ماہرین فلکیات نے کہا ہے کہ 21 جنوری اور 28 فروری 2025 کو آسمان پر کچھ نیا اور غیر معمولی ہونے والا ہے، آپ نظام شمسی میں دیگر 7 سیاروں کو ایک ہی وقت میں ایک ہی قطار میں بالکل واضح دیکھ سکیں گے۔

 

ماہرین فلکیات کے مطابق28 فروری 2025 کی شام کو غیر معمولی طور پر نظام شمسی کے دیگر 7 سیارے ایک ہی وقت میں رات کے وقت آسمان میں نمودار ہوں گے، ان سیاروں میں زحل، عطارد، نیپچون، زہرہ، یورینس، مشتری اور مریخ شامل ہیں جو آسمان پر ہی واضح اور صاف ستھری قطار میں نظر آئیں گے۔

ماہرین فلکیات کا کہنا ہے کہ اس سے بھی پہلے 21 جنوری 2025 کو ایسا ہی کچھ غیر معمولی نظارہ دیکھنے کو ملے گا لیکن اس میں ایک سیارہ شامل نہیں ہو گا، نظام شمسی کے دیگر 6 سیارے ایک ہی وقت میں ایک بڑی صف بندی میں آسمان میں نمودار ہوں گے ان سیاروں میں مریخ، مشتری، یورینس، نیپچون، زہرہ اور زحل شامل ہوں گے جبکہ عطارد اس صف بندی کا حصہ نہیں ہو گا۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ دراصل یہ کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے کہ کچھ سیارے ایک ہی وقت میں سورج کی ایک ہی جانب ہوں ، لیکن اس میں غیر معمولی بات یہ ہے کہ ایسا بہت کم معلوم ہوا ہے کہ تمام سیاروں کے درمیان اس طرح کی سیدھی صف بندی ہوئی ہو۔

3 سے 8 تک کے سیاروں کی کوئی بھی تعداد ایک صف بندی تشکیل دیتی ہے۔ 5 یا 6 سیاروں کے جمع ہونے کو ایک بڑی صف بندی کے طور پر جانا جاتا ہے ، جس میں 5 سیاروں کی صف بندی 6 سیاروں کے مقابلے میں زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔

7 سیاروں کی صف بندی ایک نادر نظارہ

ماہرین فلکیات کاکہنا ہے کہ 7 سیاروں کی یہ سیدھی اور واضح صف بندی نہیں ہے جو آپ نظام شمسی کے نقشوں اور مثالوں میں دیکھتے ہیں، نظام شمسی میں یہ کوئی ایسا واقعہ نہیں ہے جو حقیقتاً کائنات میں اکثر ہوتا رہا ہو۔ اس کے باوجود سیارے ایک سیدھی لکیر کی طرح ترتیب کے ساتھ آسمان پر نظر آنے والے ہیں۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نظام شمسی کے تمام سیارے سورج کے گرد ایک ہموار سطح پر چکر لگاتے ہیں جسے ایکلپٹک کہا جاتا ہے۔ کچھ سیاروں کے مدار اس سطح کے اوپر یا نیچے تھوڑا سا جھکے ہوئے ہیں، لیکن وہ سب کم و بیش اسی سطح پر ہیں جیسے ہمارے سورج جیسے سیارے ہیں۔

ماہرین کے مطابق کبھی کبھار سیارے سورج کے ایک ہی طرف ہو جاتے ہیں کیونکہ وہ اپنے مدار کے ساتھ چلتے ہیں، لہٰذا ہمیں انہیں ایک ہی وقت میں آسمان پر دیکھنا نصیب ہو جاتا ہے۔ 21 جنوری اور 28 فروری کی شام کو آسمان پر یہی نظارہ چھایا رہے گا۔

سیاروں کو ایک ساتھ کیسے دیکھ سکیں گے؟

کیا آپ سیاروں کی اس نئی صف بندی کو دیکھ سکیں گے، سیارے کس وقت نکلتے ہیں اور غروب ہوتے ہیں اور کس ترتیب میں ہوں گے یہ اس بات پر منحصر ہو گا کہ آپ دنیا میں کہاں سے یہ نظارہ دیکھ رہے ہیں۔ ایسے آلات موجود ہیں جن کے ذریعے آپ ان اوقات اور آسمان کے مقامات تک آنکھوں کے ذریعے رسائی حاصل کرسکتے ہیں۔

وقت اور تاریخ میں ایک انٹرایکٹو ٹول ہے جو آپ کو وہ تاریخ مقرر کرنے کی اجازت دیتا ہے جو آپ دیکھنا چاہتے ہیں، یہ ہر سیارے کے عروج اور مقرر کردہ وقت کو ظاہر کرتا ہے، جہاں آسمان میں انہیں دیکھا جاسکتا ہے۔

