مثالی معاشرے سے ہی مثالی انسان کا ظہور ممکن ہے
اشاعت کی تاریخ: 11th, January 2025 GMT
اقتباس، ’’ ایک آدمی ختم نہیں ہوتا جب وہ ہار جاتا ہے، وہ ختم ہو جاتا ہے جب وہ چھوڑ دیتا ہے‘‘ اسٹوک فلسفی ایپیکٹیٹس سے منسوب، لچک اور استقامت کی نوعیت کی ایک طاقتور یاد دہانی کا کام کرتا ہے۔ شکست زندگی کا ایک ناگزیر حصہ ہے، چاہے ذاتی جدوجہد، پیشہ ورانہ کوششوں یا وسیع تر چیلنجوں میں۔
تاہم، اس حکمت کے مطابق، شکست بذات خود کسی کے سفر کے خاتمے کی علامت نہیں ہے۔ یہ تبھی ہوتا ہے جب کوئی فرد مشکل کے سامنے ہتھیار ڈال دیتا ہے اور لڑنا، سیکھنا یا کوشش کرنا چھوڑ دیتا ہے کہ وہ واقعی ناکام ہوتا ہے۔ Epictetus، جو اندرونی آزادی اور خود مختاری پر اپنی تعلیمات کے لیے جانا جاتا ہے، نے مصیبت کے لیے کسی کے ردعمل کی اہمیت پر زور دیا۔
ان کے خیال میں ناکامیوں سمیت بیرونی واقعات ہمارے قابو سے باہر ہیں۔ تاہم، ہم جس چیز پر قابو پا سکتے ہیں، وہ ہمارا رویہ اور ہماری مرضی ہے کہ ناکامیوں سے قطع نظر آگے بڑھتے رہیں۔ چھوڑنا، پھر، نہ صرف ہاتھ میں جنگ بلکہ ذاتی ترقی اورکامیابی کی گہری صلاحیت کو ترک کرنے کا عمل بن جاتا ہے۔
یہ خیال انسانی تجربے میں گہرائیوں سے گونجتا ہے، جہاں استقامت اکثر کامیابی کی طرف لے جاتی ہے، ضروری نہیں کہ شکست سے بچا گیا ہو، بلکہ اس لیے کہ افراد نے اپنے نقصانات سے سیکھنے اور بڑھنے کا انتخاب کیا۔ چھوڑنا ان مواقع کے دروازے بند کر دیتا ہے، جب کہ استقامت کسی کو حتمی فتح کے لیے کھلا رکھتی ہے۔
اس طرح، اقتباس ہمیں شکست کو حتمی انجام کے طور پر نہیں بلکہ حتمی فتح کے عمل میں ایک قدم کے طور پر دوبارہ بیان کرنے کی ترغیب دیتا ہے۔ سولہویں اور سترہویں صدی میں یورپ کے ہر ملک میں فلسفیوں اور سائنس دانوں پر الحاد اور بغاوت کے الزام لگا کر انھیں زندہ جلا دیا جاتا تھا اورکبھی انھیں جیل کے تنگ و تاریک کمروں میں سسک سسک کر مرنے کے لیے چھوڑ دیا جاتا لیکن علم و حکمت کی ان قندیلوں کو جہالت کے دامن سے بجھانے کی کو شش ناکام رہی، برونو کوروم میں زندہ جلا دیاگیا لیکن اس کے خیال کو جلانے کے لیے ساری دنیا کا ایندھن ناکافی تھا، اگر علم و دانش کے یہ علم بردار کلیسا کی تلواروں سے ڈر جاتے تو آج انسان کس حالت میں ہوتا۔ یورپ کا احتساب عالموں کو زندہ جلانے میں کامیاب ہوگیا لیکن احتساب انسانی غور و فکرکو زنجیروں میں نہ جکڑ سکا۔
یورپ کے اس عہد کی اگر تعزیری تاریخ پر غورکیا جائے تو وہ بھیانک اور لرزہ خیز سزاؤں کا ایک مسلسل عہد دکھائی دے گا۔ اس عہد میں انسانی ذہن کو قید کرنے کی کوشش میں انسانی جسم کو زندہ جلایا گیا۔ جسم جل گیا لیکن ذہن زندہ رہا جرم و سزا کے اس دور کے بعد خیالات باقی رہے کیونکہ خیال نہیں مٹایا جاسکتا۔ خیالات کو قید نہیں کیا جاسکتا، خیال آزاد ہے، طاقتوروں کے حملوں کی روک تھام کی جاسکتی ہے لیکن خیالات کے حملوں کو نوک سنگین سے نہیں رو کا جاسکتا۔
