لینے کے لیے مصری بحری حدود میں تعیناتی کا حکم ملا۔پانچ جون کو اسرائیلی فضائیہ نے مصری اور شامی ایرفورس کو ایک اچانک شب خون میں زمین پر ہی تباہ کر کے بے دست و پا کر دیا۔

یو ایس ایس لبرٹی مصر کے جزیرہ نما سینا کے ساحل سے بیس کلومیٹر اور اسرائیلی بحری حدود سے گیارہ کلومیٹر پرے گشت پر تھا۔آٹھ جون کی صبح دو اسرائیلی میراج طیاروں نے یو ایس ایس لبرٹی کے اوپر دو نچلی نگراں پروازیں کیں۔موسم صاف تھا اور فضا سے جہاز پر لہراتا امریکی پرچم اور جہاز کے ڈھانچے پر لکھا نمبر ( جی ٹی آر فائیو ) صاف پڑھا جا سکتا تھا۔

دوپہر بارہ بجے چھٹے امریکی بیڑے کے کمانڈر ولیم میکگناگلے نے لبرٹی کو پیغام بجھوایا کہ وہ موجودہ پوزیشن سے ایک سو ساٹھ کلومیٹر پیچھے ہٹ کے بین الاقوامی سمندری حدود میں آ جائے۔یہ پیغام بروقت جہاز تک نہ پہنچ سکا۔

تین بجے سہہ پہر دو اسرائیلی طیاروں نے جہاز کے کپتان سے مواصلاتی شناخت مانگے بغیر نیپام بم گرائے اور مشین گنوں سے فائرنگ کی۔جہاز میں آگ لگ گئی۔پچیس منٹ بعد تین اسرائیلی کشتیوں میں سے دو نے تارپیڈو فائر کیے۔ جہاز میں دو بڑے شگاف پڑ گئے اور وہ ڈوبنے لگا۔اس حملے کے آدھے گھنٹے بعد بقول اسرائیلی فوجی ہائی کمان احساس ہوگیا کہ ہم جسے مصری جہاز سمجھے تھے وہ دراصل امریکی تھا۔ چھٹے بیڑے کے کمانڈر نے چند سو ناٹیکل میل دور موجود دو طیارہ بردار جہازوں یو ایس ایس واشنگٹن اور ساراٹوگا سے چھ لڑاکا طیاروں اور بیڑے کے دو ڈیسٹرائرز ( تباہ کن جنگی جہاز ) کو یو ایس ایس لبرٹی کی مدد کے لیے روانہ کیا۔

مگر کچھ دیر بعد واشنگٹن سے وزیرِ دفاع رابرٹ میکنامارا کے کہنے پر امریکی طیاروں کو بیس پر واپسی کا حکم ملا کیونکہ تب تک میکنامارا کی ڈیسک پر اسرائیل کا ’’ معذرت نامہ ‘‘ پہنچ چکا تھا۔البتہ دو ڈیسٹرائرز نے موقع پر پہنچ کر تباہ حال یو ایس ایس لبرٹی کو کسی نہ کسی طور مالٹا کی بندرگاہ تک پہنچا دیا۔ قریب موجود سوویت بحریہ کے دو جہازوں نے بھی مدد کی۔

اس واردات میں یو ایس ایس لبرٹی پر موجود دو سو چورانوے کے عملے میں سے چونتیس جان سے گئے اور ایک سو اکہتر زخمی ہوئے۔امریکا بحریہ نے ایک بورڈ آف انکوائری تشکیل دیا۔ اللہ جانے اس انکوائری کا کیا ہوا۔

اسرائیلی حکومت کی اپنی اندرونی انکوائری اس نتیجے پر پہنچی کہ نیول کمان کو حملے سے تین گھنٹے پہلے اطلاع مل چکی تھی کہ یہ امریکی بحری جہاز ہے مگر یہ معلومات ’’ بروقت ‘‘ اس کمانڈر تک نہ پہنچائی جا سکیں جس نے غلط فہمی میں حملے کا حکم دیا۔

امریکی صدر جانسن لنڈن بی جانسن نے حملے کے چند دن بعد نیوزویک کو انٹرویو میں کہا کہ یہ جانا بوجھا حملہ تھا کیونکہ اسرائیل نہیں چاہتا تھا کہ ہم دورانِ جنگ حساس فوجی کمیونیکیشن سے مسلسل آگاہ رہیں۔البتہ چار برس بعد جانسن نے اپنی سوانح عمری میں یو ایس ایس لبرٹی کے بارے میں اسرائیلی تاویل کو من و عن تسلیم کرتے ہوئے لکھا کہ ’’ اس دلخراش واقعہ کا اسرائیل کو بھی شدید صدمہ ہے ‘‘۔

جب لبرٹی پر حملہ ہوا تو نیشنل سیکیورٹی کونسل کے ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل مارشل کارٹر تھے۔انھوں نے اکیس برس بعد ( انیس سو اٹھاسی ) ایک انٹرویو میں زبان کھولی کہ یہ کوئی بے ساختہ یا اتفاقی نہیں بلکہ سوچی سمجھی غلطی تھی۔انیس سو ستانوے میں اس واقعہ کی بیسویں برسی کے موقع پر یو ایس ایس لبرٹی کے ریٹائرڈ کپتان ولیم میکگناگلے نے کہا کہ یہ نہ تو اتفاقی تھا اور نہ ہی حادثہ۔اس واقعہ کی بھرپور غیر جانبدار تحقیق اب بھی ہو سکتی ہے مگر نہیں ہو گی۔

