ٹیکسوں پر دہری حکومتی پالیسی
اشاعت کی تاریخ: 13th, January 2025 GMT
وزیر اعظم شہباز شریف نے کہا ہے کہ زیادہ ٹیکس پاکستان کو چلنے نہیں دیں گے، ٹیکس نظام کاروبار میں بھی رکاوٹ ہے۔ بجلی کی قیمتیں کم کریں گے اور عوام کو صحت و تعلیم کی سہولیات کی فراہمی ہماری ترجیح ہے۔
ان خیالات کا اظہار انھوں نے کراچی میں پاکستان اسٹاک ایکسچینج کے دورے میں تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ یہ تقریب 2024 میں دنیا میں دوسری بہترین کارکردگی کی حامل پاکستان اسٹاک ایکسچینج کو اعزاز ملنے پر منعقد ہوئی۔ ملک کی موجودہ صورتحال میں واقعی اعزاز کی بات ہے کہ حکومت کی ٹیکسوں کی سخت پالیسیوں کے باوجود اسٹاک ایکسچینج نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا جس پر وزیر اعظم نے مبارک باد بھی پیش کی اور اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی کو سراہتے ہوئے مبارکباد پیش کی اور اپنے خطاب میں تسلیم بھی کیا کہ زیادہ ٹیکس پاکستان کو چلنے نہیں دیں گے مگر ہمیں آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے وعدے بھی پورے کرنے ہیں ملک بھی چلانا ہے۔
انھوں نے تسلیم کیا کہ ایک دہائی میں سرکاری اداروں کی وجہ سے ملک کو کھربوں روپے کا جو نقصان ہوا ہے، اس پر رونے کا فائدہ نہیں اور حکومتی کوششوں سے معیشت دوبارہ اپنے پیروں پرکھڑی ہو رہی ہے اور ملک میں مہنگائی میں کمی واقع ہوئی ہے۔ مہنگائی میں کمی کی بات کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں اور نہ جانے کس نے حکومت کو یہ باورکرا دیا ہے کہ ملک میں مہنگائی میں کمی ہوئی ہے۔ پی پی کے چیئرمین اور حکومتی پالیسیوں سے ناراض حکومتی اتحادی بلاول بھٹو بھی ان بیانات کو نہیں مان رہے اور پوچھ رہے ہیں کہ مہنگائی کہاں کم ہوئی ہے۔
لگتا ہے کہ حکومت کے نزدیک مہنگائی کا صرف ججوں اور اسمبلیوں کے ارکان کو سامنا ہے غریبوں کو نہیں اسی لیے ملک کے غریبوں کے بجائے ججز اور ارکان اسمبلی کو بڑا ریلیف دیا گیا ہے اور ان کی تنخواہیں اور مراعات لاکھوں روپے فی کس بڑھائی گئی ہیں اور غریبوں کو کوئی ریلیف دیا گیا نہ مہنگائی عملی طور پر کم کی گئی بلکہ مہنگائی بڑھانے کے لیے پٹرولیم مصنوعات اور بجلی و گیس کی قیمتیں کم کرنے کے بجائے مسلسل بڑھائی جا رہی ہیں جس سے مہنگائی بڑھ رہی ہے اور کم نہیں ہو رہی مگر حکومت کو مہنگائی میں کمی نظر آ رہی ہے جس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
وزیر اعظم تسلیم بھی کر رہے ہیں کہ بجلی و گیس کی قیمتیں کم نہیں زیادہ ہیں جنھیں حکومت کم کرنے کی کوشش کرے گی مگر عملی طور ایسا ہو نہیں رہا۔ سردیوں میں بجلی کی کھپت قدرتی طور پر کم ہوتی ہے تو حکومت ترغیب دے رہی ہے کہ سردیوں میں گیزر اور ہیٹر گیس کے بجائے بجلی پر چلائیں کیونکہ حکومت نے بجلی کی طلب بڑھانے کے لیے سردیوں میں بجلی کی قیمتیں کچھ کم کی ہیں جو پھر بھی 26 روپے فی یونٹ ہیں جو پہلے ہی زیادہ ہیں اور لوگ مجبوری ہی میں حکومتی بات مان رہے ہیں کیونکہ سردیوں میں گیس نہیں تو بجلی استعمال کر کے ہی وہ اپنی ضرورت پوری کر رہے ہیں۔