وحشت اور بربریت سے تہذیب و تمدن تک کا یہ سارا سفر راتوں رات طے نہیں ہوا، انسان کو یہ سفر طے کر نے میں صدیاں لگیں قربانیوں اور جدوجہد کی بہت طویل داستان ہے۔ اس سارے سفر نے ایک بات ثابت کردی کہ انسان عظیم ہے اور عوام سپریم ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں خدا کے بعد کرشمے عوام نے ہی کر کے دکھائے ہیں۔ یہ عوام ہی ہیں جنھوں نے آمروں ، بادشاہوں کے تاج و تخت اچھال کر پھینک دیے، بڑے بڑے ظالم ، جابر بادشاہ اور آمر ان ہی عوام کے ڈر و خوف کی وجہ سے ملک چھوڑکر فرار ہوگئے۔ دنیا بھرکے عوام نے خوشحالی اور ترقی کی منزلیں، جمہوریت اور ووٹ کی طاقت کے ذریعے طے کی ہیں۔ پاکستان کا قیام ایک عوامی جدوجہد کا نتیجہ ہے نہ کہ عسکری جدوجہد کا اور یہ جمہوریت ہی ہے جس کا وعدہ ان کے آباؤ اجداد سے کیا گیا تھا۔
ان سے کہا گیا تھا کہ وہ ایک جمہوری ملک میں رہیں گے، جمہوری ملک وہ ہوتا ہے جہاں عوام سپریم ہوتے ہیں جہاں ہر شہری بلا کسی جبر اپنے ووٹ کا آزادانہ استعمال کرسکے جہاں آزادانہ اور منصفانہ انتخابات ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں پارلیمنٹ کا قیام عمل میں آتا ہے جو بااختیار ہوتی ہے، پارلیمنٹ کو لامحدود اختیارات حاصل ہوتے ہیں وہ عدلیہ کے اختیارات میں کمی سمیت ہر طرح کی قانون سازی کی مجاز ہے۔ پارلیمنٹ کی منظورکردہ ترمیم کسی عدالت میں چیلنج نہیں کی جاسکتی۔ پارلیمنٹ آئین میں جو چاہے ترمیم کرسکتی ہے۔
قائد اعظم نے نئی دہلی میں رائٹرکے نمایندے ڈون کیمپل کو انٹرویو دیتے ہوئے 1946 میں کہا تھا۔ ’’ نئی ریاست ایک جدید جمہوری ریاست ہوگی جہاں حاکمیت اعلیٰ عوام کے پاس ہوگی‘‘ 11 اگست 1947 کو پاکستان بننے سے 3 دن قبل پاکستان کی آئین ساز اسمبلی کے صدرکی حیثیت سے کیے گئے اپنے تاریخی خطاب میں انھوں نے انسانوں پر مشتمل آئین ساز اسمبلی کو بار بار پاکستان کا مقتدر اعلیٰ کہہ کر مخاطب کیا۔
روسوکہتا ہے ’’میں کیسا آدمی ہوں، اس کا فیصلہ کوئی شخص یا چند اشخاص نہیں کرسکتے ۔ بلکہ یہ فیصلہ کرنے کا حق فقط عوام ہی کو حاصل ہے اور میں اس کا فیصلہ کرنے کا حق عوام ہی پر چھوڑتا ہوں‘‘ تو جناب ملک کے اہم فیصلے کسی شخص یا چند اشخاص پرکیسے چھوڑ ے جاسکتے ہیں شخص یا چند اشخاص غلط ہوسکتے ہیں لیکن عوام کبھی غلط فیصلے نہیں کرتے۔ ملک عوام کے لیے ہوتے ہیں نہ کہ عوام ملک کے لیے عوام سے زیادہ سمجھ دار اور عقل مند کوئی بھی نہیں ہوسکتا۔
ریاست ایک منفرد کلیت ہوتی ہے آپ اس میں جانبدار ی تلاش نہیں کرسکتے،کیونکہ اس میں آئین سب سے افضل ہوتا ہے اور یہ نہ صرف ذہنی قوتوں کی نمایندگی کرتا ہے بلکہ اس میں تمام اخلاقی اور علمی ہمہ گیریت کی صورت پذیری بھی ہوتی ہے۔ آئین میں سب سے اہم بات تو عوام کی سیاسی صورتحال کی نمود ہے۔ ہیگل کہتا ہے۔ ’’ ہر آئین اپنے دورکا غماز ہوتا ہے اور وہ سیاسی اصولوں کی کلیت ہوتا ہے ہم پرانی تاریخ کے کسی عظیم آئین سے جدید آئین کے بارے میں کچھ نہیں سیکھ سکتے۔‘‘