ویب ٹول کے ذریعے سیاروں کی پوزیشن معلوم کی جا سکتی ہے

سٹیلریم میں ایک ایسا ہی ویب ٹول ہے جو آپ کو تمام سیاروں کی پوزیشن دکھاتا ہے۔ اسکائی ٹونائٹ ایک مفت موبائل ایپ ہے جو آپ کے فون کے ہارڈ ویئر کا استعمال کرتے ہوئے یہ اندازہ لگاتی ہے کہ آپ کہاں واقع ہیں، یہ آپ کو اوپر آسمان کے نقشے پر آسمان پر موجود سیاروں اور ستاروں کے حقیقی وقت کی پوزیشن بتا دیتا ہے۔

سیاروں کو ان کی تمام شان و شوکت میں دیکھنے کے لیے آپ کو دوربین کی ضرورت ہوگی، لہٰذا اگر آپ نے پہلے یہ نظارہ نہیں دیکھا ہے تو ابھی سے منصوبہ بندی شروع کریں۔

آپ اور آپ کے پیاروں کی روزمرہ زندگی کو متاثر کرسکنے والے واقعات کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر وی نیوز کا ’آفیشل گروپ‘ یا ’آفیشل چینل‘ جوائن کریں

آسمان شام صف بندی غیر معمولی ماہرین فلکیات نظارہ نظام شمسی.

ذریعہ: WE News

کلیدی لفظ: غیر معمولی ایک ہی وقت میں نظام شمسی کے غیر معمولی سیاروں کے سیارے ایک سیاروں کی ہے جو آپ میں ایک ہوں گے

پڑھیں:

پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور

اسلام آباد:

ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر شائستہ خان کا کہنا ہے کہ تعلیم پر سرکاری سرمایہ کاری کی کمی کے باعث لاکھوں بچے، خصوصاً لڑکیاں، اپنے تعلیم کے حق سے محروم ہیں، جبکہ موسمی رکاوٹیں اور ماحولیاتی تبدیلیاں اس مسئلے کو مزید سنگین بنا رہی ہیں۔

چیئرپرسن، نیشنل ووکیشنل اینڈ ٹیکنیکل ٹریننگ کمیشن گلمینہ بلال کا کہنا ہے کہ تعلیمی نظام مالی وسائل کی کمی کا شکار ہے، فنی و پیشہ ورانہ تعلیم کا شعبہ آگاہی کی کمی اور روایتی معاشرتی رویوں سے متاثر ہے، جو صنفی امتیاز اور تکنیکی شعبوں میں صنفی فرق کم کرنے میں حائل ہیں۔

ماہرین نے مطالبہ کیا ہے کہ پاکستان کے تعلیمی نظام میں حقیقی تبدیلی کے لیے سیاسی عزم اور مساوی مالی معاونت ضروری ہے، اگر صنفی مساوات اور سماجی شمولیت کو ترجیح نہ دی گئی تو پاکستان ایک اور نسل کو محرومی اور عدم مساوات کے اندھیروں میں کھو دے گا۔

گزشتہ روز سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن (ایس اے کیو ای) کے پاکستان کولیشن فار ایجوکیشن (پی سی ای) کے سالانہ کنونشن سے خطاب کے دوران سوسائٹی فار ایکسس ٹو کوالٹی ایجوکیشن کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر زہرہ ارشد نے کہا کہ تعلیم میں حقیقی تبدیلی تب ہی ممکن ہے جب مالی معاونت میں اضافہ کیا جائے اور صنفی مساوات و سماجی شمولیت کو پالیسی اور عمل کے ہر درجے میں شامل کیا جائے۔

انہوں نے کہا کہ تعلیم کا بجٹ بڑھانے کے ساتھ ساتھ منصفانہ استعمال کو یقینی بنائے بغیر جامع تعلیم کے وعدے محض کاغذی رہ جائیں گے۔ تعلیمی فنڈنگ میں حکومتوں کا احتساب صرف اعداد و شمار تک محدود نہیں ہونا چاہیے، بلکہ احتساب اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہونا چاہیے کہ بجٹ کا ہر روپیہ ہر لڑکی کی تعلیم کے حق کی تکمیل میں خرچ ہو۔

پاکستان انسٹیٹیوٹ فار ایجوکیشن کے ڈائریکٹر جنرل ڈاکٹر شاہد سرویا نے کہا کہ پاکستان کو اپنی تعلیم کی ایمرجنسی سے نکلنے کے لیے کم از کم جی ڈی پی کا 6 فیصد تعلیم پر خرچ کرنا ہوگا کیونکہ موجودہ وسائل ہر سال اسکول جانے والی عمر کے بچوں میں 1.7 فیصد اضافے کو پورا کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