میڈیا رپورٹ کے مطابق حکومت آئی ایم ایف کو بجلی کے بلوں میں سیلز ٹیکس میں کمی پر رضامند کرنے میں ناکام رہی ہے اور اس نے موجودہ کریڈٹ پیکیج میں متعلقہ ٹیکس شرح میں کوئی تبدیلی نہ کرنے کی ہدایت کی ہے اور آیندہ کی پیکیج قسط کی ادائیگی بھی کیپٹیو پاور پلانٹ شعبے میں لیوی لگانے سے مشروط کردی ہے اور بجلی پر سیلز ٹیکس میں کمی کی حکومتی تجویز مسترد کردی ہے۔
حیرت ہے کہ حکومت اپنے حکومتی اخراجات کے لیے آئی ایم ایف سے اس کی اپنی سخت شرائط پر قرضوں پر قرضے لیے جا رہی ہے اور آئی ایم ایف کی ہر شرط پر عمل کی پابند ہے تو آئی ایم ایف حکومت کی تجویزکیوں مانے گا کہ وہ حکومت کو بجلی میں سیلز ٹیکس کم کرنے کی اجازت دے دے گا۔
حکومت عوام کو آسرے میں رکھ کر آئی ایم ایف سے کمی کی اجازت مانگتی ہے اور حکومتی درخواست مسترد ہونے پر کہہ دیا جاتا ہے کہ آئی ایم ایف نہیں مان رہا حکومت کمی نہ کرنے پر مجبور ہے اور ملک میں معاشی ترقی کے لیے سب کے ساتھ مل بیٹھنے کو تیار اور موثر حکومتی پالیسیوں سے اقتصادی استحکام آیا تو وقت آنے پر آئی ایم ایف کو خیرباد کہیں گے۔
یہ بات ویسی ہے کہ نہ نو من تیل ہوگا نہ رادھا ناچے گی۔ حکومت اپنے اخراجات کم کرنے کے بجائے مسلسل بڑھا رہی ہے اور وفاقی وزیر خزانہ دکھاؤے کا بیان دے دیتے ہیں کہ حکومتی اخراجات کم کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اس سلسلے میں حکومت وزارت خزانہ کی نہیں سنتی اور ججز اور ارکان اسمبلی کو من مانی مراعات دے کر اپنے اخراجات بڑھا دیتی ہے اور اب کابینہ میں توسیع کی باتیں ہو رہی ہیں جس پر سابق چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا ہے کہ حکومت کا رائٹ سائزنگ کا اقدام قابل مذمت اورکابینہ میں توسیع بلاجواز ہے۔
موجودہ حکومت مسلسل دہری پالیسیوں پر چل رہی ہے اور ٹیکسوں میں صرف دکھاؤے کے لیے کمی کی باتیں کی جاتی ہیں اور ٹیکس مزید بڑھا دیا جاتا ہے۔ بجلی جوگھریلو استعمال میں آتی ہے اس پر حکومت نے سیلز ٹیکس و مزید ٹیکس لگا کر بجلی بے حد مہنگی خود کر رکھی ہے اور کمی نہ کرنے کا جواز آئی ایم ایف کا انکار بن جاتا ہے۔ وزارت خزانہ کا زور ٹیکسوں کی وصولی سے زیادہ نئے ٹیکس دینے والوں پر ہے جس سے ٹیکس وصولی بڑھی ہے تو ایف بی آر میں کرپشن بھی بڑھی ہے اور حکومت نے مفادات کے لیے تنخواہیں اور مراعات بڑھا کر زائد آمدنی ٹھکانے لگا دی اور عوام کو کچھ دیا نہ مہنگائی کم کی۔
پنجاب اور سندھ حکومتوں نے بھی آمدنی بڑھانے کے لیے ٹیکس بڑھا دیے جس سے پراپرٹی کا کام بری طرح متاثر ہوا جس سے عوام پلاٹ خریدنے کے بھی قابل نہیں رہے اورکروڑوں کرائے کے گھروں میں رہنے والے افراد کے لیے ہر سال کرائے بڑھ جاتے ہیں مگر بے گھروں کی کسی کو فکر نہیں صرف ڈرامے ہوتے ہیں جیسے پی ٹی آئی حکومت نے ایک کروڑ گھر بنا کر دینے کا اعلان کیا تھا ہوا کچھ نہیں۔ ٹیکسوں پر حکومت دہری پالیسی پر چل رہی ہے صرف دکھاؤے کے لیے بیانات دیے جاتے ہیں اور مختلف بہانوں سے ٹیکس بڑھا دیے جاتے ہیں جس کا رونا تاجر اور صنعتکار بھی رو رہے ہیں۔