وہ کہتا ہے ’’ اب ریاست اور عوام کا تعلق کیا ہے ریاست ، اس کے قوانین، اس کی انتظامیہ شہریوں کے حقوق اس کی طبعی خصوصیات اس کے پہاڑ، آ ب و ہوا، ملک، شہریوں کی جائیداد، تاریخ ، ریاست، اسلاف کے کارنامے، ان کی یاد، ان سب کا تعلق عوام سے ہے اور ان کی زندگی میں رواں دواں ہے، یہ سب ان کا ہے جیسے وہ خود اس کے ہیں کیونکہ ان کی ہستی (Being) ہے۔ یہ سب مل کر روح عصر بنتی ہے اور ہر شہری اس کا نمایندہ ہے اور اس سے اس نے جنم لیا ہے اور وہ اسی میں بستا ہے ۔‘‘
آخری اور قطعی آزادی جسے انسان سے چھینا نہیں جاسکتا ’’ نہ ‘‘ کہنے کی آزادی ہے اور یہ ہی سارتر کے نظریہ قدرت و اختیارکا سنگ بنیاد ہے سارتر کہتا ہے کہ انسان کی آزادی یہ ہے کہ وہ ’’نہ ‘‘ کہے۔ ہر انسان اپنی اخلاقی قدریں خود تخلیق کرتا ہے اس لیے وہ اپنے اعمال میں مطلق العنان ہے اور جس راہ عمل کو چاہے بلا رو ک ٹوک انتخاب کرسکتا ہے۔ جے جی فریزر کردار پر بحث کرتے ہوئے لکھتا ہے ’’ کسی قوم یا فرد میں استحکام کی سب سے بڑی علامت یہ ہے کہ وہ حال کو مستقبل پر قربان کردے یہ خصوصیت جس فرد میں جتنی زیادہ ہوگی اتنا ہی اس کا کردار مستحکم ہوگا جب ایک انسان اپنی زندگی کی آسائشیں بلکہ خود زندگی کو قربان کردیتا ہے تاکہ مستقبل بعید میں آنے والی نسلوں کو آزادی اور صداقت کی برکات میسر آسکیں۔
یہ ہی انسان کی عظمت ہے۔ سقراط، برونو، وکلف،شیخ الاشراق سہروردی نے اپنی جانیں کسی ذاتی فائدے کے حصول کے لیے قربان نہیں کی تھیں بلکہ اپنے عقائد و اصول کی پاسبانی کرتے ہوئے موت کو خندہ پیشانی سے دعوت دی تھی۔ سقراط کے دوستوں نے کہا ’’ہم محا فظوں کو رشوت دے کر آپ کو بھگانے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘‘
سقراط نے بھاگنے سے انکارکر دیا اورکہا ’’ میں ایتھنز والوں کو بتانا چاہتا ہوں کہ انسان اپنے اصولوں کو اپنی جان سے زیادہ عزیز رکھ سکتاہے۔ سقراط ، برونو، وکلف نے ’’ نہ ‘‘ کہا اور اپنی جان دے دی اور صرف ’’ نہ‘‘ کہنے کی وجہ سے یہ سب صدیوں بعد آج بھی زند ہ ہیں ، لیکن ان کے قاتلوں کے نام سے آج کوئی بھی واقف نہیں ہے۔ عوام طاقت کا اصل سر چشمہ ہوتے ہیں طاقت اور فیصلے کرنے کا محور شخصیات نہیں بلکہ عوام ہوتے ہیں۔ پاکستان کے عوام اپنا معاشرہ بدلنے کی مسلسل کوششیں کر رہے ہیں، کیونکہ وہ عقل اور شعورکے مالک ہیں مثالی معاشرہ قائم کرنے میں شاید کئی سال اور لگ جائیں لیکن عوام کو اپنی کامیابی پر یقین ہے کیونکہ ان پر حقیقت آشکار ہوگئی ہے کہ صرف مثالی معاشرہ قائم کرنے سے ہی مثالی انسان کا ظہور ممکن ہے۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: ہوتا ہے کرنے کا ہے اور
پڑھیں:
خیبرپختونخوا کی ترقی کیسے ممکن ہے؟
وزیراعظم محمد شہباز شریف نے جمعہ کو چترال میں اسپاغ لشٹ کے قریب دانش اسکول کا سنگ بنیاد رکھ دیا ہے، انھوں نے سنگ بنیاد رکھنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ چترال خیبرپختونخوا کا خوبصورت علاقہ ہے، وزیراعظم نے کہا کہ دانش اسکولز میں ایچی سن کے معیار کی تعلیم فراہم کی جارہی ہے اور غریب ، یتیم اور عام آدمی کے بچے بھی یہاں مفت تعلیمی سہولیات حاصل کرسکتے ہیں۔