پنجاب کے وزیر تعلیم کے مشیر ڈاکٹر شکیل احمد نے وضاحت کی کہ اسکولوں کی آؤٹ سورسنگ سے نہ صرف اسکول سے باہر بچوں بلکہ کم فیس والے نجی اسکولوں کے طلبہ کا اندراج بھی بڑھا ہے، تاہم مالی مشکلات اور سیاسی تبدیلیوں کے باعث اس پالیسی کی پائیداری ایک چیلنج بن سکتی ہے۔

بلوچستان کے محکمہ تعلیم کے اسپیشل سیکریٹری عبدالسلام اچکزئی نے اعلان کیا کہ صوبے میں 12 ہزار اساتذہ کی خالی آسامیوں پر بھرتیاں مکمل کی گئی ہیں تاکہ لڑکیوں کی تعلیم تک رسائی بڑھائی جا سکے، جبکہ لڑکیوں کے لیے ٹرانسپورٹ پروگرامز بھی شروع کیے جا رہے ہیں تاکہ اسکول واپسی اور حاضری کو یقینی بنایا جا سکے۔

خیبر پختونخوا محکمہ تعلیم کے مشیر محمد اعجاز خلیل نے بتایا کہ ترقیاتی تعلیمی بجٹ کا 70 فیصد حصہ لڑکیوں کی تعلیم کے فروغ کے لیے مختص کیا جا رہا ہے، جس میں 10 ہزار کلاس رومز اور 350 واش رومز کی تعمیر شامل ہے۔ انہوں نے مزید بتایا کہ کارکردگی میں کمزور اسکولوں کو آؤٹ سورس کیا جا رہا ہے اور 1,000 مقامی گاڑیاں لڑکیوں کے لیے محفوظ ٹرانسپورٹ فراہم کریں گی۔

اسپیشل ٹیلنٹ ایکسچینج پروگرام کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عاطف شیخ نے کہا کہ 90 فیصد معذور بچے اسکول سے باہر ہیں، جن میں 50 فیصد لڑکیاں شامل ہیں۔ اُنہوں نے نشاندہی کی کہ معذور بچوں کے لیے مخصوص بجٹ لائنز اور اساتذہ کی شمولیتی تربیت کی عدم موجودگی لاکھوں بچوں کو نظام سے باہر رکھتی ہے۔

جینڈر اور گورننس ماہر فوزیہ یزدانی نے کہا کہ صنفی مساوات اور شمولیت کو فروغ دینے کا آغاز ابتدائی عمر سے ہونا چاہیے، جہاں آئینی حقوق مقامی زبانوں میں پڑھائے جائیں اور والدین، اساتذہ، اور کمیونٹی اس عمل کو مضبوط کریں۔

اُنہوں نے کہا کہ پاکستان میں 18 فیصد لڑکیوں کی 18 سال کی عمر سے پہلے شادی کر دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں وہ تعلیم سے محروم رہ جاتی ہیں، جبکہ ملک میں جنوبی ایشیا کی بلند ترین ماں اور بچے کی اموات اور 40 فیصد بچوں کی ذہنی و جسمانی نشوونما میں رکاوٹ جیسے مسائل موجود ہیں۔

خواجہ سرا سوسائٹی کی ڈائریکٹر مہنور چوہدری نے کہا کہ ٹرانس جینڈر طلبہ کی شمولیت کے لیے جامع نصاب، اساتذہ کی حساسیت، ٹراما سے آگاہی، کونسلنگ اور زندگی کی مہارتوں پر مبنی تعلیم ضروری ہے۔

متعلقہ مضامین

  • گاڑی کے شیشوں پر منٹوں میں حیران کن فن پارے، پیٹرول پمپ پر کام کرنے والا نوجوان آرٹسٹ سوشل میڈیا پر وائرل
  • اکشے کو سیٹ پر 100 انڈے کیوں مارے گئے؟ کوریوگرافر کا حیران کن انکشاف
  • نیا موبائل لیتے وقت لوگ 5 بڑی غلطیاں کر جاتے ہیں، ماہرین نے بتادیا
  • اوپیک ممالک کا تیل کی پیداوار میں اضافے پر اتفاق  
  • امریکا، 4 لاکھ 55 ہزار خواتین رواں سال ملازمتیں چھوڑ گئیں
  • پاکستان میں تعلیم کا بحران؛ ماہرین کا صنفی مساوات، سماجی شمولیت اور مالی معاونت بڑھانے پر زور
  • ماہرین نے فضائی آلودگی اور اسموگ میں کمی کا حل بتا دیا
  • ٹماٹر کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگیں 
  • نومبر 2025: سعودی عرب میں ثقافت، سیاحت، معیشت اور کھیلوں کی سرگرمیوں کا غیر معمولی مہینہ
  • حیران کن پیش رفت،امریکا نے بھارت سے10سالہ دفاعی معاہدہ کرلیا