امریکا نے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کی گرفتاری پر انعام کو بڑھا کر25 ملین ڈالرکر دیا
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
واشنگٹن(اُردو پوائنٹ اخبارتازہ ترین - این این آئی۔ 11 جنوری2025ء)امریکا نے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کی گرفتاری پر انعام کو بڑھا کر 25ملین ڈالر کر دیا ہے۔غیرملکی خبررساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق امریکی وزارت خزانہ نے 2020میں اس حوالے سے 15ملین ڈالر انعام کا اعلان کیا تھا جس میں اب دس ملین ڈالر کا اضافہ کر دیا گیا ہے ۔رپورٹ کے مطابق یہ اقدام وینزویلا کی حکومت سے وابستہ اہلکاروں پر پابندیوں کا حصہ ہے۔
امریکی حکومت نے وینزویلا میں جولائی 2024میں ہونے والے انتخابات میں بڑے پیمانے پر دھاندلی کے الزامات عائد کرتے ہوئے ان انتخابات میں صدر نکولس مادورو کی کامیابی کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیاتھااور ان انتخابات کو غیر جمہوری قرار دیا تھا۔ امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے گزشتہ اگست میں دعویٰ کیا تھا کہ امریکا کے پاس اس بات کے ٹھوس شواہد موجود ہیں کہ ان انتخابات میں اپوزیشن کے امیدوار ایڈمنڈو گونزالیز حقیقی فاتح تھے۔(جاری ہے)
امریکی حکومت نے وینزویلا کے صدر نکولس مادورو کی گرفتاری میں مدد پر انعام میں اضافے کیساتھ ساتھ وینزویلا کے وزیر داخلہ ڈیوسڈاڈو کابیلو کی گرفتاری میں مدد پر 25ملین ڈالر اور وزیر دفاع ولادیمیر پیڈرینو لوپیز کی گرفتاری میں مدد پر 15ملین ڈالر کے انعام کا اعلان بھی کیا ۔ امریکی حکام نے دونوں وزرا پر جبر اور انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں کردار ادا کرنے کا الزام لگایا۔امریکا کی طرف سے وینزویلا کے دیگر حکام بشمول سرکاری تیل کمپنی PDVSAکے صدر اور وزیر ٹرانسپورٹ کیساتھ ساتھ متعدد اعلیٰ فوجی اور پولیس افسران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی بھی منظوری دی گئی ہے۔ کولمبیا میں امریکی سفارت خانے میں وینزویلا کے امور کے یونٹ کے سربراہ فرانسسکو پالمیری نے گزشتہ سال دسمبر میں وینزویلا کی حکومت کو ایک الٹی میٹم میں مطالبہ کیاکہ نکولس مادورو جنوری میں اپنا عہدہ سنبھالنے سے پہلے استعفیٰ دیں اور اپوزیشن لیڈر گونزالیز کی انتخابات میں کامیابی کو تسلیم کریں بصورت دیگر وینزویلا میں حالات مزید خراب ہوں گے۔وینزویلا میں حکام نے اس امریکی الٹی میٹم کا کوئی جواب نہیں دیا تھا تاہم نومنتخب صدر نکولس مادورو نے چنددن قبل امریکی حکومت پر وینزویلا میں حکومت کی تبدیلی کی کوششوں کا الزام عائد کرتے ہوئے اس پر تنقید کی ہے۔ نکولس مادورو نے امریکی حکومت پر وینزویلا میں حکومت کے مخالفین کو فنڈز کی فراہمی کا الزام بھی عائد کیا۔.ذریعہ: UrduPoint
کلیدی لفظ: تلاش کیجئے صدر نکولس مادورو کی امریکی حکومت انتخابات میں کی گرفتاری کی حکومت کے صدر کر دیا
پڑھیں:
اوباما نے 2016 امریکی انتخابات میں روسی مداخلت سے متعلق جعلی انٹیلیجنس تیار کی، ٹولسی گیبارڈ کا دعویٰ
امریکہ کی سابق کانگریس رکن اور موجودہ ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس، ٹولسی گیبارڈ نے ایک ہنگامہ خیز بیان میں دعویٰ کیا ہے کہ سابق صدر باراک اوباما کی انتظامیہ نے 2016 کے صدارتی انتخابات میں روس کی مداخلت سے متعلق انٹیلیجنس معلومات کو ’گھڑ کر‘ پیش کیا تاکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کو غیر قانونی قرار دیا جا سکے۔
گیبارڈ کے ان الزامات کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے بھی دہرایا ہے، جبکہ اوباما کے دفتر نے ان دعوؤں کو ‘مضحکہ خیز‘ اور ’حقیقت سے ماورا قرار دے کر مسترد کر دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے ڈونلڈ ٹرمپ کا باراک اوباما پر غداری کا الزام، سابق صدر نے ردعمل میں کیا کہا؟
یاد رہے کہ ٹولسی گیبارڈ نے اپنے دعویٰ میں اوباما انتظامیہ پر جھوٹی انٹیلیجنس تیار کرنے کا الزام لگایا اور ڈونلڈ ٹرمپ نے اوباما کو ’سازش کا سرغنہ‘ قرار دیا۔ دوسری طرف اوباما کے دفتر نے الزامات کو سیاسی توجہ ہٹانے کی چال قرار دیا۔ CNN، NYT، اور سینیٹ کی رپورٹس اب تک روسی مداخلت کی تصدیق کر رہی ہیں۔
