قطر میں بھارتی جاسوس ڈاکٹرعافیہ سے زیاد ہ خوش نصیب؟
اشاعت کی تاریخ: 12th, January 2025 GMT
گزرے چھے ماہ کے دوران بھارت کے وزیر ِ خارجہ ایس جے شنکر قطر کے تین دورے کر چکے ہیں اور اب بھی وہ امریکاسے براہ راست قطر گئے ہیں جہاںوہ امیر ِقطر اور دیگر علیٰ حکام سے بھی ملاقات کر رہے۔ ان کے دورے کے مقاصد کیا ہو سکتے اس بارے میں یہ معلوم ہوا ہے حسب روایت اپنے بھارتی نیوی کے (ریٹائرڈ) پورنیندو تیواری کی رہائی کے سلسلے از سر نو سفارتی کوششوں میں مصروف ہیں اور یہ بات یقینی ہے کہ ہے پورنیندو تیواری کو ہر صورت روان سال کے ختم ہو نے قبل رہا کرا لیں گے۔ یہ کہانی کچھ اس طرح ہے کہ میں 8 بھارتی سابق نیول افیسر اسرائیل کے لیے جاسوسی کا جرم کرتے ہوئے گرفتار ہوئے تھے۔ ان افسران میں بھارتی نیوی کے (ریٹائرڈ) پورنیندو تیواری، کیپٹن (ریٹائرڈ) نوتیج سنگھ گل، کمانڈر (ریٹائرڈ) بیرندر کمار ورما، کیپٹن (ریٹائرڈ) سوربھ وششت، کمانڈر (ریٹائرڈ) سوگناکر پکالا، کمانڈر (ریٹائرڈ) امیت ناگپال، کمانڈر (ریٹائرڈ) امیت ناگپال اور سیلر راگیش قطر میں داہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی نام کی ایک نجی کمپنی میں کام کرتے تھے۔ ان 8 افراد پر پہلے الزام پھر میں ثبوت کے بعد قطری حکومت ان بھارتیوں کے بارے میں یہ بتایا تھا کہ قطر میں داہرا گلوبل ٹیکنالوجیز اینڈ کنسلٹنسی نام کی ایک نجی کمپنی میں یہ کام کرتے ہوئے اسرائیل کے لیے جاسوسی کر رہے تھے اور آبدوز کی تیاری کی ساری معلومات بھارت کی مدد سے اسرائیل کو فراہم کی جارہی تھی۔ شروع شروع میں بھارت اس سلسلے میں مکمل طور سے خاموش تھا۔ دسمبر 2022ء میں بھارت نے انکار کردیا تھا کہ بھارتی اسرائیل کے لیے جاسوسی کر رہے تھے۔ لیکن قطر کی حکومت نے بھارتی انکار کے باجود مکمل ثبوت کے بعد 8 بھارتی نیول افسران اور دیگر افراد کو سزائے موت دینے کا اعلان کر دیا تھا، 30 اگست 2022ء کو قطری حکام نے ان آٹھ انڈین شہریوں کو حراست میں لیا اور اس وقت سے وہ قید تنہائی میں ہیں۔ اگست 2023ء تک ایس جے شنکر بھارت سے اعلیٰ سطح پر رابطہ کرتے ہوئے سفارت کاری شروع کر دی تھے۔ اس سفارت کاری کے نتیجے میں مختلف عالمی فورم پر مودی اور امیر قطر کی ملاقات ہوئی اور آٹھ میں سے 7 بھارتیوں کو سزائے موت کے عدالتی فیصلے کے باوجود رہا کرکے بھارت بھیج دیا گیا تھا لیکن ایک سزائے موت پانے والے ریٹائرڈکمانڈر پورنیندو تیواری کو قطر نے رہا نہیں کیا تھا۔
ایس جے شنکر اب ریٹائرڈ پورنیندو تیواری کی رہائی کے لیے کوشش میں مصروف ہیں۔ اس کیس کے آغاز پر دوحا سے اس معاملے پر نہ تو قطر کی حکومت کی طرف سے کوئی بیان آیا ہے اور نہ ہی انہوں نے قطری میڈیا میں اس حوالے سے کوئی خبر جاری کی تھی۔ بھارت کی جانب سے قطر کی وزارت اطلاعات، وزارت داخلہ اور وزارت خارجہ کو بھیجی گئی ای میلز کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا۔ جس کے بعد بھارت نے ساری دنیا میں یہ پروپیگنڈا شروع کر دیا کہ قطر انسانی حقوق کی حالت پر مسلسل سوالات اٹھ رہے ہیں اور وہاں کا میڈیا حکومت پر تنقید کرنے سے گریز کرتا ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق امیر ِ قطر پر تنقید کرنا شروع کر دیا۔ قطری کے قانون کے مطابق پرچم کی توہین اور مذہب اسلام پر تنقید قطر میں چند بڑے جرائم میں شمار ہوتے ہیں۔ ان تمام حربوں سے بھارت کو فائدہ ہوا اور قطر نے جاسوسی میں ملوث 7 بھارتیوں کی سزائے موت ختم کر کے رہا کر دیا۔ اس سلسلے میں مودی نے امیر ِ قطر بھی ملاقات کی اور ان کو 2025ء میں بھارت آنے کی بھی دعوت دے ڈالی اور اب اسی سال وہ بھارت کا دورہ کر یں گے لیکن بھارت سے موصول ذرائع بتا رہے ہیں کہ امیر قطر کی بھارتی دورے کی اولین شرط یہ ریٹائرڈ پورنیندو تیواری کی رہائی کو یقینی بنائیں۔
یہ ٹھیک ہے کہ قطر میں 70 ہزار سے زیادہ انڈین کام کرتے ہیں۔ انڈین وزارت خارجہ کے مطابق انڈیا میں مائع قدرتی گیس کی کل سپلائی کا نصف سے زیادہ حصہ قطر سے آتا ہے۔ سال 2020-21 میں قطر کے ساتھ انڈیا کی باہمی تجارت 9.
واضح رہے کہ نیویارک میں اپنی انگریزی کتاب کے منظر عام پر آنے کے محض دو دن بعد ہی جنرل پرویز مشرف نے تسلیم کیا تھا کہ ان سے ’غلطی‘ ہو گئی ہے اور اس کی روشنی میں کتاب میں ترمیم کی جائے گی۔ ستائیس ستمبر کو ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا ’یہ میری غلطی ہے۔ یہ (رقم) حکومت پاکستان کے پاس نہیں آتی‘۔ مجھے یہ نہیں لکھنا چاہیے تھا اور میں یقینا آئندہ شائع ہونے والی کاپیوں میں ترمیم کروں گا۔ لیکن سوال یہی ہے کہ اس غلطی کے بعد بھی وہ اس بات کا جواب دینے سے قاصر ہیں کہ ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کرنے کے عوض کتنی رقم حاصل کی گئی تھی۔ اگر پاکستان نے خود ہی ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کیا ہے تو وہ کس منہ سے ان کی رہائی کے لیے امریکا سے بات چیت یا سفارت کاری کرے گا؟ اور شاید اسی لیے جب پاکستان سے سینیٹر مشتاق اور ڈاکٹر عافیہ کی بہن ڈاکٹر فوزیہ ان سے ملاقات کے لیے امریکا گئے تو پاکستان کے سفیر اس ملاقات میں ان کے ساتھ نہیں جاسکے۔ 23 ستمبر، 2010ء میں نیویارک امریکی عدالت نے عافیہ صدیقی کو 86 سال قید کی سزا سنائی۔ جون 2013ء میں امریکی فوجی زنداں فورٹ ورتھ میں عافیہ پر حملہ کیا گیا جس سے وہ دو دن بے ہوش رہیں۔ بالآخر وکیل کی مداخلت پر اسے طبی امداد دی گئی۔ اب کوئی خود ہی بتائے کہ پاکستان کی حکومت 2010ء سے خاموش ہے تو اب کیا ہوسکتا ہے۔
ذریعہ: Jasarat News
کلیدی لفظ: کی رہائی کے سفارت کاری کرتے ہوئے میں بھارت سزائے موت انہوں نے کیا تھا قطر کی میں یہ تھا کہ کے لیے کر دیا کے بعد
پڑھیں:
اسرائیلی جاسوس، خیانت سے تختہ دار تک
اسلام ٹائمز: قانونی طریقہ کار کے مطابق اور بابک شہبازی کے وکیل کی موجودگی میں کیس کی سماعت ہوئی اور عدالت نے بابک شہبازی کو فساد فی الارض کے جرم میں سزائے موت سنائی۔ بابک شہبازی کے وکیل کی اپیل پر اس کا کیس سپریم کورٹ کو بھیجا گیا، جس نے اپیل مسترد کرتے ہوئے عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے کی توثیق اور حتمی شکل دے دی۔ سپریم کورٹ کی توثیق کے بعد جاری ہونے والے فیصلے پر 16 ستمبر 2025 کو عمل درآمد کر دیا گیا۔ خصوصی رپورٹ:
اسلامی جمہوریہ ایران میں بابک شہبازی نامی اسرائیلی جاسوس عدالتی فیصلے کے مطابو پھانسی دے دی گئی۔ ایران میں صیہونی جاسوسی ادارے موساد کے لئے کام کرنیوالےایجنٹ کواسرائیل کے لئے جاسوسی، دشمن کیساتھ تعاون، فساد فی الارض اورحساس معلومات کے تبادلےکا الزام تھا، جو قرائن اور شواہد کی بنیاد پر ثابت ہو گیا۔ بابک شہبازی ولد رحم خدا کا پیشہ ٹیلی کمیونیکیشن، ملٹری، سیکیورٹی اداروں اور مراکز سے منسلک کمپنیوں میں صنعتی کولنگ ڈیوائسز ڈیزائن اور انسٹال کرنے سے متعلق تھا۔پر اسرار جاسوس اورپھانسی پانے والےمجرم کاچار سال قبل اسماعیل فکری سے ایک ورچوئل گروپ میں بات چیت کے دوران تعلق بنا۔
اسماعیل فکری کو جون 2025 کو انٹیلی جنس تعاون اور زمین پر جنگ اور بدعنوانی کی سزا کے تحت صیہونی حکومت کے حق میں جاسوسی کے الزام میں پھانسی دے دی گئی۔ صنعتی کولنگ ڈیوائسز کو ڈیزائن کرنے اور انسٹال کرنے جیسے بابک شہبازی کے کام کے شعبے، خاص طور پر حساس مقامات اور کمپیوٹر نیٹ ورکس میں اسماعیل فکری کی مہارت کو دیکھتے ہوئے، اسماعیل فکری نے شہبازی سے نوکری مانگی اور اس نے اسماعیل فکری کو کئی پروجیکٹس پر اپنے ساتھ لایا۔ اپنی ملازمت (صنعتی گھریلو کولنگ ڈیوائسز کو ڈیزائن اور انسٹال کرنے) کی وجہ سے، شہبازی نے ٹیلی کمیونیکیشن، ملٹری، اور سیکیورٹی کے شعبوں میں ملک کے اہم اور بنیادی ڈھانچے کے مراکز کا معائنہ کیا۔
اس دوران وہ دشمن کو ڈیٹا سینٹرز کی خصوصیات اور جزیئات سے آگاہ کرتا رہا۔ اس لیے اس نے موساد کو پیسے اور بیرون ملک رہائش کے بدلے معلومات فروخت کرنے کا فیصلہ کیا۔ تاہم، اپنی شناخت کے ظاہر ہونے کے خوف سے، اس نے اسماعیل فکری کو پیسے کے عوض کمپیوٹر کی زیادہ مہارت اور سائنسی معلومات اور انگریزی میں روانی کے بہانے ایک ساتھی کے طور پر پروجیکٹ میں شامل کیا۔ اس نے اسماعیل فکری سے سائبر اسپیس میں اسرائیلی ورچوئل پیجز وزٹ کرنے اور اسرائیل کو اپنے اور اپنے خاندان کے لیے سیکیورٹی، امریکہ میں مستقل رہائش، اور 120 ملین ڈالر نقد یا ڈیجیٹل کرنسی کے عوض اعلیٰ ایرانی سرکاری حکام اور ان کی نقل و حرکت کے بارے میں معلومات فروخت کرنے کی پیشکش کی۔
جنوری 2022 میں موساد کے افسر نے بابک شہبازی اور اسماعیل فکری سےاسکائپ کے ذریعے ملاقات کی، اور انہیں ایک گھنٹے تک ڈیبریف کیا گیا۔ موساد کے افسر نے اس میٹنگ میں بابک شہبازی کو یقین دلایا کہ وہ تمام افراد جو موساد کے ساتھ تعاون کرتے ہیں انہیں اسرائیلی ایجنسی مکمل تحفظ فراہم کرتی ہے اور موساد انہیں اور ان کے اہل خانہ کوبھی خطرے کی صورت میں کچھ ہونے سے پہلے ہی محفوظ ترین چینل کے ذریعے ملک سے نکال دے گی۔ موساد کے افسر کے ساتھ اسکائپ پر ہونے والی دوسری گفتگو میں بابک شہبازی نے بتایا کہ اس کے پاس کچھ حساس مقامات تک رسائی کے کارڈز ہیں، ان کی گاڑی کی تلاشی نہیں لی جاتی، اور وہ کسی بھی ہ مرکز میں نصب کر سکتا ہے اور بعد موساد اسے دھماکے سے اڑا سکتی ہے۔