.ذریعہ: Express News
کلیدی لفظ: مہنگائی میں کمی اسٹاک ایکسچینج آئی ایم ایف ہے کہ حکومت سردیوں میں رہی ہے اور کی قیمتیں سیلز ٹیکس کے بجائے حکومت نے رہے ہیں کرنے کی ہیں اور بجلی کی کی بات کمی کی کے لیے
پڑھیں:
کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے: سپریم کورٹ
اسلام آباد (خصوصی رپورٹر) سپریم کورٹ کے جج جسٹس جمال خان مندوخیل نے سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے۔سپریم کورٹ کے آئینی بینچ میں سپر ٹیکس سے متعلق درخواستوں پر سماعت ہوئی، جسٹس امین الدین خان کی سربراہی میں پانچ رکنی آئینی بینچ نے سماعت کی۔وکیل ایف بی آر حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ سیکشن 14 میں کوئی تبدیلی نہیں ہوئی، صرف اس کا مقصد تبدیل ہوا ہے، 63 اے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ سمیت کئی کیسز ہیں جہاں سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کی قانون سازی کی اہلیت کو تسلیم کیا ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ کیا قومی اسمبلی مالی سال سے ہٹ کر ٹیکس سے متعلق بل پاس کر سکتی ہے، کیا آئین میں پارلیمنٹ کو یہ مخصوص پاور دی گئی ہے۔حافظ احسان کھوکھر نے دلیل دی کہ عدالت کے سامنے جو کیس ہے اس میں قانون سازی کی اہلیت کا کوئی سوال نہیں ہے، جسٹس منصور علی شاہ کا ایک فیصلہ اس بارے میں موجود ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے کہا کہ وہ صورتحال علیحدہ تھی، یہ صورت حال علیحدہ ہے۔حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ ٹیکس پیرز نے ٹیکس ریٹرنز فائل نہیں کیے اور فائدے کا سوال کر رہے ہیں، یہ ایک اکیلے ٹیکس پیرز کا مسئلہ نہیں ہے، یہ آئینی معاملہ ہے، ٹیکس لگانے کے مقصد کے حوالے سے تو یہ عدالت کا دائرہ اختیار نہیں ہے، عدالتی فیصلے کا جائزہ لینا عدالت کا کام ہے۔انہوں نے اپنے دلائل میں کہا کہ اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ قانونی طور پر پائیدار نہیں ہے، اسلام آباد ہائیکورٹ کا فیصلہ ایک متضاد فیصلہ ہے۔جسٹس جمال خان مندوخیل نے ریمارکس دیے کہ ہر ادارہ آئین کا پابند ہے، پارلیمنٹ ہو یا سپریم کورٹ ہر ادارہ آئین کے تحت پابند ہوتا ہے، حافظ احسان نے مؤقف اپنایا کہ اگر سپریم کورٹ کا کوئی فیصلہ موجود ہے تو ہائیکورٹ اس پر عملدرآمد کرنے کی پابند ہے۔اس کے ساتھ ہی ایف بی آر کے وکلا حافظ احسان، شاہنواز میمن اور اشتر اوصاف کے دلائل مکمل ہوگئے، درخواست گزار کے وکیل راشد انور کل دلائل کا آغاز کریں گے۔سماعت کے اختتام پر ایڈیشنل اٹارنی جزل اور کمپینز کے وکیل مخدوم علی خان روسٹرم پر آگئے، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دلائل نہیں دیں گے، تحریری معروضات جمع کروائیں گے۔مخدوم علی خان نے کہا کہ جب تک تحریری معروضات جمع نہیں ہوں گی، میں دلائل کیسے دوں گا، ایڈیشنل اٹارنی جزل نے کہا کہ اٹارنی جزل دو دن تک تحریری معروضات جمع کروا دیں گے۔کیس کی مزید سماعت آج تک ملتوی کردی گئی۔