’یہ انٹیلیجنس ناکامی نہیں، جعل سازی تھی‘ایک پریس بریفنگ کے دوران ٹولسی گیبارڈ نے کہا کہ نئے شواہد سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ امریکی تاریخ میں انٹیلیجنس کا سب سے زیادہ شرمناک سیاسی استعمال تھا۔ یہ کوئی ناکامی نہیں تھی بلکہ ایک دانستہ جعلی بیانیہ تیار کیا گیا تاکہ روس کو ٹرمپ کی جیت سے جوڑا جائے۔
انہوں نے کہا کہ جنوری 2017 کی ’انٹیلیجنس کمیونٹی اسیسمنٹ (ICA)‘ کی تیاری جھوٹی بنیادوں پر کی گئی، اور اس کا مقصد ٹرمپ کی صدارت کو بدنام کرنا تھا۔
گیبارڈ نے اس رپورٹ کو امریکی محکمہ انصاف اور FBI کو تفتیش کے لیے بھی بھیج دیا ہے، اور کہا کہ چاہے وہ کتنے ہی طاقتور کیوں نہ ہوں، ملوث تمام افراد کے خلاف قانونی کارروائی ہونی چاہیے۔
’ہم نے انہیں رنگے ہاتھوں پکڑا‘، ٹرمپ کا ردعملصدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گیبارڈ کے دعوے کی مکمل تائید کی اور کہا کہ اوباما، کلنٹن، سوسن رائس اور دوسرے اس سازش کے سرغنہ تھے۔ انہوں نے سوچا یہ سب کلاسیفائیڈ دستاویزات میں چھپا دیا جائے گا، مگر اب سچ باہر آ رہا ہے۔
انہوں نے گیبارڈ کو سراہتے ہوئے کہا
’ٹولسی نے کہا ہے کہ ابھی تو یہ شروعات ہے، اصل انکشافات ابھی باقی ہیں۔‘
ٹرمپ نے گیبارڈ کی تعریف کرتے ہوئے طنزیہ انداز میں کہا کہ ’وہ سب سے زیادہ پرکشش بھی ہیں اور سب سے باخبر بھی۔‘
الزام کس پر ہے؟رپورٹ میں جن سابق اعلیٰ انٹیلیجنس افسران کے نام سامنے آئے، ان میں شامل ہیں:
جیمز کلاپر (سابق ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلیجنس)، جان برینن (سابق ڈائریکٹر سی آئی اے)، جیمز کومی (سابق ڈائریکٹر ایف بی آئی)۔
گیبارڈ کے مطابق، ان افراد نے جان بوجھ کر ایک سیاسی مقصد کے تحت یہ انٹیلیجنس تیار کی۔
’یہ الزامات بے بنیاد ہیں‘ ترجمان باراک اوبامااوباما کے ترجمان، پیٹرک روڈن بش نے ان الزامات کو مکمل طور پر مسترد کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزامات نہ صرف غیر سنجیدہ ہیں بلکہ توجہ ہٹانے کی ایک کمزور کوشش بھی ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ یہ نئی رپورٹ کسی بھی طور پر یہ ثابت نہیں کرتی کہ روس نے مداخلت کی کوشش نہیں کی۔ بلکہ 2020 کی دو طرفہ سینیٹ انٹیلیجنس کمیٹی کی رپورٹ، جو ریپبلکن سینیٹر مارکو روبیو کی سربراہی میں شائع ہوئی، اس بات کی تصدیق کرتی ہے کہ روس نے ٹرمپ کو فائدہ پہنچانے کے ارادے سے مداخلت کی تھی۔
دیگر ذرائع کیا کہتے ہیں؟CNN اور نیویارک ٹائمز نے رپورٹ شائع کی ہے کہ گیبارڈ کی طرف سے جاری کردہ دستاویزات دراصل 2017 میں ریپبلکن پارٹی کی زیرقیادت ہاؤس انٹیلیجنس کمیٹی کی نظر ثانی شدہ رپورٹ ہیں، جو کئی مرتبہ سیاسی جانبداری کے الزامات کا شکار رہ چکی ہے۔
یہ بھی پڑھیے ٹرمپ کی کامیابی پر اوباما کا محتاط تبصرہ، اس میں خاص کیا ہے؟
اب تک سامنے آنے والی آزادانہ تحقیقات، بشمول رابرٹ مولر کی رپورٹ، اس بات پر متفق ہیں کہ روس نے 2016 کے انتخابات میں مداخلت کی، کوئی ثابت شدہ ساز باز (collusion) ٹرمپ ٹیم کے ساتھ نہیں ملی مگر مداخلت کا مقصد ٹرمپ کو فائدہ دینا تھا
سوالات جو ابھرتے ہیںاگر یہ الزامات درست ہیں تو اب تک انہیں خفیہ کیوں رکھا گیا؟ کیا گیبارڈ واقعی مزید شواہد منظر عام پر لائیں گی؟ کیا یہ معاملہ 2024 کے صدارتی انتخابات پر اثر ڈال سکتا ہے؟ کیا ڈونلڈ ٹرمپ ان بیانات کو سیاسی ہتھیار کے طور پر استعمال کریں گے؟
ٹولسی گیبارڈ کے الزامات نے امریکی سیاست میں ایک نیا تنازعہ کھڑا کر دیا ہے۔ ایک طرف، وہ اور ٹرمپ اس معاملے کو ’سیاسی سازش‘ قرار دے رہے ہیں، تو دوسری طرف سابق حکام اور میڈیا ان دعوؤں کو غیر مصدقہ اور سیاسی طور پر جانبدار قرار دے رہے ہیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ حقیقت تک پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ مکمل شفاف انکوائری ہو، دستاویزی شواہد سامنے لائے جائیں اور اگر کوئی سیاسی یا قانونی خلاف ورزی ہوئی ہو، تو جواب دہی کی جائے۔
آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں
باراک اوباما ٹولسی گیبارڈ ڈونلڈ ٹرمپ