اس کے بعد، بابک شہبازی نے آزادانہ طور پر موساد کے چار افسران شموئل (کوڈ نیم سامی)، بنجمن، مائیکل، اور تربیت کے لیے ایک تکنیکی افسر کے ساتھ محفوظ رابطہ قائم کیا۔ موساد کے صیہونی ایجنٹوں کے ساتھ اپنی ہفتہ وار بات چیت میں، بابک شہبازی نے ایرانی حساس پراجیکٹس کے درست پتے، پراجیکٹ کی سرگرمی کی نوعیت، ہر پراجیکٹ میں فعال اہلکاروں کی تعداد، ہر کمپلیکس میں داخلے ہونے اور وہاں سے باہر نکلنے کا راستہ اور محفوظ انداز، ادارے کے سربراہ اور اہم افراد کی خصوصیات، تکنیکی مسائل اور پراجیکٹس کی خوبیاں اور کمزوریاں موساد کے افسران کو بھیجیں۔ موساد کے ساتھ تعاون کے دوران، اس سے ایک پیکیج وصول کرنے کے لیے کہا گیا جو موساد نے کسی خفیہ مقام پر چھپا رکھا تھا، اس میں ایک بڑی رقم اور اوزار موجود تھے۔
موساد کے ساتھ اپنے رابطے کے دوران، بابک شہبازی نے مواصلات کو خفیہ رکھنے کے بارے میں ہدایات، گرفتاری سے بچنے، خطرے کی صورت میں دستاویزات کو تباہ کرنے، خطرے کی صورت میں ملک سے باہر جانے، خطرے کا اشارہ، مخصوص حالات میں ظاہر ہونے کے لیے کور اسٹوری، حفاظتی پیکج کی فراہمی، حفاظتی پیکج کی فراہمی کا طریقے سمیت مکمل جاسوسی کی تریننگ لے رکھی تھی۔ اس نے 2023 میں موساد کے ایک افسر شموئل کی طرف سے ملنے والی ہدایات کی روشنی میں ایک ٹیبلیٹ ڈیوائس تیار کی اور حفاظتی نکات کی تعمیل کرنے کے لیے ٹیبلٹ کو ایک ایکٹو کرنے کے لئے وینڈر کے سم کارڈ کا استعمال کیا۔ موساد کے ایک اور افسر مائیکل نے بابک شہبازی کو مرحلہ وار سکھایا کہ ٹیبلٹ کا استعمال کرتے ہوئے محفوظ ارتباط کیسے قائم کرنا ہے۔
2024 کے اواخر میں اسماعیل فکری کی گرفتاری کا علم ہونے کے بعد، موساد کے حکم پر، بابک شہبازی نے ٹیبلٹ کو پٹھر مار کر توڑا اور اسے شاہرائے چلوس پر دریائے کرج میں پھینک دیا۔ اپنی گرفتاری کے بعد، بابک شہبازی نے بتایا کہ موساد سے اس کے رابطے کی بنیادی وجہ لالچ یعنی رقم کا حصول اور بیرون ملک منتقل ہونا تھا، اور یہ کہ اس نے موساد کے ساتھ تعاون کے بدلے کرپٹو کرنسی میں رقوم حاصل کی تھیں۔ بابک شہبازی کے خلاف مقدمہ اسلامی جمہوریہ ایران کے خلاف ایک دشمن بیرونی ریاست کے ساتھ تعاون کرنے، صیہونی حکومت کے فائدے کے لیے انٹیلی جنس، جاسوسی اور سیکورٹی معاملات میں تعاون کرنے اور صیہونی حکومت کی تصدیق، تقویت اور استحکام اور اس سے منسلک افراد کے ساتھ معلومات کے تبادلے کے الزام میں گرفتاری کے بعد عدالت میں چلایا گیا۔
اس کے بعد قانونی طریقہ کار کے مطابق اور بابک شہبازی کے وکیل کی موجودگی میں کیس کی سماعت ہوئی اور عدالت نے بابک شہبازی کو فساد فی الارض کے جرم میں سزائے موت سنائی۔ بابک شہبازی کے وکیل کی اپیل پر اس کا کیس سپریم کورٹ کو بھیجا گیا، جس نے اپیل مسترد کرتے ہوئے عدالت کی جانب سے جاری کیے گئے فیصلے کی توثیق اور حتمی شکل دے دی۔ سپریم کورٹ کی توثیق کے بعد جاری ہونے والے فیصلے پر 16 ستمبر 2025 کو عمل درآمد کر دیا گیا۔