سن دو ہزار میں اسرائیلی سیاستداں اور مورخ مائیکل اورین نے کہا کہ لبرٹی کی فائل بند ہو چکی ہے۔ مگر دو ہزار سات میں متعدد امریکی انٹیلی جینس اور عسکری اہلکاروں نے اخبار شکاگو ٹریبون کو بتایا کہ وہ خفیہ فائلیں پڑھنے کے بعد یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ اسرائیل کو ابتدا سے علم تھا کہ لبرٹی امریکی جہاز ہے۔نیشنل سیکیورٹی کونسل کے اس وقت کے ڈپٹی ڈائریکٹر اولیور کربی نے انٹرویو میں کہا کہ میں انجیل پر ہاتھ رکھ کے کہہ سکتا ہوں کہ ہمیں روزِ اول سے یقین تھا کہ انھیں ( اسرائیلیوں کو ) سب معلوم ہے۔

اگر یو ایس ایس لبرٹی سے ایک چوتھائی کم واردات بھی کوئی اور ملک کرتا تو امریکا شاید پوری طاقت سے چڑھ دوڑتا۔اور ایسا ہی ہوا۔

یو ایس ایس لبرٹی پر حملے سے صرف تین برس پہلے دو اگست انیس سو چونسٹھ کو ویتنام کی خلیج ٹونکن میں گشت کرنے والے ایک جاسوس جنگی جہاز یو ایس ایس میڈوکس پر شمالی ویتنام کی تین تارپیڈو کشتیوں نے حملے کی کوشش کی۔دو روز بعد میڈوکس کے کپتان نے پھر پیغام بھیجا کہ اسے متعدد کشتیوں نے گھیر لیا ہے۔اس پیغام کا واشنگٹن میں یہ مطلب لیا گیا کہ میڈوکس پر دو روز میں ایک اور حملہ ہو گیا ہے۔

چنانچہ مزید چھان بین کے بغیر جانسن انتظامیہ نے امریکی کانگریس سے بعجلت ایک قرار داد منظور کروا کے جنگ کا اختیار حاصل کر لیا۔ یوں اس گیارہ سالہ جنگ کا آغاز ہوا جس میں تیس لاکھ ویتنامی اور پچاس ہزار امریکی جانیں گئیں۔حالانکہ خلیج ٹونکن کے واقعہ کی چند روز بعد تفصیلی تحقیق کے سبب یہ بات امریکیوں پر کھل چکی تھی کہ دو اگست کو جو ویتنامی حملہ ہوا اس میں یو ایس ایس میڈوکس کا کوئی نقصان نہیں ہوا۔جب کہ چار اگست کو میڈوکس کا ریڈار فنی خرابی کے سبب ایسے سگنلز دینے لگا جیسے چاروں طرف سے حملہ ہو گیا ہو مگر درحقیقت چار اگست کو کوئی حملہ ہوا ہی نہیں۔

جب خلیج ٹونکن کے واقعہ کو جنگ کا بہانہ بنایا گیا تب بھی رابرٹ میکنامارا امریکی وزیرِ دفاع تھے۔جب یو ایس ایس لبرٹی تباہ ہوا تب بھی وہی وزیرِ دفاع تھے۔ایک واقعہ جو ہوا ہی نہیں اس پر اعلانِ جنگ ہو گیا۔اور ایک واقعہ جس میں لگ بھگ تین درجن امریکی فوجی مارے گئے اسے غلطی کہہ کر درگذر کر دیا گیا۔

اس واقعہ پر امریکا کے معذرت خواہانہ رویے کے بعد اسرائیل کی ہر حکومت کو یقین ہوتا چلا گیا کہ وہ کچھ بھی کر گذرنے کے لیے پوری طرح آزاد ہے۔اس دیدہ دلیری کے آیندہ نتائج ہم اگلے مضمون میں دیکھیں گے۔

(وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.com اورTweeter @WusatUllahKhan.پر کلک کیجیے)

متعلقہ مضامین

  • پنجاب،دفعہ 144میں 7روز کی توسیع، احتجاج اور جلسے جلسوں پر پابندی برقرار
  • پنجاب ، احتجاج، ریلیوں، دھرنوں و عوامی اجتماعات پر پابندی، دفعہ 144 میں 7 دن کی توسیع
  • ایک ظالم اور غاصب قوم کی خوش فہمی
  • غزہ کی امداد روکنے کیلئے "بنی اسرائیل" والے بہانے
  • حزب الله کو غیرمسلح کرنے کیلئے لبنان کے پاس زیادہ وقت نہیں، امریکی ایلچی
  • ایران کا پاکستان کیساتھ توانائی کے شعبے میں تعاون بڑھانے کا ارادہ خطے میں بڑی تبدیلی ہے، محمد مہدی
  • جب اسرائیل نے ایک ساتھ چونتیس امریکی مار ڈالے
  • قیدیوں کیساتھ صیہونی وزیر داخلہ کے نسل پرستانہ برتاو پر حماس اور جہاد اسلامی کا ردعمل
  • سکھر: عوامی اتحاد وینگ لائرز فورم کے تحت اغواء کیخلاف احتجاجی مظاہرہ کیاجارہاہے
  • اسرائیل میں لاکھوں الٹرا آرتھوڈوکس یہودیوں کا فوجی بھرتی کے خلاف احتجاج، 15 سالہ نوجوان ہلاک