یہ کسی پر احسان نہیں، ریاست کا فریضہ ہے۔ انھوں نے گیس پلانٹ منصوبے کو بھی پایہ تکمیل تک پہنچانے کا اعلان کیا اور اپر چترال کے لیے بجلی کی یکسان ٹیرف مقرر کرنے کے حوالے سے وفاقی وزیر توانائی اویس لغاری کو اگلے ہفتے چترال بھیجنے کا اعلان کیا۔
اپر چترال میں جدید اسپتال کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ وزیر اعظم نے کہا کہ انھوں نے گزشتہ روز طلبہ کے لیے میرٹ پر ایک لاکھ لیپ ٹاپ فراہم کرنے کی اسکیم کا اجرا کیا ہے، یہ لیپ ٹاپ چترال کے ہونہار طلبا کو بھی ملیں گے۔
چترال میں تعلیمی اداروں کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ اس حوالے سے دانش اسکول کا قیام اہم پیش رفت ہے۔ چترال ایک انتہائی خوبصورت اور وسیع وعریض ضلع ہے۔ یہاں غربت اور ناخواندگی کی شرح بھی خاصی بلند ہے۔
خصوصاً اس علاقے میں دیہی آبادی جن کا کی روزی کا دارومدار گلہ بانی ہے، ان کی ترقی اور خوش حالی کے لیے بھی اہم اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس علاقے میں گلہ بانوں کے لیے چراگاہوں کا ایشو ہمیشہ سے موجود رہا ہے۔
گلہ بانوں کے لیے سہولیات فراہم کر کے اس علاقے میں روزگار اور خوش حالی کا آغاز کیا جا سکتا ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی حکومت کو بھی اس حوالے سے رہنما کردار ادا کرنا چاہیے۔
خیبرپختونخوا سے تعلق رکھنے والی سیاسی قیادت، کاروباری طبقے اور افسرشاہی کو پسماندہ اضلاع کی پسماندہ آبادی کی ترقی کے لیے زیادہ سے زیادہ فنڈز مختص کرنے چاہئیں۔ چترال میں ٹورازم کو بھی خاصی ترقی دی جا سکتی ہے۔
اس علاقے میں رہنے والی اقوام اور برادریاں زبان اور ثقافت کے اعتبار سے کشمیر اور گلگت بلتستان کے قریب ہیں۔ خیبرپختونخوا کی اسمبلی میں پچھلے دنوں گوجری زبان کو چھٹی سرکاری زبان کے طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے جو کہ ایک اچھا اور اہم اقدام ہے۔
اس حوالے سے چترال میں بھی گوجری زبان بولنے والوں کی آبادی کی ترقی کے لیے کام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
وزیر اعظم میاں محمد شہباز شریف نے اس تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ انھوں نے خیبرپختونخوا کے وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو وزیراعلیٰ منتخب ہونے پر فون کرکے مبارکباد دی ہے اور انھیں پیشکش کی ہے کہ مل کر ترقی، خوشحالی، بدامنی و دہشت گردی کے خاتمے کے لیے کام کریں، وفاق ان سے مکمل تعاون کرے گا۔
وفاق اور صوبوں کے درمیان اچھا ورکنگ ریلیشن پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ خیبرپختونخوا کی صوبائی کابینہ بھی تشکیل پا گئی ہے، صوبے کی حکومت اور وزیراعلیٰ کو صوبہ خیبرپختونخوا کی تعمیر وترقی کے لیے وفاق اور دیگر صوبوں کے ساتھ مل کر تعمیر وترقی کے عمل میں شریک ہونا چاہیے۔
خیبرپختونخوا پاکستان کی ترقی کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل صوبہ ہے۔ اس صوبے میں سیاحت کی صنعت کا بہت زیادہ اسکوپ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہاں قیمتی معدنیات جن میں نایاب اور انتہائی قیمتی جیمزا سٹونز بھی شامل ہیں، زمرد (ایمرالڈ)، تورملین، ایکوامرین، زرد اور نیلا یاقوت (روبی)، اور ڈائمنڈ جیسے قدرتی جیمز اسٹونز وافر مقدار میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ سنگ مرمر، بلیک گرے نائٹ، سفید گرے نائٹ اور دیگر قیمتی ماربل کے وسیع ذخائر صوبہ خیبرپختونخوا میں موجود ہیں۔ انتہائی قیمتی لکڑی بھی اس صوبے میں وافر تعداد میں موجود ہے۔ قدرتی مناظر اور معدنیات سے مالامال یہ خطہ اپنی مثال آپ ہے۔
اگر اس خطے کی ترقی پر یکسوئی اور منصوبہ بندی کے ساتھ کام کیا جائے تو آنے والے چند برسوں میں یہ صوبہ پاکستان کا سوئٹزرلینڈ بن سکتا ہے لیکن اس کے لیے شرط یہ ہے کہ اس صوبے میں دہشت گردی کا خاتمہ ہو، انتہاپسندی پر قابو پایا جائے، جرائم کی روک تھام ہو اور ایسے علاقوں میں قانون کا نفاذ یقینی ہو جہاں جرائم پیشہ گروہ اور دہشت گرد گروہ بغیر کسی رکاوٹ کے موجود ہیں۔
اس مقصد کے حصول کے لیے خیبرپختونخوا کی حکومت مسلسل کوششیں کر رہی ہے لیکن اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کے لیے وفاقی حکومت اور وفاقی اداروں کا تعاون بھی اشد ضروری ہے۔ صرف چترال کو ہی مدنظر رکھ لیں تو اس ایک ضلعے کو ہی اگر ٹورازم کے لیے محفوظ بنا دیا جائے تو اربوں روپے کا زرمبادلہ اکٹھا کیا جاسکتا ہے۔
وزیراعظم شہباز شریف نے واضح کیا ہے کہ چترال بونی شندور 153کلومیٹر روڈ پر کام جاری ہے، چترال ایون 46کلومیٹر روڈ آیندہ سال مئی تک مکمل کر لی جائے گی، لواری ٹنل کی شمالی رسائی کے 7کلومیٹر حصے کا کام بھی مکمل ہو چکا ہے۔
وزیر اعظم نے اپر چترال کے لیے وفاق کی طرف سے یونیورسٹی کے قیام کا بھی اعلان کیا۔ خیبرپختونخوا کے دیگر اضلاع میں بھی یونیورسٹیاں اور کالجز قائم ہونے چاہئیں۔ اس کے علاوہ اس خطے میں بولی جانے والی تمام زبانوں کے تحفظ اور ترقی کے لیے خصوصی اقدامات کی ضرورت ہے کیونکہ خیبرپختونخوا پاکستان کا واحد خطہ ہے جہاں بہت زیادہ زبانیں بولی جاتی ہیں اور یہاں نسلی اور ثقافتی ڈائیورسٹی بھی بہت زیادہ ہے۔
خیبرپختونخوا کی سرحد چونکہ افغانستان کے ساتھ ملتی ہے، اس لیے یہ صوبہ کئی قسم کے مسائل کا شکار ہے۔ سب سے بڑا مسئلہ افغانستان سے پروموٹ ہونے والی دہشت گردی کو روکنا اور اس کا خاتمہ کرنا ہے کیونکہ جب تک دہشت گردی کا خاتمہ ممکن نہیں ہوتا خیبرپختونخوا میں کاروباری سرگرمیاں بڑھ نہیں سکتیں۔
خیبرپختونخوا میں مڈل کلاس کے پھیلاؤ کے لیے کاروباری سرگرمیوں کا بڑھنا انتہائی ضروری ہے۔ دہشت گردی اور قبائلی کلچر مڈل کلاس کے پھیلاؤ میں بڑی رکاوٹ کے طور پر موجود ہے۔ وفاق اور صوبائی حکومت کو اس حوالے سے ایک مربوط پالیسی تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔
افغانستان کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات ہو رہے ہیں۔ استنبول میں جاری مذاکرات کی کامیابی خیبرپختونخوا میں ترقی کے لیے بہت ضروری ہے۔ ترجمان دفترخارجہ نے ہفتہ وار بریفنگ میں کہا کہ پاکستان افغانستان کے ساتھ مزید کشیدگی نہیں چاہتا تاہم مستقبل میں کسی بھی جارحیت کا بھرپور جواب دیا جائے گا۔
ترجمان دفتر خارجہ طاہر اندرابی نے ہفتہ وار بریفنگ میں بتایا کہ پاکستان اور افغان طالبان کے درمیان مذاکرات کا استنبول میں اختتام پذیر ہوا پاکستان نے افغان طالبان حکومت سے دہشت گردوں کے خلاف ٹھوس اور قابل تصدیق اقدامات کا مطالبہ کیا ہے۔
پاکستان نے 4 برس سے افغان حکام کو افغانستان میں دہشت گرد گروہوں کی موجودگی پر قابل اعتماد معلومات فراہم کیں تاہم بار بار کی یقین دھانی کے باوجود افغانستان سے پاکستان میں دہشت گردی میں اضافہ ہوا۔
مذاکرات میں ترکیہ اور قطر کی ثالثی کو سراہتے ہیں۔ پاکستان اور افغانستان کے درمیان انتہائی نازک مذاکرات تھے۔ ترکیہ کا مشترکہ اعلامیہ مذاکرات کا ایک کورنگ نوٹ تھا۔ یہ ایک کتاب کے سرروق کی طرح تھا نہ کہ مکمل کتاب کی طرح ۔
افغان فریق کی جانب سے جنگ بندی کے تسلسل کی یقین دھانی کرائی گئی ہے۔ پاکستان نے کہا ہے کہ مذاکرات کے تسلسل کو گہرائی سے دیکھ رہے ہیں۔ تحریری ضمانتوں کا طلب کیا جانا مذاکرات کا حصہ تھا۔
ابھی مذاکرات جاری ہیں اور آیندہ نشست 6 نومبر کو ہو گی جس کی تکمیل پر بیان جاری کریں گے۔ آیندہ مذاکرات میں انٹرلوکیٹرز حکومتی سطح کے افراد اور سیاسی نمایندگی ہو گی۔
مذاکرات میں افغان طالبان حکومت نے کالعدم دہشت گرد تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) اور دیگر دہشت گرد تنظیموں کی موجودگی کو تسلیم کیا اور ان تنظیموں کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے مختلف جواز پیش کیے۔ سیکیورٹی صورت حال کا تقاضہ ہے ابھی سرحد کو بند رکھا جائے۔
افغانستان کی طالبان حکومت کو بھی امورِ مملکت اور رموزِ مملکت جیسی اصطلاحات پر گہرا غور وفکر کرنا چاہیے۔ طالبان اگر حکومت میں آ گئے ہیں تو انھیں اپنے آپ کو فاتح یا مطلق العنان حاکم اور بادشاہ نہیں سمجھنا چاہیے۔ افغانستان میں کئی کروڑ عوام آباد ہیں۔
یہاں مختلف نسلی، لسانی اور ثقافتی گروہ یا قومیتیں اپنے اپنے علاقوں میں صدیوں سے آباد چلی آ رہی ہیں۔ خانہ بندوش قبائل بھی افغانستان کی آبادی کا حصہ ہیں۔ افغانستان کا اقتدار کسی بھی افغان گروپ کے پاس ہو، اس کا پہلا فرض منصبی افغانستان کے عوام کی تعمیر وترقی ہونا چاہیے۔
اس کے علاوہ اسے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ اپنے ہر کام اور فعل کے لیے عوام کے سامنے جوابدہ ہے۔ ایسا نہیں ہو سکتا کہ آج اگر طالبان اگر حکومت میں ہیں تو وہ جو چاہیں کریں، اور وہ یہ سمجھیں کہ وہ اپنے کسی فعل کے لیے کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہیں تو یہ ایک غلط طرزعمل اور طرز حکمرانی ہے بلکہ آمریت سے بھی بڑھ کر ہے۔